بنگلہ دیش سے در اندازی بنگال کی سیاست کا اہم موضوع بنا - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2014-10-20

بنگلہ دیش سے در اندازی بنگال کی سیاست کا اہم موضوع بنا

کولکاتا
یو این آئی
بردوان دھماکہ اور مغربی بنگال کے مختلف اضلاع سے بنگلہ دیشی شہریوں کی گرفتاری کے بعد بنگلہ دیشی دراندازی کا ایشو مغربی بنگال میں ایک سیاسی موضوع بحث بن گیا ہے۔ سیاسی پارٹیاں اپنے ووٹ بینک کی سیاست کے پیش نظر اس سلسلہ میں اپنے موقف کو رکھ رہی ہیں۔ ممتا بنرجی ایک طرف واضح لفظوں میں کہتی ہیں کہ دہشت گرد وں کاکوئی مذہب نہیں ہوتا ہے ۔ ممتا بنرجی کے بقول مذہبی انتہا پسند قوتیں ریاست کو مذہب کی بنیا دپر تقسیم کرنے کی کوشش کررہی ہیں ۔ جب کہ بی جے پی مسلسل الزام لگا رہی ہے کہ حکمراں پارٹی ترنمول کانگریس ریاست میں در اندازی کی حوصلہ افزائی کررہی ہے۔ مذہب کی بنیاد پر سیاست کرنے کی سخٹ مخالف کہے جانے والی سی پی ایم نے ایک بار پھر نمسودرا کمیونیٹی(ہندو طبقہ) بالخصوص متواسماج جس نے بنگلہ دیش سے ہجرت کرنے کی آخری مدت25مارچ1971ء کے بعد بنگلہ دیش سے ہجرت کی تھی کے لئے رفیو جی کا درجہ دینے کا مطالبہ شروع کردیا ہے ۔ کانگریس در اندازی کے مسئلہ کو ہندو اور مسلمان کے خانے میں تقسیم کیے بغیر مرکز سے مطالبہ کررہی ہے کہ وہ رفیوجی سے متعلق اپنا موقف واضح کرے ۔ ریاستی کانگریس کے صدر ادھیر رنجن چودھری نے ایک دن قبل ہی پارٹی ہیڈ کوارٹر میں نامہ نگاروں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ بنگلہ دیش سے در اندازی کا مسئلہ حساس ترین ہے۔ اس کی وجہ سے ریاست کے سماجی و معاشی صورت حال متاثر ہورہی ہے ۔ پوری دنیا میں لوگ اپنی ریاست یا پھر ملک سے معاشی بدحالی کی وجہ سے معاشی اعتبار سے مضبوط ملک کی طرف ہجرت کرتے ہیں ۔
ادھیر رنجن نے بی جے پی سے سوال پوچھا کہ وہ مرکز میں اقتدار سنبھالنے کے بعد کتنے در اندازوں کو نکال باہر کیا ۔ مغربی بنگال اسمبلی میں بی جے پی کے واحد ممبر اسمبلی شیامک بھٹا چاریہ جنہوں نے حال ہی میں ضمنی انتخاب میں کامیابی حاصل کی ہے نے کانگریس کی دلیل کو خارج کرتے ہوئے کہا کہ ہم لوگ یہ دلیل کافی عرصے سے سنتے آرہے ہیں۔ بھٹا چاریہ نے کہا خطرہ گھر کے قریب آگیا ہے ۔ مختلف ممالک سے ہجرت کرنے کے دوسرے اسباب ہیں اور مغربی بنگال کے8سرحدی اضلاع میں بنگلہ دیشی در اندازی کے دوسرے اسباب ہیں ۔ بنگلہ دیش سے در اندازی اب کنٹرول سے باہر ہوچکی ہے ۔ اس لئے ضرورت ہے کہ ہندوستان سنجیدگی سے در اندازی کا مسئلہ حل کرے ۔ مگر بی جے پی اس کا اعادہ کرتی ہے کہ نریندر مودی حکومت1971کے بعد بنگلہ دیشی در اندازی کے مسئلہ کے حل میں مذہب کی بنیاد پر تفریق نہیں کرے گی۔
سٹیزن شپ ایکٹ2003جسے بی جے پی حکومت نے پارلیمنٹ میں پیش کیا تھا میں کہا گیا تھا کہ جس کے والدین ہندوستانی ہوں اسے ریاست ہندوستانی شہریت دے سکتی ہے ۔ اس کے تحت مدت ختم ہونے کے بعد ہندوستان آنے والے ہندوؤں کو بھی شہریت نہیں ملے گی ۔ سی پی ایم لیڈر گوتم دیپ بنگلہ دیش اور اکنڈی سے آنے والے تمام متوا سماج کو ہندوستانی شہریت دینے کی وکالت کرنے والوں میں شامل ہیں۔ انہوں نے کٹ آف کی مدت میں نرمی کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ1971میں اندرا گاندھی اور شیخ مجیب الرحمن کے درمیان اس بنیاد پر کٹ آف طے کیا گیاتھا کہ دونوں ملکوں میں مذہب کی بنیاد پر تفریق نہیں کی جائے گی ۔ مگر مجیب الرحمان کے قتل کے بعد سورت حال بدل گئی ۔ بنگلہ دیش میں اقلیتوں کو مشکلات کا سامنا ہے انہیں ہجرت پر مجبور کیاجارہا ہے اس لئے حکومت ہند انہیں پناہ دینا چاہئے ۔ مگر بنگلہ دیش سے ہجرت کرکے آنے والے مسلم بنگلہ دیشی کے مسئلہ پروہ خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں ۔ دیپ نے سی پی ایم پارٹی کے کانگریس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ کانگریس میں مطالبہ کیا گیا تھا کہ مرکزی حکومت شیڈول کا سٹ بالخصوص متوا سماج سے تعلق رکھنے والے رفیوجی کے مسائل پر غور کریں ۔ یہ ملک کے مختلف حصوں میں آباد ہیں ۔
سی پی ایم لیڈر گوتم دیپ نے کہا کہ ہم دسمبر میں شمالی 24پرگنہ ضلع مجسٹریٹ کے سامنے رفیوجی کے مسائل کے حل کے لئے ریلی کا انعقاد کریں گے۔ جب کہ بی جے پی سی پی ایم لیڈر کے اس مہم کو ووٹ کی سیاست سے تعبیر کرتے ہیں ۔ ان کا ماننا ہے کہ چوں کہ بن گاؤں پارلیمانی حلقے میں ضمنی انتخاب ہونے ہیں اس لئے متوا سماج کا اعتماد جیتنے کے لئے سی پی ایم یہ کوشش کررہی ہے ۔ سی پی ایم سے بغاوت کرکے نئی پارٹی بھارتیہ نیائے بیچار پارٹی بنانے والے سینئر لیڈر عبدالرزاق ملاسی پی ایم کے اس مہم کو ہتھ کنڈے مانتے ہوئے کہتے ہیں کہ سی پی ایم صرف انتخابی فائدہ کے حصول کے لئے متوا سماج کی بات کررہی ہے ۔ جب کہ اپنے دور اقتدار میں اس پر کبھی غور نہیں کیا۔2010میں متوا سماج کی طرف سے منعقد ریلی جس میں ترنمول کانگریس کے جنرل سکریٹری مکل رائے ، جیوتری پر یہ ملک ، سی پی ایم کے گوتم دیپ اور کانتی بسواس اور بی جے پی کے تتھا گت رائے نے شرکت کی تھی ۔ میں مطالبہ کیا گیا تھا کہ سٹیزن شپ میں تبدیلی لائی جائے ۔

--

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں