پانی چاہے جتنا گرم ہو ۔۔۔ مگر ۔۔۔ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2014-04-20

پانی چاہے جتنا گرم ہو ۔۔۔ مگر ۔۔۔

عام انتخابات جاری ہیں۔ ہمارے یہاں ممبئی میں آئندہ جمعرات 24/اپریل کو پولنگ ہوگی۔ اس وقت عوام و خواص میں گفتگو کا کوئی موضوع ہے تو بس یہی الیکشن ہے اور اس کے نتیجے کے بارے میں کہیں یقین تو کہیں گمان۔
جمعرات کے اخبارات کی سرخی دِلچسپ تھی کہ " مودی کیلئے اردو میں ویب سائٹ تیار ہو گئی۔"
ہمیں ہنسی بھی آئی اور افسوس بھی ہوا کہ گجرات اور بالخصوص احمد آباد جیسے شہر میں جہاں خاصی تعداد میں اردو بولنے والے رہتے ہیں وہاں اردو مشاعروں کی ایک اچھی خاصی روایت ہے۔ مگر یہ کون نہیں جانتا کہ اس شہر سے اردو کا کوئی ایک معمولی سا اخبار بھی شائع نہیں ہوتا۔ ایسا بھی نہیں ہے کہ گجرات کے لوگ اردو سے دور ہوں۔ یہ کس کو نہیں معلوم کہ اردو کے مشہور جدید نقاد وارث علوی اسی شہر میں جنمے تھے اور اسی کی سرزمین میں وہ آسودۂ خاک ہیں اور اردو ہی کے مشہور جدید شاعر محمد علوی اور عادل منصوری بھی اسی گجرات سے اٹھے اور دنیا بھر میں نیک نام ہوئے۔
اسی طرح مظہر الحق علوی کو اردو کا کوئی سنجیدہ شخص کیا بھول سکتا ہے؟ جنہوں نے دنیا کی کیسی کیسی معر کة الآرا کتابوں کے تراجم سے اردو کو مالامال کیا۔ اس کے علاوہ بھی گجرات کے دیگر مقامات پر ایسے کئی افراد گزرے ہیں جنہوں نے اردو کی خدمت کر کے اپنا تشخص بنایا۔ یہ باتیں گزشتہ جمعرات کے اخبار میں نریندر مودی کے بارے میں اردو ویب سائٹ کے اجرا پر ہمیں یاد آئیں۔
فلمی دنیا کے مشہور ِزمانہ قلمکار(سلیم جاوید والے) سلیم خان نے یہ ویب سائٹ بنائی ہے اور وہ اس پر نریندرمودی کی مدح سرائی کر رہے ہیں۔ اس سورما بھوپالی نے جتلایا ہے کہ مودی سے ان کے ذاتی تعلقات ہیں اور یہ ویب سائیٹ اسی تعلق کے اظہار کی ایک کڑی ہے۔
جیسا کہ ہم نے اوپرلکھا ہے کہ الیکشن کے سلسلے میں کچھ لوگوں کو عجب عجب طرح کے گمان ہیں اور بعض افراد کو یقین ہے کہ ' ملک میں مودی لہر چل رہی ہے اور بس الیکشن کے نتائج کے آنے کی دیر ہے اور مودی ملک کے وزیر اعظم بن جائیں گے۔'
احمد آباد میں ایک سے ایک ویب ڈیزائنر اور ویب میکر ہیں مگر یہ ویب سائیٹ وہاں کسی نے نہیں بنائی۔ یہ توفیق ممبئی میں حضرت سلیم خان کے نصیب میں لکھی ہوئی تھی۔ واہ واہ

ایک بہت مشہور لطیفہ ہے کہ ایک بار ملک کے اوّلین وزیر اعظم پنڈت نہرو آگرے کے پاگل خانے کے معائنے کےلئے پہنچے تو وہاں سب سے پہلے جو شخص اُن سے ٹکرایا، اس نے پاگل خانے میں ایک نئے شخص (نہرو) کو دیکھا تو اس نے پوچھا : تم کون ہو؟۔۔۔ جواباً پنڈت نہرو نے کہا، تم مجھے نہیں جانتے ،میں اس ملک کا وزیر اعظم ہوں۔۔۔۔
وہ مسکراتے ہوئے فوراً بولا: واہ واہ ، جب میں یہاں آیا تھاتو میں بھی یہی کہتا تھا، کچھ دن یہاں رہو،ٹھیک ہوجاؤ گے۔

اصل میں یہ دنیا بھی ایک طرح کا پاگل خانہ ہی ہے اور عجب عجب طرح کے باؤلے یہاں پائے جاتے ہیں۔ یہاں کچھ لوگ دیوانے بنکر دوسروں کو 'بناتے' ہیں۔ دراصل خوش فہمی بھی ایک طرح کی دیوانگی ہی ہوتی ہے۔ سلیم خان نے اُردو میں نریندر مودی کی ویب سائیٹ بناکر اپنے تعلق کا اظہار نہیں کیا بلکہ اپنی خوش فہمی کا اعلان کیا ہے کہ اگر اُن کی خوش فہمی سچ ثابت ہوگئی وہ بھی ا پنے سابق پارٹنر جاوید کی طرح کم از کم راجیہ سبھا کی رکنیت کے ، یا پھر اور کسی سرکاری اعزاز کے حق دار قرار پائیں گے۔ ظاہر ہے کہ دنیا کے بازار میں کچھ دو اور کچھ لو کاچلن عام ہے۔ سلیم خان کے ساتھ احمدآباد کے ایک مشہور خانوادے کے رکن ظفر سریش والا بھی ہیں بلکہ عجب نہیں کہ مودی کے اصل ایجنٹ یہی ہوں۔
انہی دنوں لکھنؤ کی وہ خبر بھی ہمارے لئے دلچسپ تھی کہ لکھنؤ میں بی جے پی کے امیدوار راج ناتھ سنگھ شیعہ علما سے ملنے گئے۔ ظاہر ہے کہ ان دنوں اس طرح کے لوگوں کا کسی سے ملنا یوں ہی نہیں ہوتا۔ یہ ملاقاتیں بھی' اِس ہاتھ دو اور اُس ہاتھ لو' کی طرح ہونگی۔ اس دور کے علما کی جیسے عقل ہی ماری گئی ہے۔ علما کو تو چاہیے یہ تھا کہ ان سیاسی شعبدے بازوں کو وہ اپنی دہلیز بھی پار نہ کرنے دیتے۔ یہاں ہمیں حضرت نظام الدین اولیاؒ یاد آئے اپنے ایک تاریخی واقعے کے ساتھ۔
بادشاہ وقت نے ان کے آستانے پر حاضری کی اجازت طلب کی تو 'حضرت جی' نے بادشاہِ وقت کو خانقاہِ نظامیہ میں حاضری سے منع کر دِیا اور یہ بھی کہلا بھیجا کہ
" اگر حاضری کی کوشش کی گئی تو فقیر کے تکیے کے دو دَر ہیں ایک سے شاہ داخل ہوگا تو دوسرے سے فقیر نظام الدین نکل چکا ہوگا۔"

ہمارے نام نہاد علما ۔۔۔ بلکہ ان کے لئے علما لکھنا بھی اس لفظ کی حرمت کو مجروح کرنے کے مصداق ہے۔ لہٰذا یہ با ریش عبا وقبا والے بھی اس وقت الیکشن کے اسٹیج پرسلیم خان ہی کا کردارکھیل رہے ہیں۔ مودی کے ہاتھوں سے گجراتی مسلمانوں کے خون کی بو ابھی گئی نہیں ہے اور ان کی پارٹی بی جے پی کے نام کے ساتھ بابری مسجد کی شہادت بھی تاریخ کے اوراق ہی میں نہیں بلکہ ہر مسلمان کے دل و دماغ میں نشانِ زخم کی طرح باقی ہے اور باقی رہے گا۔
مگر یہ بغیر ریش کے سلیم خان اور باریش قرم قوم جیسوں کے دل و دماغ کس مادّے سے بنے ہیں۔ ان کے دماغ بظاہرعلم سے خالی بھی نہیں۔ مگر وہی کہ عالم تو ابلیس کو بھی تھا بلکہ وہ تو معلم الملکوت کے درجے پر فائز تھا مگر ایک ہی نافرمانی نے اسے راندۂ بارگاہ ربّی کیا اور اس نے انتقاماً ہر عالم وجاہل کو گمراہ کیا اور کر رہا ہے۔
لکھنؤ کے علما سے ہم کیا کہیں وہ علم و فضل میں جس مقامِ صادقِ پر ہیں وہاں تو ہم جیسوں کا خیال بھی نہیں پہنچ سکتا۔ البتہ مولا کا ایک قولِ عالی ، جو فطرت کی صداقت کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہے، قارئین کو یاد دِلانا چاہتے ہیں ، فرمایا علی کرم اللہ وجہہ اللہ نے :
" پانی چاہے جتنا گرم ہو جائے ، وہ جب بھی آگ پر گرے گا اسے بجھا دے گا۔"

***
Nadeem Siddiqui
ای-میل : nadeemd57[@]gmail.com
ندیم صدیقی

BJP's political stunts and the Muslims. Article: Nadeem Siddiqui

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں