ملت اسلامیہ کو اسلام دشمن عناصر وقوتوں کی سازشوں سے آگاہ کرنابھی ملی فریضہ: مولانا اسرارالحق
دورِحاظر میں ملت اسلامیہ کوشدید آزمائش کاسامناہے ۔نہ صرف ہندوستان میں بلکہ دنیا بھر میں وہ انتشار سے دوچار ہیں ، اس لئے وہ روز بروز مغلوب ہوتے جارہے ہیں۔ان خیالات کا اظہار معروف عالم دین مولانا اسرارالحق قاسمی نے بربٹہ کے مدرسہ جامعہ رشیدیہ کھوج دین میں تقریرکے دوران کیا۔
انہوں نے کہا کہ ہندوستانی مسلمان انتشار کی وجہ سے نہ صرف ہندوستان میں بلکہ پوری دنیا میں ذلیل و خوار ہورہے ہیں۔مسلمانوں کو آج ایک گڑی پڑی چیز سمجھ کر ٹھوکر مارا جارہا ہے ۔ اس کی وجہ ہمیں تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے لئے ہم بھی ذمہ دار ہیں۔ ہم اپنی ذمہ داری سے نہیں بچ سکتے۔ اور جب تک یہ احساس ہمارے اندر نہیں آتا اس وقت تک اس کا تدارک بھی ممکن نہیں ہے۔انہوں نے مسلمانوں سے اتحاد کی پرزور اپیل کرتے ہوئے کہا کہ ان کی حالت یہ ہے کہ وہ کہیں حصول اقتدارکی خاطر باہم متصادم ہیں تو کہیں مسلکی غلبہ حاصل کرنے کے لئے آپس میں ہی الجھے ہوئے ہیں اور بہ حیثیت مسلم امہ تمام مسلمانوں کو نہ صرف کمزور کررہے ہیں بلکہ ان کی بدنامی کا بھی سبب بنے رہے ہیں ۔مسلمانوں کی نیک نامی ہوگی تو اس کا اثر برادران وطن پر بھی پڑے گا۔
واضح ہو کہ مولانا قاسمی کشن گنج کے ممبرپارلیمنٹ ہیں اور بطورکانگریس امیدوار اسی حلقہ سے ایک بار پھر میدان انتخاب میں ہیں۔اپنی انتخابی مہم کے دوران امور،روٹا میں متعدد مٹنگوں وجلسوں کے دوران جامعہ رشیدیہ کے دینی پروگرام میں میں شریک ہوئے ،جہاں علماء وائمہ اور دانشوران وسماجی کارکنان کی بڑی تعداد موجود تھی ۔اپنے خطاب میں مولانا اسرارالحق قاسمی نے اختلافات کے نقصانات پر روشنی ڈالتے ہوئے مزیدکہا کہ مسلک وبرادری اورذات پات کے امتیازات جہاں ملت کو شدید نقصان سے پہنچارہے ہیں ، وہیں اسے کمزور بھی کررہے ہیں اور اس کے خلاف مسلم دشمن قوتو ں کو ہتھیار بھی فراہم کررہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اس وقت مقامی سطح پر اور بین الاقوامی سطح پر غرضیکہ ہر سطح پر مسلمانوں کی صفوں میں اتحاد پیداکرنے کی ضرورت ہے کیونکہ جب تک وہ متحدہ نہیں ہوجاتے ، ایک غالب قوم کے طورپر نہیں ابھرسکتے۔انہوں نے کہا کہ اسی لئے اسلام نے اتحاد وبھائی چارے پر بہت زور دیا ہے اور تمام مومنین کو بھائی بتایاہے۔جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مسلمان خواہ وہ کسی بھی برادری کے ہوں، مسلک کے ہوں، قبیلے کے ہوں، علاقے کے ہوں ، وہ بہرحال آپس میں بھائی بھائی ہیں ۔اخوت کا مطلب یہ ہے کہ مسلمانوں کے درمیان ایک دوسرے کے تئیں اس طرح کا جذبہ ہوجس طرح بھائی کے لئے ہوتا ہے ۔یہ ایک ایسا جذبہ ہے جو مسلمانوں کے مابین مضبوط اتحاد کے قیام کی بنیاد بن سکتاہے۔ کیوں کہ اس صورت میں مختلف برادریوں اور مسلکوں کے لوگوں کا متحد ہونا آسان ہوگا،لہذاآج اس طرح کے جذبے کی شدید ضرورت ہے۔
مولانا اسرارالحق نے اختلافات کے نقصانات پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ مسلک وبرادری اورذات پات کے امتیازات جہاں ملت کو شدید نقصان پہنچارہے ہیں ، وہیں اسے کمزور بھی کررہے ہیں اور اس کے خلاف مسلم دشمن قوتو ں کو ہتھیار بھی فراہم کررہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ مخالف طاقتیں مسلمانوں میں اختلافات قائم کرنے کا کوئی موقع نہیں چھوڑتیں۔ فی الوقت انتخابات چل رہے ہیں تو وہ مسلمانوں کے درمیان اختلاف کو پیداکرنے اور بڑھانے کی نت نئی سازشیں رچ رہے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ کشن گنج حلقہ میں مسلم مخالف قوتیں چند موقع پرست مسلمانوں کو اپنا آلۂ کار بناکر مسلمانوں کے درمیان اختلافات کی خلیج کو اور وسیع کرکے اپنے سیاسی اغراض ومفادات پورے کرنا چاہتی ہیں۔انہوں نے کہا کہ علماء کرام کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان سازشوں کو سمجھیں اور پوری ملت کو اس کے نقصانات سے آگاہ کریں تاکہ مسلمانوں کو مزید تباہی وبربادی سے بچایاجاسکے۔انہوں نے کہا کہ الیکشن کے اس موقع پر مسلمانوں کو حد درجہ محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔ خواہ دشمن طاقتیں اس موقع پر مسلمانوں میں کتنے ہی اختلاف پیداکرنے کی کوشش کریں ،انہیں متحد رہنا چاہئے۔انہوں نے مزید کہا کہ اس الیکشن میں فرقہ پرست طاقتوں نے ایسے لوگوں کو میدان میں اتارا ہے جو بظاہر مسلمانوں کے ہمدرد ہیں لیکن ان کا مقصد نریندر مودی کا ہاتھ مضبوط کرنا ہے۔ آپ کی ذمہ داری ہے کہ آپ ایسے لوگوں سے ہوشیار رہیں اور ان کے بہکاوے میں نہ آئیں۔مدرسہ ہذا کے مہتمم مولانا عبدالجبار قاسمی نے اس موقع پر علاقے کی صورت حال بیان کرتے ہوئے اکابر علماء ومہمانوں کا شکریہ اداکیا۔جلسے میں جن سرکردہ علماء نے تقریر کی ان میں مولانا عارف مظاہری ،مفتی شمس توحید،مولانا وسیع قاسمی،مفتی اسرار احمد،مولانا نور عالم، ڈگروا کے مولانا رفیق،روٹا کے خلیل الرحمن،منشی سمیع الرحمن،قاری انظار عالم ، مفتی مطیع الرحمن،سماجی کارکن شمشاد احمد،مولانا ابوصالح،مفتی جنید اور کھپرا کے مفتی توقیر وغیرہ کے نام خاص ہیں۔
Maulana Asrar-ul-Haq Qasmi election compaign at Barbata
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں