شیلا دتیہ معاملے میں مغربی بنگال حکومت کو ہائیکورٹ کی سخت سرزنش - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2013-12-19

شیلا دتیہ معاملے میں مغربی بنگال حکومت کو ہائیکورٹ کی سخت سرزنش

کولکاتا
(ایس این بی )
مغربی مدناپور کے ایک غریب کسان شیلادتیہ چودھری کی ایک عرضی پر شنوائی کرتے ہوئے آج کلکتہ ہائی کورٹ نے ممتاحکومت کو ایک بار پھر آڑے ہاتھوں لیا اور زبردست پھٹکارلگائی ۔جسٹس سنجیب بنرجی کی ناراضگی کا اندازہ ان کے ان سوالوں سے لگایا جاسکتا جوانہوں نے دوران شنوائی حکومت کے وکیل ساکیہ سین سے کیا کہ ، کیا حقوق انسانی کمیشن محض ایک دیوار گھڑی ہے حکومت جس کی سوئی کا چکر کانٹا ہی فقط دیکھتی رہے اور ٹک ٹک کی آواز سنتی رہے ؟۔واقعہ یہ ہے کہ گزشتہ سال اگست میں مغربی مدناپور کے بیل پہاڑی میں ایک عوامی جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے شیلا دتیہ نامی ایک شخص کو وزیر اعلی ممتابنرجی نے ماؤنواز سے معتبر کرتے ہوئے اسے گرفتار کرنے کی ہدایت دی تھی ۔ کہا جاتا ہے کہ وہ غریب کسان صرف اس کا قصوروار تھا اس نے کھاد کی بڑھتی ہوئی قیمت پر جلسہ عام میں وزیر اعلی ممتابنرجی سے سوال کیا تھا ۔ لیکن ریاستی حقوق انسانی کمیشن نے اس واقعہ کوحقوق انسانی کی پامالی پر محمول کرتے ہوئے اس کاسخت نوٹس لیا اور اپنے طور پر تفتیش کیا ۔ تفتیش میں شیلا دتیہ پر ماؤسٹ اور دہشت گرد کے الزاما ت کو کمیشن نے غلط پایا ۔کمیشن نے یہ بھی محسوس کیا کہ وزیر اعلی کے اس غلط الزام سے شیلا دتیہ چودھری کا نہ صرف وقار مجروح ہوا ہے بلکہ اس کی سماجی زندگی بھی متاثر ہوئی ہے ۔کمیشن نے اپنے مشاہدہ میں یہ بھی کہاکہ وہ کہنے میں مجبورہیں کہ ،وزیر اعلی کاعہدہ جو دستور کا پابند ہے اسے دستور کے اصولوں کا پاس اور لحاظ رکھنا چاہئے ،۔کمیشن نے شیلا دتیہ کے وقار پر دھبہ لگنے کے معاملہ کا انسانی حقوق کی پامالی سے معتبر کرتے ہوئے بالآخر حکومت کودو مہینہ کے اندردولاکھ روپئے معاوضہ ادا کرنے کی سفارش کی تھی ۔ لیکن کمیشن کی اسی شکایت کا حکومت نے معینہ مدت میں نوٹس نہیں لیا ۔ اسی شکایت ہائی کورٹ میں شیلا دتیہ نے عرضی داخل کی تھی ۔جسٹس سنجیب بنری کے اجلاس میں پھٹکار سننے کے بعد سرکاری وکیل ساکیہ سین نے صفائی دی کہ نچلی عدالت میں شیلا دتیہ پر چل رہے فوجداری مقدمات کے تصفیہ کی حکومت فی الوقت منتظر ہے ۔ لیکن عدالت نے ،ٹال مٹول ،کرنے والے اس حربے کے اثر میں آنے کے بجائے سرکاری وکیل سے مطالبہ کیا کہ وہ شیلا دتیہ پر فوجداری کے مقدمات کی و ہ تفصیلات پیش کرے جونچلی عدالت میں چل رہی ہیں ۔ جسٹس سنجیب بنزی کی اس ہدایت پر سرکاری وکیل نے کہا کہ ،شیلا دتیہ پرفردجرم عائد کیا جاچکا ہے کہ اسے سیکورٹی کی خلاف ورزی کرتے ہوئے نہایت ہی حساس زون میں غصے کی حالت میں داخل ہونے اور موقع پر موجود پولیس افسران جو وزیر اعلی کی ڈیوٹی پر مامور تھے دھکا دینے کا مرتکب پایا گیا تھا ،جسٹس بنرجی سرکاری وکیل کی قطع کلامی کرتے ہوئے طنزیہ لہجے میں سوال کیا کہ سیکورٹی کی خلاف ورزی ،ماؤوادی کے مترداف ہے ۔ وہ شخص جووزیر اعلی کے عوامی جلسہ میں حاضر ہوتا ہے ،اسے وزیراعلی سے کھاد میں بڑھتی قیمت کے بارے میں سوال کرنے کا پورا حق ہے ۔کیا اس شخص کا یہ عمل ماؤوادیوں کا عمل ہے ؟،جسٹس بنرجی نے برہم ہوکر مزید سوال کیا کہ ،کتنے دنوں تک ملزم کو حراست میں رکھا گیا ؟،جسٹس بنرجی کے برہم تیور نیز منطق اور انصاف پر مبنی سوالات کاسامنا کرنے کی جب سرکاری وکیل نے اندر تاب نہ رہی توانہوں نے صفائی دی حکومت کی جانب سے گزشتہ21نومبر کو بذریعہ ایس ایم ایس بتلایا گیا ہے کہ کمیشن کی سفارشپر کارروائی کرنے کی مدت میں مزید توسیع کی درخواست کی گئی ہے جس کے عوض کمیشن نے بھی 21فروری 2014تک مہلت دے دی ہے ۔سرکاری وکیل کا یہ بیان سن کر جسٹس سنجیب نبرجی غصے سے مزید بھڑک اٹھے اور ایک بار پھر سرکاری وکیل کو پھٹکار لگاتے ہوئے سوال کیا کہ ، اتنی سی بات بتلانے میں عدالت کا اتنا اہم اور قیمتی وقت آپ نے ( وکیل ) ضائع کیا؟ ۔ جسٹس بنرجی نے یہ بھی کہا کہ ، میں اس مقدمے کی شنوائی گزشتہ نومبر سے کررہا ہوں ۔ آپ ( سرکار ی وکیل ) نے اتنی سی بات بتلانے میں 40منٹ کا وقت کیوں ضائع کیا ؟ موصوف جسٹس بنرجی نے نہایت ہی طنز آمیز لہجے میں کہا کہ، کیا زیر التوا مقدمات کے سلسلہ میں ریاستی حکومت کا یہی رویہ ہے؟ البتہ جسٹس بنرجی نے کمیشن کے فروری تک کی مہلت کے بارے میں کوئی تبصرہ کرنے سے انکار کیا اور کہا کہ انہیں اس بارے میں کچھ نہیں کہنا ہے، تاہم حکومت کو ہدایت دی کہ آئندہ ہونے والی شنوائی میں اس معاملے کی تمام تر تفصیلات کے ساتھ وہ موجود رہے۔ یاد رہے کہ حکومت کیلئے یہ کوئی پہلا اور انوکھا موقع نہیں جب کلکتہ ہائی کورٹ سے اسے پھٹکار ملی ہو۔ اس کے باوجود حکومت کی جانب سے پیروی کرنے والے سرکاری وکیلوں کے ادارک و فہم و غیرت کو معلوم نہیں کیا ہوجاتا ہے کہ وہ حکومت کو دستور اور آئین کی بابت حساس اور محترم بنانے میں اپنی صلاحٰت اور فرض شناسی کو بروئے کار لاتے نظر نہیں آتے ۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں