غورکرنے کامقام یہ ہے کہ ان حالات میں مسلمانوں نے اپنی کیاحکمت عملی تیارکی ہے؟کیاہمیشہ کی طرح اس باربھی مسلمان بھیڑچال کی روش کواپناتے ہوئے اورکبھی وفانہ ہونے والے وعدوں پریقین کرتے ہوئے اسی طرح ایک مخصوص سیاسی جماعت کواپنے ووٹوں کے بل پراقتدارکوتھال میں سجاکرپیش کردیں گے؟اورپھراس امیدپرجیتے رہیں گے کہ چلو اب تک نہیں لیکن اس بار سارے وعدے ضروروفاہوں گے؟اگراس باربھی ایساہی ہواتویہ مسلمانوں کے لیے بہت بڑی شکست ہوگی،شکست ہی نہیں بلکہ بے غیرتی کی موت، اور وہ بھی ایسی موت کہ جس پرشایدتاریخ بھی آنسوبہاناپسندنہ کرے؟ ہندوستان کوانگریزوں کی غلامی سے آزادہوئے تقریبا67/برس ہوچکے ہیں،لیکن ہندوستانی مسلمان اب بھی ذہنی طورپرسیاسی جماعتوں کے غلام بنے ہوئے ہیں،آج تک انہوں نے اس ذہنی غلامی کی زنجیرکوتوڑنے کی فکرنہیں کی،جس کاخمیازہ ہندوستانی مسلمانوں کوبھگتناپڑرہاہے،اس کی سب سے بڑی وجہ اتحادکافقدان اورمسلم قیادت کی کمی ہے،آج بھی جب کہ تمام سیاسی پارٹیاں اپنے مقاصدکے حصول کے لیے مسلمانوں کے ووٹ بینک پرشب خون مارنے کے لیے طرح طرح کے ہتھکنڈے اورحربے استعمال کررہی ہے،مسلمان ان باتوں سے بے خبراپنی ہی سرمستی میں مگن ہے،سیاسی جماعتیں مسلمانوں کوایک بارپھرسے اپنے آئینہ میں اتارنے کے لیے اپنے منصوبوں کوعملی جامہ پہنانے میں مصروف ہے،لیکن مسلمان اب بھی خواب خرگوش کے مزے لے رہاہے۔آخرکیوں؟جیسے جیسے 2014ء کے الیکشن کاوقت قریب آتاجارہاہے،سیاسی گلیاروں میں مسلمانوں کے ووٹ بینک پرشب خون مارنے کی حکمت عملی تیارکی جارہی ہے،ایسے میں جہاں ایک طرف پھرسے وہی پراناکھیل کھیلا جا رہا ہے اورایک بڑی سیاسی جماعت کی طرف سے بلندآوازمیں مسلمانوں کوڈرانے اوربہلانے پھسلانے کاعمل شروع ہوچکاہے اورمسلمانوں کواس طرح کی آوازلگاکرڈرایاجارہاہے کہ مسلمانوں!ہم ہی تمہارے مسیحاہیں،اس ملک میں ہم نے ہی تمہیں حفظ وامان عطاکی ہے،تمہاری جان ومال کی حفاظت کی گارنٹی صرف ہماری پناہ میں ہے اس لیے تمہیں ہمارا ہی دامن تھامناہوگاورنہ تمہاراحشربقیہ ہندوستان میں بھی ویساہی ہوگاجیساکہ گجرات میں ہوا،جیساکہ ابھی حال ہی میں مظفرنگرمیں ہوا،وہیں دوسری جانب سے یہ آوازبھی سنائی دے رہی ہے کہ مسلمانوں!تم پھرسے دھوکہ نہ کھاؤ،یہ وہی سیاسی جماعت ہے جس نے آزادی کے بعدسے تقریبا50/سالوں تک تمہارااستحصال کیا،تمہاری جان ومال سے کھیلواڑ کیا،تمہیں کھلونے دے کربہلایااورجھوٹی تسلی دی کہ نہیں ہم نے تمہیں ترقیات کے بام عروج پرپہونچایا،مسلمانوں!ہوشیارہوجاؤ،ایک بارپھرسے یہ تمہیںیرغمال بنانے کے لیے میدان میں کودپڑا،تم اس کے فریب میں مت آنا،بلکہ ہماری پناہ میںآجاؤ،دیکھوہم نے گجرات میں کس طرح مسلمانوں کاکلیان کیاہے،مدھیہ پردیش اورچھتیس گڑھ جیسی ریاستوں میں ہم نے کس طرح مسلمانوں کو ترقی کے بام عروج پرپہونچایا،اتناہی نہیں جب تک ہم بہارمیں حکومت میں تھے ہم نے بہارکودہشت گردی سے پاک رکھالیکن ہمارے الگ ہوتے ہی بہارپردہشت گردی کامنحوس سایہ پڑگیا،لیکن ایسااعلان کرتے وقت وہ شایدیہ بھول جاتے ہیں کہ وہ منحوس سایہ توآپ ہی ہیں،یہ آپ ہی کی ذات کی کرشمہ سازیاں ہیں کہ جہاں جہاںآپ کے قدم نامبارک پڑے وہاں وہاں انسانیت تڑپ اٹھی اورحیوانیت کاایساننگاناچ کھیلاگیاکہ خودآپ کے جدامجدشیطان کوبھی اس انسانیت سوزحرکت پہ شرم آگئی۔آخرکب تک ہمارے ساتھ یہ کھیل کھیلاجاتارہے گا،ایک ڈرائے گادوسرادھمکائے گااوراس ڈراوردھمکی کے دوپاٹوں کے بیچ پس کرہم لہولہان ہوتے رہیں گے اوراپنے قیمتی ووٹ کوبربادکرتے رہیں گے،آخرکب تک؟ آخرکب تک ہم سیاسی ذہنی غلامی کے شکاربنتے رہیں گے؟کیااب بھی وہ وقت نہیںآیاکہ ہم ایک پلیٹ فارم پرجمع ہوکرایک ایسااتحادقائم کریں کہ ہم سے ووٹ مانگنے سے پہلے ہرسیاسی پارٹی ہزاربارنہیں لاکھ بارسوچے،اوروہی پارٹی ہماری ووٹوں کی حقداربنے جو ہمارے مطالبات کوپوراکرنے کاعہدوپیمان باندھے۔
اس وقت موجودہ صورت حال کودیکھتے ہوئے یہ بات واضح طورپرسمجھ میںآتی ہے کہ ملک کی دونوں بڑی پارٹیوں کے پاس جہاں ایک طرف لیڈرشپ کی کمی ہے وہیں دونوں نے اپنی سابقہ کارکردگیوں سے عوام کی نظروں میں اپنااعتمادکھودیاہے،دونوں کے پی ایم امیدوارپپواورنمواس لائق نہیں کہ ہندوستان کی قیادت کی باگ ڈوران دوناتجربہ کار اور غیر موزوں شحصیت کے ناتواں کندھوں پرڈالی جائے،ہمیں بہرحال اس حقیقت کومدنظررکھناہوگاکہ یہ دونوں ہی اس عظیم عہدہ کے لیے نااہل ہیں،مظفرنگرواقعہ کے تناظرمیں مسلم نوجوانوں کے سلسلہ میں راہل گاندھی کابیان یاتوانتہائی بچکانہ تھایاپھرکسی گہری سازش کاشاخسانہ،بھلاایساشخص جس کی نظروں میں اس کے ملک کاایک طبقہ پہلے سے ہی مشکوک ہوجائے وہ اس عظیم منصب پربیٹھ کرکیاگل کھلائے وہ تواللہ ہی کومعلوم ہے۔انتخابات کی سرگرمیاں شروع ہوتے ہی کچھ مسلم تنظیموں کی جانب سے آئے دن اخبارات میں اس طرح کے اعلانات شائع ہورہے ہیں جس میں مسلمانوں کوسیاسی غلامی سے آزادی دلانے کی بات کی جارہی ہے،ابھی کچھ دنوں قبل ایک مسلم تنظیم نے بیس نکات پرمشتمل ایک اشتہارشائع کیااورساتھ ہی سیاسی پارٹیوں سے یہ مطالبہ کیاکہ جوان مطالبات کوپوراکرنے کاعہدکرے گامسلمان اسی کے ساتھ جائے گا،بہرحال اسے ایک اچھی کوشش کہی جاسکتی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ بیل اس وقت تک منڈھے نہیں چڑھے گی جب تک کہ تمام مسلم تنظیمیں ایک پلیٹ فارم پرجمع ہوکرکم ازکم مشترکہ پروگرام کے تحت غیرضروری مطالبات سے گریزکرتے ہوئے صرف ایسے بنیادی مطالبات کواپنی فہرست میں جگہ دے جومسلمانوں کے لیے آنے والے وقت میں میل کاپتھرثابت ہو،اوریہ کام اسی وقت ہوسکتاہے جب کہ تاروں میں بکھرے ہوئے یہ ملی تنظیمیں ایک پلیٹ فارم پرجمع ہوکرخورشیدمبیں بنیں تبھی سیاسی جماعتیں ہمارے سامنے گھٹنے ٹیکنے پرمجبورہوں گی،ورنہ ہمیشہ کی طرح وہی ہوگاکہ ہرکوئی اپنے اپنے مفادات سے وابستہ ہوکرکسی نہ کسی سیاسی پارٹی کے حق میں حمایت کااعلان کردے گااورنتیجہ ہمیشہ کی طرح وہی ڈھاک کے تین پات کی شکل میں نکلے گا۔اسی لیے خداکے واسطے ملت کے قائدین سے دست بستہ گذارش ہے کہ خدارااب توایک ہوجائیں،اپنے معمولی مفادات کوپس پشت ڈال کرملت اسلامیہ ہندیہ کے اجتماعی مفادات کوسامنے رکھتے ہوئے سیاسی جماعتوں سے سودے بازی کریں اورانہیں مجبورکردیں کہ ان کے سامنے ہمارے مطالبات ماننے کے علاوہ کوئی چارہ کارنہ ہو،خواہ اس کے لیے دونوں بڑی جماعتوں سے ہٹ کرچھوٹی چھوٹی علاقائی سیکولرپارٹیوں کومتحدکرکے ایک تیسرامحاذہی بنانے کی نوبت کیوں نہ آئے،لیکن ان دوبڑی جماعتوں کاغرورتوڑناہی وقت کااصل تقاضاہے،ورنہ ہمیشہ کی طرح ایک دوسرے کاڈردکھاکرایک بارپھرسے وہی ہوگاجوگذشتہ 67/سالوں سے ہوتاآرہاہے۔فی الوقت ہندستان میں مسلمانوں کے لیے سب سے بڑامسئلہ جان ومال اورعزت وآبروکی حفاظت کاہے،مسلم قائدین اورملی تنظیموں کوچاہیے کہ وہ اس سلسلہ میں ٹھوس لائحہ عمل بناتے ہوئے سیاسی پارٹیوں پردباؤبنائیں کہ وہ سب سے پہلے پارلیمنٹ میں التواء میں پڑے انسدادفرقہ وارانہ فسادات بل کوپہلی فرصت میں پاس کرائے،اس بل کے پاس ہونے سے کم ازکم مسلمان اپنے آپ کوکچھ تومحفوظ محسوس کریں گے اوریہ بھی ایک کھلی حقیقت ہے کہ جب تک جان ومال اورعزت وآبرومحفوظ نہیں ہے ساری ترقیات بے معنی ہے،اسی طرح سچرکمیٹی کی سفارشات سے متعلق مطالبات ہونے چاہئیں،گرچہ حکومت کادعویٰ ہے کہ اس نے سچرکمیٹی کی بیشترسفارشات کومنظورکرلیاہے لیکن وہ زمین پرنظرنہیںآرہاہے،اس سلسلہ میں ملی تنظیموں کوایک پلیٹ فارم پرجمع ہوکرذاتی مفادات سے بالاترہوکرملت اسلامیہ ہندیہ کے اجتماعی مفادات کوپیش نظررکھ کرکام کرناہوگاتبھی ہم کامیاب ہوسکتے ہیں اورہماراووٹ کارآمدہوسکتاہے،ورنہ ایک بارپھرسے وہی ہوگاجوگذشتہ 67/سالوں سے ہوتاچلاآرہاہے،مسلم قائدین اورملی تنظیموں سے دستہ بستہ گذارش ہے کہ وہ خداکے لیے ملت اسلامیہ ہندیہ کے اجتماعی مفادات کوسامنے رکھتے ہوئے ایک پلیٹ فارم پرمتحدہوکرخورشیدمبیں کاثبوت پیش کریں ورنہ اگرتاروں کی طرح بکھرے رہیں تواس قوم کاکبھی بھلانہیں ہوسکتا۔ایک ہوجائیں توبن سکتے ہیں خورشیدمبیں۔ورنہ ان بکھرے ہوئے تاروں سے کیابات بنے۔
***
gsqasmi99[@]gmail.com
موبائل : 00966532883253
چیف ایڈیٹر : بصیرت آن لائن ڈاٹ کام ، ریاض ، سعودی عرب
gsqasmi99[@]gmail.com
موبائل : 00966532883253
چیف ایڈیٹر : بصیرت آن لائن ڈاٹ کام ، ریاض ، سعودی عرب
غفران ساجد |
Muslim's strategy in India 2014 general elections. Article: Ghufran Sajid Qasmi
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں