لکھی سرائے کے پون کمار، وکاس کمار، گنیش پرساد اور گوپال گوئل کے پاس سے 20 اے ٹی ایم کارڈ، 10 سم کارڈ اور دو درجن سے زائد بنکوں کے پاس بک ضبط کیے گئے ہیں۔ ان کے خلاف کیس درج کرتے ہوئے دہشت گرد تنظیم انڈین مجاہدین سے ان چاروں کے امکانی تعلقات کی تفتیش بھی کی جا رہی ہے۔ اس کے علاوہ پولیس نے اس معاملے میں پاکستان کے ابراہیم خان اور منگلور کی عائشہ بانو کے خلاف بھی ایف آئی آر درج کی ہے۔
اس تعلق سے لکھی سرائے کے ڈی ایس پی سبودھ کمار بسواس نے کہا کہ یہ لوگ پاکستانی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی سے رابطے میں تھے اور انہیں پاکستان سے ایک بڑی رقم بھیجی جاتی تھی جسے یہ لوگ معصوم نوجوانوں کو اپنے جال میں پھنسانے کے لئے استعمال کیا کرتے تھے۔ اس معاملے کی سنگینی اس بات سے بھی لگائی جا سکتی ہے کہ گزشتہ تین ماہ میں پاکستان سے ایک کروڑ روپے کی ادائیگی اسی ضمن میں ہوئی ہے۔ ڈی ایس پی نے مزید بتایا کہ بنک کے ذریعے رقومات کی ادائیگی کے بعد اس کی اطلاع موبائل ایس ایم ایس کے ذریعے گوپال گوئل کو دی جاتی تھی جس میں اس بات کا ذکر کیا جاتا تھا کہ کتنی رقم کسے پہنچانا ہے؟
پٹنہ دھماکے کی تحقیقات کے سلسلے میں پیش رفت کے بعد لکھی سرائے پولیس کو اس معاملے میں این آئی اے سے اہم معلومات حاصل ہوئی ہیں۔ ان چاروں کی گرفتاری کے بعد این آئی اے کی تفتیش میں بھی ایک نیا موڑ آ گیا ہے۔ کیونکہ پولیس کا کہنا ہے کہ پاکستان سے یہ غیر قانونی لین دین کا کھیل کئی سالوں سے جاری ہے۔ پولیس ذرائع کا کہنا ہے کہ پٹنہ دھماکے میں ان رقومات کے استعمال سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ کیونکہ پٹنہ دھماکے کے بعد پکڑے گئے ملزمین نے قبول کیا تھا کہ گاندھی میدان میں بم رکھنے کے عوض انہیں دس دس ہزار روپے کی رقم ادا کی گئی تھی۔
ان چاروں مبینہ دہشت گردوں کو 14 دن کی عدالتی حراست میں بھیج دیا گیا ہے۔ واضح رہے گزشتہ 27/ اکتوبر کو پٹنہ کے گاندھی میدان میں نریندر مودی کی ہنکار ریلی سے قبل مسلسل چار سیریل بم دھماکے ہوئے تھے جس میں 6 افراد مارے گئے اور 90 لوگ زخمی ہوئے تھے۔ اس کے بعد اس دھماکے کی تحقیقات مخالف دہشت گردی جانچ ایجنسی این آئی اے کے حوالے کی گئی تھی۔ این آئی اے تحقیقات کے حوالے سے کئی گئیں ان چاروں کی گرفتاری کو ایک بڑی کامیابی کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
Illegal transaction of money with Pak link unearthed
Ilzaaam Hum Ko Dete The'y,
جواب دیںحذف کریںQusuur Unn Ka Nikal Aaya...!!!!
یہ تو دھماکیدار خبر ہے، پہلی بار اقلیت کا نام نہیں آیا ۔
جواب دیںحذف کریں