ناول خوفناک جزیرہ - سراج انور - قسط - 20 - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2018-08-26

ناول خوفناک جزیرہ - سراج انور - قسط - 20


پچھلی قسط کا خلاصہ :
فیروز ایک مچھلی کو پکڑنے کے چکر میں سمندر میں گر گیا ، چونکہ مچھلی کے کانٹے والی ڈور اس کی کمر سے بندھی ہوئی تھی لہذا مچھلی کی تیز رفتاری میں وہ بھی سمندر کے سینے پر بہتا چلا گیا اور جلد ہی بادبانی جہاز اس کی نظروں سے اوجھل ہو گیا۔ کچھ وقفے کے بعد مچھلی کی قوت آہستہ آہستہ ختم ہو گئی اور فیروز نے رسی کو چاقو سے کاٹ کر خود کو آزاد کروا لیا۔
سمندر میں مسلسل تیرتے تیرتے جب فیروز کے بازو شل ہو گئے اور وہ ڈوبنے کے قریب ہی تھا کہ اچانک اس کا جسم کسی سخت چیز سے ٹکرایا۔ اپنی بند ہوتی ہوئی آنکھوں کو زور لگا کر کھولا اور غور سے دیکھا تو معلوم ہوا کہ وہ کسی جزیرے کے کنارے سے ٹکرا گیا ہے۔ مگر جزیرے کی زمین بے حد چکنی تھی اور اس زمین پر نہ کوئی درخت تھا اور نہ چٹانیں اور نہ ہی کہیں مٹی نظر آتی تھی۔ کچھ دیر بعد بہت دور کے فاصلے پر فیروز کو کسی جہاز کے مستول نظر آنے لگے۔
وہ انہی کا جہاز تھا۔ قریب پہنچ کر جہاز نے لنگر ڈالا اور ملاح نے حفاظتی کشتی سمندر میں اتاری اور پھر اس کشتی میں جان اور جیک دونوں سوار ہو کر فیروز کے پاس آ گئے۔ جان نے فیروز کو گلے سے لگا لیا اور دونوں رونے لگے۔
پانی کی امید میں ملاح نے جان کے اشارے پر زمین کھودنے کے لئے کدال زمین میں ماری مگر پھر اچانک وہ سب گھبرا کر پیچھے ہٹ گئے۔ زمین میں سے ایک فوارہ ابل پڑا مگر پانی کا نہیں، بلکہ گاڑھے گاڑھے خون کا فوارہ!
۔۔۔ اب آپ آگے پڑھئے ۔۔۔
مگر اتنا سمجھ ضرور آ گیا تھا کہ خطرہ ہے اس لئے جلدی جلدی ہم لوگ کشتی میں بیٹھے اور دو دو آدمیوں نے مل کر ایک ساتھ چپو چلائے تب کہیں تین منٹ کے اندر اندر جہاز تک پہنچے۔ رسی کی سیڑھی کے ذریعے جوں توں کر کے ہم اوپر چڑھے اور پھر کشتی کو اوپر کھینچ لینے کے بعد ہم نے اس ہلتے ہوئے جزیرے کو دیکھا جو اب اور بھی تیزی سے ہل رہا تھا اور اس کی زمین سے خون کا وہ فوارہ لگاتار بلند ہوتا جا رہا تھا۔ خون کا فوارہ جتنا اونچا ہو رہا تھا، جزیرہ اتنی ہی تیزی کے ساتھ ہل رہا تھا۔ ہم دم بخود کھڑے یہ منظر دیکھ رہے تھے۔ ملاح بھی بالکل گم صم تھا۔ اچانک اسے ہوش آیا اور اس نے جلدی سے بادبان کھول دئے۔ جہاز آہستہ آہستہ اس ہلتے ہوئے جزیرے سے دور ہونے لگا۔ کچھ ہی دیر بعد جزیرہ بری طرح ہلنے لگا۔ اور ہمارے سامنے وہ پہلی بار سمندر میں سے اوپر ابھرنے لگا چند منٹ میں وہ اتنا اونچا ہو گیا کہ ایک چھوٹی سی چٹان معلوم ہونے لگا اور تب مجھے اس جزیرے کا وہ حصہ نظر آیا جو اب تک میری نگاہوں سے پوشیدہ تھا۔ یہ حصہ پانی میں ڈوبا ہوا تھا اور جب ابھرا تو مجھے ایک حیرت انگیز چیز نظر آئی یعنی ایک بہت بڑا سر، جس میں دو آنکھیں چمک رہی تھیں اور اس سر کے آگے ایک بہت خوف ناک مونہہ تھا جو بار بار کھل اور بند ہو رہا تھا۔ خوف کے مارے میری ٹانگیں لرزنے لگیں اور میں جلدی سے ڈیک پر بیٹھ گیا۔
حقیقت اب معلوم ہوئی تھی۔ جس جزیرے پر میں نے ایک رات اور آدھا دن گزارا تھا۔ وہ دراصل جزیرہ نہیں بلکہ کوئی بہت بڑی سمندری مچھلی تھی!
اتنے عرصے تک میں اس کی کمر پر بھاگتا رہا اور اسے خبر بھی نہ ہوئی۔ لیکن میرے خیال میں اسے خبر ضرور ہوئی ہو گی۔ اسے میرا وزن بھی ضرور محسوس ہوا ہو گا۔ مگر جس طرح انسان اپنے جسم پر مکھی کا کوئی وزن محسوس نہیں کرتا، ایسے ہی اس دیوزاد مچھلی نے مجھے سمجھا ہو گا۔ یعنی اس کے لئے میرا وزن ایک مچھر کے برابر ہو گا۔ یہ خیال آتے ہی کہ میں کافی دیر تک اس خطرناک مچھلی کی کمر پر رہا، مجھے ڈر کے مارے چکر آ گیا۔ خود کو سنبھال کر جب میں نے سامنے دیکھا تو وہ مچھلی پانی میں بری طرح تڑپ رہی تھی۔ اس کی دم دائیں بائیں اتنے زور سے پڑتی تھی کہ سمندر کا پانی کئی سو فٹ اوپر اچھل جاتا تھا۔ جس مقام پر وہ تھی وہاں درحقیقت طوفان آیا ہوا تھا۔ ہم نے خدا کا شکر ادا کیا کہ بچ گئے۔ اگر ہمارا جہاز اسی جگہ کھڑا ہوا ہوتا تو یقیناً ہم جہاز سمیت کبھی کے سمندر میں غرق ہو گئے ہوتے۔ تڑپتے تڑپتے وہ مچھلی بے جان سی ہو گئی اور پھر ہمیں پتہ نہیں کیا ہوا۔ کیوں کہ ہمارا جہاز اب اس سے اتنا دور ہو چکا تھا کہ ہمیں دوربین سے بھی یہ دیکھنے میں دشواری پیش آ رہی تھی کہ وہاں کیا ہو رہا ہے؟
بڑی دیر تک تو ہم خاموش بیٹھے رہے۔ ایک دوسرے سے بات کرتے ہوئے بھی گھبراہٹ ہوتی تھی۔ حلق خشک تھے۔ سمندر کا پانی صرف دو دو قطرے پینے کے باعث زبان کی نوک جگہ جگہ سے کٹ گئی تھی۔ اس لئے خاموش رہنا ہی بہتر تھا۔ مگر خاموش رہنے سے گبھراہٹ اور بڑھتی تھی۔ اس لئے میں نے آہستہ سے یہ خاموشی توڑتے ہوئے کہا۔
"مجھے تو رہ رہ کر ڈر لگتا ہے، اب سوچتا ہوں تو رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ اگر وہ مچھلی راتوں رات مجھے لے کر سمندر میں بیٹھ جاتی تو میں کیا کرتا!"
"واقعی بڑا حیرت ناک واقعہ ہے فیروز!" جان میری بات کی تائید کرتے ہوئے بولا۔
"سمندروں میں اس سے بھی بڑی مچھلیاں ہوا کرتی ہیں۔ میں صرف سنتا ہی تھا مگر آج دیکھ بھی لیا۔" میں نے خوف کی ایک پھریری لے کر کہنا شروع کیا۔
"اب بھی جب اس لیس دار کھال کا خیال آ جاتا ہے، جس پر لیٹا ہوا تھا تو سچ متلی ہونے لگتی ہے۔"
میری یہ بات سن کر جیک نے مسکرا کر کہا۔
"تم تو صرف یہی باتیں سوچ رہے ہو، لیکن میرا خیال کسی اور ہی طرف ہے۔ غور سے سنو۔ اب مجھے معلوم ہو گیا ہے کہ جہاز کے پیچھے مچھلی کے ساتھ رسی سے لٹکتے ہوئے جب تم مخالف سمت میں بہہ گئے تھے تو پھر بعد میں ہمارے سامنے کیسے آ گئے؟"
"ہاں واقعی یہ بات تو میری سمجھ میں بھی نہیں آئی۔ آپ بتائیے!۔۔۔" میں نے حیرت سے کہا اور جیک کی باتیں توجہ سے سننے لگا۔
"بڑی آسان سی بات ہے۔ تم سجھتے رہے کہ تم جزیرے پر ہو وہ ایک ہی جگہ کھڑا ہوا ہے۔ مگر اب جب کہ یہ بات صاف ہو گئی ہے کہ وہ جزیرہ نہیں بلکہ ایک بہت بڑی مچھلی کی کمر تھی تو حقیقت سمجھ میں آ جاتی ہے، تم ایک ہی جگہ نہیں رکے رہے۔ بلکہ بڑی معقول رفتار کے ساتھ سمندر میں بہتے پھرے ہو مچھلی ایک اچھی رفتار سے سمندر میں گھوم کر ہمارے جہاز کے سامنے ہم سے پہلے پہنچ گئی تھی۔ جس وقت تم اپنی پتلون ہوا میں لہرا رہے تھے اس وقت بھی وہ تیر رہی تھی۔ دراصل وہ کسی وقت بھی ایک جگہ نہیں رکی، ہر لمحہ وہ تیرتی ہی رہی۔ اور تم اس کی کمر پر سوار اسی رفتار سے سمندر میں چلتے رہے۔ چوں کہ مچھلی بہت بڑی تھی اس لئے تم یہ محسوس نہیں کر سکے کہ وہ تیر رہی ہے۔ اسے یوں سمجھو، جیسے کہ ہماری زمین گھوم رہی ہے مگر ہمیں محسوس نہیں ہوتا۔۔۔ بہرحال جو کچھ ہوا وہ تو ہوا، ہمیں اب خدا کا شکر ادا کرنا چاہئے کہ اس بلا سے نجات ملی۔"
"تم ٹھیک کہتے ہو جیک۔" جان نے ایک لمبا سانس لینے کے بعد کہا۔ "واقعی ایسا ہی ہوا ہے۔ درحقیقت ہم ایک بہت بڑی مصیبت میں گرفتار ہونے سے بال بال بچ گئے اور اب وقت آ گیا ہے جب کہ سوچنا چاہئے کہ وہ جزیرہ اب کیسے تلاش کیا جائے؟ مگر نہیں، میں اتنا خود غرض بننا نہیں چاہتا۔ میں نے تم لوگوں کو خواہ مخواہ مصیبتوں کے غار میں دھکیل دیا ہے۔ میری وجہ سے تم بھی تکلیفیں جھیل رہے ہو اس لئے اب میں یہ سوچ رہا ہوں کہ کیا یہ بہتر نہ ہو گا کہ ہم واپس کومورن چلے چلیں اور اس خوفناک سفر کو اسی مقام پر ختم کر دیں؟" جیک نے یہ سن کر جلدی سے جواب دیا "واہ یہ آپ کیا سوچ رہے ہیں۔ یہ تو ہمت ہار دینے والی بات ہوئی مسٹر جان۔"
میں نے بھی سینہ تان کر کہا۔ "نہیں ہمیں ہمت نہیں ہارنی چاہئے، اتنے خطروں سے مقابلہ کرنے کے بعد، اب جب کہ صرف ایک آخری خطرہ باقی رہ گیا ہے اس طرح پیچھے ہٹ جانا میرے خیال میں اچھی بات نہیں۔"
"خیر ارادہ تو میرا یہی تھا۔ مگر تم لوگوں کی تکلیف کے خیال سے ارادہ تبدیل کرنا پڑا۔ اب جیسا تم کہتے ہو، میں وہی کروں گا۔" جان نے خوش ہو کر کہا۔ "لہذا اب ہمارا کام یہ ہے کہ اس جزیرے کو تلاش کرنا ہے جو ہماری آخری منزل ہے اور جس کی پہچان یہ ہے کہ اس کے آس پاس کا پانی گرم ہے۔"
جیک کچھ دیر تک خاموش رہا اور پھر بولا "اسے تلاش کرنے کا کام میرے ذمے چھوڑئیے۔ میں آج ہی ملاح کو ہدایت کر دیتا ہوں کہ وہ تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد پانی میں تیرتا رہے۔ جہاں اس کے بدن کو پانی گرم لگے، فوراً مجھے بتائے۔ اس کے علاوہ ہم دوربینوں کی مدد سے پانی کی سطح کو بھی دیکھتے رہیں گے۔ جس مقام پر بھاپ اٹھتی ہوئی نظر آئے گی، سمجھ لیں گے کہ اس کے قریب ہی وہ جزیرہ ہے۔"
"بالکل ٹھیک تجویز ہے، میرے خیال میں اس سے بہتر کوئی طریقہ ہو بھی نہیں سکتا لہذا ہم ایسا ہی کریں گے۔ جان نے اتنا کہہ کر دوربین پھر اپنی آنکھوں سے لگا لی۔
میں نے کمر سیدھی کرنے کے لئے تختے سے ٹیک لگا لی اور گزرے ہوئے واقعات پر خاموش بیٹھ کر غور کرنے لگا۔ جیک ملاح کو ہدایات دینے کے لئے باہر ڈیک پر چلا گیا اور جان نے اپنے تھیلے میں سے ایک موٹی سی کتاب نکال کر اسے پڑھنا شروع کر دیا۔ ملاح اپنا خوف دور کرنے کے لئے بلند آواز سے کوئی ایسا گانا گا رہا تحا جس کے الفاظ میری سمجھ میں نہ آتے تھے۔ جہاز آہستہ آہستہ ایک نا معلوم منزل کی طرف چلا جا رہا تھا۔ شام ہو رہی تھی اور پرندوں کی آوازیں اس خاموشی میں بڑی پیاری لگ رہی تھیں۔ جلد ہی رات ہو گئی اور ہر طرف ایک سکون سا چھا گیا۔ جیک اور جان دونوں سر جوڑ کر آپس میں کچھ مشورہ کرنے لگے۔ اپنے ساتھ انہوں نے مجھے بھی شامل کرنا چاہا، مگر میں اب اس قدر تھکا ہوا تھا کہ اپنی جگہ سے اٹھنا بھی مجھے دو بھر معلوم ہوتا تھا۔ خدا جانے کب تک وہ دونوں اسی طرح باتیں کرتے رہے۔ کیوں کہ جب میری آنکھ کھلی تو سورج کی کرنیں میرے مونہہ پر پڑ رہی تھیں۔
اسی طرح ایک ایک کر کے کئی راتیں آئیں اور گزر گئیں۔ جہاز اسی طرح طوفانی لہروں کے تھپیرے کھاتا سمندر کے سینے پر تیرتا ہوا نہ جانے کہاں سے کہاں پہنچ گیا! ہم یہ بھی بھول گئے کہ وہ پراسرار جزیرہ کب سمندر میں سے نمودار ہوا کرتا ہے؟ کھانے کا سامان بالکل ختم ہو چکا تھا۔ پانی کا اب ایک قطرہ بھی ہمارے پاس نہیں تھا۔ حلق سوکھ چکے تھے۔ ہاتھ پیروں میں سکت نہ رہی تھی۔ جہاز خود بخود جس طرف اس کا دل چاہتا مڑ جاتا۔ کیوں کہ ملاح تھک کر اس قدر چور ہو چکا تھا کہ اب وہ بادبانوں کی رسیاں بھی نہیں کھول سکتا تھا۔ یہ حالت تھی ہماری۔ ہم نے سمجھ لیا تھا کہ بس اب ہم چند ہی گھنٹوں کے مہمان ہیں۔!
اور پھر یہ اسی دن کا واقع ہے کہ ہم ادھ مرے سے، جہاز کے کٹہرے کا سہارا لئے بیٹھے تھے کہ یکایک ملاح بری طرح چلایا۔ جان نے اسے حیرت سے دیکھا تو وہ کسی طرف اشارہ کر رہا تھا۔ اس کی انگلی کی سیدھ میں جب ہم نے نظر جما کر دیکھا تو سمندر کی لہروں پر چند چھوٹی چھوٹی مچھلیوں کو مرا ہوا پایا۔ نگاہ جب آگے بڑھی تو سمندر کے درمیان ایک جگہ ہمیں ہلکی سی کہر دکھائی دی۔ بالکل ایسی ہی جیسے دھواں سردی کھا کر جم گیا ہو۔ ملاح نے جان کا حکم پا کر جلدی سے بادبانوں کا رخ پھیر کر جہاز کا مونہہ اس طرف کر دیا جہاں وہ کہر نظر آئی تھی اور پھر ہمارا جہاز آہستہ آہستہ اس طرف روانہ ہوا جہاں شاید ایک بہت بڑا خطرہ چھپا ہوا ہماری راہ دیکھ رہا تھا!
جیسے جیسے ہم کہر کی طرف بڑھتے گئے، کہر کا حجم بھی بڑھتا گیا۔ دور سے ہمیں یہ ایک چھوٹی سے لکیر نظر آتی تھی مگر اب معلوم ہوتا تھا کہ میلوں تک پھیلا ہوا یہ عجیب سا دھواں سمندر کے سینے پر ایک دیوار بن کر کھڑا ہوا ہے۔ ہم ٹکٹکی لگائے سامنے دیکھ رہے تھے۔ دل بری طرح دھڑک رہے تھے، سانس بہت تیز ہو گئے تھے اور کسی بھی وقت ہم ایک بھیانک حادثے سے دو چار ہونے کے لئے خود کو تیار کئے ہوئے کھڑے تھے۔ سمندر کے پانی پر مری ہوئی مچھلیوں اور دوسرے سمندری جانوروں کی تعداد بڑھتی ہی جا رہی تھی۔ اس لحاظ سے میری یہ پیش گوئی سچ ثابت ہوئی تھی کہ جزیرے کے آس پاس کا پانی کافی گرم ہو گا۔ اس کی تصدیق ملاح پانی میں ہاتھ ڈال کر پہلے ہی کر چکا تھا۔ کسی خطرے کے آنے سے پہلے دل کی جو حالت ہوا کرتی ہے وہی ہو بہو ہماری تھی۔ سانس سینے میں گھٹے ہوئے محسوس ہوتے تھے۔ چہروں کا رنگ زرد پڑ گیا تھا اور بالکل خاموش اور چپ چاپ کھڑے ہم حیرت زدہ نظروں سے دھوئیں کی اس دیوار کو دیکھ رہے تھے جو دم بہ دم ہمارے قریب ہوتی جا رہی تھی۔ جان اور جیک نے اپنے پستول ہاتھوں میں لے لئے میں بھی دوڑ کر اپنا ریوالور نکال لایا اور اب ایک طرح سے ہم اس ان جانے خطرے کا مقابلہ کرنے کو تیار ہو گئے تھے!
وہ دھواں اب ہم سے مشکل سے کوئی تیس گز رہ گیا تھا۔ ملاح نے بادبان قابو میں کر رکھے تھے۔ کیوں کہ اس کا خیال تھا کہ اسے کسی بھی وقت جہاز کے لوٹانے کا حکم مل سکتا ہے۔ آہستہ آہستہ جہاز اس دھوئیں کی طرف بڑھتا گیا اور پھر آخرکار دھوئیں کی چادر عبور کر کے اس سے آگے بڑھ گیا۔ اچانک ایک عجیب قسم کی بو ہمیں محسوس ہوئی۔ ایسا لگتا تھا جیسے کہ ہم گہرے بادلوں سے ڈھک گئے ہوں۔ دس فٹ دور کی چیز بھی آنکھیں پھاڑ کر دیکھنے کے باوجود دکھائی نہ دیتی تھی۔ سفید دودھیا رنگ کا دھواں ہر طرف چھایا ہوا تھا اور چوں کہ اس جگہ کا پانی کافی حد تک گرم تھا۔ لہذا پانی سے ہلکی ہلکی سی بھاپ بھی اٹھ رہی تھی۔ جہاں ہمیں اس بات کی خوشی تھی کہ ہم منزل مقصود تک آ گئے ہیں، وہیں یہ ڈر بھی تھا کہ دیکھئے اب قسمت کیا گل کھلاتی ہے؟
جہاز برابر آگے بڑھتا جا رہا تھا۔ ہمیں اپنے ہر طرف ایک دھند سی نظر آتی تھی۔ سورج کی تیز روشنی بھی اس دھند کے پار نہیں گزر رہی تھی، اس لئے دن کے بارہ بجے بھی ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے کہ شام ہو گئی ہو! جان نے ملاح کو حکم دیا کہ وہ سب بادبان کھول دے تاکہ ہم جلد سے جلد اس مقام سے آگے بڑھ سکیں، کیوں کہ اس جگہ دم سینے میں گھٹتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ ملاح نے حکم کی تعمیل تو کی مگر جہاز کی رفتار بڑھنے کی بجائے اور گھٹ گئی۔ جان نے جب ملاح سے اس کی وجہ پوچھی تو اس نے جواب دیا کہ وہ بالکل نہیں جانتا کہ سب بادبانوں کے کھول دینے کے بعد جہاز اتنا آہستہ کیوں چل رہا ہے؟
لیکن پھر جلد ہی اس کی وجہ بھی معلوم ہو گئی۔ کیوں کہ چلتے چلتے جہاز اچانک پانی کے اندر کسی چیز سے ٹکرایا اور پھر چند ہچکولے لے کر رک گیا۔ ہم نے جلدی سے نیچے جھانک کر دیکھا تو خوشی کے مارے دل دھڑکنے لگا۔ جہاز کے نچلے حصے کے آس پاس کچھ ہرے پتے نظر آ رہے تھی۔ جان نے ہمیں بتایا کہ دراصل ہم اس خوف ناک جزیرے کی زمین پر پہنچ گئے ہیں۔ ہمارا جہاز کسی چٹان سے ٹکرا کر رک گیا ہے اور چٹان پر یقیناً درخت بھی اگے ہوئے ہیں۔ اس بات کا جب مکمل یقین ہو گیا تو ملاح نے بادبان اتار کر لنگر ڈال دیا اور پھر ہم سہمے ہوئے انداز سے آنکھیں پھاڑ کر ادھر ادھر دیکھنے لگے۔!
"یہی ہماری آخری منزل ہے۔" جان نے کچھ سوچ کر کہنا شروع کیا:
"اس جزیرے میں ہی کہیں وہ مکھی رہتی ہے، جس کی گرمی کے باعث سمندر کا اتنا حصہ بے حد گرم ہے اور گرمی ہی کی وجہ سے پانی میں سے لگاتار بھاپ اٹھ رہی ہے۔ یہی بھاپ دور سے ہمیں دھواں نظر آتی تھی۔ پہلے ہمارا جہاز جزیرے پر اگے ہوئے درختوں سے الجھتا ہوا آگے بڑھتا رہا۔ اسی لئے اس کی رفتار ہلکی تھی۔ لیکن اب جس وقت یہ جزیرہ سے اوپر ابھرے گا، ہم لوگ بھی پانی کی سطح کے ساتھ ساتھ نیچے ہوتے جائیں گے اور جزیرے کی زمین سے لگ جائیں گے۔ جب ہمارے قدم زمین کو چھو لیں گے تب ہم سوچیں گے کہ پھر ہمیں کیا کرنا ہے۔ فی الحال تو ہمیں یہ سوچنا ہے کہ جزیرہ کب ابھرے گا اور آخر کب تک ہم اس گہری دھند میں آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھتے رہیں گے۔؟"
"اگر حساب لگایا جائے تو جزیرہ کل یا پرسوں رات کو سمندر میں سے ابھرے گا۔" جیک نے جواب دیا۔
"اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہمیں دو تین دن تک اس گندی فضا میں اور سانس لینا پڑے گا۔" جان نے سوچتے ہوئے کہا۔ "اچھا۔ خیر یہی سہی، اس کے علاوہ اور کوئی طریقہ بھی تو نہیں ہے۔ ہم اپنے کیبن کے اندر بیٹھ کر ہی یہ عرصہ گزاریں گے۔" جان یہ کہہ کر کیبن میں چلا گیا۔۔۔ اور اس کے پیچھے پیچھے ہم دونوں بھی گئے۔ اندر جا کر پھر آپس میں بحث ہونے لگی۔ جیک کہہ رہا تھا کہ جزیرے کے بلند ہونے پر اگر وہ خوف ناک مکھی نظر آ گئی تو اس سے بچنے کا طریقہ کیا ہو گا؟ یہ ہمیں ابھی سے سوچ لینا چاہیے۔ جان نے اس کا جواب یہ دیا کہ جب تک ہم میں سے کسی کو یہ معلوم نہ ہو جائے کہ مکھی کیسی ہے، کتنی بڑی ہے، اس کی کیا خاصیتیں ہیں، ہم کچھ نہیں کر سکتے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ کتابوں کے ذریعے ہمیں اس کے بارے میں پوری واقفیت ضرور ہے۔ مگر ابھی تک ہم نے اسے اپنی آنکھوں سے تو نہیں دیکھا؟ اس لئے پہلے سے کچھ نہیں کہہ سکتے۔ کافی دیر تک اس قسم کی باتیں ہوتی رہیں۔ چونکہ اب جزیرے تک آ جانے کے بعد ہمیں کوئی خطرہ نظر نہ آتا تھا، اس لئے جلد ہی ہم اپنے بستروں میں جا لیٹے۔ دھند گہری ہوتی جا رہی تھی اور اندھیرا بڑھتا ہی جا رہا تھا۔ اس سے ہم نے اندازہ لگایا کہ شام ہو رہی ہے اور رات آنے والی ہے۔ آنکھیں آپ ہی بند ہونے لگیں۔ اور پھر ہم گہری نیند سو گئے۔
صبح جب میری آنکھ کھلی تو سورج کی پہلی کرنیں کیبن کے اندر آ رہی تھیں۔ میں نے کھڑکی میں سے جھانک کر باہر دیکھا تو ملاح ابھی تک سو رہا تھا۔ جان اور جیک بھی اپنے اپنے پستولوں پر ہاتھ رکھے میٹھی نیند کے مزے لے رہے تھے۔ میرے جی میں آئی کہ باہر چل کر دھند کے پار کچھ دیکھنا چاہیئے۔ شاید کوئی ایسی خاص بات معلوم ہو جائے جو آگے پیش آنے والے واقعات اور خطرات کو دور کر سکے۔ یہ سوچ کر میں نے آہستہ سے دروازہ کھولا اور باہر ڈیک پر آ گیا۔ مگر یہ دیکھ کر مجھے بڑی حیرت ہوئی کہ سمندر پر سے وہ دھند اب غائب تھی اور دور دور تک نیلا آسمان دکھائی دے رہا تھا۔ جوش اشتیاق میں میں اور آگے بڑھا۔ مجھے یقین تھا کہ جہاز ابھی تک اسی چٹان کے سہارے کھڑا ہوا ہو گا اور درختوں کی پتیاں نظر آ رہی ہوں گی۔ دل نے خواہش کی کہ اب یہ دیکھنا چاہئے کہ بغیر دھند کے وہ چیزیں کیسی نظر آتی ہیں؟ یہ خواہش پوری کرنے کی خاطر میں نے جھک کر نیچے دیکھا۔۔۔ مگر آہ، یہ کیا۔۔۔؟ خوف کے باعث میرے حلق سے ایک گھٹی ہوئی چیخ نکلی اور میں سہم کر جلدی سے پیچھے ہٹ گیا۔ میرے جسم پر لرزہ طاری تھا اور کمزوری کے باعث ٹانگیں لڑکھڑا رہی تھیں۔
میری چیخ سن کر ملاح بھی جاگ پڑا۔ مجھے اس حالت میں دیکھ کر جلدی سے وہ میرے پاس آیا، میں نے ہاتھ کے اشارے سے کہا کہ وہ بھی جھک کر دیکھے۔ اس نے جب خود جھک کر جہاز کے نیچے دیکھا تو دہشت کی وجہ سے وہ بھی چلانے لگا۔


Novel "Khofnak Jazirah" by: Siraj Anwar - episode:20

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں