ہمیں غرورِ جہل نے مارا ہے - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2018-06-04

ہمیں غرورِ جہل نے مارا ہے

laureates-of-the-past
دورِ گزشتہ کے بزرگوں کا دبدبہ عجب تھا، وہ جو مشہور ہے کہ ناک پر مکھی نہیں بیٹھنے دیتے تھے، یہ محض محاورہ نہیں واقعتاً ایسے ہی ہوتے تھے اُس زمانےکے بزرگ ۔ اب ہمارا زمانہ ہے کہ معمر ایک نہیں بیشمار مل جائیں گے مگر بزرگ ڈھونڈتے رہیے۔ کئی برس پہلے کی غزل کا یہ مصرع بھی زبان پر آگیا ہے:
"اب بزرگی کا موسم نہیں آئے گا "
لفظ حقیقت بھی بن جاتے ہیں، یہ سنا ہی نہیں دیکھا بھی ہے۔ جن بزرگوں اور جس زمانے کا ذکر ہو رہا ہے وہ زمانہ اور ان لوگوں کو بزرگی یا وقار جو حاصل تھا وہ یوں ہی نہیں اس کے پیچھے ا ن کا کردار و عمل بنیاد تھا۔ آپ نے سنا ہوگا :
خدا جب حسن دیتا ہے نزاکت آہی جاتی ہے
بزرگوں کی تمنکت اور نزاکت بھی ایک تاریخ ہے۔ فنا ؔ نظامی کانپوری سے روایت ہے کہ
" علامہ سیماب اکبرآبادی کانپور میں مقیم تھے میری شاعری کا ابتدائی زمانہ تھا، مبتدی تھا۔ سیمابؔ صاحب کا شہرہ تو تھا ہی، اُن سے تلمذ ایک وقار اور عزت کی بات بھی تھی، اُس زمانے میںمبتدی کی عزت اُستاد ہی کی نسبت سے ہوتی تھی۔ مجھے خیال گزرا کہ سیماب صاحب کے حلقۂ تلمیذ میں شامل ہو جاؤں ، اس خیال سے اُن کی مجلس میں حاضر ہوا، تلامذۂ سیماب حلقہ بنائے ان کے اِردگرد با ادب بیٹھے ہوئے تھے، میں بھی جا بیٹھا مگر خاصی دیر ہوگئی نہ تو اُن کے کسی شاگرد نے اور نہ ہی خود سیماب صاحب نے میری حاضری کا کوئی نوٹس لیا ۔ تمام حاضرین خموش مؤدب بیٹھے رہے، میری سمجھ میں نہیں آیا کہ ادب کی یہ کون سی منزل ہے!! میری طبع نے اس نزاکت یا تمکنت کو قبول نہیں کیا اور میں مجلسِ سیماب سے باہر نکل آیا۔"
اس وقت مجروح صاحب (سلطانپوری) بھی اپنی تمکنت اور وقار کے ساتھ ذہن میں جلوہ افروز ہیں۔ بزرگ بتاتے تھے کہ ممبئی کے محمد صابوصدیق پالی ٹیکنک گراؤنڈ میں مشاعرہ تھا جس میں اُس معاشرے کے ہیرو جگر مرادآبادی، مجروح سلطان پوری اور شکیل بدایونی کو لے کر آئے تھے اور ممبئی والوں کو مخاطب کر کے کہا تھا کہ یہ (مجروح و شکیل) میری دو آنکھیں ہیں جو میں ممبئی والوں کو پیش کر رہا ہوں۔
روایت ہے کہ اسی مشاعرے میں مشہور زمانہ فلمساز اے آر
( عبد الرشید) کاردار بھی شریک تھے اور انھیں مجروح اس قدر پسند آئے کہ اُنہوں نے اپنی فلم میں انھیں نغمے لکھنے کی پیشکش کر دِی۔
جگر مرحوم سے مجروح و شکیل ہی نہیں ایک زمانہ متاثر تھا، اگر آپ نے جگر ؔکو نہیں سنا ہو تو یو ٹیوب پر ضرور سنیے اور پھر مجروح صاحب کی غزل سرائی یاد کیجئے آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ مجروحؔ پر جگر صاحب کا کتنا اثر رہا ہوگا ، دراصل جگر ایک خاص ادبی دَور کے افسانوی کردار تھے۔
پھر عرض ہے کہ اللہ نے اُن کا اقبال اس قدر بلند کر رکھا تھا کہ آج ہم سوچتے ہیں تو حیرت ہوتی ہے کہ وہ زمانہ جس میں شرافت کے اپنے معیار تھے، جگر جیسا رندِ بلا نوش اور اس وقت کے بڑے بڑے اللہ والے ان پر دادودہش کے ڈونگرے برساتے تھے۔ وہ کون ادب دوست ہوگا جسے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے رشید احمد صدیقی نہ یاد ہوں، رشید احمد صدیقی کا وقارِ علمی و شخصی مشہور تھا ، جگر کے جیسے مداح وہ تھے کون رہا ہوگا، جگر اُن لوگوں کو اپنی تمام تر مے نوشی کے ساتھ محبوب تھے۔ اصل میں جگر ؔکو قدرت نے بلندی اور مقبولیت کی جس منزل پر پہنچا رکھا تھا کہ ویسی منزلت کسی کسی ہی کو نصیب ہوتی ہے۔ ایک جملےمیں بس یہی عرض ہے کہ جگر اپنی تمام تر رِندی اور سر مستی کے باوجود اُس دور کے شرفا کے ہیرو تھے ۔ اُس دورمیں شراب نوشی نہایت معیوب سمجھی جاتی تھی مگر اسے کیا نام دِیجیے گا کہ جگر نہایت مدہوشی میں قدم رکھتے کہیں تھے اور پڑتے کہیں تھے، یہ حال تھا مگر ان کے مداح انھیں ہاتھوں ہاتھ لیے رہتے تھے جیسے ہی مشاعر ے گاہ میں وہ داخل ہوتےتھے تو ایک شور اُٹھتا تھا کہ جگر صاحب آگئے جگر صاحب۔۔۔!!

جگر کے کلام اور ان کے اندازِ بیان کا جو اثر تھا وہ اپنی جگہ مگر اُن کا کردار اور شخصیت بھی بڑی مقناطیسی تھی۔ یہاں اس بات کو نظر انداز نہیں کیاجاسکتا کہ اس دَور کے خواص ہی نہیں عوام کا بھی ذوق و شوق اور ان کی فہم بلند تھی۔ ایک فلم ساز گزرے ہیں( عامرخان کے چچا ) ناصر حسین، ان کی فلموں کا آغاز یعنی ان کے بینر کے ساتھ جگر کا یہ شعر پردۂ سیمیں پر گونجتا تھا:
کیا حسن نے سمجھا ہے کیا عشق نے جانا ہے
ہم خاک نشینوں کی ٹھوکر میں زمانا ہے
اسی طرح مشہور فلم ساز محبوب خان کی فلم بھی اس شعر سے شروع ہوتی تھی:
مدعی لاکھ برا چاہے تو کیا ہوتا ہے
وہی ہوتا ہے جو منظورِ خدا ہوتا ہے
ان مثالوں سے آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ اُس معاشرے میں شعر و ادب کس قدر دخیل تھا۔ جسے شعر و ادب سے شغف نہ ہو وہ کہا تو نہیں جاتا تھا مگر جاہل سمجھا ضرور جاتاتھا۔ نہایت معمولی قسم کے لوگوں کا بھی شین، قاف ، عین غین وغیرہ کا تلفظ ہی نہیں فہم بھی بلند ہوتی تھی، کسی کی شہرت و عزت کا پیمانہ ا س کا علم و کردار ہواکرتا تھا نہ کہ دولت و ثروت۔

مدنپورے (ممبئی ) کے ایک بزرگ نظرؔ مالیگانوی کا اللہ نے ایسا اقبال بلند کر رکھا تھا کہ جنہوں نے دیکھا ہے وہ بتاتے ہیں کہ نظرؔ بابا اپنے خاص لباس لنگی اور کرتے میں رہتے تھے اور اسی ملبوس میں مشاعرے میں بھی ان کی شرکت ہوتی تھی جگر صاحب ان کی عزت و تکریم یوں کرتے تھے کہ انھیں ( نظر بابا کو) اپنے ساتھ بٹھاتے تھے۔ اس دور کے ہوٹلوں کی دیواروں کے شیشوں پر اعلیٰ درجے کے مناظر اور اعلیٰ درجے کے اشعار سے آرائش و زیبائش ہوتی تھی۔ دو ٹانکی(ممبئی) کے مشہور یو پی اسٹار ہوٹل کے اندر ونی شیشوں پر نہایت عمدہ مناظر ( سینریز) اور عمدہ اشعار ہم نے خود دیکھے اور پڑھےہیں۔ اُسی وقت کا پڑھا ہوا یہ شعر جو نظر مالیگانوی کا نتیجۂ فکر ہے اور ہماری یادداشت کو اب تک روشن کیے ہوئے ہے:
پیری کا ہو سکا نہ جوانی میں اعتبار
حالانکہ سامنے سے گزرتی رہیں بہار

اُس زمانےکے بزرگ( دورِ حاضر کے مقابل) اپنے مال و متاع میں تو کمزور تر تھے مگر اپنے علم و کمال میں اکثر نہایت متمول تھے اور عوام جو شدید غربت کے مارے تھے مگر ذوق و شوق اور بزرگوں کی عزت و توقیر میں کوئی دقیقہ اٹھا نہیں رکھتے تھے۔ مجروح صاحب ہی سے روایت ہے کہ کسی مشاعرے میں انہوں نے ایک شعر سنا ، انھیں وہ اس قدر پسند آیا کہ اس مفہوم کو وہ خود بھی شعر بنانے کی کوشش میں لگے ہوئے تھے۔
مجروح ہی کے گھر میں جگر صاحب مہمان تھے، دوپہر گزر رہی تھی کہ جگر صاحب نے مجروح کو آواز دِی کہ:
"میاں ! صبح سے کیا بھِن بِھن لگا رکھی ہے۔؟"
مجروح صاحب نے جواباً عرض کیا کہ میں نے فلاں شاعرکا ایک شعر سنا ہے ، چاہتا ہوں کہ اس شعر کو میں بھی اپنے طور پر کہوں اور اسی کوشش میں صبح سے گنگنا رہا ہوں۔ جگر صاحب نے اس وقت مجروح کی جس طرح سرزنش کی یا درس دِیا کہ
" میاں! پہلے اپنا شعر تو کہہ لو بعد میں دوسروں کا شعر کہتے رہنا۔"

پھر عرض ہے کہ یہ پورا واقعہ خود مجروح صاحب نےہمیں سنایا تھا، یہ بات بظاہرچھوٹی سی ہے مگر اس میں واقعی ایک بڑا سبق ہے کہ
" پہلے اپنا( شعر) تو کہہ لو۔"

مجروح سلطانپوری کی شاعری جس پر لوگ باگ نے مقدار کی کمی کا طعنہ بھی دِیا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ مجروحؔ نے ترقی پسندوں میں رہ کر غزل کی زلفوں کو سلیقے بلکہ اپنے سلیقے سے سنوارا ہے ، جو ایک تا ریخ ہے۔ مجروح کے نام کے ساتھ ’ خان‘ کا لاحقہ سب کے علم میں ہے اور ان کے مزاج کی تمکنت بھی ۔ انھیں فلم کا سب سے بڑا اعزاز جو دادا صاحب پھالکے سے موسوم ہے ریاستی سرکار نے دِیے جانے کا اعلان کیا۔ مجروحؔ صاحب نے کسی سرکاری تقریب میں اس ایوارڈ کو قبول نہیں کیا، سو اُس وقت کے وزیر ثقافت(مہاراشٹرا) پرمود نولکر نے ان کے دولت خانے پر حاضر ہو کر بلکہ اپنی پوری سنسکرتی ( تہذیب)کے ساتھ مجروحؔ کے پیر چھوکر دادا صاحب پھالکے ایوارڈ انھیں پیش کیا تھا۔ بڑائی بڑوں کو تسلیم کرنے سے بھی ملتی ہے یہ بات رفتگاں خوب جانتے ہی نہیں مانتے بھی تھے ۔

اب ہم ہیں کہ بڑائی کے مرض کا شکار ہیں بلکہ ایک طرح کے سرطان میں مبتلا ہیں نتیجہ معلوم۔۔۔
ہزاروں ہزار کے لفافوں پر لفافے وصول کر رہے ہیں مگر جسے بزرگی یا اقبال مندی کہتے ہیں وہ ہماری طرف دیکھنے کی بھی روادار نہیں،۔۔۔ کیوں کہ ہمیں غرورِ جہل نے مارا ہے اور اس کا مارا ۔۔۔۔۔۔۔۔!!

***
Nadeem Siddiqui
ای-میل : nadeemd57[@]gmail.com
ندیم صدیقی

The laureates of the past. Article: Nadeem Siddiqui

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں