سقوط حیدرآباد کی خون ریز کہانی - پنڈت سندرلال کی زبانی -5 - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2018-04-25

سقوط حیدرآباد کی خون ریز کہانی - پنڈت سندرلال کی زبانی -5


Fall-of-Hyderabad-Pt-Sunderlal-Report
سقوط حیدرآباد کے ساتھ ہی جو قیامت صغریٰ برپا کی گئی اس کا جائزہ لینے کے لیے اس وقت کے وزیراعظم ہند پنڈت جواہرلال نہرو نے پنڈت سندر لال کی قیادت میں ایک سہ رکنی وفد روانہ کیا تھا۔ اس وفد نے جو رپورٹ تیار کی تھی، اس کی چار قسطیں (قسط-1 ، قسط-2 ، قسط-3 ، قسط-4) آن لائن "تعمیر نیوز" میں بحوالہ روزنامہ "اعتماد" فروری 2014 میں شائع کی گئی تھیں۔
اب باقی 3 اقساط بھی ملاحظہ فرمائیں۔ مابقی اقساط کی تاخیر سے اشاعت کے لیے قارئین سے معذرت خواہ ہیں۔

کل ہند مجلس اتحاد المسلمین کی جانب سے صدر و رکن پارلیمنٹ اسد الدین اویسی نے گروپ آف منسٹرس کو حیدرآباد کے سیاسی موقف پر ایک ایسی ضخیم دستاویز پیش کی ہے جس کے کچھ تاریخی پہلو اب تک بہت کم منظر عام پر آئے ہیں۔
ان تاریخی پہلوؤں میں پنڈت سندرلال کی وہ رپورٹ بھی شامل ہے جس سے اس بات کا ثبوت ملتا ہے کہ سقوط حیدرآباد کے نام پر کس طرح سلطنت آصفیہ کے حدود میں قیامت صغریٰ برپا کی گئی۔ سقوط حیدرآباد کو ہوئے 65 سال گزر چکے ہیں لیکن حکومت ہند نے پنڈت سندر لال کی اس رپورٹ کو باقاعدہ طور پر منظر عام پر نہیں لایا۔ اسدالدین اویسی نے کافی محنت اور جستجو کرتے ہوئے اس رپورٹ کو محفوظ اسنادات سے نکال کر اس کے ذریعے حیدرآباد کا مقدمہ پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس رپورٹ میں کیا درج ہے ، اس کو سات (7) قسطوں میں پیش کیا گیا ہے۔
- ایم اے ماجد (اعتماد نیوز ، یکم/ دسمبر 2013)

رازداری نوٹس:
ریاست حیدرآبادمیں ملٹری اڈ منسٹریشن کی جانب سے امن قائم کرنے کے باوجود فرقہ وارانہ بے اعتمادی کی خبروں کے حصول کو دیکھتے ہوئے ایک خیر سگالی مشن حکومت ہند کی ایماء پر دہلی سے حیدرآباد روانہ ہوا ۔ یہ مشن پنڈت سندر لال، قاضی عبدالغفار، مولانا عبداللہ مصری کے علاوہ اس مشن میں شامل سکریٹریز مسٹر فرخ سیر شاکری اور مسٹر پی پی امبولکر پر مشتمل تھا۔

یہ وفد29نومبر1948کو دوپہر میں حیدرآباد پہنچا۔ اپنی آمد کے بعد آدھا دن اور30نومبر کا بڑا حصہ اس مشن نے حیدرآبادمیں پناہ گزینوں کے کیمپس کے معائنہ میں گزرا ۔ شہر کے ہندو اور مسلمان شرفاء سر برآوردہ شہریوں کی ایک قابل لحاظ تعدادسے ملاقات بھی کی ۔ 30نومبر کی شام ملٹری گورنر میجر جنرل جے ایم چودھری کی دعوت پر پنڈت سندر لال اور قاضی عبدالغفار ریاست کے متاثرہ اضلاع میں سے چند اضلاع کے دورہ پر روانہ ہوئے ۔ اور اس دورہ میں ملٹری گورنر بھی ان کے ہمراہ تھے ۔ یہ وفد جیب میں چند صد میل کا دورہ کرتے ہوئے بیدر، لاتور، اودگیر کے اہم ٹاؤنس اور بے شمار دیگر مواضعات کا دورہ کیا۔ ابتدائی چار مقامات پر ملٹری گورنر کے صلاح پر پنڈت سندر لال نے چند ثانیوں کے لئے ہر مقام پر بڑے اجتماعات جو ملٹری گورنر کے اعزاز میں رکھے گئے تھے میں شرکت کی اور خطاب کیا۔ ان مقامات پر فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی اپیلیں کی گئیں ۔ عوام کویہ تیقن دیا گیا کہ ہند۔ یونین کی جانب سے یہاں جو ملٹری اڈمنسٹریشن قائم کیا گیا ہے وہ ایک سیکولر نظم و نسق ہے جہاں عوام بلا لحاظ ذات پات، عقیدہ، مساویانہ شہری حقوق اور اپنے عقائد اور اس پر عمل کی پوری آزادی کے مستحق ہیں ۔ وفد کے ارکان کو یہ دیکھ کر اطمینان ہوا کہ ان نشستوں اور اجلاسوں میں ہندو اور مسلمان دونوں پوری آزادی کے ساتھ گھل مل کر دیکھے گئے اور وہ اچھے پڑوسیوں کی طرح مل کر رہنا چاہتے ہیں ۔ پنڈت سندر لال اور قاضی عبدالغفار یکم دسمبر کی شب حیدرآباد واپس ہوئے ۔ (دوران راہ ضلع نلگنڈہ و دیگر علاقوں کا بھی دورہ کیا۔) 2دسمبر سے آئندہ چار دن حیدرآباد میں گزرے جہاں عوام کی بڑی تعداد جن میں ہندو، مسلمان ، سرکاری و غیر سرکاری عہدیدار، کانگریس و دیگر طبقات سے تعلق رکھنے والے شامل تھے ۔ سے ملاقاتیں ہوئیں۔ بے شمار خانگی نشستوں اور جلسوں سے خطاب ہوا۔

6دسمبر کو اس مشن کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ۔ ایک حصہ پنڈت سندر لال ، قاضی عبدالغفار، مسٹر امبولکر اور حیدرآباد سے تعلق رکھنے والے چند مقامی شرفاء پر مشتمل تھا ۔ دوسرا حصہ مولانا عبداللہ مصری، مسٹر فرخ سیر اور دیگر چند مقامی دوستوں پر مشتمل تھا ۔ وفد کے پہلے حصہ والی جماعت نے اضلاع بیدر ، گلبرگہ، عثمان آباد ، ناندیڑ اور میدک کا دورہ کیا ۔ دوسری جماعت نے گلبرگہ، بیدر، عثمان آباد ، بیڑ اور نگ آباد کے اضلاع کا دورہ کیا۔ وفد کی یہ دونوں جماعتیں 12دسمبر کو حیدرآباد واپس ہوئیں۔

6دسمبر سے12دسمبر تک ایک ہفتہ کے دوران ان دونوں جماعتوں نے چھوٹے بڑے51مقامات کا دورہ کیا اور اس کے علاوہ150سے زائد مواضعات میں موجودہ صورتحال سے متعلق شواہد حاصل کئے۔ ہم نے150سے زائد عینی شواہدین سے شہادتیں حاصل کیں جن میں ہندو، مسلمان عہدیداران ، کانگریسی و دیگر شامل ہیں۔ شخصی طور پر دوہری تعداد سے حالات معلوم کئے گئے ۔ کچھ واقعات میں عینی شاہدین کی خواہش پر ہماری اپنی مساعی پر بند کمروں میں معلومات حاصل کی گئیں۔ دیگر واقعات میں عوام کے گروپ کے درمیان بھی واقعات کی جانچ کا کام انجام دیا گیا۔ہم نے جو شواہدین کے بیانات کو ضبط تحریر کیا ہے ان میں خواتین کی ایک بڑی تعداد بھی شامل ہے ۔

13سے19دسمبر کے دوران ہم حیدرآباد میں رہے ۔ ہم نے جو شواہد اکٹھا کئے تھے ان کی تنقیح میں کچھ وقت گزرا اور کچھ وقت لوگوں سے ملاقات میں۔ ہم نے کئی عوامی نشستوں اور جلسوں سے بھی خطاب کیا ۔ ان تمام مواقعوں پر ہمارے خطاب کا لب لباب نظم و نسق کے سیکولر ہیئت کی عوام میں وضاحت کرنا اور انہیں یہ یقین دلانا کہ انہیں مساویانہ مواقع اور مساویانہ حقوق حاصل ہوں گے ۔ ہم نے عوام سے یہ بھی اپیل کی کہ وہ ماضی کو فراموش نہ کریں ۔ امن کو بنائے رکھیں اور طبقات کے درمیان مکمل بہتر تعلقات کوبنائے رکھیں۔ ہم نے جو تحقیقات کی ہیں اس کے نتیجہ کے طور پر ہم ذیل میں اختتامیہ مرتب کررہے ہیں۔

وقار الامراء مرحوم اور آنجہانی مہاراجہ کشن پرشاد کے عہد میں، چند ایک دہے قبل بھی جہاں تک مختلف طبقات کے درمیان تعلقات کا معاملہ ہوحیدرآباد تقریبا ایک مثالی مقام ماناجاتا تھا ۔ ہم یہاں حقائق اور ان کی تشریحات میں جانا نہیں چاہتے ۔ بتدریج موجودہ نظام( حضور نظام نواب میر عثمان علی خاں بہادر) کے مطلق العنان حکومت آگے بڑھتی رہی۔ نچلی سطح سے بالائی سطح تک کرپشن میں اضافہ ہوا ۔ حتی کہ نسبتاً چھوٹے عہدے بھی حکمران کی جانب سے زیادہ بولی دہندگان کو ہراج کئے جاتے تھے ۔ ان حالات میں کار کردگی کا زیادہ سے زیادہ متاثر ہونا یقینی تھا۔ اچھے وزراء جیسے سر اکبر حیدری اور سرمرزا اسمعیل خود کو بے یارومددگار سمجھنے لگے ۔ بے خوف و نڈر آریہ سماجی ریاست کے باہر سے داخل ہونے لگے ۔ وہ اپنی تقاریر کی آزادی اور اپنے عمل کی آزادی کے دعوے کے ساتھ دوسرے طبقات بالخصوص ہندوستنا میں اسلام کے عروج کو شدید تنقید کا نشانہ بنانے لگے ۔ آریہ سماجیوں کی سر گرمیوں پر ہندوستان کے مختلف علاقوں سے مولوی بھی بے داغ ہونے لگے ۔ مناظرے ہونے لگے ۔ تقاریر کا جواب تقاریر سے دیاجانے لگا۔ حکومت کو تقاریر کی آزادی کم کرنا پڑا اور دیگر اقدامات کئے گئے ۔ ان کے احکامات و فرمان تمام پر لاگو تھے لیکن موجودہ صورتحال میں یہ بات فطری معلوم ہوتی ہے کہ مسلمان جلسے جلوسوں کے لئے بہ آسانی اجازت حاصل کرپاتے ۔ جب کہ ہندو یا آریہ سماجیوں کے لئے ایسا نہیں ہوپاتا۔1935ء میں آریہ سماجیوں نے ستیہ گرہ کی ۔ یہ شہری اور مذہبی آزادی کی جدوجہد کے لئے تھی ۔ حیدرآباد میں مذہبی عدم رواداری سے متعلق بے بنیاد اور لغو باتیں بڑھا چڑھا کر سارے ملک میں پھیلائی جانے لگی۔ یوں توں کرکے یہ ستیہ گرم ختم ہوئی ۔ عوام کے درمیان ایک ایسا طبقہ بھی تھا جو مکمل غیر فرقہ وارانہ خطوط پر ایک ذمہ دار حکومت کے لئے تحریک چلانا چاہتا تھا ۔مہاتما گاندھی نے عمداً ان کوپس پشت رکھا اس لئے کہ جس طرح فرقہ ورایت کا کھیل کھیلاجارہا تھا وہ کہیں اس میں شامل نہ ہو جائے ۔ اس کے فوری پر ریاست کانگریس نے ایک ذمہ دار حکومت کے قیام کے لئے تحریک شروع کی ۔ یقینی بات ہے کہ نظام (حضور نظام) نے اس کو کچلنے کی کوشش کی ۔ پوری آبادی میں ریاست کے ہندووں کا تناسب 85 فیصد تھا ۔
ہندوستان بھر میں جو فرقہ وارانہ تقسیم ہے بے اعتماری پھیلی ہوئی تھی اس سے حیدرآباد کا بچنا ممکن نہیں تھا ۔ مسلمانوں کو یہ خوف تھا کہ حیدرآباد میں ایک ذمہ دار حکومت کا مطلب اکثریتی طبقہ کی حکمرانی یعنی ہندو راج ۔ عام طور پر مسلمانوں نے ذمہ دار حکومت کے لئے ریاستی کانگریس کی تحریک کی مخالفت کی اور ایسے ہی وقت اسٹیٹ کانگریس نے اپنی یہ تحریک شروع کی ۔ عملی طور پر یہ تحریک فرقہ وارانہ خطوط پر مبنی ہوگئی ۔ ریاست حیدرآباد میں اس تحریک کو کچل دئیے جانے کے اندیشوں کے سبب ریاست کے بیرونی حصوں جو ہندوستانی سرحدوں سے متصل ہیں ان علاقوں پر تحریک کو مرکوز کیا گیا۔ سرحد ی علاقوں سے ریاست کے آکٹرائے(چنگی محصول) کی چوکیوں اور پولیس کی چوکیوں پر حملے کئے گئے ۔ حیدرآباد میں ریاستی کانگریس کی تحریک یقینی طور پر پر تشدد تھی ۔ وہ اسلحہ، گولہ بارود، دھماکو اشیاء اور ڈائنامٹس استعمال کرتے تھے ۔ سکریٹری(کانگریس سکریٹری) نے اپنی سرکاری رپورٹ میں اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ ان کی تحریک کے نتیجہ میں دشمن کے2000سے زائد لوگ مارے گئے۔ تشدد نے فرقہ واریت کو فروغ دیا اور فرقہ واریت نے تشد د کو۔

اتحاد المسلمین جو بنیادی طور پر ایک مذہبی اور سماجی اصلاحات کی تحریک تھی ، ایک اہم سیاسی تحریک بن گئی ۔ اس کا اہم مقصد ایک جمہوری حکومت قائم کرنے ہندووں کے مطالبہ کی مزاحمت کرنا ہے۔ رضا کار اتحاد المسلمین کی عسکری شاخ تھی۔ پس دونوں طبقات کے درمیان جو خوشگوار تعلقات موجود تھے وہ بتدریج ختم ہونے لگے اور حیدرآبادفرقہ وارانہ تناؤ کی ایک آماجگاہ بن گیا۔ ہمارے دورہ کے درمیا ن ہم نے رضا کاروں کے ظلم و ستم کے بیانوں کی بھی سماعت کی ۔ ہم نے ان کئی مقامات کا بھی معائنہ کیا جو پچھلی حکومت میں زیادہ متاثر ہوئے تھے۔ رضا کاروں کا ظلم و ستم 15اگست1947ء سے ہندیونین کی جانب سے ستمبر1948ء میں پولیس ایکشن تک رہا ۔ ان کی زیادتیاں زیادہ تر ان ٹاؤنس اور دیہاتوں تک تھیں جہاں وہ ماہانہ وصولی کرتے تھے ۔ اگر کوئی اپنے طور پر انہیں یہ رقم ادا کردیتا تو وہاں کوئی گڑ بڑ نہیں ہوتی۔ لیکن جہاں ان کی مزاحمت کی جاتی وہاں لوٹ مار شروع کی جاتی ۔ جہاں لوٹ مار کے دوران کوئی مزاحمت نہیں ہوتی وہاں کوئی گڑ بڑ نہیں ہوتی ۔ لوٹی ہوئی املاک کو کبھی موٹر ٹرک کے ذریعہ منتقل کیاجاتا ۔ جہاں ان کی مزاحمت کی جاتی وہاں قتل، آتشزنی ، مندروں کی بے حرمتی اور کبھی عصمت ریزی اور عوروتوں کے اغوا کے واقعات بھی ہوتے ۔ نظم و نسق زیادہ تر مسلمانوں کے ہاتھ میں تھا۔ وہ ان ظلم و زیادتیوں کی اجازت دیتے یا پھر رضا کاروں کے ساتھ تعاون کرتے ۔ اس لا قانونی سر گرمیوں کی تائید کا مقصد یہی تھا کہ وہ یہ سمجھتے تھے کہ رضا کار ہندو راج سے ان کی حفاظت کریں گے ۔ اس طرح نظام کی حکومت کی تائید کی جاتی ۔ جو عہدیدار جو ایسی سوچ نہیں رکھتے وہ خود کو بے یارومددگار سمجھتے تھے ۔ رضا کاروں کے ظلم و زیادتی کی کہانیوں کو ہندوستانی اور بیرونی ذرائع ابلاغ میں بڑھا چڑھا کر پیش کیاجاتاااور ساتھ ساتھ ہی بھی تاثر دیاجاتا کہ رضا کاروں کی لاقانونی سر گرمیاں مسلمانوں کی جانب سے شروع کی گئی تحریک ہے جو تیزی سے جڑ پکڑ رہی ہے ۔
اس صورتحال نے پڑوسی ہندوستانی صوبوں سے مسلمانوں کو ریاست حیدرآباد ہجرت کرنے اور وہاں رہائش پذیر ہونے مائل کیا چوں کہ ریاست حیدرآباد میں مسلمان اقلیت میں تھے ۔ اس لئے وہ اس اقلیت کو ایک اکثریت میں بدلنے کی کوشش قرار دیتے ۔ایک قابل لحاظ اقلیت سینکڑوں ہزاروں مسلمان حیدرآباد آنے لگے اور ان میں سے بہت وہیں مقیم ہیں اور پولیس ایکشن آچکا ۔ ہزاروں ہندو رضا کاروں کے ظلم و زیادتی کی وجہ سے پرانی حکومت اپنے گھر بار چھوڑ چکے تھے اور متصل ہندوستانی علاقوں میں پناہ لئے ہوئے تھے ۔ ہندوستانی فوج کی کامیابیوں کی خبر سن کر وہ ریاست حیدرآباد میں اپنے گھروں کو واپس ہونے لگے ۔ ہزاروں ہندو جنہوں نے گھر بار نہیں چھوڑا رضا کاروں کے دباؤ کو وہ محسوس کرتے تھے ، انہوں نے ہندوستانی فوج کا ان کے نجات دہندہ کی حیثیت سے خیر مقدم کیا اور راحت کی سانس لی ۔ ہندو آبادی کے ایسے دونوں طبقات فرقہ وارانہ زہر سے لبریز ہوچکے تھے ۔ ان میں سے کئی نظام نظم و نسق میں رضا کاروں اور ان کے حامیوں کے ہاتھوں متاثر ہوچکے تھے ۔
حکومت ہند نے تمام لا قانونیت کو ختم کرنے اور امن کو قائم کرنے کی پالیسی کا اعلان کیا۔ اس میں ان آبادیوں کو راحت حاصل ہوئی، کئی عہدیداروں اور عملہ نے اس پالیسی پر عمل کیا اور کئی ایسے بھی تھے جنہوں نے فرقہ وارانہ جذبات کی بنیاد ظلم و زیادتی کی کھلی چھوٹ دے رکھی تھی۔ ہمیں یہ بھی بتایا گیا کہ شولا پور اور سرحد کے علاقوں کے مختلف ٹاؤن سے تعلق رکھنے والے بے شمار تربیت یافتہ مسلح افراد جن کا تعلق ایک مشہور ہندو فرقہ وارانہ تنظیم سے ہے وہ ہندوستانی فوج کے ساتھ یہاں داخل ہوگئے ۔ ہندوستانی فوج کی آمد پر مسلم آبادی فطری طور پر دہشت زدہ ہوگئی۔ ہندوستانی فوج جہاں جہاں گئی وہاں اس نے عوام کو حکم دیا کہ وہ اپنے تمام ہتھیار حوالے کردیں۔ یہ احکامات ہندووں اور مسلمانوں دونوں کے لئے یکساں تھے ، لیکن عملی طور پر جہاں مسلمانوں سے تمام ہتھیار چھین لئے گئے بسا اوقات ہندو آبادی کی مدد سے ایسا کیا گیا ۔ ہندو جنہیں ہندوستانی فوج سے کوئی خوف و ڈر نہیں تھا ان سے ہتھیار حاصل نہیں کئے گئے۔ ایک گاؤں میں جہاں ہم نے دورہ کیا تھا ہم نے ایک غیر رجسٹرڈ شدہ غیر لائسنس یافتہ دوہری نالی والی بندوق،303رائفل ایک ہندو نوجوان کے پاس سے حاصل کی اور اسے حیدرآباد کی اتھاریٹی کے پاس جمع کروایا۔ عام طور پر ہندووں سے ہتھیار حاصل نہیں کئے گئے ۔ یہی نہیں بلکہ بڑے پیمانے پر ہندووں نے ہندوستانی فوج کے ساتھ مل کر مسلمانوں کے ہتھیار چھین لئے اور اسے ہندووں میں تقسیم کرنا شروع کردیا ۔ ہندوستانی فوج نے بھی ایسا ہی کیا۔ یہ بات واضح رہے کہ حیدرآباد شہر کے باہر ہر جگہ مسلمان ایک افسردہ اقلیت ہیں۔ یہ بہ آسانی ہندو فرقہ پرست جنونیوں کا نوالہ بننے لگے ۔ قتل، خون ،آتشزنی ، لوٹ، مساجد کی بے حرمتی، جبری تبدیلی مذہب، عصمت ریزی، عورتوں کے اغوا کے واقعات، کئی مقامات پر تقریباً تمام ریاست میں برے پیمانے پر دیکھے گئے ۔


The Violent tale of Fall of Hyderabad by Pundit Sunderlal Report. part-5

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں