جدہ کا جغرافیہ - انشائیہ از علیم خان فلکی - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2018-03-29

جدہ کا جغرافیہ - انشائیہ از علیم خان فلکی

jeddah
دنیا کے ہر شہر کی طرح جدہ بھی نئے اور پرانے شہر پر مشتمل ہے۔ نئے شہر کے لوگ پرانے شہر میں بیٹی دینے نخرے دکھاتے ہیں اور پرانے شہر کے لوگ نئے شہر کا لڑکا ڈھونڈھتے ہیں۔
شرفیہ، غلیل، باب مکہ وغیرہ پرانے شہر کے علاقے ہیں جنکا دارالخلافہ 'باب مکہ' ہے۔ پرانے شہر میں کچرے کے ڈھیر زیادہ ہوتے ہیں جس کی اہم وجہ بقول نادر خان صاحب کے، پرانے شہر کے لوگ زیادہ نفاست پسند ہوتے ہیں، گھر زیادہ صاف رکھنے سے زیادہ کچرا نکلتا ہے۔ اِن محلّوں میں جمعہ کی نماز کا اہتمام زیادہ ہوتا ہے، اسی لیے جمعہ کے دن نلوں میں پانی ضرور آتا ہے۔
ہمیں پرانے شہر سے بہت محبت ہے۔ نئے شہر میں پڑوسی ایک دوسرے سے برسوں واقف نہیں ہوتے لیکن پرانے شہر میں لوگ ایک دوسرے کے گھروں کے اندر کی پوری پوری خبر رکھتے ہیں۔ عزیزیہ، باب مکہ، شرفیہ وغیرہ آپ کہیں بھی دیکھ لیجیئے جگہ جگہ مختلف گروپ کھڑے ہوتے ہیں۔ یہ جب تک ایک دوسرے کو پورے محلّے کی خبریں سنا نہیں لیتے گھر نہیں جاتے۔
ایمبسّی اسکول کے ٹیچرس کو بھی ہم نے دیکھا کہ وہ اِس مضمون کی Combined study کرتے ہیں جب تک یہ ہوم ورک پورا نہیں کر لیتے وہاں سے نہیں اُٹھتے۔ جگہ جگہ 'شارع غیبت' اِنہی لوگوں کیلئے بنائی گئی ہے۔ اِس فرضِ کفایہ کو ریاض والے 'حارہ شریف' میں اور دمام والے 'تقبہ شریف' میں ادا کرتے ہیں۔ شام ہی سے جوق در جوق ایسے جمع ہونے لگتے ہیں جیسے عید گاہ میں تشریف لا رہے ہوں۔

سماجی اور سیاسی سرگرمیاں
جدہ تارکینِ وطن کا وہ تہذیبی مرکز ہے جہاں ہر دوسرا آدمی لیڈر تیسرا دانشور چوتھا مولوی اور پانچواں شاعر ہے۔ سارے اعلیٰ درجے کی کٹیگری [Category] کے لوگ ہیں، کیونکہ منجھلے درجے اور چھوٹے درجے کے لیڈر اور دانشور پیدا ہونے بند ہو گئے ہیں۔ یہ اور بات ہیکہ اِن میں سے آدھے پریشان حال ہوتے ہیں اور باقی آدھے بقولِ شاعر "خود اندھیرے میں ہیں اوروں کو دکھاتے ہیں چراغ"۔
اِسی لئے یہاں انجمنیں، جلسے اور انجمن ٹوٹنے سے پہلے کی گروپ فوٹوز زیادہ دیکھنے میں آتی ہیں۔ ایک صاحب جن کی اپنے بھائیوں سے عرصہ دراز سے بات چیت بند ہے، وہ 'علماء میں اتحاد کیسے پیدا کیا جائے' کے عنوان پر بڑی اچھی تقریریں کرتے ہیں۔ ایک صاحب کا کوئی بچّہ اسکول میں نہیں پڑھتا لیکن انہیں اسکول مینجمنٹ کمیٹی میں ہونے والی بدعنوانیوں سے اتنی دلچسپی ہیکہ اُنہوں نے اس موضوع سے متعلق ایک Yahoogroup کھول رکھا ہے۔

جدہ کی سڑکیں
ہماری سب سے پسندیدہ سڑک شارع ملک ہے یعنی Kings Road ۔ یہ پہلے شارع ولیعہد یعنی Crown Prince Road تھی، جب سے یہ ترقی پا کر Kings Road بن گئی، ساری سڑکوں کی کنگ ہو گئی ہے۔ ایک گھنٹے کا فاصلہ اب پانچ منٹ میں طے ہو جاتا ہے کیونکہ اس پر دو عدد پُل اور ایک نفق یعنی Tunnel تعمیر ہو چکے ہیں ۔ نفق سے گزرنے والے کو کیا کہتے ہیں، یہ ہم نہیں جانتے کیونکہ ہماری عربی کمزور ہے۔ منافق اگرچیکہ نفق سے مشتق ہے لیکن ہمیں یقین ہے کہ اس نفق سے گزرنے والے کو کچھ اور کہتے ہوں گے۔ اس نفق سے متصل شارع توبہ ہے اگرچیکہ توبہ آسان اور بہت چھوٹی سی شارع ہے اور مدینہ اور شارع خالد بن ولید کو پہنچنے کے لیے بہترین شارٹ کٹ ہے۔ لیکن اس کے اختتام پر جیل ہے ۔اور جیل کے سامنے چیک پوائنٹ۔ اِس لیے ہم توبہ سے دور رہتے ہیں۔ یوں بھی جب سے نفق بنی ہے مدینہ اور خالد بن ولید کی ضرورت نہیں رہی۔
شارع ملک کا ایک سرا مکہ مدینہ ہائی وے سے ملتا ہے جہاں سے لوگ آخرت کی کامیابی کا راستہ پکڑتے ہیں اور دوسرا سرا سمندر سے ملتا ہے جہاں 'شادی شداؤں' ، غیر شادی شداؤں اور بغیر شادی شداؤں کی تفریح کا الگ الگ سامان موجود ہے۔ جہاں بچّے آتش بازی اور پتنگ بازی کا لطف لیتے ہیں اور بچوں کے ابّا نظر بازی کا۔
شارع ملک کے متوازی شارع فلسطین ہے۔ اِسکی نام رکھائی ہماری سمجھ میں نہیں آئی کیونکہ مکہ روڈ اور مدینہ روڈ تو اِسم با مسمّٰی ہیں مکہ روڈ سیدھے مکہ لے جاتی ہے اور مدینہ روڈ مدینہ، لیکن فلسطین روڈ فلسطین نہیں لے جاتی بلکہ 'امریکن ایمبیسی' لے جاتی ہے جس کے اطراف اگر آپ نے گاڑی روکنے کی حماقت کی تو وہی حشر ہو سکتا ہے جو غازہ پٹی پر ہو سکتا ہے۔ حالانکہ امریکنوں نے فلسطین روڈ کی حفاظت کے لیے اپنی ایمبیسی اسی روڈ پر بنائی ہے۔ لیکن لوگ اس کا مطلب الٹا لیتے ہیں شائد اسی لیے اس شارع پر کبھی کبھی فلسطین جیسے حالات پیدا ہو جاتے ہیں اس لیے ہم فلسطین سے دور رہتے ہیں۔
مدینے کی سڑک سب سے سیدھی سڑک ہے اِس کے آغاز پر ہی مسجدِ جفالی ہے جہاں قتل اور منشیات کے مجرموں کا قصاص کیا جاتا ہے۔ دو کام ایسے ہیں جن کا اتنا عبرتناک انجام دیکھنے کے باوجود لوگ باز نہیں آتے ایک تو قتل و منشیات کی اسمگلنگ اور دوسرے شادی ۔ لوگ قصاص ہونے پر تالیاں بجاتے ہیں اور نکاح ہو جانے پر مصری بادام لٹاتے ہیں۔
زیادہ تر سڑکیں اہم شخصیات کے نام پر رکھی گئی ہیں۔ جس شخص کی جتنی اہمیت ہے اسی سائز کی سڑک اس کے نام سے منسوب ہے۔ مودوی اور حسن البنأ وغیرہ کے نام بھی پرانے شہر میں چند درماندہ گلیاں منسوب ہیں جہاں اکثر لوگ بے روزگاری کے زمانے میں رہتے تھے۔ یوں بھی شارع مودودی پر قدیم ماڈل کی گاڑیوں نے مکمل قبضہ کیا ہوا ہے کسی نئی گاڑی کو پارکنگ ملنے کا وہاں سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اگر کوئی پرانی گاڑی ہٹتی بھی ہے تو اسی کے رشتہ دار یا منظورِ نظر کی گاڑی وہاں پارک ہو جاتی ہے، باقی لوگ تو گھوم گھوم کر باہر نکل جاتے ہیں ۔ اب یہ شارع اسی حد تک رہ گئی ہے کہ آپ چند منٹوں کیلیے ڈبل پارکنگ کریں اپنے مطلب کی چیز خریدیں اور تشریف لے جائیں۔

جدّہ کے ایکسیڈنٹ
ایکسیڈنٹ کی شان یہ ہے کہ دور سے نظر آ جائے ، یہ کیا کہ ہندوستان کی تنگ سست رفتار دھویں سے اٹی ہوئی سڑکوں پر، جہاں سینکڑوں تماش بینوں کی بھیڑ جمع ہو جاتی ہے اس بھیڑ کو چیرتے ہوئے جب ہم وقوعِ ایکسیڈنٹ پر پہنچتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ ایک ماروتی کار کا دروازہ ابرہم لنکن کے گال کی طرح پچکا ہے تو دوسری کار کا بونٹ شرد پوار کے منہ کی طرح ایک طرف سے لٹک گیا ہے۔ بھلا یہ بھی کوئی ایکسیڈنٹ ہوا ؟ ایکسیڈنٹ کی شان دیکھنی ہو تو جدہ کی صاف ستھری چوڑی چوڑی سڑکوں پر دیکھیے۔ دور سے نظر آئے گا ایک کار مخالف سمت میں پھڑ پھڑا رہی ہوگی دوسری کار سڑک کے بیچوں بیچ آدھی اِدھر آدھی اُدھر آڑی ہو چکی ہوگی تین چار کاریں تو محض جماعت کا ثواب حاصل کرنے کی خاطر مصافحہ و بوسہ بازی کر چکی ہوں گی۔ قریب پہنچنے پر ایک کار مسندِ صدارت پر سڑک کے بیچ تارا بورا کا منظر پیش کر رہی ہوگی۔ دکن کی زبان میں 'گاڑی بیگن میں مل جانا' جسے کہتے ہیں وہ حقیقت میں ہمیں جدہ کے ایکسیڈنٹس میں ہی نظر آیا۔ لوگ گُھٹنوں تک توپ اٹھاکر بھاگتے ہوئے آئیں گے اور یہ دیکھتے ہوئے بھی کہ ڈرائیور کے سر سے خون بہہ رہا ہے اس سے کہیں گے 'سلامات سلامات' یعنی "مبارک ہو مبارک ہو صرف سر ٹوٹا ہے ناک سلامت ہے"۔ لوگ بچوں کو ایکسیڈنٹ دکھا کر عبرت دلانے کی کوشش کرتے ہیں لیکن بچّے کہتے ہیں "ڈیڈی اپنے پاس بھی ایسی شاندار ماڈل کی نئی گاڑی ہونی چاہیے تاکہ ایکسیڈنٹ ہو جائے تو شرمندگی نہ ہو"۔

البتہ ایکسیڈنٹ کے بعد کا منظر جو ہندوستان میں دیکھ کر مزا آتا ہے اس سے ہم یہاں محروم ہیں۔ جوں ہی ایکسیڈنٹ ہوتا ہے دونوں ڈرائیور طیش میں باہر نکلتے ہیں تُو تُو میں میں کے ابتدائی کورس کے ساتھ ہی 'چٹاخ'، 'گِھپ'، 'گُھم' کی بمباری کے ساتھ پہلے دو گتھم گھتا ہو جاتے ہیں۔ 'چرّ رّ رّ رّ ر' کی آواز آتی ہے تو پتہ چلتا ہے ایک کا شرٹ پھٹا اور دوسرے کی عینک کہیں دور جا گری ۔ مزید دو چار گتھم گتھا نظر آتے ہیں ۔ پتہ ہی نہیں چلتا کہ کون کس کو مار رہا ہے اور کسے بچا رہا ہے؟
بخدا ہم نے اس طرح کے جتنے مناظر دیکھے، ہر مرتبہ ایگ نئی گالی سے ہمارے کان آشنا ہوئے اور اب ہمارے پاس گالیوں کا اتنا ذخیرہ ہو چکا ہے کہ ہم 'غلظیات' کی ایک قاموس مرتب کرنے کے موقف میں ہیں، کیونکہ جب سے ہم نے خامہ بگوش کا جوش ملیح آبادی کی تحریروں پر یہ تبصرہ پڑھا ہے کہ:
"اگر کبھی غلظیات کی ڈکشنری لکھی جائے گی تو جوش کی تحریریں بہت کام آئنگی"۔
تب سے ہم کو ایک ایسی ڈکشنری مرتب کرنے کا خیال رہتا ہے۔ اس کی ادارت کیلئے ہم ایک ایسے زندہ دل نوجوان صحافی کی تلاش میں ہیں جو صحافت میں کم از کم پچاس سال پورے کر چکا ہو، چاہے اس سے ادب کو کوئی فائدہ ہو یا نہ ہو۔ البتہ مستقبل کی نسلوں کو، جب وہ بھی ایم اے اردو کا امتحان لکھیں گی ضرور فائدہ ہوگا۔ ہو سکتا ہے وہ اپنے آبا و اجداد کے عہد کی زبان کے خزانے میں مزید اضافے کریں۔
بہر حال اب یہ منظر یہاں دیکھنے سے آنکھیں محروم ہیں البتہ کبھی کبھی تو تو میں میں ہوتی ہے اور پھر غوترے اور عقال ہوا میں لہراتے ہیں۔ دونوں فریق مرغوں کی طرح اُڑ اُڑ کر ایک دوسرے پر جاتے ہیں لیکن اس سے پہلے کہ باضابطہ مقابلہ ہو اور مزا آئے پولیس نہ جانے کدھر سے آ جاتی ہے، دونوں اپنی چوکڑی بھول جاتے ہیں، شرافت سے توپیں سیدھی کر کے جیب سے رخصہ استمارا (ڈرائیونگ لائسنس) نکال کر پیش کر دیتے ہیں ۔

***
aleemfalki[@]yahoo.com
موبائل : 00966504627452
ڈاکٹر علیم خان فلکی

The Geoghraphy of Jeddah, Humorous Essay. - Dr. Aleem Khan Falaki

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں