عادل منصوری کو کیسے بھول سکتا ہوں - محمد علوی - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2018-02-02

عادل منصوری کو کیسے بھول سکتا ہوں - محمد علوی

سہ ماہی "اثبات" کے مدیر اشعر نجمی کی فیس بک ٹائم لائن کا 30/جنوری 2018 کا اسٹیٹس یہ رہا ہے:

"عادل منصوری پر تم نے بہت اچھا شمارہ نکالا ہے۔ وہ میرا یار تھا۔ اس کی طرف سے میں تمھیں شکریہ بول رہا ہوں۔ بس اسی طرح ہم لوگ جاتے رہیں اور اسی طرح تم شاندار شمارے نکالتے رہو۔"

آج سے تقریباً سات سال قبل فون پر محمد علوی آخری جملہ ادا کرتے ہوئے ہنس پڑے تھے۔ لیکن ان سے فون پر یہ میری پہلی ملاقات نہیں تھی۔ اثبات کے پہلے دور کے اجرا (جون 2008) کے وقت وہ تقریب میں شامل ہونا چاہتے تھے، ممبئی آ بھی چکے تھے اور شاید بائیکلہ میں اپنے کسی عزیز (مجھے اب ٹھیک سے یاد نہیں ہے) کے ہاں ٹھہرے ہوئے تھے۔ شمس الرحمٰن فاروقی اور عادل منصوری دونوں کی آمد کا ذکر سن کر کافی excited بھی تھے اور کیوں نہ ہوتے، تینوں یار جو تھے اور برسوں بعد اکٹھے ہونے کا موقع مل رہا تھا۔ لیکن عین وقت پر ان کی طبیعت خراب ہوگئی۔ انھوں نے مجھے خود فون کرکے مجھ سے معذرت کی کہ اتنی دور نہیں آ پاؤں گا۔ فاروقی اور عادل منصوری نے ان سے فون پر دیر تک گفتگو کی اور تاسف کا اظہار کرتے رہے۔ پھر جب کچھ ہی دنوں بعد عادل منصوری کا انتقال ہوگیا تو محمد علوی کا پہلا ردعمل تھا، "یار، ان لوگوں کو اتنی جلدی کیوں پڑی رہتی ہے۔"

عادل منصوری پر خصوصی شمارہ نکالتے وقت جب میں نے ان سے کچھ لکھنے کی درخواست کی تو انھوں نے مجھے فون پر ہی کہا "لکھو۔" پھر اپنی مخصوص ہنسی کے ساتھ کہا، میں بولتا جاتا ہوں، تم لکھتے جاؤ چونکہ اب میں لکھنے لکھانے کے قابل نہیں رہا۔ ایسا ہی ہوا، وہ بو لتے گئے اور میں لکھتا رہا۔ وہ بے تکان بول رہے تھے، جانے کیسی کیسی یادیں امڈی پڑ رہی تھیں۔ ان کا یہ مضمون اثبات کے تیسرے شمارے میں موجود ہے۔ اس کے بعد بھی جب میں ان سے تخلیقات کی فرمائش کرتا تو وہ مجھے فون پر ہی لکھا دیتے تھے۔ ایک بار جب میں نے فون پر پوچھا کہ "آپ نےنیا شمارہ پڑھا؟" ہنس کر بولے، "اشعر، مین پڑھنے کی نعمت سے محروم ہوں، اس لیے جب بھی تمھارا پرچہ آتا ہے، آنکھوں سے لگا کر رکھ دیتا ہوں۔ کبھی کبھی کوئی پڑھا لکھا بھولے بھٹکے ادھر آنکلتا ہے تو اس سے کچھ منتخب چیزیں پڑھوا کر سنتا ہوں۔"

عادل منصوری پر تحریر کردہ محمد علوی کا متذکرہ بالا مضمون سہ ماہی "اثبات" کے شکریہ کے ساتھ یہاں پیش خدمت ہے۔

عادل منصوری ایسا نام ہے جسے میں بھولنا چاہوں تب بھی بھول نہیں سکتا۔ زندگی کا بہترین وقت جس کے ساتھ گزارا، جس کے شعر سن کر شعر کہنے کو جی چاہا ہو، جو میری نظموں اور غزلوں کا پہلا سامع رہا ہو، جس نے میری شاعری کو جی کھول کر سراہا ہو، اسے میں کیسے بھول سکتا ہوں۔
بیس سال سے عادل امریکہ میں مقیم ہے لیکن جب بھی اس کی کوئی پیاری سی غزل ، کوئی چونکانے والی نظم "شب خون" میں شائع ہوتی ہے تو پڑھ پڑھ کر پرانی یادیں تازہ ہو جاتی ہیں ۔ 1940ء سے 1951ء تک میرا پہلا ادبی دور نہایت ہنگامہ خیز رہا ہے ۔ ان دنوں ترقی پسند تحریک زوروں پر تھی ۔ میں تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے لگا تھا، شروع شروع میں ، میں نے کہانیاں لکھیں لیکن بات کچھ بنی نہیں ۔ پھر سردار جعفری اور کیفی اعظمی کی اسٹائل میں انقلابی نظمیں کہیں جو سراسر ان کی نظموں کا چربہ ہوتی تھیں۔ آخر میں عدم اور سیف کے رنگ میں غزلیں کہنے لگا تھا، یہ سلسلہ 1951 تک چلتا رہا اور 1951 تک آتے آتے ترقی پسند تحریک بکھر کے رہ گئی ۔ ادب میں جمود کی آوازیں اٹھنے لگیں۔ ادیبوں کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیا لکھیں ۔ بہت سوں نے چپ سادھ لی اور میں بھی شعروشاعری سے دور بہت دور ہو کر رہ گیا۔

1959ء میری ادبی زندگی کا ٹرننگ پوائنٹ ہے، جس کا تمام کریڈٹ عادل منصوری کو جاتا ہے ۔ 1959 میں کچھ پرانے دوستوں نے شعری نشست کا اہتمام کیا تھا۔ مجھے خاص طور پر دعوت دی گئی تھی ۔ زور دے کر کہا گیا تھا کہ میں ضرور شرکت کروں۔ جی نہ چاہتے ہوئے بھی دوستوں کا دل رکھنے کے لئے میں نشست میں شریک ہوا، اور وہاں پہلی بار عادل سے ملاقات ہوئی ۔ اس نے جو غزل سنائی، اس میں تازگی تھی، نیاپن تھا۔ نشست کے اختتام پر وہ مجھے سے نہایت گرم جوشی سے ملا۔ اس سے مل کر مجھے بھی اچھا لگا ، پھر ہم اکثر کتابوں کی دکان پر ملنے لگے ۔ وہ جب بھی ملتا، اس کی جیب میں ایک آدھ تازہ غزل ضرور ہوتی ۔ اس سے مل کر اور اس کے شعر سن کر آٹھ سال کی چپ ٹوٹی، میں ایک بار پھر شعر کہنے لگا۔
اب ہم روز ملنے لگے تھے ۔ ادب کی فضا ان دنوں بدلی ہوئی تھی۔ ترقی پسند شاعر بیک گراؤنڈ میں چلے گئے تھے ۔ کچھ نے نیا رنگ اپنا لیا تھا۔ نئے شاعروں کی فوج کی فوج جدیدیت کا لیبل لگا کر ادب کے میدان میں اتر آئی تھی ۔ دنیا جہان کے موضوعات پر نظمیں کہی جا رہی تھیں، غزلوں میں میر کی بازگشت سنائی دے رہی تھی ، کہیں کہیں یگانہ آرٹ بھی نظر آ جاتا تھا۔ شاعر باہر سے زیادہ اپنے اندر کی کھوج خبر لے رہے تھے ، رسالوں میں نظمیں زیادہ چھپ رہی تھیں۔ میں نے بھی چار چھ نظمیں" سوغات" کے جدید نظم نمبر میں شامل کیں۔ اب میں اور عادل بھی نظمیں زیادہ کہنے لگے تھے۔
ہماری چیز پاکستان میں"سویرا"،" ادب لطیف"، "نقوش"، "فنون"، "اوراق"، "ادبی دنیا"، "نصرت"، "نیا دور"، "سات رنگ" اور ہندوستان میں سوغات، تحریک، کتاب، جیسے معیاری رسائل میں شائع ہونے لگی تھیں ۔ عادل کی نظمیں اور غزلیں بھی سب الگ بالکل نئے رنگ، نئے انداز میں چمکتی دمکتی زبان، اچھوتے استعارے، انوکھی تشبیہیں اور حیرت انگیز امیجری سے سجی سنوری ہوتی تھیں۔
ان دنوں پاکستان میں افتخار جالب، انیس ناگی، عباس اطہر اور کئی شاعر نظم میں نت نئے تجربے کررہے تھے جو رسالوں میں دفن ہو کر رہ جاتے تھے ۔ ہندوستان میں عادل واحد شاعر تھا جس نے تجرباتی نظمیں کہیں۔ وہ الفاظ جو لغات سے کبھی باہر نہیں نکلے ۔ انہیں لے کر نظمیں کہیں ۔ حرفوں کو ردیف بناکر غزلیں کہیں اور اپنے مخصوص انداز میں مذہب پر بے مثال نظمیں کہیں۔
عادل کی مادری زبان گجراتی ہے، دیر سویر اسے گجراتی ادب کی اور جانا ہی تھا، سو اردو میں اپنی جگہ بنا کر خوب ساری دھاک جماکر اس نے گجراتی کی راہ لی۔ گجراتی غزل برسوں سے اس کی منتظر تھی ، دیکھتے ہی اسے گلے سے لگا لیا ۔ آج وہ گجراتی غزل کا سب سے اہم، سب سے قد آور شاعر ہے ۔ اس کے چاہنے والے ہندوستان، امریکہ ، کینیڈا اور لندن میں پھیلے ہوئے ہیں ۔ ایسا نہیں کہ اردو سے اس نے قطع تعلق کرلیا ہو، اب بھی وہ کبھی کبھی کوئی پیاری سی غزل کوئی چونکانے والی نظم کہہ لیتا ہے ۔

تو پیارے عادل تم تو میرے سب سے عزیز دوست اور سب سے پیارے شاعر ہو ، تمہیں میں کیسے بھول سکتا ہوں۔

Mohammed Alavi on Adil Mansuri. Article from "Esbaat", issue-3.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں