تاجکستان - ہندوستان کا قابل قدر دوست اور حکمت عملی شراکت دار - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2016-12-18

تاجکستان - ہندوستان کا قابل قدر دوست اور حکمت عملی شراکت دار

17/دسمبر
تاجکستان، ہندوستان کا قابل قدر دوست اور حکمت عملی شراکت دار
نئی دہلی
آئی اے این ایس
ہند۔ تاجکستان، ایران کی چاہ بہار بندرگاہ کے ذریعہ تجارتی اور حمل و نقل کے روابط کو فروغ دینے قریبی تال میل بر قرار رکھتے ہوئے کام کریں گے۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے آج اس وسط ایشیائی ملک کے ساتھ معاشی تعاون میں اضافہ دہرے ٹیکس، حواہ کاروبار اور دہشت گردی کے خاتمہ کے لئے معاہدوں پر دستخط کرنے کے بعد یہ بات بتائی۔ مودی نے تاجکستان کے دورہ کنندہ صدر امام علی رحما نوف سے یہاں بات چیت کے بعد کہا کہ ہم ایران کی چاہ بہار بندرگاہ کے ذریعہ تجارتی اور حمل و نقل کے روابط پر کام کریں گے۔ مودی نے زور دے کر کہا کہ انہوں نے اوررحمانوف نے دونوں ملکوں کے مابین اقتصادی تعاون بالخصوص تجارت اور سرمایہ کاری کے دائرہ اور پیمانہ میں اضافہ کرنے سے اتفاق کیا ہے ۔ انہوں نے تاجکستان کو ہندوستان کا ایک قابل قدر دوست اور حکمت عملی شراکت دار قرار دیا اور کہا کہ دونون ملکوں کو اپنے توسیع شدہ پڑوس بشمول افغانستان میں متعدد سیکوریٹی چیلنجس کا سامنا ہے۔ وزیر اعظم نے کہا کہ ہندوستان اور تاجسکتان نے دونوں ملکوں کی سیکوریٹی ایجنسیوں کے مابین معلومات کے تبادلہ کے ذریعہ خطہ میں دہشت گردی اور انتہا پسندی کا مقابلہ کرنے باہمی تعاون کو مستحکم کرنے کا فیصلہ کیا ہے ۔ مودی نے کہا کہ ہم نے اس بات سے بھی اتفاق کیا کہ افغانستان میں قیام امن اس خطہ کے لئے انتہائی اہم ہے۔ مودی نے وسطی ایشیائی خطہ میں انتہا پسندی، ریاڈیکل ازم اور دہشت گردی کی طاقتوں سے مقابلہ کرنے میں تاجکستان کے رول کو بڑا سہارا قرا ر دیتے ہوئے اس کی ستائش کی ۔ رحمان کاجو14-18دسمبر ہندوستان کے دورہ پر آئے ہوئے ہیں قبل ازیں یہاں راشٹرپتی بھون میں رسمی خیر مقدم کیا گیا۔ صدر رحمان ک شاندار خیر مقدم کئے جانے کے بعد وزارت خارجہ کے ترجمان وکاس سروپ نے کہا آ ہندوستانی سفارتکاروں کا خصوصی سینچر ہے ۔
For India, Tajikistan is “valued friend and strategic partner in Asia”

مودی اور راہول کے درمیان’’معاملت‘‘ :کجریوال
نئی دہلی
یو این آئی
بینکوں میں پرانے نوٹ جمع کرنے پر سیاسی پارٹیوں کو جانچ سے مستثنیٰ قرار دینے کے حکومت کے فیصلے کی مذمت کرتے ہوئے اے اے پی کے قومی کنوینر اروند کجریوال نے آج الزام عائد کیا کہ وزیر اعظم نریندر مودی اور کانگریس نائب صدر راہول گاندھی کے درمیان معاملت ہوچکی ہے ۔ یہاں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے اے اے پی کنوینر نے کہا کہ قبل ازیں کانگریس کے نائب صدر راہول گاندھی نے دعویٰ کیا تھا کہ ان کے پاس وزیر اعظم کے شخصی طور پر کرپشن میں ملوث ہونے کا ثبوت ہے، لیکن انہوں نے ان سے ملاقات کی۔ پھر ملاقات کے بعد مرکز نے اعلان کیا کہ جو سیاسی پارٹیاں پانچ سو اور ہزار روپے کے منسوخ نوٹوں میں لاکھوں کروڑوں روپے جمع کراتی ہیں ، ان کی جانچ نہیں کی جائے گی۔ انہوں نے گزشتہ پانچ برسوں کے دوران سیاسی پارٹیوں کی فنڈنگ اور ان کے تمام ریکارڈس بشمول فنڈس کے ذرائع کی جانچ کرنے ایک آزاد کمیشن کے قیام کا بھی مطالبہ کیا۔ یہ اعادہ کرتے ہوئے کانگریس کے نائب صدر راہول گاندھی کے پاس شخصی کرپشن کا انکشاف کرنے کی جرات نہیں ہے ، کجریوا لنے کہا کہ وہ انہیں بے نقاب نہیں کررہے ہیں ، صرف دعویٰ کررہے ہیں۔ میں ان سے خواہش کرتا ہوں کہ وہ مودی کے خلاف ان کے پاس جو بھی ثبوت ہیں انہیں منظر عام پر لائیں اور ان سے معاملت کرنا بند کریں ورنہ ملک کے عوام انہیں نہیں چھوڑیں گے ۔ سیاسی پارٹیوں کو مستثنیٰ قرار دینے کے فیصلے پر وزیر اعظم مودی کو ہدف تنقید بناتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ افسوس ناک ہے کہ ملک کے عوام کو قطار میں ٹھہرا کر مودی جی سیاسی پارٹیوں کے کالے دھن کو سفید میں تبدیل کرنے کی حوصلہ افزائی کررہے ہیں ۔ عام آدمی پارٹی کنوینر نے کہا کہ ملک کے ساتھ یہ بہت بڑا دھوکہ ہے ۔ ہم تو شروع سے کہہ رہے ہیں کہ وزیر اعظم کی نیت خراب ہے، اسکیم بھی خراب ہے اور نافذ بھی غلط طریقے سے کیا گیا ۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس کی وجہ سے ملک کے عوام بی جے پی کے تعلق سے شبہات میں مبتلا ہیں۔ نوٹ بندی سے قبل اور بعد میں ملک بھر میں پارٹی کی جانب سے اراضیات کی خریدی کی اطلاعات پر سوال کرتے ہوئے کجریوال نے زعفرانی پارٹی سے اس بات کا جواب دینے کو کہا کہ اگر عوام کی جانب سے جمع کی جانے والی رقم کی انکم ٹیکس سے جانچ ہوتی ہے تو سیاسی جماعتوں کی رقم پر اس کی جانچ کیوں نہیں ہونی چاہئے۔

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار کی بحالی
صدر جمہوریہ پرنب مکرجی سے مداخلت کے لئے طلبائے قدیم کی اپیل
نئی دہلی
یو این آئی
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے وفد نے آج صدر جمہوریہ پرنب مکرجی سے مداخلت کی خواہش کی کیونکہ مرکزی حکومت نے یہ طے کیا ہے کہ وہ اس یونیورسٹی کے اقلیتی کردار کی بحالی کی سپریم کورٹ میں مخالفت کرے گی۔ وفد نے صدر جمہوریہ سے آج صبح دہلی میں ایک ملاقات کے دوران انہیں بتایا، مسلمانوں کو عصری تعلیم کی فراہمی بے حد ضروری ہے تاکہ انہیں انقلابی نظریات سے بچایاجاسکے اور یہ بات قومی مفاد کے مغائر ہوگی اگر کسی تعلیمی ادارہ کو جس کو ایسی تعلیم کے لئے قائم کیا گیا تھا طبقہ سے دور کردیاجائے ۔ وفد نے جن کی قیادت سابق پرووائس چانسلر اندرا گاندھی نیشنل اوپن یونیورسٹی پروفیسر بصیر احمد کررہے تھے اور جو علیگڑھ مسلم یونیورسٹی اسٹوڈنٹس یونین کے صدر بھی رہ چکے ہیں صدر جمہوریہ سے ملاقات کے بعد یو این آئی کو بتایا کہ ان کی جانب سے صدر جمہوریہ سے پرزور الفاظ میں یہ کہا گیا کہ کسی تعلیمی ادارہ کو اقلیتی کردار عطا کرنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ یہ ادارہ سیکولر تعلیم فراہم نہیں کرے گا یا اسے دیگر طبقات سے تعلق رکھنے والے طلباء و طالبات کے لئے بند کردیاجائے گا۔ پروفیسر بصیر احمد نے کہا کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے کوئی تیس فیصد طلبا و طالبات ہنوز غیر مسلم ہیں۔ان کی جانب سے صدر جمہوریہ سے ملاقات کے دوران مرکزی حکومت کے اس موقف کے خلاف اپنا یہ استدلا لبھی پیش کیا گیا کہ علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کو اقلیتی موقف نہیں دیا جاسکتا کیونکہ اسے پارلیمنٹ کی قانون سازی کے ذریعہ قائم کیا گیاتھا۔ انہوں نے کہا ہم نے یہ بتایا کہ علیگڑھ مسلم یونیورسٹی سرسید احمد خان کی کاوشوں کا نتیجہ ہے، جنہوں نے ادارہ کے قیام کے لئے مسلمانوں کو متحرک کیا تھا لہذا اس حقیقت کا کہ اسے پارلیمنٹ کے قانون کے ذریعہ قائم کیا گیا تھا یہ مطلب نہیں ہے کہ یہ ایک ایسا ادارہ ہے جس کو اقلیتی طبقہ کی جانب سے قائم نہیں کیا گیا تھا ایسے کسی بھی تعلیمی ادارہ کو مرکزی قانون کے ذریعہ عام وجود میں آنا چاہئے ۔ ارکان وفد نے صدر جمہوریہ سے یہ بھی شکایت کی کہ کشن گڑھ اور مرشدآباد میں قائم کئے جانے والے علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کے نئے کیمپس کے لئے فنڈس کی اجرائی عمل میں نہیں لائی جارہی ہے ۔ وفد میں پروفیسر بصیر احمد کے علاوہ یونیورسٹی کے طلبائے قدیم ارشاد احمد، عرفان اللہ خان، مدثر حیات اور خان خسرو بھی شامل تھے۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں