شمع نبوت کے منفرد پروانے - ہند کے عربی نعت گو شعراء - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2016-01-01

شمع نبوت کے منفرد پروانے - ہند کے عربی نعت گو شعراء

Arabic Naat poets of India
دربار رسالت مآب آراستہ ہے۔ آپﷺ اور جلیل اقدر صحابہؓ موجود ہے۔نبی کریم ﷺ کی نظر عنایت حضرت حسانؓ پر پڑتی ہے۔ آپﷺ انہیں منبر پر بیٹھنے کا حکم دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ انشد یا حسان و روح القدس معک، اے حسانؓ شاعری کرو روح القدس جبرئیل علیہ السلام تمہارے ساتھ ہیں۔حضرت حسانؓ کی شاعری پر کبھی دعا دیتے ہوئے کہتے اللھم أیدہ بروح القدس اور کبھی بشارت سناتے کہ جزاہ الجنۃ یا حسان ۔ شاعری پر آپ کا یہ لطف و کرم صرف حضرت حسانؓ کیلئے ہی مخصوص نہ تھا بلکہ عرب کے ایک مشہور شاعر نے تو اسلام مخالف شاعر ی سے اپنی جان جوکھم میں ڈال دی تھی، چھپتے چھپاتے دربار رسالت میں حاضر ہوئے اور آپ کی خدمت میں اپنا شاندار قصیدہ کہتے ہوئے آپ سے معافی طلب کی اور حلقہ اسلام میں داخل ہوگئے۔ یعنی حضرت کعبؓ بن زہیر، آپ نے نہ صرف انہیں معاف کیا بلکہ فرط مسرت میں اپنی چادربھی عنایت فرمادی۔
شاعری کی ساتھ آپﷺ کی نظر کرم ہی تھی کہ اس چمن میں اس قدر بہار آئی ورنہ اگر آپﷺ اس سے صرف نظر کرتے تو شاعری اپنی موت خود ہی مرجاتی۔ یہی وجہ رہی ہے کہ چہاردانگ عالم کے ادباء و شعراء نے اسلام اور اسلامی تعلیمات پر مبنی شاعری کو حرز جاں بنالیا۔ ہند کے کے عربی شعراء بھی اس میدان میں کسی سے کم نہیں رہے، ان شعراء نے اسلام اور اسلامی تعلیمات کے مختلف جواہر پاروں کو اپنی شاعری میں پیش کیا اور اسے بھی عمرخضر عطا کردی ۔ ہند کے عربی شعراء کی زیادہ تر توجہ آقائے نامدارﷺ کے اوصاف حمیدہ اور شمائل عالیہ کو اجاگر کرنے پر مرکوز رہی اور اس میدان میں انہیں کافی کامیابی بھی ملی۔ نعتیہ شاعری کیلئے درکار اصول و ضوابط اور عناصر و عوامل ہند کے شعراء میں بدرجہ اتم پائے جاتے ہیں حضرت مولانا سید ابو الحسن علی الحسنی الندویؒ فرماتے ہیں"یقیناًمحبت و عقید ت ہندوستان کے خمیرمیں شامل ہے یہاں کی زبانیں عشق ومحبت سے عبارت ہیں، لہذا جب یہ دونوں چیزیں ایک ایسی شخصیت کی طرف مائل ہوتی ہیں جو کہ فضائل و محاسن کا پیکر مجسم ،جمال وکمال کا منبع و مصدر ہو توتعبیروتصویر کے شاہکار سامنے آتے ہیں ۔فرط محبت وعقیدت کا اظہار ادب عالیہ کے ذریعہ کیا جاتا ہے کیونکہ وہ ایک ایسی ذات ہے کہ جسکے ظاہر و باطن کو حد درجہ خوبصورت بنایا ہے۔"( حضرت مولانا سید ابوالحسن علی الحسنی الندوی ۔الطریق الیٰ المدینہ 99۔98)
ہند کے عربی شعراء نے اپنی جدت طبع اور ندرت فکر سے نعتیہ کلام میں قابل قدر اضافہ کیا ہے حتیٰ کہ بعض اصناف تو ایسی ہیں جنہیں کہ ان شعراء ہی نے عربی شاعری میں متعارف کروایا۔مثلاً سید برکۃ اللہ عشقی مارھروی (1070ھ1142ھ) فارسی ، ہندی اور عربی کے ایک طبع زاد شاعر تھے۔ نعتیہ شاعری میں صنف سلام کے اولین نقوش ہمیں ان ہی کی شاعری میں ملتے ہیں۔ ،اس صنف میں شعر کا اخیر حصہ سلام پر مشتمل ہوتا ہے، بسا اوقات شعر کی ابتداء بھی سلام ہی سے ہوتی ہے ،شاعر آپؐ سے خطاب کرتا ہے اور دوسرے مصرعہ میں آپؐ پر سلام پیش کرتا ہے ،اس طرح شاعر شان نبوت میں دلی جذبات کو پیش کرتا ہے ،صنف سلام اور دیگر نعتیہ کلام میں اکثر مضامین یکساں ہوتے ہیں ،بنیادی فرق یہ ہوتا ہے کہ صنف سلام کے ہر شعر کا دوسرا مصر عہ میں لفظ سلام ہوتاہے ،صنف سلام کے بعض نمونے ہمیں موجودہ دور میں بھی ملتے ہیں ۔
سید برکۃ اللہ عشقی مارھروی سلام کی ابتداء کرتے ہوئے کہتے ہیں ۔
یاشفیع الورٰی سلام علیک
یا نبیّ الہدی سلام علیک
خاتم الأنبیاء سلام علکک
سید الأصفیا سلام علیک
أحمد لیس مثلک أحد
مرحبا مرحبا سلام علیک
واجب حبّک علی المخلوق
یا حبیب العلی سلام علیک
مہبط الوحی منزل القرآن
صاحب الاہتدا سلام علیک
(1)اے انسانوں کی شفاعت کرنے والے اور ہدایت کے نبی آپ پر سلام ہو ۔
(2)اے خاتم الانبیاء و سید الرسل آپ پر سلام ہو ۔
(3)أحمد آپ جیسا کوئی نہیں ہے خوش آمدید آپ پر سلام ہو ۔
(4)مخلوق پر آپ کی محبت لازم ہے اے اللہ کے حبیب آپ پر سلام ہو ۔
(5)آپ پر وحی و قرآن کا نزول ہوا اے صاحب ہدایت آپ پر سلام ہو ۔
اس کے بعد شاعر آپؐ کے چند معجزات کا ذکر کرتے ہوئے آپؐ کے علو مقامی کو اجاگر کرتاہے ۔
طلع منک کوکب العرفان
أنت شمس الضحی سلام علیک
لیلۃ اسری بہ قالت الأنبیا
مرحبا مرحبا سلام علیک
کیف شق القمر باشارتہ
معجز الادّعا سلام علیک
اشفع یا حبیب یوم الجزا
أنت شافعنا سلام علیک
ہذا قول غلامک عشقی
منہ یا مصطفی سلام علیک
(1)آپ ہی سے علم و عرفان کے ستارے منور ہوئے ،آپ ایک روشن سورج ہیں آپ پر سلام ہو ۔
(2)شب معراج تمام انبیاء نے مرحبا مرحبا کہہ کر آپ کا استقبال کیا آپ پر سلام ہو ۔
(3)کس طرح آپ نے ایک اشارہ کے ذریعہ چاند کے ٹکڑے کردئیے اور مدعیوں کو عاجز کردیا آپ سلام ہو ۔
(4)اے حبیب یوم حساب ہماری شفاعت کر بے شک تو ہی شفاعت کرنے والاہے آپ پر سلام ہو ۔
(5)یہ آپ کے غلام کا ایک عاشقانہ کلام ہے اے مصطفی آپ پرسلام ہو ۔
عشقی مارھروی کا یہ کلام فصاحت و بلاغت کا اعلی نمونہ ہے وہیں ایک غمزدہ دل میں پنہاں جذبات کی عکاسی بھی کرتا ہے ۔
ہند کی نعتیہ کلام کی ایک بیش بہا خصوصیت یہ بھی رہی ہے کہ یہ دنیاوی بو الہوسی سے پاک وصاف ہے۔ نعتیہ شاعری کی صنف میں حضرت حسانؓ سرخیل کی حیثیت رکھتے ہیں گویا آپ ہی کی قیادت میں یہ قافلہ رواں دواں ہے۔ اور ہند کے حسان مولانا غلام علی آزاد بلگرامی (1116ھ 1200ھ)ہے۔نحو، لغت، شاعری، تاریخ ، سیرت میں آپ یکتائے زمانہ تھے۔ آپ بلا مبالغہ حسان الھند تھے۔ شان نبوت کی مدح سرائی میں آپ نادر اور جدید معانی کے ساتھ ظاہر ہوئے ،آپ کو یہ قدرت حاصل تھی کہ ایک ہی دن یا اس سے بھی کم وقت میں آپ ایک مکمل قصیدہ شان اقدس میں پیش کردیتے۔ گویا کہ الفاظ و معانی کا ایک رواں دواں دریا ہے جو خیالات کو سیراب کئے جارہا ہے اور روح کو تازگی بخش رہا ہے۔ یہ ایسی خصوصیات ہیں جنمیں کوئی آپ کا ہمسر نہیں ہے۔ ایک جگہ نبی کریمﷺ سے اپنی والہانہ محبت کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں ۔
غبار نعلیہ کحل فی بصائرنا
جنابہ مستطاب منتہی الطلب
مدینۃ المصطفی دامت مکرمۃ
کم من کرام بہا من مدرکی الصحب
تبدو من القلم الہندی مدحتہ
کمثل سکرۃ تبدو من القصب
(1)آپ کی خاک یا ہمارے آنکھوں کا سرمہ ہے آپ ہی ہمارے امیدوں و آرزؤں کی انتہا ہے ۔
(2)آپؐ کا شہر ہمیشہ باعث اکرام رہے کتنے ہی لوگ ہیں جو اس سے وابستہ ہوکر شرفیاب ہوگئے ۔
(3)ہندی قلم سے آپ کی مدح ہورہی ہے جیسے کہ کسی گنے سے شکر آرہی ہو ۔
بائیہ قصیدہ میں بھی شمائل نبوی ﷺ کا ذکر اس قدر بلیغ انداز میں کیا ہے کہ جذبات و احساسات میں برق دوڑ جاتی ہے ،آپ کہتے ہیں۔
محمد فاتح البرایا
وإن أتانا علی العقیب
جمالہ فائض بنور
وخلقہ فائح بطیب
قد ارتقی فی السماء حقا
وحلّ بالمنزل الرحیب
لقیمۃ اللحم خاطبتہ
ودرّت الشاۃ بالحلیب
نظمت فی مدحہ جمانا
وہذہ شیمۃ الأدیب


(1)محمد ؐ تمام مخلوق کے فاتح ہیں اگر چکہ آپ کی بعثت سب سے اخیر میں ہوئی ۔
(2)آپ کا جمال تو گو یا رواں دواں نور ہے اور آپ کے اخلاق کی خوشبو سے تمام معطر ہیں ۔
(3)آپ نے یقیناًآسمانوں کی سیر کی اوراعلی مقام حاصل کیا ۔(4)گوشت کے ٹکڑے نے آپ سے خطاب کیا اور بکری نے بھی کیا ۔
(5)میں نے آپ کی مدح میں چند مویتوں کو پیش کیا ہے اور یقیناًیہ ادیب ہی کی خوش بختی ہے ۔
اکثر نعت گو شعراء نے معجزات نبوی ﷺ کا ذکر کیا ہے کہیں شق قمر کا تذکرہ ہے تو کہیں کتاب اللہ کی عظمت ورفعت کا ۔ بعض شعراء تو ایسے بھی گذرے ہیں جنہوں نے صرف ایک معجزہ پر مکمل قصیدہ کہا ہے۔ انمیں سر فہرست شاہ رفیع الدین دہلویؒ (1163ھ۔1233ھ) کا نام ہے۔ آپ اپنے زمانے کے بلند پایہ بزرگ ، عالم دین ، محدث اور فقیہ تھے۔ بقول سر سید احمد خان آپ انسانی روپ میں فرشتہ تھے۔ آپ کی ادبی صلاحیت کا اس سے بخوبی اندازہ ہوجاتا ہے کہ واقعہ معراج پر آپ نے مکمل ایک قصیدہ کہدیا، جو کہ سلیس عبارت سے آراستہ ہے ۔ابتدا میں کہتے ہیں ۔

یا أحمد المختار یا زین الورٰی
یا خاتما للرسل ما أعلا کا
ہل کان غیرک فی الأنام من استوی
فوق البراق وجاوز الأفلاکا
واستمسک الروح الأمین رکابہ
فی سیرہ واستخدم الملاکا
عرضت لک الدنیا وداعوملۃ
نسخت ببعثک طامعین رداکا
فرددتہم فی خیبۃ عن قصدہم
اللہ صانک عنہم ووقاکا
واخترت من لبن وخمر فطرۃ إلا
سلام بالہدی إلیک ہداکا
قعدت لک الرسل العظام ترقبا
فعلوت مغبوطا لہم مسراکا
وأمّمتہم فی القدس بعد تجاوز
منہم بأمر اللہ إذ ولّاکا
(1)اے احمد مختار ،اے مخلوق کی زینت ،اے خاتم الرسل کیا ہی بلند مقام پر آپ فائز ہیں ۔
(2)کیا مخلوق میں آپ کا کوئی ثانی ہے کہ جس نے براق کی سواری کی اورفلک کی سیر کی ۔
(3)روح الامین نے آپ کی سواری کی نکیل کو تھاما اورفرشتوں نے آپ کی خدمت کی ۔
(4)آپ پر دنیا کو پیش کیا گیا جسے کہ آپ نے ملت اسلامیہ کے سامنے قربان کردیا آپ کی بعثت سے حریص اورطمع پرور لوگوں کے مقاصد ناکارہ ہوگئے ۔
(5)آپ نے ان لوگوں کو ان کے غلط عزائم پرناکام کیا یقیناًاللہ نے آپ کی ان سے حفاظت کی ۔
(6)آپ نے دودھ اور شراب میں فطرت اسلامی کو اختیار کیا آپ ہی کے ذریعہ ہدایت حاصل ہوئی ہے ۔
(7)بڑے بڑے رسول آپ کے انتظار میں بیٹھے رہے اورآپ اپنی سواری پر ان کے سامنے ظاہرہوئے اس حال میں کہ سب آپ پر رشک کررہے تھے ۔
(8)
قصیدہ نہایت ہی سلیس عبار ت سے آراستہ ہے ،تکلف و تصنع سے مبرا اور تعقید لفظی و معنوی سے پاک ہے ۔معراج میں حاصل اعلی مکان و مقام کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں ۔
أد ناک ربک فی منازل قربہ
جلّی لک الأکوان ثم حباکا
وأتم نعمتہ علیک فلم تسل
أن توثر الإنفاق والإمساکا
ألقی إلیک کنوز أسرار سمت
من حیطۃ الأفہام إذ ناجاکا
وسألت فینا العفو منا شفاعۃ
فأجاب ربّک قد وہبت مناکا
حتی اذا تم الدنو تسترت
منک الہویۃ فی سنا مولاکا
فلک المناصب والسیادۃ للوری
وخلافۃ الرحمن یا بشراکا
(1)آپ نے رب نے آپ کو انتہائی قریب کیا تمام کائنات کو آپ کیلئے آراستہ کیا گیا اور آپکی خدمت میں پیش کیا گیا ۔
(2)آپ ہرنعمت کو مکمل کیا گیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(3)آپ پراسرار کے خزانے پیش کردئیے گئے جو کہ عقل کی حدود سے بالاتر ہے ۔
(4)آپ نے ہماری خاطر شفاعت کا مطالبہ کیا تو رب نے کہا کہ آپ کو عطا کیا گیا ۔
(5)
(6)مخلوق و کائنات کی سیادت و سربراہی آپ ہی کیلئے ہے اورآپ ہی کیلئے رحمن کی خلافت ہے کیا ہی خوش کن مقام ہے ۔
یہ قصیدہ کا فی اثر انگیز واقع ہوا ہے اورکیو ں نہ ہو شاعر کا مقصود بالکل واضح ہے کہ وہ نام و نمود یا مال و دولت کے حصول کیلئے شاعری نہیں کررہا ہے بلکہ تاریخ انسانیت کا اہم ترین مرحلہ واقعہ معراج کو بیان کر رضاء الٰہی کا طالب ہے ۔ہر تنگی کے بعد خوشحالی آئے گی اور جانفشانی کے بعد رحمت الٰہی کا ظہور ہوگا ،آپؐ کی کل زندگی دراصل یہی سبق دیتی ہے ،شاعر مزید کہتا ہے ۔
"
أعطاک تخفیفا وتیسیرا إلی
دین قدیم محکم لقواکا
وسواہ من نعم جسام ما لہا
عدّ وحدّ ینتہی أولاکا
فرجعت مسروراً لہا فی لمحۃ
وجمیع خلق اللہ قد ہنّاکا
أجریت دین اللہ بعد نضوبۃ
ومحوت رأس الجہل والإشراکا
(1)آپ کو سابقہ ادیان پر آسانی اور تخفیف عطا کی گئی ۔
(2)اس کے علاوہ بھی بہت سی نعمتیں ہیں جو بے شمار ہیں تمام افضلیت و برتری آپ ہی پر ختم ہوئی ہیں ۔
(3)ایک لمحہ میں آپ خوش و خرم لوٹ آئے اور اس پر تمام مخلوق نے آپ کو مبارکباد دی ۔
(4)آپ نے اللہ کے دین کو ظلم وفساد کے دور میں نافذ کیا اور شرک و جہالت کو اکھاڑ پھینکا ۔
شیریں الفاظ ،سہل اسلوب اور دلنشیں معانی کے ساتھ قصیدہ کا اختتا م ہوتا ہے ،واقعہ معراج کے بیان میں مکمل قصیدہ قرآن اور احادیث نبویہ کی تعلیمات پر مبنی ہے ۔تعلیمات اسلامی کے خلاف قصیدہ میں کوئی بات نہیں ہے، مدح نبوی میں شاعر کو توفیق الٰہی شامل رہی ہے کہ اس نے جا دہ اعتدال سے گریز نہیں کیا ۔
فضل حق خیرآباد ی (1212ھ۔1278ھ) بھی ہند کے نعت گو شعراء میں بلند مقام و منزلت کے حامل ہیں۔جس وقت آپ کے ہمعصر اردو اور فارسی زبان پر تکیہ کئے ہوئے تھے آپ نے تحریر و تصنیف کیلئے عربی زبان کا انتخاب کیا ۔ ذات نبوی ﷺسے آپ کی گہری عقیدت و وارفتگی کا بین ثبوت ہے کہ آپ نے خواہ نظم ہو یا نثر عربی زبان کے آغوش ہی میں قرار پایا۔
شفیع الخلق احمدھم جمیعا حمید الخلق محمود المقام
(1)آپؐ تمام مخلوق کے سفارشی ہیں اور سب سے مجدو شرافت کے حامل ہیں بلند مقام سرفراز ہیں ۔
نعتیہ شاعری کے اس رواں دواں قافلہ میں حبیب ابو بکر بن شھاب علوی حیدرآبادی (1262ھ ۔1341ھ)ایک امتیازی شان و منزلت کے حامل ہیں۔ آپ زبان و بیان کے ماہر اور مختلف علم و فنون پر دسترس رکھتے تھے ۔ عربی زبان و ادب کے نابغہ روزگار اساتذہ کا شمار آپ کے طلباء میں ہوتا ہے۔ مثلاً علامہ عبد القدیر صدیقی ، سید ابراہیم رضوی ، ڈاکٹر وحید الدین عالی وغیرہ ۔ شان نبوت میں آپ نے ایک منفرد قصیدہ کہا ہے جسکی انفرادیت یہ ہے کہ یہ مکمل قصیدہ بغیر نقطے کے الفاظ پر مشتمل ہے، کہتے ہیں ۔
ساد رسل اللہ طٰہٰ أحمد
مصدر الکل لہ والموارد
ہو روح اللہ والأمر ومعا
ولہ العالم وہو المدد
(1)طہ ،احمد ،سید الرسل میں اورتمام چیزوں کے مصدر و مورد ہے ۔ (2)آپ روح اللہ اور امراللہ دونوں ہیں اور آپ ہی کیلئے تمام کائنات ہے ۔
شان نبوت میں اظہار عقیدت ہر کس و ناکس کا کام نہیں ہے۔ کب مدح قدح بن جائے اور کب سعادت کے بجائے ہلاکت نصیب آجائے یہ کہہ نہیں سکتے۔ہندوستان کے عربی نعت گو شعراء کا یہ کمال ہے کہ انہوں نے اس پر خار وادی کا سفر بخوبی طئے کیا ۔ یہ سفر اب بھی جاری ہے گویا کہ شعراء زبان حال سے یہ کہہ رہے ہیں ۔
ہر لحظہ نیا طور نئی برق تجلی اللہ کرے مرحلہ شوق نہ طئے

***
ڈاکٹر خلیل احمد ندوی
اسسٹنٹ پروفیسر ، شعبہ عربی
کوہ نور کالج ،خلدآباد
Email: chishtikhalil[@]gmail.com
ڈاکٹر خلیل احمد ندوی

Indian poets who writes Naat in Arabic. Article: Dr. Khalil Ahmed Nadvi

2 تبصرے: