میلہ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2015-12-22

میلہ

the-fair
تہذیبی ارتقاء میں میلہ، ہجوم، میل جول، چیخ پکار، سیر سپاٹے، کھیل کود، تفریح، ناچ گانے، موسیقی، مداری، بھانڈ، پہلوانی اور اکھاڑوں کی نمائیش، ضروریات و ایجادات، خرید و فروخت کے علاوہ معاشرت، ادب، مذہب، ثقافت اور تجارت کا بھی آئینہ دار رہا ہے۔۔۔۔زمانہ قدیم سے انسانی معاشرے میں اسکی اہمیت اور افادیت کو سراہا جاتا رہا ہے۔۔۔۔۔جب مختلف تہذیبوں کے ایکدوسرے سے متاثر ہونے کے امکانات بے حد کم ہوا کرتے تھے، جب نقل و حمل، آمد و رفت کے ذرائع انسانی تہذیب و تمدن میں آسان نہیں ہوا کرتے تھے، اور جب مقامی سطح پر بنجاروں اور قبائلیوں کے ذریعے میلوں کا قیام ممکن ہوا کرتا تھا ۔۔۔۔ تب سے میلہ معاشرے کا اہم حصہ رہا ہے۔۔۔۔ اور مختلف خطوں میں، مختلف موسموں میں، اور مختلف تہذیبوں میں اسکا وجود پایا جاتا ہے ۔۔۔۔، قدیم مصری، یونانی، رومن، سندھی، یورپی، افریقی، چینی، ساسانی تہذیبوں میں میلوں کا ذکر ملتا ہے اور یہاں تک کے تہذیب جدیدہ بھی میلے سے اپنے آپ کو مبرا نہیں رکھ سکی ۔۔۔میلے آج بھی اسی جذبے سے بلکہ زیادہ آن بان شان سے آتے جاتے رہتے ہیں۔۔۔۔۔۔بس انکی شکلیں بدلتی رہتی ہیں۔۔ پھر وہ چاہے مقابلہ حسن کا میلہ ہو یا عشق و عاشقی کا، یا شباب و شراب و کباب کا، یا پھر کتابوں کا میلہ ۔۔۔جیسے جیسے انسان مہذب ہوتا چلا گیا میلوں کی شکلیں اور غرض و غایت بھی بدلتی چلی گئی۔۔۔۔۔ پھر صنعتی، تجارتی، تعلیمی، ادبی، زراعتی، عسکری، سیاحتی ، بحری بری وخلائی اور سیاسی، الغرض ہر قسم کے میلے عجیب و غریب طور طریقوں سے وجود میں آنے لگے۔۔۔۔۔ ایسے تمام میلے موسمی اور عارضی ہوا کرتے، حتی کہ اب انسان نے دائمی میلوں کے قیام کا ذریعہ ڈھونڈ لیا ہے۔۔۔۔۔۔ویسے بھی انسان انفرادی و اجتماعی طور سے آگہی کے نئے نئے طریق ڈھونٹتا رہتا ہے۔۔۔ کیا کرے بے چارہ، بقول علامہ۔۔۔۔ بیتاب ہے ذوق آگہی کا۔۔۔۔۔۔کھلتا نہیں بھید زندگی کا۔۔۔۔۔

ٹیکنالوجی کے موجودہ دور میں اب میلے انٹرنیٹ کی دنیا میں متعارف کردئے گئے ہیں۔۔نئی نئی اصطلاحات ایجاد کر لی گئی ہے, artificial realty یعنی بناوٹی حقیقت کو ۔۔۔۔۔Virtual Realty ۔۔حقیقی سچائی سے تعبیر کر لیا گیا ہے۔۔۔۔اب مذکورہ تمام میلے برقی و لاسلکی دنیا میں نظر آنے لگے ہیں، جسے انٹرنیٹ اور موبائیل کی دنیا کہتے ہیں، جسے مہذب انسان اب ہتھیلی میں سمائے گھومتا ہے ۔۔۔۔۔ ان میلوں میں کھونے کا خوف تو نہیں رہتا البتہ حاصل و حصول میں وہ شوخیاں اور گرمیاں بھی باقی نہ رہی۔۔۔ اس میلے میں بھی سب کچھ ملتا ہے اور بکتا ہے۔۔۔ لیکن اسکی افادیت کا سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ اس میلے میں معلومات کا اتھا سمندر ہے جو مفت میں حاصل ہے۔۔۔۔۔۔علم کا لا متناہی خزانہ ہے جو کسی زمانے میں بے حد قیمتی اور مشکل سے دستیاب ہوا کرتا تھا، اب انگلیوں کے اشاروں سے حاصل کیا جاسکتا ہے۔۔۔یہ وہی حاصل و حصول کا کھیل تھا جس نے پچھلی چند صدیوں میں انسان کو در در کی خاک چھاننے پر مجبور کردیا تھا۔۔۔ اور پھر انسان اپنی تحقیقات، دریافت اور ایجادات سے تہذیبی عروج کے آسمانوں پر جا پہنچا۔۔۔۔حصول و حاصل کا یہی وہ سفر تھا جس نے آغاز سے عروج و کمال کے ان مقامات اور مراحل تک انسانوں کو جانوروں سے ممیز کر رکھا تھا۔۔۔۔۔لیکن اب تو یہ تمیز بھی جاتی رہی ۔۔۔ اب یہاں کچھ بھی بلکہ بہت کچھ بکتا اور خریدا جاتا ہے۔۔۔ جو انسانی تہذیب کے مذکورہ کسی میلے میں نہیں دیکھا گیا۔۔۔۔ ہر کمالی را زوالی تو انسان نے دیکھا اور سنا تھا۔۔۔۔ لیکن عروج و کمال کے بعد کی ایسی پستی کبھی انسان نے دیکھی تھی نہ سنی تھی۔۔۔۔ انسانی تہذیب کا یہ عروج بس ختم ہوا چاہتا ہے، اور انسانی تواریخ یہی اشارا کر رہی ہے کہ ایک قدیم تر میلہ ایسا بھی ہے جس کا کوئی ثانی نہیں ہے اور اب اس میلے میں شدید طوفان آنا یقینی ہے۔۔۔۔ یہ وہ میلہ ہے جس میں انسان مادیت پرستی اور نفسہ نفسی کے جنون میں خود کو کھو چکا ہے۔۔۔۔یہ انسان کے ظاہر و باطن کا میلہ ہے۔۔۔خواہشات کا میلہ ہے۔۔۔۔۔۔یہ دنیا کا میلہ ہے۔۔۔جس میں اب انسان کی نظریں دھواں دھواں ہیں، اور اسکے قدم لڑکھڑانے لگے ہیں۔۔۔۔جہاں اب ایقان میں بے ایمانی اور اذ ہان میں بد گمانی شامل ہے، جہاں حب الوطنی کو وطن پرستی اور عقیدت کو شخصیت پرستی سے بدل دیا گیا ہے، جہاں اعتماد و اتحاد، شرم و حیا، ندامت و پشیمانی اپنے حقیقی معنی کھو چکے ہیں۔۔۔۔

الغرض کہتے ہیں یہ دنیا بھی ایک میلہ ہے۔۔۔۔۔خالق کائینات نے یہ میلہ سجا رکھا ہے جس میں انسانوں کا ایک جم غفیر مادیت اور روحانیت کے بے شمار ٹھیلے لگائے آتا اور جاتا رہتا ہے۔۔۔۔۔ اس میلے میں سب کچھ طے شدہ ہے ۔۔۔۔میلے میں آنا اور لوٹ کے واپس جانا بھی۔۔۔۔ حصول و لاحاصل کے مراحل سے گزرنا۔۔ملنا ملانا، لڑنا لڑانا، کھونا پانا، یاد رکھنا اور بھول جانا بھی۔۔۔قسمت کے آسمانی جھولے پر جھولنا اور کبھی پستی تو کبھی بلندی پر پہنچنا ۔۔۔اب ہر کوئی توازن برقرار رکھ نہیں پاتا ۔۔۔۔۔ کوئی میلے کی غرض و غایت سے اعراض برت کر توازن کھو بیٹھتا ہے، اور میلے کی افادیت سے محروم ہو جاتا ہے۔۔۔ کوئی میلہ لوٹ لیتا ہے اور کوئی لٹ بھی جاتا ہے، یہ اور بات کہ کوئی مادی لوٹ مار کا مارا ہوتا ہے اور کوئی روحانی لوٹ مار کا ۔۔۔۔۔ کس کے حصے میں کیا آتا ہے یہ تو واپسی پر پتا چلے گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دنیا کے میلے میں سب کچھ ملتا ہے، بکتا ہے اور خریدا بھی جاتا ہے۔۔۔۔سیر و تفریح کے سامان سے لے کر سامان تعیش تک، مختلف انسانی بھوک سے لے کر حرص و طمع تک، لباس و بے حجابی سے لے کر بے حیا ئی تک، حجاب آرائ سے لے کر شرم و ندامت تک، بے بسی سے لے کر بے کسی تک، نذرو نذرانے سے لے کر نظر و نظارے تک، تاریخ سے لے کر جغرافیہ تک۔۔۔حقارت سے لے کر پزیرا ئی تک، دروگ گوئی سے پیشن گوئی تک، اور تو اور ماضی و حال و مستقبل بھی دیکھا اور دکھایا جاتا ہے، اور خریدا اور بیچا بھی جاتا ہے۔۔۔دین و مذہب و ایمان و عقاید سب کچھ اس میلے میں بک جاتے ہیں۔۔۔اس میلے میں جمہوریت کا ٹھیلا بھی ہے اور کمیونزم اور سوشل ازم کا جھمیلا بھی۔۔۔سیاسی خوانچہ فروش سے لے کر تجارتی و معاشیاتی پھیری والے سب اس میلے میں مل جاتے ہیں۔۔۔۔۔۔اس میلے میں سرکاری اٹھائی گیرے، بد عنوان افسران ، منکر خدا مسخرے، سیاسی ٹوپی باز، رہنما جادوگر ، میڈیا کے مداری اور فنون لطیفہ کے بھانڈ بھی آتے جاتے ہیں، اور اس میلے میں ادبی و علمی اکھاڑوں کی نمائیش بھی ہوتی ہے۔۔عیش پرستی کے چکر داری جھولے میں جھولتے امرا و روسا بھی آتے جاتے ہیں۔۔۔۔عموما یہ مادیت پرستی میں شرابور لوگوں کا میلہ ہے۔۔۔ لیکن ان سب کے باوجود اس میلے میں تعلیم و تدریس، دعوت حق اور کار خیر کا علم اٹھائے فقیر بھی چکر کاٹتے ہیں۔۔۔۔۔الغرض دنیا کے اس میلے میں آنے اور جانے، کھونے اور پانے کا سلسلہ یونہی چلا آرہا ہے۔۔۔اور میلے میں آندھی و طوفان کا سلسلہ بھی۔۔۔۔۔جو اکثر و بیشتر میلے کو تہس نہس کر جاتا ہے۔۔۔۔لیکن پھر میلے لگ جاتے ہیں۔۔۔۔لیکن یہ میلہ آخر کب تلک۔۔۔

***
Zubair Hasan Shaikh (Mumbai).
zubair.ezeesoft[@]gmail.com

The Fair. Article: Zubair H Shaikh

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں