پاک و بھارت کی خودنوشتوں اور رسائل و جرائد سے (پاک و ہند کے ادباء و شعرا کے عشق کی داستانیں)
یہ کتاب انشاء اللہ 8 نومبر 2015 کو اٹلانٹس پبلی کیشنز کراچی سے شائع ہو رہی ہے۔
بلاشبہ عشق انسانی جبلت ہے اس جبلت سے انکار ممکن نہیں اگر ایسا نہ ہوتا تو اقبال ’کبھی کبھی دل کو تنہا چھوڑ نے‘ کا مشورہ ہرگز نہیں دیتے۔ عشق انسانی زندگی کو وسعت لطافت رفعت عطا کرکے قلب کی تطہیر کرتا ہے۔ عشق نظریہ بھی ہے تو نظر بازی بھی۔ عشق کی معصومیت اور پاکیزگی ہی ادب عالیہ کی تخلیق کا محرک ہے جو شخصیت کو نکھار تی سنوارتی اور جِلا دیتی ہیں۔ حافظ سعدی رومی میر غالب کے لیے عشق کوئی فروگزاشت نہیں ہے۔ دو انسانوں کے درمیان تعلق رکھنے میں وہ جذباتی گہرائی ہوتی ہے ،وہ کسی بھی دوسرے تعلق سے بہت بلند و برتر ہوتی ہے۔ عشق ادب فطرت کائنات میں ہم آہنگی پیدا کر کے اسے ہمہ گیر بنا دیتا ہے۔ ادیبوں ، دانش وروں اور شاعروں کے لیے عشق چوری چھپے کی چیز نہیں بلکہ یہ بھرپور اور توانا احساس ہوتا ہے ۔عشق حصولِ لذت کا نام نہیں بلکہ حصول رفعت کا نام ہے جب ہی میر کے والد نے کہا تھا: بیٹے عشق کر۔ عشقِ جنسی جبلت نہیں یہ ارفع انسانی شعور کا نام ہے جو کائنات کی ہر شے کو اپنے اندر سمیٹ لیتی ہے۔”دل ہی تو ہے“ اسی آتش بے خطر میں کود پڑنے کے سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ آپ خود فیصلہ کیجئے کیسے کیسے مشاہیر ِ ادب نے عشق کے صحرا میں ٹھوکر کھائی کہ واقعی عقل محوِ تماشا ہے۔
رام لعل،ندا فاضلی، ڈاکٹر سلیم اختر، آغا اشرف، جاوید شاہین، احسان دانش، ڈاکٹر سید محمد عقیل(الہ آباد)، شہرت بخاری، حافظ لدھیانوی، اشفاق نقوی، ساقی فاروقی،آغا جانی کاشمیری، حمید نسیم، حبیب تنویر، ڈاکٹر سید اعجاز حسین(الہ آباد)، شوکت کیفی، اویس احمد دوراں ،دلیپ سنگھ، قتیل شفائی، کیپٹن محمد ادریس و دیگر کے معاشقوں کا احوال ان کے اپنے قلم سے۔
آغا حشر، قاضی عبدالستار ، سلمی صدیقی کے انٹرویوز سے دل لبھاتے انکشافات
ڈاکٹر سید محمد عقیل(الہ آباد) کے قلم سے تیغ الہ آبادی المعروف مصطفی زیدی کی رنگین مزاجی پر مبنی ان ایام کی داستانیں جب تیغ الہ آباد یونیورسٹی میں سید محمد عقیل کے ہم جماعت تھے۔
سلمی صدیقی کے انٹرویوز سے کرشن چندر کی باتیں، ان دنوں کا قصہ جب کرشن چندر نے سلمی صدیقی سے شادی کی تھی اور وقار الملک کہلائے تھے۔
سنہ 39 کے ایک مضمون "آغا حشر سے ایک ملاقات" سے دل چسپ قصے۔
دل ہی تو ہے
صفحات:500 ۔۔ قیمت: 590
ناشر: اٹلانٹس پبلی کیشنز، کراچی
رابطہ:
اے 36 ایسٹرن اسٹوڈیو، بی 16 سائٹ کراچی
فون:
0092-300-2472238
0092-21-32581720
برقی پتہ: atlantis.publications[@]hotmail.com
یہ کتاب لاہور میں ماورا بکس، مال روڈ پر دستیاب ہوگی
دنیا بھر میں ترسیل کے لیے اٹلانٹس کے درج بالا ای میل پتے پر رابطہ کیجیے، اٹلانٹس اپنے وضع کردہ نظام کے تحت کہیں بھی ترسیل کو ممکن بنائے گا۔
اٹلانٹس کے نیٹ ورک کے تحت پاکستان میں دستیابی:
- ویلکم بک پورٹ اردو بازار کراچی فون نمبر 32639581
- راولپنڈی میں اشرف بک ایجنسی کمیٹی چوک، فون نمبر 5205014-0333
- لاہور میں سلطان نیوز ایجنسی ، فون نمبر 4009578-0300
- اسلام آباد میں مسٹر بکس سپر مارکیٹ ، فون نمبر0512218843
- اسلام آباد میں بک فیئر ، جناح سپر مارکیٹ سے دستیاب ہے، فون نمبر0512650080
- کراچی اور لاہور ایرپورٹ انٹرنیشنل اور ڈومیسٹک لاونج میں بک مارٹ شاپس پر دستیاب ہوگی
ہندوستان میں دستیابی کا پتا:
یہ کتاب انشاء اللہ پچیس روز تک محترم جناب محمد انیس الدین کے پاس دستیاب ہوگی۔ اپنی کاپی آج ہی محفوظ کرائیے:
انیس صاحب سے رابطے کی تفصیلات یہ ہیں:
محمد انیس الدین
پلاٹ نمبر سکس - بی
آفرین ٹیچرس کالونی
پوسٹ آفس کھام گاؤں سٹی
ضلع بلڈانہ
ریاست مہاراشٹر ( انڈیا) 444303
برقی پتہ:
anis_riz[@]yahoo.com
انگبیں نژاد تخلیق کار
راشد اشرف ان باکمال اور گنے چنے لوگوں میں ہیں جو گزشتہ کئی برسوں سے ماضی کے گم گشتہ خزانوں کو نہایت تواتر کے ساتھ قارئین کے سامنے پیش کررہے ہیں۔ راشد کو نہ علم کا غرہ ہے نہ تحقیق کا دعوٰی۔نہ انہیں اپنی تصانیف کے جابجا تذکروں کی ضرورت پڑتی ہے اور نہ اس کے لیے اپنی لابی تشکیل دینے کی حاجت ہوتی ہے۔وہ اپنے مقصد اور اپنی منزل سے نظریں نہیں ہٹاتے اور یہی ان کی جیت ہے ۔
کتابوں کے رسیا تو بہت سے ہوتے ہیں (اگرچہ فی زمانہ یہ ذوق بھی کمیاب ہوتا جارہا ہے ) اور راشد اشرف کے قرب و جوار میں بھی ایسے لوگ موجود ہیں جنہوں نے اپنے ماتھے پر جلی حروف سے کتاب دوست اور محقق لکھوا رکھا ہے لیکن یہ اپنی اپنی قسمت ہے کہ کئی لوگ علم کے خزانے حاصل کرکے زہر اور سمّیت پھیلانے کو ترجیح دیتے ہیں جبکہ راشد کی ساری توانائی علم و ادب کی نشر و اشاعت میں صرف ہوتی ہے۔انسانوں کی ان دونوں اقسام میں فرق وہی ہے جوگندگی پھیلانے والی مکھی اور شہد تخلیق کرنے والی مکھی میں ہوتا ہے۔
نادر اور کمیاب تحریروں کو طبع شدہ شکل میں محفوظ کردینا راشد کا شوق ہے اس لیے وہ خود بہت قیمتی لوگوں میں سے ہیں۔ایسے ایسے نادر مضامین،نثر پاروں،شخصیات اور کتابوں سے انہوں نے ہمیں متعارف کرایا ہے کہ رشک آتا ہے۔اور گھر بیٹھے آپ کی جھولی میں وہ نایاب موتی اس طرح آن پڑتا ہے کہ گویا آپ اس کے سب سے بڑے مستحق تھے۔حیرت ہوتی ہے کہ اس کم عمری میں یہ چسکا اس نوجوان کو لگا جس کے لیے مبارک اور شکریے کے مستعمل الفاظ ہی استعمال کرنے پڑتے ہیں لیکن مبارک اور شکریے کے الفاظ لکھ کر بھی جب لکھنے والے کو اطمینان نہ ہو تو سمجھ لینا چاہیے کہ پیش کردہ تحفہ ان الفاظ کی محدود دسترس سے باہر ہے۔
سلیم احمد کا مصرعہ ہے ...ع .... روشنی کے ساتھ رہیے روشنی ہوجائیے
نایاب تحریروں کو محفوظ کرتے کرتے آپ خود نادر و نایاب بن چکے ہیں.سدا سلامت رہیے۔س
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دوسرے بزرگوں سے نیاز اور بے تکلفی نہ ہونے کے باعث ہمارے لیے شاہد احمد ہی دلی تھے۔ اور ہمارے لیے بے شک اس کے مرنے سے مر گئی دلی۔ ہم لوگوں کا ناطہ دلی سے 1947 میں ٹوٹا لیکن اس اجڑے دیار کی روح کو ہم اسمگل کر لائے۔ شاہد احمد روز روز پیدا ہونے والی ہستی نہ تھا لیکن یہاں اسے گا بجا کر روزی پیدا کرنی پڑی۔ شکر کا مقام ہے کہ حلال کی روزی تھی۔ شرم کا مقام ہے کہ ہم اس سے بہتر نہ مہیا کرسکے۔ اب بیٹھو۔اس کی کتابیں پڑھو،مضمون پڑھو۔یہی چیزیں باقی رہ گئی ہیں کہ یہی باقی رہ جاتی ہیں۔ اس کا نغمۂ اول تو ہمارے لیے نہیں،کن رسوں کے لیے تھا۔بہرحال جو کچھ تھا ہوا میں تحلیل ہوگیا۔ سرود رفتہ باز آید ہرگز نہ آید۔ اس جوانِ رعنا کو ہم نے نہ دیکھا کہ 1930 ء کے بعد دلی کی محفلوں کی دھوم تھا۔ہم نے تو بہت بعد،کوئی بیس برس بعد اس کی خاکستر دیکھی۔ققنس مرتا نہیں ،خاکستر ہوجاتا ہے اور پھر اس سے دوبارہ جنم لیتا ہے
ہر زماں از غیب جانے دیگر است
ابن انشاء
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شاہد احمد دہلوی کی نثر کو پڑ ھ کر یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ آدمی کو اپنی بات کس طرح کہنی چاہیئے کہ شگفتگی بھی باقی رہے اور بات بھی پوری ادا ہوجائے۔ شاہد صاحب کی نثر میں وہ دل کشی اور شگفتگی ہے کہ بات سیدھی دل میں اتر جاتی ہے۔ محاوروں اور لفظوں کا اس قدر صحیح استعمال ہوتا ہے کہ ہر لفظ زندہ اور جیتا جاگتا نظر آتا ہے جو آپ سے بات کرتا ہے ۔آپ کو تھپکتا ہے آپ کو جھنجھوڑتا ہے اور انہیں الفاظ کے ذریعے خیال اور احساس کی پوری تصویر پڑھنے والے کے سامنے آکھڑی ہوتی ہے۔
جمیل جالبی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فراق کورکھپوری نے ایک جگہ کہا : اس دور میں نذیر احمد تو کیا شاہد احمد بھی پیدا ہونا مشکل ہے۔ اس جملے میں ہمارے سامنے دو باتیں آتی ہیں۔ ایک یہ کہ نذیر احمد کی قائم کی ہوئی روایت کو شاہد احمد پوری کررہے ہیں ۔دوسری یہ کہ ان کی صلاحیتوں کے ادیب ہر روز نہیں پیدا ہوتے بلکہ جس دور میں پیدا ہوجائیں اسے ان پر ناز کرنا چاہیے۔
ڈاکٹر محمد احسن فاروقی
نمبر | نام | موضوع | ناشر | سن |
---|---|---|---|---|
1 | ابن صفی۔کہتی ہے تجھ کو خلقِ خدا غائبانہ کیا | نایاب خاکے و مضامین | بزم تخلیق ادب، کراچی | مئی 2012ء |
2 | ابن صفی۔شخصیت اور فن : ایک نابغہ روزگار ادیب کو خراج تحسین | تحقیق | بزم تخلیق ادب، کراچی | اپریل 2013ء |
3 | مولانا عبدالسلام نیازی : آفتابِ علم و عرفان | دلچسپ خاکے | اردو اکیڈمی بہاول پور | اپریل2014 ء |
4 | طرزِ بیاں اور : پرانی کتابوں کا اتوار بازار | خودنوشتوں پر تبصرے | بزم تخلیق ادب، کراچی | ستمبر2014ء |
5 | چراغ حسن حسرت : ہم تم کو نہیں بھولے | یادگار خاکے و مضامین | بزم تخلیق ادب، کراچی | اکتوبر 2014ء |
6 | حیرت کدہ : خودنوشتوں و دیگر کتب سے ماورائے عقل واقعات | تحقیق | اٹلانٹس پبلی کیشنز، کراچی | اپریل 2015ء |
7 | گلدستہ شاہد احمد دہلوی : شاہد دہلوی کے جریدے ساقی سے انتخاب | تحقیق | بزم تخلیق ادب، کراچی | ستمبر 2015ء |
8 | دل ہی تو ہے : پاک و بھارت کی خودنوشتوں سے مشاہیر کی رومانی داستانیں | تحقیق | اٹلانٹس پبلی کیشنز، کراچی | نومبر 2015 ء |
9 | پاک وبھارت کے نادر و کمیاب شخصی خاکے : (دو جلدوں میں، گیارہ سو صفحات) | تحقیق | اٹلانٹس پبلی کیشنز، کراچی | زیر ترتیب |
10 | تقسیم سے قبل اور بعد کے رسائل و جرائد سے مختصر سفرنامے اور رپورتاژ | دیس دیس کی داستانیں ، مشاہیر کے قلم سے | -- | زیر ترتیب |
11 | شکاریات کی کہانیوں کا انتخاب | جم کوربیٹ، کینتھ اینڈرسن، کرنل پیٹرسن، تہور علی خاں، مقبول جہانگیر، جاوید شاہین و دیگر کی داستانیں | -- | زیر ترتیب |
حصول کے لیے رابطہ | Atlantis, 0092-21-3426880, 0092-300-2472238 |
راشد اشرف |
An Introduction to a book on Romantic tales of Dignitaries of literature "Dil hi to hai" by Rashid Ashraf
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں