کبھی خاموشی بھی ضرورت بن جاتی ہے اور کہیں بولنا - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2015-11-15

کبھی خاموشی بھی ضرورت بن جاتی ہے اور کہیں بولنا


"حاضرین مجھے نہیں معلوم تھا کہ اس جلسے میں مجھے کچھ بولنا بھی پڑے گا۔ ورنہ میں کچھ تیاری کر کے آتا خیر، اب مائیک پر بلا لیا گیا ہے تو دوچار لفظ میں عرض کئے دیتا ہوں۔ میں صرف تین باتیں کروں گا پہلی تو یہ کہ۔۔۔"
موصوف نے پھر جب مائک سنبھالا تو تین باتوں کے نام پر تیس تیس باتیں سنائیں، لیکن یہ باتیں ان کے اندرون کی غمازی کر رہی تھیں۔ بے ربط جملے اور اگر جملوں میں کوئی ربط ہوتابھی تھا تو وہ اپنے تاثر اور تاثیر سے خالی ہونے کا اعلان بن جاتا تھا۔
آپ نے دیکھا ہوگا کہ بہت سے افراد یوں تو خوب "بولتے خاں" بنے رہتے ہیں مگر جب انھیں کسی محفل میں لوگوں کے سامنے کھڑا کر دیا جائے تو وہ ہوتے ہیں اور پھر اُن کی لاچاری مثلاً
"میں یہ کہنا چاہتا تھا میرا مطلب یہ ہے کہ "
عام حالات میں انھیں اپنے بولتے خاں اور علم و فضل کا شدید احساس بھی ستاتا رہتا ہے اور اگر کوئی چلتے پھرتے قسمت کا مارا مل جائے تو پھر اُن کے علم و فضل کا آتش فشاں پھوٹ پڑتا ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں اس کا احساس ہی نہیں ہے کہ خاموش رہنا بھی زندگی کی ایک ضرورت ہے اور پھر یہ تو آپ نے سنا ہی ہوگا کہ ذہین لوگوں کی خاموشی بھی کلام کرتی ہے۔ ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ بولنا بھی ایک فن ہے اور اسی طرح خاموش رہنا بھی فن نہ سہی مگر اس میں بڑی عافیت پوشیدہ رہتی ہے۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ رضی اللہ عنہ کا قول بڑا معنی خیز ہے کہ "بولو ! تاکہ پہچانے جاؤ"
اِس مختصر جملے کا آخری ٹکڑا بڑا معنی خیز ہے ۔ جب غور کیاگیاتو سمجھ میں یہ آیا کہ
"بولو اور جب بولو گے تو اندر جو کچھ ہوگا وہی منہ سے برآمد ہوگا۔ جہل ہوگا تو جہل عیاں ہوگا اور علم ہوگا تو علم روشن ہوگا۔"

یہاں یہ بھی یاد آیا کہ ہمارے اکابر و اسلاف خاموشی کو بڑی عافیت کا سبب سمجھتے تھے۔ اور یہ قول تو سب نے سنا ہے کہ جو خاموش رہا وہ فلاح پا گیا۔ مگر یہ بھی نہیں کہ خاموشی ہی سب کچھ ہے۔ معاملہ یہ ہے کہ ہمیں جاننا چاہئے کہ کہاں خاموش رہنا ہے اور کہاں بولنا ہے۔
ہم نے ایسے بھی اشخاص دیکھے ہیں جو اپنی خوشی اور ملال، غصے اور مسرت کے جذبے کا ایسا اظہار کرتے ہیں کہ لگتا ہے کہ بس زبان اور اس کی طاقت بس انہی کو دی گئی ہے اور پھر قدرت کا کام ہوتا ہے کہ بولنے والا کہیں کا نہیں رہتا۔ اسی بات کو بڑے سلیقے اور ایک ہنر کے ساتھ ہماری زبان کے مشہور شاعر افتخار عارف نے کہا ہے ۔ جو عبرت و موعظت کا ایک سبق بن گیا ہے:
یہ وقت کس کی رعونت پَہ خاک ڈال گیا
یہ کون بول رہا تھا خدا کے لہجے میں

اسی شہر (ممبئی)میں ہماری زبان و ادب کے ایک بہت بڑے عالم اور فاضل شخص تھے کہ جن کے سامنے "لسان العصر" پربھی خاموشی کا دور ہ پڑجاتا تھا اور ایسا دورہ کہ جب تک وہ عالم و فاضل وہاں سے رُخصت نہ ہوجائے اُس کی زبان پر تالے لگے رہتے تھے۔
وہ لوگ جو واقعی عبرت پکڑتے ہیں ان کےلئے اِس میں بڑا اہم سبق چھپا ہواہے۔ قدر ت نے ان بولتے خاں کو ایسا خاموش کیا کہ وہ برسوں زندہ رہے مگر بول سے محرومی کے ساتھ یعنی اُن کی قوتِ گویائی سلب کر لی گئی تھی، وہ بیچارے اپنی حاجت اور ضرورت بھی لکھ کر ہی اپنے لواحقین کو بتاتے تھے۔

حضرت علیؓ پھر یاد آئے کہ ان سے پوچھا گیا کہ آدمی مختار ہے یا مجبور؟
در ِشہر علم کا جواب تھا کہ ایک پیر اُٹھاؤ سوال کرنے والے نے ایک پیر اُٹھا لیا پھر حضرت علیؓ نے کہا کہ اب دوسرا پیر اُٹھاؤ سائل نے معذوری کا اظہار کیا، تو حضرت علیؓ نے کہا کہ اسی عمل میں آدمی کی مختاری اور مجبوری چھپی ہوئی ہے کہ وہ ایک پیر اُٹھانے تک ہی مختار ہے اور پھر مجبور ہی مجبور۔

حیرت ہے کہ ہم جو معمولی سے معمولی عمل کےلئے مجبور ہیں تو پھر کس بات پر اپنے ہونے کے احساس پر فخر و ناز کرتے ہیں اور علم کے فخر کا انجام تو ابلیس کے ذریعے ہم پر پہلے ہی واضح کر دیا گیا ہے۔ جس کے اعادے کی ضرورت نہیں ہے۔
اچھے لوگ تو ہر بات سے اپنی بات بنانا جانتے ہیں۔ سنیے حضرت دِواکر راہی کیا کہہ گئے ہیں ۔ شاید ان کے مخاطَب ہم ہی ہوں
زندگی میں بڑا ضروری ہے
یہ سمجھنا کہ کیا ضروری ہے

***
Nadeem Siddiqui
ای-میل : nadeemd57[@]gmail.com
ندیم صدیقی

The Art of silence and sound. Article: Nadeem Siddiqui

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں