اردو زبان کی سلاست اور شیرینی - مسلسل مجروح ہوتی ہوئی آج کے بیانیہ تک - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2014-12-28

اردو زبان کی سلاست اور شیرینی - مسلسل مجروح ہوتی ہوئی آج کے بیانیہ تک

fall of language of Urdu Journalism
اردو دنیا میں سب سے زیادہ بولی جانے والی زبانوں میں انگریزی اور چینی زبان کے بعد تیسرے نمبر پر ہونے کی دعویدار ہے۔
اردو کا گھر ہندوستان لیکن اردو کا مسکن پوری دنیا ہے۔ بر صغیر ہند یعنی ہندوستان، پاکستان اور بنگلہ دیش میں تو یہ زبان بولی ہی جاتی ہے اس کے علاوہ گذشتہ 60,70 برسوں کے دوران خلیج اور مغرب کے مختلف علاقوں میں اردو کی جو نئی بستیاں آباد ہوئی ہیں ان میں یہ زبان اپنے تمام تر تہذیبی حوالوں کے ساتھ خوب پھول پھل رہی ہے۔
ہندوستان پاکستان کے باہر نہ صرف اس زبان میں لکھنے والے بڑے دماغ اپنی تخلیقیت کااعلی پیمانے پر اظہار کررہے ہیں بلکہ اخبارات، جرائد اور رسائل کے ذریعہ عہدحاضر کی حسیت کا بھی بیان ہورہا ہے۔ اردو کی معیاری زبان تقریبا ہر جگہ ایک ہے۔ لہجہ علاقائیت سے متاثر ہو سکتا ہے، لفظیات پر بھی علاقائیت غالب ہوسکتی ہے لیکن جو معیاری زبان ہے وہ نظم اور نثر دونوں میں ایک خاص سطح پر موجود ہے۔ ادب کی زبان میں دانشورانہ رعب ہر جگہ یکساں ہے۔

صحافت کی زبان ابھی چند برس پہلے تک نہ صرف معیاری تھی بلکہ اصطلاح سازی کا فریضہ بھی پوری دیانت داری کے ساتھ نبھا رہی تھی۔ گذشتہ چند برسوں کے دوران یک بہ یک اطلاعاتی ٹیکنالوجی کے حوالے سے آیا ہوا ایک سرطان اردو کی صحافتی زبان کو بری طرح سے بیمار کر رہا ہے۔ یہ صورتحال اس ضد کی پیداوار ہے کہ لکھنے کیلئے ز بان جاننا ضروری نہیں، ٹیکنالوجی ضروری ہے۔
صحافت ہر طرح کی مار جھیل سکتی ہے لیکن زبان کی نزاکت اورسلاست سے نابلد کسی قلم کا بوجھ نہیں جھیل سکتی۔ اس وقت وہی قلم کمپیوٹر کے "کی بورڈ" بن کر چل رہے ہیں، جن میں بیان مشینی ہے اور احساس کی کوئی سطح ایسی نہیں جو اظہار کو جاندار بنانے میں معاون ہو سکے۔
اصل میں ٹھیک سے دیکھا جائے تو یہ اردو صحافت کے اس گرتے ہوئے معیار کی طرف متوجہ کرتا ہے جس سے بیشتر لوگ غافل ہیں یا کاروباری ذہنیت اس نازک پہلو کو نظر انداز کرنے کی تحریک دیتی ہے۔ اطلاعاتی ٹیکنالوجی کے انقلاب کے ساتھ اردو اخبارات سے ایڈیٹر کا غائب ہو جانا ایک ایسا المیہ تھا جس کی طرف توجہ نہیں دی گئی۔ ایڈیٹر کی موت کسی کو نظر ہی نہیں آئی اور مشین نے انسان کو کھا لیا۔
مشین بہر حال مشین ہے۔ گوگل ٹرانسلیٹ اگر اردو صحافت کی بنیاد بنتا ہے تو یہ ایک ایسا المیہ ہے جس پر آنسو بہانے کیلئے اگلی نسل کا انتظار نہیں کرنا پڑے گا۔ صحافیوں کی یہی نسل اشکبار رہے گی۔ جھگڑا اس کا ہے جو حساس ہے، جسے زبان کی فکر ہے، جسے اس سے سروکار ہے کہ ہم دنیا کی ایک انتہائی نازک زبان کے وارث ہیں۔
وہ زبان جس نے انسانی رشتوں کو بیان کرنے میں ایسی مہارت اور نزاکت کا مظاہرہ کیا ہے جس کی مثال دنیا میں کسی دوسری زبان میں نہیں ملتی۔ مثال کے طور پر زبان کے تشکیلی دنوں میں اصطلاحیں بنانے والے ذہنوں کی انسانی درد مندی یا انسانی قدروں کے احترام کی جھلک کچھ لفظوں میں ملتی ہے جو پہلی نظر میں ہی سامنے آجاتے ہیں۔
بطور مثال ایک لفظ خوش دامن استعمال ہوتا ہے۔ یہ لفظ بہت پہلے متروک ہو گیا۔ کیونکہ وہ روایت ختم ہو گئی جو رشتوں کا احترام کرتی تھی۔ جب کہ رشتوں کا احترام اردو میں اس اعلی ترین منزل تک گیا جہاں دو عورتوں سے، جو آپس میں سگی بہنیں ہوں، شادی کرنے والے دو غیر مردوں کا رشتہ بیان کرنے کیلئے ایک بہت نازک سا لفظ "ہم زلف" استعمال ہوتا ہے۔ اس لفظ کی نزاکت تک پہنچے بغیر اردو میں مشین کی زبان سے لکھنے کا رجحان سوائے تباہی کے کچھ نہیں لائے گا۔ اور تباہی آچکی۔
جن لوگوں کو یہ بھی نہیں معلوم کہ اردو میں حروف تہجی کتنے ہیں، وہ بھی اردو میں صحافت کے علمبردار بن کر سروں پر مسلط ہو چکے ہیں۔ جنہیں اپنا نام لکھنا نہیں آتا وہ بھی اردو کے صحافی ہیں۔ اسٹیج پر لڑکیاں نچانے والے، جگہ زمین کا کاروبار کرنے والے، ہندوستان سے مزدوروں کو بیرونی ممالک بھیجنے والے اور ایسے ہی دوسرے بھاری کام سے لگے ہوئے لوگ ڈھیر ساری دولت کما لینے کے بعد بھی جب سماج سے عزت نہیں خرید سکتے تو وہ اردو کے کسی ہفت روزہ ، پندرہ روزہ، ماہنامہ یا روز نامہ کا رجسٹریشن لے کر ایک کمپیوٹر لگا کر بیٹھ جاتے ہیں۔

پہلے کہتے تھے کہ شاعر حشرات الارض کی طرح پیدا ہوتے ہیں۔ آج صحافی ویسے ہی پیدا ہو رہے ہیں۔ کیونکہ صحافت کیلئے اب کچھ بھی لازمی نہیں رہ گیا۔ نہ زبان، نہ بیان، نہ اس کی سمجھ کہ کون سی خبر کس طرف لے جاتی ہے نہ اس کا اندیشہ کہ کسی کے پاس جوابدہی کرنی ہے۔
ایک زمانہ تھا جب پڑھنے والا یعنی عام قاری اخبار کی نگرانی کرتا تھا، ایک لفظ بھی غلط لکھ دیا جائے تو دن بھر ٹیلیفون بجتے تھے اور ایک زمانہ ہے کہ دن بھر مختلف ایجنسیوں سے ہندی کی انٹرنیٹ پر آئی ہوئی خبروں کا مشینی ترجمہ اخبارات کیلئے جاری ہوتا ہے اور وہ کسی کی فکر مندی کو اپنے طرف راغب کئے بغیر اردو اخبار کے صفحات پر نازل ہوتا رہتا ہے۔
اردو کے اخبارات، ان اخبارات کو چھوڑ کر جن کیلئے صحافت سچ مچ آج بھی خدمت ہے، محض کاروبار نہیں، ایک ایسی زبان کو رواج دے رہے ہیں جس کے پڑھنے والے شاید کچھ دن بعد، شاید آج کل ہی اچھی اور درست زبان لکھنے والے کو چیلنج کرنے کیلئے کھڑے ہو جائیں کہ آپ نے یہ کیا لکھا؟
یہ صورتحال صرف تشویشناک نہیں بلکہ نہایت خطرناک ہے۔ وقت کا تقاضا ہے کہ زبان کی فکر مندی بیدار کی جائے۔ جس سے جوممکن ہو سکے کرے۔ اور ان لوگوں سے نجات دلائے جو کسی بھی حال میں اس لائق نہیں ہیں کہ اخبار کے صفحات پر زبان کی قبر کھودتے رہیں۔


***
اشہر ہاشمی
موبائل : 00917503465058
pensandlens[@]gmail.com
اشہر ہاشمی

The fall of the language of Urdu Journalism. Article: Ash'har Hashmi

1 تبصرہ: