جنس کا جغرافیہ - قسط:6 - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2013-03-10

جنس کا جغرافیہ - قسط:6



عورت، عورت، عورت!
آخر یہ کونسی "ذات بابرکات" ہے جس کے وجود نے روئے زمین پر ایک تہلکہ مچا رکھا ہے ؟ بھلا یہ کیسا شریر، نٹ کھٹ، تھن دار "دو پایہ" ہے جس نے اپنی نت نئی شرارتوں سے بوڑھے آسمان کو سر پر اٹھا رکھا ہے ؟ مرد کی پسلی سے بنائی ہوئی یہ کمزور صنف، آج کس طرح اس کے دل و دماغ پر حکمراں ہے ؟
عورت تصویر کائنات کا رنگ ہے !
عورت دنیا کی خوب صورتی ہے!
عورت زمین کا دل ہے !
عورت مرکز ثقل ہے !
عورت محبت ہے !
عورت ماں ہے ! عورت بیوی ہے ! عورت ایک رات ہے ! عورت ایک مسہری ہے ! عورت ایک کوٹھا ہے ! عورت ایک ڈاک بنگلہ ہے ! عورت ایک ہوٹل کا کمرہ ہے ! عورت چاندی کا سکہ ہے ! عورت پاؤں کی جوتی ہے !

نیلا آسمان ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ڈولتے ہوئے ابر کے ٹکڑے ۔ ۔ ۔ ۔ جھلمل کرتی ہوئی لال لال شفق ۔ ۔ ۔ ۔ چودھویں رات کا چاند ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ دھیرے دھیرے بہتے ہوئے دریا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اچھلتی بھاگتی ندیاں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ موجیں مارتا ہوا سمندر۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پہاڑوں کا سینہ چیرنے والے آبشار۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کھجوروں کی جھال میں چھپے ہوئے میٹھے پانی کے شفاف چشمے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ برف پوش پہاڑیاں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پھولوں بھری وادیاں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہرے بھرے لہلہاتے کھیت۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ رنگ برنگے پھولوں کے باغ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پیڑوں پر لپٹی ہوئی ترناری کی نازک نازک بیلیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ الجھی الجھی پگڈنڈیاں ۔ ۔ ۔ ۔ قلانچیں بھرتے ہوئے ہرن۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ناچتے ہوئے مور۔ ۔ ۔ ۔ چمکتے ہوئے جگنو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کوکتی ہوئی کوئلیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پھولوں پر منڈلاتی خوش رنگ پروں والی تتلیاں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ آسمانوں کے چکر کاٹنے والے سپید سلیٹی رنگ کے کبوتر۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مندر کے چمکیلے کلس۔ ۔ ۔ ۔ ۔ گرجاؤں کے تکونے گنبد۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مسجدوں کے اونچے مینار۔ ۔ ۔ ۔ ۔ دمکتا ہوا بلور۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ترشا ہوا مرمر۔ ۔ ۔ ۔ ۔ شراب کی بوتل۔ ۔ ۔ ۔ ۔ موتی کا آویزہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ سونے کا ہار۔ ۔ ۔ ۔ اور چاندی کا جگمگاتا سکہ!

ان ساری خوبصورتیوں کو جمع کر کے انسان کا گھر بنایا گیا ہے ۔ مگر ان ساری خوب صورتیوں سے زیادہ خوبصورت اور ان سارے حسن پاروں سے زیادہ حسین ایک اور چیز ہے جو اس گھر کے اندر رہتی ہے ۔ جس کا سارے خوبصورت ناموں سے زیادہ خوبصورت نام ہے "عورت" جو دنیا کی تنہا خوبصورتی ہے ! جو زمین کا یکتا جمال ہے ! جو کائنات کا واحد حسن ہے !

عورت جب سامنے آتی ہے تو دنیا کی ساری خوبصورتیاں پیچھے ہٹتی چلی جاتی ہیں حتی کہ نگا ہوں سے اوجھل ہو جاتی ہیں اور نظروں کے سامنے صرف عورت ہی عورت باقی رہ جاتی ہے ۔ عورت جب سامنے آ جاتی ہے تو ارد گرد کی ساری خوبصورتیاں اس کے جسم میں سمٹ آتی ہیں اور اپنے آپ کو اس جسم میں کھو دیتی ہیں اور ختم کر دیتی ہیں ۔

عورت کے چہرے میں چودھویں کی رات کا چاند جگمگاتا ہے ۔ اس کی آنکھوں میں ستارے جھملانے لگتے ہیں ۔ اس کی آنکھوں کے جھنڈ میں چھپے ہوئے میٹھے پانی کے شفاف چشمے نظر آتے ہیں ۔ اس کی چھاتیوں میں پہاڑوں کا فراز ہوتا ہے ۔ اس کے ہونٹ گلاب کی پتیوں کی طرح مہکتے ہیں ۔ اس کی کمر میں ناری کی بیل کی لچک سمو جاتی ہے ۔ اس کے رخساروں پر لال لال شفق بکھر جاتی ہے اور سرو کا درخت اپنی بلند قامتی اس کے حوالے کر دیتا ہے ۔
اس کی آواز میں کوئل کی کوک، بلبل کا نغمہ، انگوروں کی مٹھاس اور کبوتروں کی اڑان ہوتی ہے ! وہ جب چلتی ہے تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ بیسیوں مور ناچ رہے ہیں اور سینکڑوں ہرن قلانچیں بھر رہے ہیں ۔ وہ جب جھک جاتی ہے تو قوس قزخ بن جاتی ہے اور جب کھڑی ہوتی ہے تو مندر کے چمکیلے کلس، گرجا کے تکونے گنبد، مسجدکے اونچے مینار کی طرح باوقار نظرآتی ہے ۔
اس کی بانہوں میں بلور ہوتا ہے اور اس کا جسم مرمر سے تراشا جاتا ہے ، لیکن اس مرمریں اور بلوریں جسم میں تتلی کے پروں کی سی ملائمت پائی جاتی ہے اور کم بخت جسم میں شراب کی ان گنت بوتلوں سے زیادہ نشہ گھلا ہوا ہوتا ہے !

بے شک سارا نظام شمسی عورت کے قبضہ و اختیار میں ہے ۔ ۔ ۔ رات اس کی زلفوں میں چھپ کر سو جاتی ہے اور جب اس کے چہرے پر سے زلفیں ہٹ جاتی ہیں تو صبح ہو جاتی ہے اور جب اس کی چوٹی کے بال بکھر جاتے ہیں تو رات چھا جاتی ہے ۔ فطرت کی ساری خوبیوں کو سمیٹ کر عورت دنیا بن جاتی ہے !

عورت جب شیریں بن کر مرجاتی ہے تو فرہاد کیلئے دنیا بھی مر جاتی ہے اور اسی لئے وہ اس مٹی، ہوا اور پانی کی دنیا سے باہر موت کے گڑھے میں کود پڑتا ہے ۔
انسان کے نصب العین کی آخری منزل عورت ہے ۔ مرد کسی راستے پر چلے وہ بالآخر عورت تک ضرور پہنچتا ہے ۔ ۔ ۔ مزدور جو دن بھر خون پسینہ ایک کر کے مزدوری حاصل کرتا ہے اور شام کو لوٹ کر سیدھا اپنے گھر جاتا ہے اور مزدوری کے سارے دام گھر بیٹھی اس کا انتظار کرنے والی عورت کو دے دیتا ہے ۔ جیسے وہ مزدور صرف اس عورت کیلئے مزدوری کر رہا ہے ۔
نوجوان طالب علم جو کتابیں بغل میں دبائے کالج کی طرف جاتا ہے یہ بھی ایک عورت کیلئے کالج کی طرف جاتا ہے ۔ بظاہر تو یہ بی اے اور ایم اے پاس کر لے گا پھر کوئی روزگار حاصل کر لے گا اور پھر آخر کار ایک عورت گھر میں لے آئے گا۔

صبح کے وقت جب گھروں کے دروازے کھلتے ہیں تو دنیا کے سارے مرد ان دروازوں سے باہر نکل پڑتے ہیں ۔ دن بھر دفتروں میں ، کارخانوں میں ، کھیتوں میں ، دکانوں میں ، بازاروں میں کام کرتے ہیں لیکن جب شام ہوتی ہے تو سارے مردوں کے قدم گھر کی طرف اٹھنے لگتے ہیں ۔ گھر جس میں عورت رہتی ہے ۔ ۔ ۔ عورت ۔ ۔ ۔ ایک گھر ہے !

انسان بڑا ہو یا جھوٹا، بادشاہ ہو یا فقیر، امیر ہو یا غریب، رات ہوتے ہی عورت کی طرف کھنچ جاتا ہے ۔ سائنس داں کہتے ہیں کہ دنیا کی ہر چیز کشش ثقل کی وجہ سے قائم اور برقرار ہے لیکن ہماری عقل کہتی ہے کہ دنیا صرف عورت کی کشش سے قائم اور زندہ ہے ۔
دن بھر کے کاموں کے بعد انسان جب اپنی توانائی پر ایک تھکن سی محسوس کرنے لگتا ہے تو پھر عورت کا مقناطیس اسے اپنے طرف کھینچنے لگتا ہے ! عورت ایک رات ہے اور ۔ ۔ ۔ ۔ رات ایک عورت ہے ! عورت کے بغیر رات رات نہیں بلکہ 12 گھنٹوں کا اندھیرا بن جاتی ہے ۔

دنیا کی پہلی عورت اور پہلا مرد بلاشرکت غیرے ایک دوسرے کی ملکیت تھے ۔ لیکن مرد کی فطرت میں جو احساس ملکیت تھا وہ باہر آ گیا اور آدم کے دو بیٹے ایک عورت کیلئے چیخ اٹھے ۔ ایک نے مطالبہ کیا "یہ میری بیوی ہے "
دوسرے نے اپنا حق جتلایا: " یہ میری بیوی ہے "۔
ہابیل نے قابیل کو مارڈالا اور حوا کی بیٹی پر قبضہ کر لیا۔ اسی احساس ملکیت نے عورت کو مرد کا محکوم بنا دیا۔

قبائلی دور سے نکل کر دنیا جب جاگیردارانہ دور میں داخل ہوئی تو مرد کا احساس ملکیت اور سنور گیا۔ ایک ایک مرد اپنے لئے ایک ایک عورت کے انتخاب کو ترجیح دیتا رہا۔ جو مرد زیادہ سے زیادہ عورتوں کو پالنے کی استطاعت رکھتا وہ کئی کئی عورتوں کو اپنے گھروں میں باندھ رکھتا۔ پھر دنیا جاگیردارانہ نظام سے بادشاہوں کے محلوں میں داخل ہوئی تو عورت اونچی اونچی دیواروں والے مکانوں میں قید کر دی گئی اورآج تک قید ہے ۔ مرد اپنی طاقت کے جھوٹے نشے میں عورت کو پاؤں کی جوتی سمجھنے لگا کہ جب جوتی پرانی ہوئی بدل ڈالی!

ماضی کے دھندلکے میں جو کچھ دکھائی دیتا ہے وہ آج تک جاری ہے ۔ اس دور کے آغاز کے ساتھ دنیا کی تنہا خوبصورتی کائنات کا واحد حسن اور زمین کے یکتا جمال کو مرد نے اپنے پیروں تلے روندھنا شروع کیا۔ یہ محض مرد کی طاقت اور اس میں گھلے ملے چاندی اور سونے کے سکوں کی چمک تھی۔ جس نے عورت کے قالب میں عورت کو ہلاک کر دیا اور اپنے نفس کی آگ کو بجھانے کیلئے ایک نرم اور گداز جسم باقی رکھ دیا اور آج بھی ہر قدم پر ایک نرم، ملائم، گداز چکمیلا جسم نظر آتا ہے ۔
اور دنیا کسی قصاب کی بہت بڑی دکان نظر آتی ہے ۔ جس پر مردوں کی بھیڑ لگی ہوتی ہے اور مرد چاندی کے سکے پھینک پھینک کر عورت کے جسم خریدتے جا رہے ہیں لیکن سب عورت کی چھاتیاں ، رانیں ، ہونٹ اور بازو خریدتے ہیں ۔
اصلی عورت کوئی نہیں خرید سکتا۔
اصلی عورت کبھی نہیں خریدی جاسکتی۔
خوبصورتی کو دنیا کا بڑے سے بڑا سرمایہ دار ہرگز ہرگز نہیں خرید سکتا۔

Jins Geography -episode:6

3 تبصرے: