میر تقی میر کا اصل نام میر محمد تقی اور تخلّص میر تھا۔ باپ دادا کے نام سے کسی کو کوئی مطلب نہیں ہونا چاہئے کیونکہ وہ لوگ شاعری نہیں کرتے تھے۔
کب کہاں اور کیوں پیدا ہوئے اِس سے بھی کسی کو کوئی سروکار نہیں ہونا چاہئے۔ وہ دہلی میں پیدا ہوئے ہوں یا جُھمری تلیّا میں اِس سے کیا فرق پڑتا ہے ؟ ہاں تمام محقّقین اِس بات پر متفق ہیں کہ میر کہیں نہ کہیں پیدا ہوئے تھے۔
میر بچپن سے ہی بڑے ضدّی واقع ہوئے تھے۔ اپنی بیجا ضِدیں منوانے کے لئے چیخ چیخ کر رونا اُن کی عادت رہی تھی۔ کبھی روتے روتے سو جاتے تو اُن کی والدہ گھر والوں کو اونچی آواز میں بات کرنے سے منع کرتی تھیں اور کہتی تھیں
سرہانے میر کے آہستہ بولو
ابھی ٹک روتے روتے سو گیا ہے
میر بڑے ہوئے تو یہ چیخ چیخ کر رونے کی عادت اُن کی فطرت بن گئی۔ رات کو ڈیوٹی سے واپس آتے تو کھانا وغیرہ کھا کر بلاوجہ رونا شروع کر دیتے۔ رات رات بھر روتے رہتے تھے۔
ظاہر ہے پڑوسیوں کی نیند خراب ہوتی تھی۔ ایک پڑوسی کی قوّتِ برداشت جواب دے گئی تو اُس نے میر کے رونے کا ایک آڈیو کیسیٹ بناکے پولیس میں رپورٹ کردی اور کہا :
جو اِس شور سے میر روتا رہے گا
تو ہمسایہ کاہے کو سوتا رہے گا
اُس زمانے میں میر دلّی کے ایک محلّے میں رہتے تھے۔ دہلی پولیس نے اُنہیں گرفتار کرکے عدالت میں پیش کیا تو جج صاحب نے گواہوں کے بیانات تو نہیں البتّہ آڈیو کیسیٹ سُننے کے بعد میر کو مجرم قرار دیا اور اُنہیں دلّی سے تڑی پار کرنے کا حکم صادر فرما دیا اور میر کو دلّی چھوڑنی پڑی۔
تڑی پار ہو کر میر نے دلّی کے پورب کی طرف چلنا شروع کردیا اور چلتے چلتے مشرقی بنگال (موجودہ بنگلہ دیش) پہنچ گئے۔ وہاں اُن کے لئے رہائش کا مسئلہ پیدا ہوگیا کیونکہ اُنکے پاس نہ تو ووٹر آئی ڈی کارڈ تھا اور نہ آدھار۔ کوئی اُنہیں گھر دینے کو تیّار نہ ہوتا تھا۔ مکان مالک اُنکا میلا کچیلا لباس دیکھ کر مذاق اُڑاتے اور پوچھتے کہ کون ہو؟ کہاں سے آئے ہو؟ اور میر کا جواب کچھ یوں ہوتا:
کیا بود و باش پوچھو ہو پورب کے ساکنو
ہم کو غریب جان کے ، ہنس ہنس پکار کے
دلّی جو ایک شہر تھا عالم میں انتخاب
رہتے تھے منتخب ہی جہاں روزگار کے
اُس کو فلک نے لوٹ کے ویران کر دیا
ہم رہنے والے ہیں اُسی اُجڑے دیار کے
خیر، بڑی مشکلوں سے سرچُھپانے کو ایک چھت نصیب ہوئی۔ لیکن اب ایک نئی مصیبت نے گھیرلیا۔
میر کو ایک ہندو لڑکی سے عشق ہوگیا۔ لڑکی بھی میر کو چاہنے لگی۔ لیکن ان کے پیار کے درمیان مذہب کی دیوار آڑے آ گئی۔
لیکن دیوار چونکہ امبوجا سیمِنٹ سے نہیں بنی تھی اِس لئے اِسے توڑنا ناممکن نہیں تھا۔ لہٰذا میر نے اپنے پیار کو پانے کے لئے "گھر واپسی" یعنی ہندو دھرم اپنانے کا فیصلہ کرلیا۔
پھر جب وہ لڑکی کے باپ کے پاس لڑکی کا ہاتھ مانگنے گئے تو اُسے شک ہوگیا کہ یہ مسلمان ہے۔ اُس نے میر سے کہا کہ :
تم تو مسلمان لگتے ہو میں اپنی بیٹی کا ہاتھ تمہارے ہاتھ میں کیسے دے سکتا ہوں؟
اِس پر میر نے عرض کیا:
میر کے دین و مذہب کو کیا پوچھتے ہو کب اُس نے تو
قشقہ کھینچا دیر میں بیٹھا کب کا ترک اسلام کیا
اور پھر شاید شادی ہو ہی گئی کیونکہ میر کا دل رفتہ رفتہ کمزور ہوتا گیا تھا۔ بہت علاج کروایا گیا۔ ای سی جی سے لیکر بائی پاس سرجری تک سب کچھ کروایا گیا۔ لیکن۔۔۔
اُلٹی ہو گئیں سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام کیا
دیکھا اِس بیماریٔ دل نے آخر کام تمام کیا
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ میر کو جنّت الفردوس میں ایک ساؤنڈ پروف کمرہ عطا فرمائے تاکہ اُن کے شعرِ شور انگیز یعنی رونے دھونے کی آواز سے پڑوسی جنّتیوں (اور حُوروں) کو کوئی تکلیف نہ پہنچے۔ آمین !
نوٹ :
ایم اے(اردو) کے طلباء و طالبات اِس مقالے سے بغیر اجازت اپنی ذمّہ داری پر استفادہ کر سکتے ہیں۔
کب کہاں اور کیوں پیدا ہوئے اِس سے بھی کسی کو کوئی سروکار نہیں ہونا چاہئے۔ وہ دہلی میں پیدا ہوئے ہوں یا جُھمری تلیّا میں اِس سے کیا فرق پڑتا ہے ؟ ہاں تمام محقّقین اِس بات پر متفق ہیں کہ میر کہیں نہ کہیں پیدا ہوئے تھے۔
میر بچپن سے ہی بڑے ضدّی واقع ہوئے تھے۔ اپنی بیجا ضِدیں منوانے کے لئے چیخ چیخ کر رونا اُن کی عادت رہی تھی۔ کبھی روتے روتے سو جاتے تو اُن کی والدہ گھر والوں کو اونچی آواز میں بات کرنے سے منع کرتی تھیں اور کہتی تھیں
سرہانے میر کے آہستہ بولو
ابھی ٹک روتے روتے سو گیا ہے
میر بڑے ہوئے تو یہ چیخ چیخ کر رونے کی عادت اُن کی فطرت بن گئی۔ رات کو ڈیوٹی سے واپس آتے تو کھانا وغیرہ کھا کر بلاوجہ رونا شروع کر دیتے۔ رات رات بھر روتے رہتے تھے۔
ظاہر ہے پڑوسیوں کی نیند خراب ہوتی تھی۔ ایک پڑوسی کی قوّتِ برداشت جواب دے گئی تو اُس نے میر کے رونے کا ایک آڈیو کیسیٹ بناکے پولیس میں رپورٹ کردی اور کہا :
جو اِس شور سے میر روتا رہے گا
تو ہمسایہ کاہے کو سوتا رہے گا
اُس زمانے میں میر دلّی کے ایک محلّے میں رہتے تھے۔ دہلی پولیس نے اُنہیں گرفتار کرکے عدالت میں پیش کیا تو جج صاحب نے گواہوں کے بیانات تو نہیں البتّہ آڈیو کیسیٹ سُننے کے بعد میر کو مجرم قرار دیا اور اُنہیں دلّی سے تڑی پار کرنے کا حکم صادر فرما دیا اور میر کو دلّی چھوڑنی پڑی۔
تڑی پار ہو کر میر نے دلّی کے پورب کی طرف چلنا شروع کردیا اور چلتے چلتے مشرقی بنگال (موجودہ بنگلہ دیش) پہنچ گئے۔ وہاں اُن کے لئے رہائش کا مسئلہ پیدا ہوگیا کیونکہ اُنکے پاس نہ تو ووٹر آئی ڈی کارڈ تھا اور نہ آدھار۔ کوئی اُنہیں گھر دینے کو تیّار نہ ہوتا تھا۔ مکان مالک اُنکا میلا کچیلا لباس دیکھ کر مذاق اُڑاتے اور پوچھتے کہ کون ہو؟ کہاں سے آئے ہو؟ اور میر کا جواب کچھ یوں ہوتا:
کیا بود و باش پوچھو ہو پورب کے ساکنو
ہم کو غریب جان کے ، ہنس ہنس پکار کے
دلّی جو ایک شہر تھا عالم میں انتخاب
رہتے تھے منتخب ہی جہاں روزگار کے
اُس کو فلک نے لوٹ کے ویران کر دیا
ہم رہنے والے ہیں اُسی اُجڑے دیار کے
خیر، بڑی مشکلوں سے سرچُھپانے کو ایک چھت نصیب ہوئی۔ لیکن اب ایک نئی مصیبت نے گھیرلیا۔
میر کو ایک ہندو لڑکی سے عشق ہوگیا۔ لڑکی بھی میر کو چاہنے لگی۔ لیکن ان کے پیار کے درمیان مذہب کی دیوار آڑے آ گئی۔
لیکن دیوار چونکہ امبوجا سیمِنٹ سے نہیں بنی تھی اِس لئے اِسے توڑنا ناممکن نہیں تھا۔ لہٰذا میر نے اپنے پیار کو پانے کے لئے "گھر واپسی" یعنی ہندو دھرم اپنانے کا فیصلہ کرلیا۔
پھر جب وہ لڑکی کے باپ کے پاس لڑکی کا ہاتھ مانگنے گئے تو اُسے شک ہوگیا کہ یہ مسلمان ہے۔ اُس نے میر سے کہا کہ :
تم تو مسلمان لگتے ہو میں اپنی بیٹی کا ہاتھ تمہارے ہاتھ میں کیسے دے سکتا ہوں؟
اِس پر میر نے عرض کیا:
میر کے دین و مذہب کو کیا پوچھتے ہو کب اُس نے تو
قشقہ کھینچا دیر میں بیٹھا کب کا ترک اسلام کیا
اور پھر شاید شادی ہو ہی گئی کیونکہ میر کا دل رفتہ رفتہ کمزور ہوتا گیا تھا۔ بہت علاج کروایا گیا۔ ای سی جی سے لیکر بائی پاس سرجری تک سب کچھ کروایا گیا۔ لیکن۔۔۔
اُلٹی ہو گئیں سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام کیا
دیکھا اِس بیماریٔ دل نے آخر کام تمام کیا
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ میر کو جنّت الفردوس میں ایک ساؤنڈ پروف کمرہ عطا فرمائے تاکہ اُن کے شعرِ شور انگیز یعنی رونے دھونے کی آواز سے پڑوسی جنّتیوں (اور حُوروں) کو کوئی تکلیف نہ پہنچے۔ آمین !
نوٹ :
ایم اے(اردو) کے طلباء و طالبات اِس مقالے سے بغیر اجازت اپنی ذمّہ داری پر استفادہ کر سکتے ہیں۔
***
موبائل: 08961342505
فیس بک : Mubarak Ali Mubarki
"Hayat Rise", 4th Floor, 19, Alimuddin Street, Kolkata-700 016.
ای-میل: mubarak.mubarki[@]gmail.comموبائل: 08961342505
فیس بک : Mubarak Ali Mubarki
مبارک علی مبارکی |
A satirical research on Meer Taqi Meer. Humorous Article: Mubarak Ali Mubarki
کیسے شکریہ ادا کروں ؟ الفاظ نہیں مل رہے ہیں _
جواب دیںحذف کریںفکاہیہ الفاظ کی ضرورت نہیں، بس سیدھے سادے الفاظ میں شکریہ ادا کر دیں
جواب دیںحذف کریںمبارک صاحب قابل مبارکباد ہیں! تحریر بالکل نرالے انداز کی ہے !
جواب دیںحذف کریں