اس انتخاب کو نریندر مودی نے لوک سبھا کے انتخاب سے بھی زیادہ سنجیدگی سے لیا ہے۔ اس لئے امت شاہ یا مرکزی وزیر خزانہ ارون جیٹلی کا یہ کہناکہ بہار کا انتخاب مودی حکومت کے خلاف کوئی رائے شماری نہیں ہے۔ مسٹر جیٹلی کو یہ کہنے سے پہلے یہ بھی سوچنا چاہئے کہ کوئی وزیر اعظم اپنا کام دھندہ چھوڑ کر انتخابی ریلیوں کو اس طرح خطاب نہیں کرتا۔ مسٹر مودی کی میعاد کار کا جائزہ لیا جائے گا تو یہ بات سامنے آئے گی مسٹر مودی نے دو ہی کام کئے ہیں یا تو وہ بیرون ملک کے دورے پر رہے اور وہاں حکومتی کام کے بجائے ریلیوں کو زیادہ خطاب کیا یا وہ انتخابی ریلیوں سے خطاب کرتے رہے۔ اس لئے بہار کے اسمبلی انتخاب کو مودی کے خلاف عوامی رائے شماری تسلیم کیا جائے گا۔ یہ صحیح ہے کہ بہار کا اسمبلی انتخاب ملک کی حالت اور سمت کو طے کرے گا۔ یہ بھی طے کرے گا کہ یہ ملک سیکولر رہے گا یا فسطائیت کے علمبردار والوں کا ملک بن جائے گا۔ چاروں مرحلوں کے انتخابات حوصلہ افزا ہیں۔ سیکولر پارٹیوں کو ای وی ایم پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اگر ای وی ایم صحیح رہا تو نتیجے بھی اچھے آئیں گے اور بہار سے گالی گلوج کرنے والوں، نفرت پھیلانے والوں اور آگ اگلنے والوں کا صفایا ہوجائے گا۔اس کا اندازہ بی جے پی رہنماؤں کی بیان بازی سے بھی ہورہا ہے۔
گزشتہ لوک سبھا انتخابات میں بی جے پی کو اقتدار میں لانے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگانے والا آر ایس ایس بہار انتخابات میں دو مرحلے کی پولنگ کے دوران کچھ کچھ خاص کردار میں نظر نہیں آیا۔ سنگھ پریوار کا کٹر ہندوتو کا ایجنڈا بہار میں فلاپ ہو گیا۔ یہاں کے ووٹروں نےآر ایس یس کے ہندوتوا خاص ترجیح نہیں دی۔ یہی وجہ ہے کہ بی جے پی نے پہلے وزیر اعظم نریندر مودی کی جلسوں کا اعلان کیا اور بعد میں انہیں کینسل کرنا پڑا۔ بی جے پی کے اعلی قیادت کو یہ اندازہ ہو گیا تھا کہ وزیر اعظم نریندر مودی کی ریلیاں منعقد کرنے سے بڑا فائدہ ہونے کی جگہ نقصان بھی ہو سکتا ہے۔جہاں آر ایس ایس کا سب سے بڑا مسئلہ لوگوں کی طرف سے کٹر ہندوتوا کے ایجنڈے کو اہمیت نہ دینا تھا وہیں بی جے پی کے اندرونی سروے نے بی جے پی لیڈروں کے چہروں پر خدشات کی لکیریں کھینچ دیں ۔ دیہی علاقوں میں عوام نے آر ایس ایس کے سخت گیر ہندوتوا کے ایجنڈے کو سرے سے خارج کر دیا وہیں شہری علاقوں میں مٹھی بھر لوگوں کے سہارے ہندوتو ا کے سہارے بی جے پی کی کامیابی ممکن نہیں ہے۔ اس کے باوجود آر ایس ایس نے ہمت نہیں ہاری ہے اور وہ لوگوں کے ذہن کو بدلنے کے لئے ہمہ جہت کوشش کر رہا ہے۔ بہار میں آخری مراحل کی ووٹنگ باقی ہے اور اب آر ایس ایس نے یہ طے کر لیا ہے کہ ووٹوں کی اپنی طرف موڑنے کے لئے ہندوتو کی حکمت عملی اپنانا چاہیے۔ انتخابات کے لئے ہزاروں آر ایس ایس ورکروں کے لیے اس مہم کے لئے گھر گھر بھیجے گی کہ اگر این ڈی اے کی شکست ہوتی ہے تو یہ ہندو خود داری کی شکست ہوگی اور اس سے ان کی حفاظت پر بھی سوال کھڑے ہوں گے۔ بی جے پی نے اسی حکمت عملی کے تحت پارٹی صدر امت شاہ نے ایک انتخابی ریلی میں یہ بیان دیا ہے کہ اگر بی جے پی بہار میں انتخابات ہارتی ہے تو پاکستان میں پٹاخے پھوڑے جائیں گے۔اسی طرحبکسر کی ریلی میں وزیر اعظم نریندر مودی نے نتیش کمار، لالو پرساد یادو اور کانگریس کے مہاگٹھبدھن (عظیم اتحاد) پر دلتوں، مہا دلتوں اور پسماندہ طبقات اورانتہائی پسماندہ طبقے کے حصے کا ریزرویشن کوٹہ کو کم کرنے کی سازش کرنے کا الزام لگایا تھا۔ ان کا یہ سیدھا اشارہ مسلم ریزرویشن کے سلسلے میں کانگریس کے بیان کی طرف تھا۔ کانگریس پارٹی کے لیڈر نے مبینہ طور پر اس طرح کا بیان اتر پردیش میں دیا تھا۔بی جے پی اپنی نفرت انگیز تقریروں کا سلسلہ صرف انتخابی ریلیوں تک محدود نہیں رکھا بلکہ اشتہارات میں اسی طرحی کی اشتعال انگیزی دیکھی جارہی ہے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی نے بہار کے اخبارات میں اشتہارات دیا ہے جس میں 'لالو نتیش جواب دو، 25 سالوں کا حساب دو' کے عنوان سے پوچھا گیا ہے کہ دلتوں پسماندہ پلیٹ چھین کر اقلیتوں کو ریزرویشن دینے کی سازش کیا گڈ گورننس ہے؟ مودی نے کہا تھا پانچ فیصد ریزرویشن کاٹنے کی ہو رہی ہے سازش۔ وزیر اعظم مودی نے اپنی تقریر میں 'دوسرے کمیونٹی' کا ذکر کرکے اشارہ دیا تھا لیکن اب اس اشتہار کے ساتھ ہی یہ واضح ہو گیا ہے کہ وہ دوسرا کمیونٹی مسلمان ہے۔
دہلی میں الیکشن کمیشن نے بہار اسمبلی انتخابات میں بی جے پی کے دو اشتہارات پر پابندی لگا دی ۔ مہاگٹھبدھن نے بی جے پی پر ان اشتہارات کے ذریعے ریاست میں فرقہ وارانہ کشیدگی پھیلانے اور مذہبی بنیاد پر ووٹروں کو بانٹنے کا الزام لگایا تھا۔الیکشن کمیشن نے ریاست کے چیف الیکشن افسر اجے نائیک کو حکم دیا ہے کہ وہ اس بات کی ضمانت دے کہ بی جے پی کا یہ دونوں اشتہارات ریاست میں انتخابات ختم ہونے تک کسی بھی اخبار یا میگزین میں نہ چھپے۔ کانگریسی لیڈر ردندیپ سرجیوالا اور جے ڈی یو لیڈر کے سی تیاگی نے دن میں چیف الیکشن کمشنر نسیم زیدی کے سامنے شکایت درج کرائی تھی کہ بہار میں اشتہارات کے ذریعے بی جے پی فرقہ وارانہ کشیدگی پھیلا رہی ہے جس کا انتخابات پر برا اثر پڑا ہے۔ بی جے پی نے بہار میں 'لالو نتیش جواب دو، 25 سالوں کا حساب دو' کے عنوان سے اخباری اشتہارات کی ایک مہم چلا رکھی ہے۔ یہ اشتہارات ہر روز اخبارات میں آتے ہیں جن مختلف دن مختلف مسائل پر مہاگٹھبدھن کے رہنماؤں سے سوال پوچھے جاتے ہیں۔ الیکشن کمیشن نے جن دو اشتہارات پر پابندی عائد کی ہے ان میں ایک اشتہار میں کہا گیا ہے کہ آر جے ڈی، جے ڈی یو اور کانگریس کے لیڈر ایک خاص کمیونٹی کو خوش کرنے کے لئے دہشت گردوں کو پناہ دیتے ہیں۔ دوسرے اشتہارات میں اس کمیونٹی کا نام کھل کر مسلمان بتایا گیا تھا۔
دراصل یہ بی جے پی کی بوکھلاہٹ ہے جو شکست کے خوف سے آپے سے باہر ہے۔اس کا ثبوت ہے مرکزی وزرائے اپنا کام کاج چھوڑ کر سیمانچل میں ڈیرہ ڈالے ہوئے ہیں۔ایک ضلع تین تین ریلیاں کر رہے ہیں۔ پہلے تو انہوں نے مودی اور امت شاہ کے پوسٹروں سے پورے بہار کو پاٹ دیا لیکن پہلے مرحلے کی ووٹنگ کے بعد بی جے پی نے دونوں کے پوسٹر کو ہٹا مقامی لیڈروں کے بھی پوسٹر وں میں شامل کیا لیکن دوسرے مرحلے کی پولنگ بھی بی جے پی کے حق میں جاتی نظر نہ آنے کی وجہ سے بی جے پی کی بے چینی میں اضافہ ہوگیا ۔ اس کے بعد تو بی جے پی نے اشتعال انگیزی اور ہندوتوا کے کارڈ کو کھیلنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی اور آر ایس ایس کے پوری طاقت جھونکنے کے باوجود بی جے پی کے حق میں فضا سازگار نہ ہونے سے بی جے پی میں مزید بوکھلاہٹ پیدا ہوگئی۔ پاکستان میں پٹاخے پھوڑے جانے اور دلتوں کے ریزرویش کاٹ کر مسلمانوں کو دینے جیسے بیان اسی عکاس ہے۔اس وقت بہار کے عوام پر زبردست ذمہ داری آن پڑی ہے۔ ان کو نہ صرف بہار کو بچانا ہے بلکہ ملک کو بھی بچانا ہے ۔ بی جے پی کی ان حرکتوں کی وجہ سے بیرون ملک ہندوستان کی بہت بدنامی ہورہی ہے۔ بہار کے عوام کو اسی بدنامی کو دھونا ہے۔
***
abidanwaruni[@]gmail.com
موبائل : 9810372335
ڈی۔64، فلیٹ نمبر۔ 10 ،ابوالفضل انکلیو، جامعہ نگر، اوکھلا، نئی دہلی۔ 25
abidanwaruni[@]gmail.com
موبائل : 9810372335
ڈی۔64، فلیٹ نمبر۔ 10 ،ابوالفضل انکلیو، جامعہ نگر، اوکھلا، نئی دہلی۔ 25
عابد انور |
Hatred and provocation business booming during Bihar Elections. Article: Abid Anwar
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں