یو این آئی
آندھرا پدیش اسمبلی کے مانسون سیشن کے دوسرے دن بھی ریاست کو خصوصی موقف کے مسئلہ پر ایوان میں حکمراں جماعت تلگو دیشم اور اپوزیشن وائی ایس آر کانگریس کے درمیان بحث ہوئی اور ایوان میں ہنگامہ آرائی دیکھی گئی ۔ حتی کہ ایک مرحلہ پر کانگریس اور وائی ایس آر کانگریس کے ارکان کے درمیان دھکم پیل کا واقعہ پیش آیا ، نوٹ برائے ووٹ اسکام میں سرکاری اور اپوزیشن بنچس کے ایکد وسرے پر الزامات کے بعد ایوان میں زبردست شوروغل شروع ہوگیا ۔ اس درمیان وائی ایس آر کانگریس کے ارکان نعرہ بازی کرتے ہوئے ایوان کے وسط میں پہنچ گئے اور اپنے لیڈر وائی ایس جگن موہن ریڈی کے خلاف الزامات پر احتجاج کرنے لگے ، جس کے بعد تلگو دیشم کے ارکان بھی ایوان کے وسط میں آگئے اور ایک مرحلہ پران ارکان میں دھکم پیل بھی ہوئی ۔ کچھ دیر تک الزامات اور جوابی الزامات کی گونج بھی سنائی دی۔ قبل ازیں چیف منسٹر این چندرا بابو نائیڈو نے الزام عائد کیا کہ جگن موہن ریڈی ، نوٹ برائے ووٹ کیس میں تلنگانہ راشٹر سمیتی حکومت کی مدد کررہے ہیں ، جس پر وائی ایس کانگریس کے ارکان نے زبردست احتجاج شروع کردیا ۔ چندرا بابو نائیڈو نے کہا کہ ایک ایسے شخص کو جو الزامات کا سامنا کررہا ہے اور جو ہر ہفتہ عدالت میں حاضر ہوتا ہے ، اسے دوسروں پر انگلی اٹھانے کا حق نہیں ہے۔ وزیر اچم نائیڈو نے الزام عائد کیا کہ جگن موہن ریڈی نے اسٹیفنس کو اینگلو، انڈین طبقہ سے نامزد رکن اسمبلی کا عہدہ دلانے کے لئے وزیر تلنگانہ ہریش راؤ سے ملاقات کی تھی۔ جگن موہن ریڈی نے اچم نائیڈو کے الزامات کو جھوٹ قراردیا اور کہا کہ انہوں نے کبھی بھی اسٹیفینس سے ملاقات نہیں کی اور وہ ان سے واقف بھی نہیں ہیں ۔ اے پی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر نے کہا کہ یہ الزامات اگر درست ثابت ہوتے ہیں تو وہ مستعفیٰ ہونے کے لئے تیار ہیں۔ جگن نے چندرا بابو نائیڈو کو چیلنج کیا کہ اگر وہ الزامات ثابت کرنے میں ناکام رہتے ہیں تو آیا وہ بھی مستعفی ہونے کے لئے تیار ہیں۔ خصوصی درجہ کے مسئلہ پر وائی ایس آر کانگریس کے مباحث کے مطالبہ پر بھی ایوان میں شوروغل کے مناظر دیکھے گئے ۔ اسپیکر کے سیوا پرساد راؤ نے ایوان کو مناسب انداز میں چلانے کی کوشش کی تاہم اس میں ناکامی پر انہوں نے گڑ بڑ کی صورتحال پر کاروائی کو15منٹ کے لئے ملتوی کردیا ۔ قبل ازیں جب آج دوسرے دن کی کارورائی شروع ہوئی تو اپوزیشن لیڈر جگن موہن ریڈی نے ایجنڈے کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ریاست کو خصوصی درجہ کے مسئلہ پر مباحث کا مطالبہ کیا جس پر وزیر امور اسمبلی وائی رام کرشنوڈو نے کہا کہ افسوس کی بات ہے کہ اپوزیشن لیڈر اسمبلی قواعد سے ناواقف ہیں ۔ بعد ازاں کارروائی کا پندرہ منٹ کے بعد دوبارہ جب آغاز ہوا تو چیف منسٹر این چندرا بابو نائیڈو نے خصوصی درجہ کے معاملہ پر بیان دیتے ہوئے کہا کہ آندھرا پردیش کے ساتھ تقسیم کے دوران ہی کئی نا انصافیاں کی گئیں۔ انہوں نے کہا کہ مرکزی حکومت سے اس سلسلہ میں مناسب نمائندگی کی جارہی ہے ۔ انہوں نے اس بات کا اعادہ کیا کہ آندھرا پردیش کے حقوق پر سمجھوتہ کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔ بابو نے کہا کہ ریاست کو خصوصی درجہ ملنے سے صنعتوں اور ترغیبات کی کوئی ضمانت نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ سب کے حقوق کے لئے جدو جہد کرنے کی ضرورت ہے اور وہ اے پی کے جائز حقوق کے لئے جدو جہد کرنے والے پہلے شخص ہوں گے ۔ انہوں نے کہا کہ12,300کروڑ روپے کی آمدنی آندھرا پردیش کی متاثر ہوئی ہے تاہم مرکز سے صرف2,300کروڑ روپے ہی ریاست کو الاٹ کئے گئے ہیں۔ ریاست کی ترقیاتی سر گرمیوں کے لئے مزید فنڈس کی ضرورت ہے۔ رائلسیما اور شمالی آندھرا پردیش کے اضلاع کو خصوصی پیکیج دینے کے لئے وزیر اعظم سے خواہش کی گئی ہے ۔
AP assembly uproar over cash for vote scam
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں