4/اپریل واشنگٹن اے ایف پی
امریکہ اور سعودی عرب کے سفیر عادل الجبیر ن کہا کہ یمن میں کارروائی کا مقصد وہاں دستور کی بحالی اور استحکام ہے ۔ حوثیوں نے ایران ور حزب اللہ کی مدد سے یمن میں معاملات کو اس نتیجہ پر پہنچایا ہے ۔ عرب امریکن تعلقات کونسل کے زیر اہتمام کانفرن سے خطاب کرتے ہوئے الجبیر کا کہنا تھا کہ ریاض کئی رسوں سے یمن میں استحکام اور حکومت کے کردار کومضبوط بنانے کی کاوششیں کرتا چلا آیاہے ۔ انہوں ے مزید کہا کہ ہم یمن میں کارروائی نہیں کرنا چاہتے تھے مگر یمنی صدر عبد ربہ منصور ہادی کے مطالبے پر اس کے سوا کے ہمارے پاس کوئی اور چارہ نہ تھا۔ ہمارا اول اور آخر مقصد یمن میں دستوری حکوم تکا تحفظ ہے جس پر ایران اور حزب اللہ کی حمایتی تنظیمیں قبضہ کرنا چاہتی تھیں ۔ سعودی سفیر کے مطابق تاریخ میں ایسا کبھی نہیں ہوا کہ کسی ملک میں سر گرم ملیشیا کے پاس بیلسٹک میزائل، لڑاکا طیاروں سے لیکر دیگر قسم کا بھاری اسلحہ ہو۔ اسی لئے عرب اتحادی فوج کی کارروائی جاری ہے اور وہ بھاری اسلحہ کے گودام تباہ کررہی ہے ۔ انہوں نے الزام عائد کیا کہ حوثیوں نے پناہ گزینوں کے کیمپ سمیت دودھ تیار کرنے والی فیکٹری کو نشانہ بنایا۔ یمن کے معزول صدر علی عبداللہ صالح نے حوثیوں کے ساتھ اتحاد کرکے انتہائی منفی کردار ادا کیا۔ ایران حزب اللہ اور علی عبداللہ صالح کی وفادار فوج کی مدد کے بغیر حوثی کبھی یمنی شہروں پر قبضہ نہ کرپاتے ۔ عادل الجبیر کے بقول لبنان میں حزب اللہ ملیشیا موجود ہے جس نے ملک پر قبضہ جما رکھا ہے ، ہم یمن میں حوثیوں کے ذریعہ ایسا نہیں ہونے دیں گے ۔ حوثی یمن میں دہشت گردی کے مرتکب ہورہے ہیں ۔ ان کا نظریہ واضح ہے اور اس کا یمن پر چنداں منفی اثر نہیں پڑے گا ۔ اپنی تقریر کے اختتام پر عادل الجبیر نے کہا کہ ایران اور حزب اللہ یمن میں جاری کشمکش کوفرقہ وارانہ رنگ دینا چاہتے ہیں تاکہ دنیا کے سامنے سنی، شیعہ لڑائی کے طور پر پیش کیاجاسکے ۔ ہم اس دعوی کی تردید کرتے ہیں کیونکہ یمن میں جاری لڑائی خیر اور شر کے درمیان ہے، شیعہ اور سنی کے درمیان نہیں ۔Saudi War On Yemen Is About Conquest, Not Sectarianism
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں