ہر رشتے سے مضبوط تر - اخوت اسلامی - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2014-09-05

ہر رشتے سے مضبوط تر - اخوت اسلامی

Islamic-brotherhood
جب کسی ملک میں غربت بڑھ جائے تو لاقانونیت عام ہوجاتی ہے تو ایسی صورت میں ہمیں کیا کرنا چاہئے جب ہم دیکھ رہے ہیں کہ مسلمانوں میں مختلف ممالک میں شرح غربت بڑھ رہی ہے ۔ راقم کے خیال میں ہر شخص اپنے ارد گرد دیکھے، عزیز و اقارب یا ہمسایہ ، ان لوگون کی کفالت اپنے ذمہ لے لے ۔یہ بات بھی صحیح ہے کہ ہر شخص اتنی بڑی ذمہ داری نہیں لے سکتا تو کم از کم اپنی آمدنی کا کچھ حصہ اس کام کے لئے وقت کردے اور اپنے غریب ہمسایہ یا عزیز و اقارب کے ہاں بھیج دے ۔ ہم ماہانہ کتنی ہی رقم فضول میں خرچ کردیتے ہیں۔ اسلام میں جو نظام اخوت قائم کیا گیا ہے وہ اسی لئے تھا کہ ایک صاحب حیثیت شخص کسی غریب کی مدد کرے ، اسی طرح یہاں یہ مقیم حضرات اپنے پرانے کپرے ضائع کرنے کے بجائے اپنے غریب رشتہ داروں کو دے دیں۔میں ایک واقعہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ پاکستان میں میری ہمسائیگی میں ایک خاندان ایسا ہے جس کا واحد کفیل ایک نوجوان تھا جو گردہ کی بیماری میں ایک عرصہ مبتلا رہ کر اللہ کو پیارا ہوگیا۔ اللہ کا کرنا ایسا ہوا کہ اس نوجوان کی2بہنوں کوطلاق ہوگئی ۔ وہ بے چاری بھی اسی گھر میں مقیم ہیں ۔ اب اس گھر کا کوئی باضابطہ سلسلۂ روزگار نہیں اور نہ ہی وہ ایسا خاندان ہے کہ جو کسی سے بھیک مانگتا ہو ۔ اللہ کے بھروسہ پر بیٹھے ہوئے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اگر خدانخواستہ خاکم بدہن ایسا کوئی خاندان اپنی عفت و عصمت کھو بیٹھے تو کیا ہم سے سوال نہیں ہوگا؟ کیا ہمارا فرض بس اتنا ہی ہے کہ ایک مضمون لکھ دیا ، ایک تقریر کردی اور5وقت نماز پڑھ لی اور بس ،آج تو ویسے ہی یہ فلسفہ عام کیاجارہا ہے کہ بھائی تمہیں کسی سے کوئی غرض نہیں ہونی چاہئے بلکہ اپنی نماز و ورزہ کی فکر کرنا چاہے، کہاں گئے وہ مسلمان جو ایک بہن کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے ملتان تک پہنچ گئے ؟ کہاں گئے وہ مسلمان کی معتصم عیاش ہونے کے باوجود جب سنتا ہے کہ ایک بہن نے کہا’’واہ معتصماہ‘‘ تو اس کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے خود زرہ پہن کر تیز رفتار گھوڑوں پر لشکر لے کر اس کی مددکو پہنچتا ہے ۔ آج کی حالت زار پر میں کن لفظوں سے عکاسی کروں اور کیسے کروں کہ بس یہی کہتا ہوں کہ:
جب مسیحا دشمن جاں ہو تو کب ہو زندگی
کون منزل پاسکے جب خضر ہی بہکانے لگے
اسلام کا نظام زکوۃ بھی اسی لئے ہے کہ غریب لوگوں کی مدد ہوجائے اور انہیں دردر کی ٹھوکریں کھانا نہ پڑیں اور نظام اخوات کا مقصود بھی یہی ہے ورنہ اس حدیث کا کیا مطلب ہے کہ مسلمان ، مسلمان کا بھائی ہے۔ نبی رحمت ﷺ نے فرمایا: ’’آدمی کو اپنے بھائی کی مدد کرنا چاہئے خواہ وہ ظالم ہو یا مظلوم، اگر ظالم ہے تو اس کی مدد یہ ہے کہ اسے ظلم سے روکے اور اگر مظلوم ہے تو اس کی مدد کرے ۔‘‘(مسلم)
اس حدیث نبویہؐ سے تو اور بھی اخوت اسلامی کی اہمیت واضح ہوتی ہے کہ نبی رحمت ﷺ اپنے ماننے والوں سے فرمارہے ہیں کہ اپنے بھائی کی مدد کرو چاہے وہ ظالم ہی کیوں نہ ہو اور ظالم کی مدد اس طرح ہے کہ اسے ظلم سے روکو ، تو جب یہاں تک اپنے بھائی کی مدد کا حکم ہے تو اپنے بھائی کے ساتھ حسن سلوک کا حکم کہاں تک ہوگا ، وہ اندازہ لگانا اس فرمان نبوی کے بعد مشکل نہیں ۔
ایک اور حدیث نبوی ملاحظہ فرمائیے۔حضرت انسؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
’’قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے کہ بندہ اس وقت تک کامل مومن نہیں ہوتا جب تک کہ اپنے مسلمان بھائی کے لئے بھی اسی چیز کو پسند نہ کرے جس کو وہ اپنے لئے پسند کرتا ہے ۔ یعنی دین و دنیا کی بھلائی میں سے جن چیزوں کو اپنے لئے پسند کرتا ہے سارے مسلمانوں کے لئے بھی ان کو پسند کرے ۔‘‘ (متفق علیہ)
اللہ اکبر! یہ حدث شریف تو اتنی وضاحت کررہی ہے کہ مسلمان جو چیز اپنے لئے پسند کرتا ہے وہی شئے اپنے مسلمان بھائی کے لئے بھی اسے پسند کرنا چاہئے ، یعنی یہ نہ ہو کہ اپنے لئے تو اچھی اشیاء پسند ہوں اور، جب مسلمان بھائی کی باری آئے تو پھر ہلکی اشیاء اور کم درجہ کی چیز یں دے کر بس فرض پورا کرنے کا کام نہ کریں بلکہ وہی چیز دیں جو آپ اپنے لئے پسند کرتے ہیں ۔ یہ ہے حکم نبی اکرم ﷺ کا جو رحمۃ للعالمین ہیں اور دنیا کے لئے فلاح کا پیغام لے کر تشریف لائے ۔
آج کے مسلم معاشرہ میں جس تیزی سے مغربی افکار کو قبول کیاجارہا ہے یایوں کہہ لیجئے کہ دجالیت مسلم معاشرے میں فعال ہے جس کی وجہ سے فحاشی و عریانی بڑھ رہی ہے عوام الناس میں مغربی طور طریقہ اپنانے میں فخر محسوس کیاجاتا ہے ، بچوں کو مغربی دنیا کے ہیروز کے بارے میں ساری معلومات فراہم کی جاتی ہیں۔ اگر ہم نہیں جانتے تو مسلم ہیروز کو نہیں جانتے اس لئے ضروری ہے کہ ہم اپنے اسلامی کلچر کے فروغ کے لئے کوشاں ہوں تاکہ نئی نسل کو گمراہی سے بچایاجاسکے اور اس کے لئے ضروری ہے کہ گھروں میں اسلام سے متعلق گفتگو ہو ، بھائی چارہ کی باتیں اور پھر اس پر عمل ہو اور عمل کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ آپ کسی غریب کی مدد کرتے ہیں تو یہ سعی کریں کہ غریب کو وہ رقم یا خوردو نوش کی اشیاء اپنے بچوں کے ہاتھوں سے دلوائیں تاکہ ان میں جذبہ خیر خواہی پیدا ہو اور جب یہ بڑے ہوں تو ان کے ساتھ ان کا جذبہ خیر خواہی بھی جوا ن ہوجائے ۔ اس کا دیرینہ اثر ہمارے مسلم معاشرے پر آپ خود محسوس کریں گے ۔ اخوت اسلامی کے حکمت و فلسفہ پر مولانا قاری محمد طیب قاسمی ؒ کی تحریر ملاحظہ فرمائیے :’’ہاں ! حقیقی طور پر وہ پر مسلک دنیا کے سارے انسانوں کو ایک پلیٹ فارم پر لاسکتا ہے جو انہیں ایک جوہر بتلا کر، ایک ماں باپ کی اولاد بتلائے اور ان میں رشتۂ یگانگت ہی نہیں رشتہ اخوت ثابت کر کے ان کے باہمی تفرقوں کو مٹا ڈالے اور نسبی فرقو ں کو ختم کر دے جو انسانی جہالتوں کی ابتدائی فرقہ واریت ہے اور اسلام کے سوا ہمیں کوئی دوسرا مسلک نظر نہیں آتا ۔ غور کیا تو انسانوں میں یہ رشتہ یگانگت و اخوات قائم کرکے اسلام نے مذہب ہی نہیں انسانیت کا احترام قائم کیا ہے اور ثابت کیا ہے کہ انسانوں کا کوئی طبقہ کسی حالت میں بھی نجس العین نہیں کہ وہ تو اس سے چھوئی ہوئی چیز بھی نجس بن جائے انسان انسان ہے اور انس اس سے کسی حال میں بھی منقطع نہیں ہوسکتا اس کے افعال میں گندگی آسکتی ہے ، اس کے خیالات ناپاک ہوسکتے ہیں مگر خود انسان اور انسانیت کا جوہر مٹ نہیں سکتا ۔ اس کا بحیثیت انسانیت احترام واجب رہے گا ، اس کی انسانیت کبھی گندہ نہ ہوگی اس لئے شریعت اسلام میں کسی انسان کا(خواہ مسلم یا ہوغیر مسلم) پس خوردہ پاک ہوگا، یہ وہی پابنداری ہے اور نفس انسانیت کا احترام ہے ۔‘‘(مقالات حکیم الاسلام)
حکیم الاسلام قاری طیب قاسمیؒ کی درج بالا عبارت سے واضح ہوتا ہے کہ باہمی اخوت قائم کرنا فقط دین اسلام کا خاص امتیاز ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ جملہ مسلمانوں کو آپس میں محبت قائم کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین

Islamic brotherhood is stronger than every relationship

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں