لیلۃ القدر - نزول رحمت کی رات - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2014-07-21

لیلۃ القدر - نزول رحمت کی رات

رمضان المبارک ویسے تو سارا ہی برکات اور رحمت و مغفرت کا مہینہ ہے ۔ جیسے جیسے یہ برکت و رحمت والے شب و روز گزرتے جاتے ہیں ، رحمت الہی کی بارشیں فزوں سے فزوں تر ہونے لگتی ہیں ۔ یہاں تک کہ تیسر ا عشرہ مغفرتوں کی خوشخبریاں سناتا سایہ فگن ہوجاتا ہے ۔ مسلمان مردو زن بتوفیق الہی کے مزید انعام و اکرام کا مستحق بننے کے لئے دنیاوی آلائشوں سے لاتعلق ہوکر اعتکاف کرتے ہیں ۔ اعتکاف پر شب و روز کے ذکر الہی اور فکر ایمانی سے اپنی روح پر صیقل کرتے اور ملکوتی صفات کو بیدا ر کرتے ہیں ۔ بندہ مومن اخلاص و للہیت کی مشقوں ، پرخلوص عبادتوں اور ریاضتوں میں اپنی توانائیاں صرف کررہا ہوتا ہے کہ عنایت الہی سے لیلۃ القدر جلوہ فرما ہوتی ہے ۔ یہ ایسی رات ہے جو اپنی لطافت و پاکیزگی اور نورانیت و جلوہ فرمائی میں اپنی مثال آپ ہے ۔ یہ وہی مبارک و معظم رات ہے جس کی برکتوں اور عظمتوں پر قرآن حکیم شاہد ہے۔
انا انزلناہ فی لیلۃ القدر۔
بے شک ہم نے اسے(قرآن) کو شب قدر میں اتارا۔
معلوم ہوا کہ یہ ماہ صرف اسی لحاظ سے ہی مبارک نہیں کہ اس میں انسان صبر و ضبط کی عظیم نعمتوں سے نوازاجاتا ہے بلکہ اس خیر و برکت والے مہینہ کا سب سے بڑا شرف یہ ہے کہ اس ماہ میں دنیا کے لئے بہترین کامل ترین ہدایت نامہ اتارا گیا ۔ اسی ماہ مبارک کی نورانی آغوش میں پوشیدہ لہلہاتی جگمگاتی نورانیت سے منور روحانیت سے معطر و بابرکت رات ہے جسے خود خالق کائنات نے لیلۃ القدر فرمایا یعنی شرف و برکت والی رات ۔ اسی شب مبارک و معظم میں لا ریب کلام الہی کے نزول کی ابتداء ہوئی اسب شب میں یہ کلام لوح محفوظ سے آسمان دنیا پر اتارا گیا جبکہ کل قرآن مجید کو رسول کریم ؐ پر رفتہ رفتہ حسب مصلحت خداوندی تقریباً 23سال کے عرصہ میں نازل کیا گیا ۔ سب سے پہلی وحی رسول اللہ ﷺ پر اسی ماہ مبارک یعنی رمضان المبارک کے آخری عشرہ کی کسی طاقت رات میں نازل ہوئی وہ بھی انہی طاق راتوں میں سے کوئی برکت والی رات ہے ۔ یہ وہ رات ہے جس میں کلام ربانی کے نزول کی ابتداء ہوئی۔
وما ادراک ما لیلۃ القدر
اور تم نے کیا جانا کیا ہے شب قدر۔
یعنی یہ رات کیسی بزرگیوں اور شرافتوں اور فضیلتوں والی رات ہے اور اپنی جلو میں کیس کیسی عظمتوں کو لئے آئی ہے یہ کسے معلوم ہے؟ شب قدر ہزار مہینوں سے بہتر ہے ۔ یعنی اجر عبادت اور ثواب طاعت کے اعتبار سے اس ایک رات کا عمل خیر اور کار طاعت و ثواب اور بندگی رب الارباب ایسے ہزار مہینوں کے عمل خیر و طاعت سے افضل و بہتر ہے جس میں شب قدر شمار نہ ہو۔
اللہ تعالیٰ کے ہاں انعام و بخشش کی مرحمتوں اور عطاؤں میں کیا کمی اس رب کریم کی ہزار در ہزارصد ہزار بے شمار نعمتیں ہیں جو ایک پل بلکہ ہر وقت اور ہر آن اترتی رہتی ہیں۔ سر سے پاؤں تک صحت و عافیت ، بلاؤں اور محافظت ، کھانے کا ہضم ، خون کی روانی ، اعضاء میں طاقت ، آنکھوں میں روشنی اور بے حساب نعمتیں اسی کے فضل و کرم سے بغیر مانگے ، بے چاہے بندوں پر اتر رہی ہیں اور وہ بے عدد و حساب بخشش فرماتا ہے لیکن یہ اللہ تعالیٰ کا اپنے حبیب اکرم محبوب معظم ﷺ پر کرم بالائے کرم ہے کہ آپ کے مسلمان امتی شب قدر صرف ایک رات و طاعت و عبادت میں گزار یں اور ان کا ثواب پچھلی امت کے ہزارماہ عبادت کرنے والے افراد سے کہیں زیادہ ہے ۔ عبادتوں کا ثواب یوں ہی معمولاً کیا کم ہوتا ہے کہ جب یہ رات نزول قرآن کی سالگرہ والی رات آتی ہے تو اجربھی بڑھ کر ہزار گنا ہوجاتا ہے ۔ حساب سے ہزار مہینوں کے تقریباً83سال ہوتے ہیں لیکن یہ بھی ہوسکتا ہے کہ مراد اس سے کوئی عدد معین نہ ہو بلکہ محاورہ عرب کے مطابق کہ وہ کسی بڑی تعداد کا تصور دلانے کے لئے ہزار کا لفظ بولتے تھے ۔ محض تکثیر عدد مراد ہوتو اس صورت میں مطلب یہ ہوا کہ اس ایک رات میں عمل خیر کا ثواب اتنا کثیر در کثیر ہے کہ تم اس کا تصور بھی نہیں کرسکتے ۔
تنزل الملٰئکۃ والروح فیھا
اس میں فرشتے اور جبریل اترتے ہیں۔
نبی کریم ﷺ کا ارشاد گرامی ہے کہ جب شب قدر آتی ہے تو جبرائیل ؑ فرشتوں کے ایک جم غفیر کے ساتھ زمین پر آتے ہیں اور یہ گروہ ملائکہ پر اس بندہ مومن کو جو کھڑا ہے یا بیٹھا اور ذکر الہی میں مشغول ہوتا ہے سب کو سلام کرتے ہیں اور ان کے حق میں دعائے مغفرت اور التجائے رحمت کرتے ہیں ۔ ملائکہ رحمت و مغفرت اور حضرت جبرئیل علیہ السلام کا یہ نزول از خود نہیں ہوتا بلکہ تمام تر امر الہی کی تعمیل میں ہوتا ہے۔انہیں حکم دیا جاتا ہے کہ زمین کے اطراف و اکناف میں، اس کے مشارق و مغارب میں پھیل کر میرے محبوب کے امتیوں کی زیارت کرو انہیں سلامتی و عافیت کی خوشخبریاں پہنچاؤ اور نوید رحمت سناؤ ان سے مصافحہ کرو ان کے حق میں دعائے عفوو عافیت اور التجائے بخشش و مغفرت کرو جو یاد الہی میں مصروف رحمت حق سے لو لگائے بیٹھا ہے۔ شب قدر میں نازل ہونے والی رحمتیں اور برکتیں اور یہ روح پرور اور ایمان افروز کیفیتیں رات کے کسی خاص حصے کے ساتھ مخصوص نہیں بلکہ رات بھر صبح کے طلوع ہونے تک برابر جاری و ساری رہتی ہیں۔ ساری رات رحمت باری پکار پکار کر اپنے بندوں کو بلاتی اور گوہر مقصود سے ان کے دامن بھرنا چاہتی ہے ۔
سال بھر میں شب قدر ایک مرتبہ آتی ہے اور رایت کثیرہ سے ثابت ہے کہ وہ رمضان المبارک کے عشرہ اخیرہ میں ہوتی ہے اور طاق راتوں میں سے کسی طاق رات میں ہے ۔ اکثر علمائے کرام کی رائے یہ ہے کہ رمضان المبارک کی27ویں رات لیلۃ القدر ہے۔ یہی امام اعظم ابوحنیفہؒ سے مروی ہے اور حضرت ابی بن کعب تو اس پر قسم بھی کھایا کرتے تھے۔اس رات کے متعین نہ کرنے میں ایک حکمت یہ بھی ہے امت محمدیہ کے افراد زیادہ نہیں تو کم از کم پانچ طاق راتوں کو ذکر الہی میں تو گزاریں اور سربندگی اس کی بارگاہ میں جھکائیں تاکہ پروردگار عالم کی بے پایاں نعمتوں سے بہرہ مند ہوں۔ بخاری و مسلم کی حدیث میں ہیکہ’’ جس نے اس رات میں ایمان و اخلاص کے ساتھ شب بیداری کرکے عبادت کی اللہ تعالیٰ اس کے سال بھر کے گناہ بخش دیتا ہے ۔‘‘اسی شب کے لئے ابن ماجہ میں مروی ہے کہ’’جو شب قدر سے محروم رہا وہ ہر خیر سے محروم رہا اور اس خیر سے وہی محروم ہوگا جو پورا محروم ہے۔

--

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں