حق دفاع کے بہانے فلسطینیوں کی نسل کشی کی حمایت - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2014-07-21

حق دفاع کے بہانے فلسطینیوں کی نسل کشی کی حمایت

سخت حیرت کا مقام ہے کہ غزہ میں جاری اسرائیل کی وحشیانہ یورش کوامریکہ اوراقوام متحدہ حق دفاع سے تعبیر کررہاہے
مجھے سخت حیرت ہے کہ فلسطین میں جاری قتل عام کوامریکی صدرحق دفاع سے تعبیر کررہے ہیں اگرحق دفاع کامفہوم یہی ہے کہ بے گناہ شہریوںکوانسانی لہومیں غرق کردیاجائے توجارحیت اورانتہاپسندی کی تعبیرآپ کی نظرمیں کیاہوگی ؟دفاع کی یہ کیسی لڑائی ہے جس میں دفاع کرنے والے فریق کامحض ایک فرد ماراگیا جبکہ دوسری جانب لاشوںکی صفیں بچھ گئیں ۔اقوام متحدہ اورامریکہ سے یہ سوال ضرورکیاجاناچاہئے کہ اگراسرائیل پر اسی طرح فلسطین کی جانب سے وحشیانہ بم باری اورراکٹوںکے حملے کئے جاتے توان کا رویہ اتنا ہی لچیلا ہوتا ؟اورپوری دنیا اسی قدرچین کی نیندسورہی ہوتی ؟اگرنہیں توپھرانسانی خون میں سفیدی کی رمق آنے سے قبل فلسطینیوںکی نسل کشی کاسلسلہ روکنے کیلئے جلدازجلدٹھوس کارروائی کیوں نہیں کی جاتی ؟

عصبیت کا عینک بھی عجیب ہے، جس کی آنکھوںپرچڑھ جائے اس کیلئے سچ وجھوٹ میں فرق کرنا بڑامشکل ہوجاتا ہےکیوںکہ وہ بصیرت وبصارت کی دولتوں سے محروم ہوجاتا ہےپھراسے ہرنقشہ الٹانظرآنے لگتا ہے ۔ظالم ،مظلوم اورمظلوم اسے ظالم دکھائی دیتا ہے۔ اگرمیری باتوںپریقین نہ آئے تو غزہ میں اسرائیل کی وحشیانہ یورش سے متعلق امریکی صدرباراک اوبامہ اوراقوام متحدہ کے سیاسی امور کے سربراہ جیفری فیلٹمین کےبیان پرایک نظرڈالیے!۔باراک اوبامہ نوبل انعام برائے امن سے نوازے جاچکے ہیں لیکن ان کاکہناہے کہ ہم اسرائیل سے اس کا حق دفاع نہیں چھین سکتے انہوںنے جمعہ کواسرائیلی وزیراعظم نتن یاہوسے بات کرتے ہوئے کہاکہ حماس کے ٹھکانوںکونشانہ بنائیں جبکہ فیلٹمین کا کہنا ہے کہ’ اسرائیل کے سکیورٹی خدشات بجا ہیں اور ہم غزہ سے اسرائیل میں اندھادھند راکٹ برسانے کی مذمت کرتے ہیں لیکن ہم اسرائیل کے اس زبردست جواب سے خطرہ محسوس کرتے ہیں۔‘
دیکھ رہے ہیں آپ عصبیت کی کرشمہ سازی!اسرائیل غزہ میں بے گناہ فلسطینیوںکی نسل کشی پر آمادہ ہے زمینی وفضائی کارروائی کے ذریعہ بچوںاوربے گناہ شہریوںکی لاشیں بچھارہا ہے،صرف اتوارکوفضائی حملوںمیںالشجاعیہ کی سڑکیں لاشوںسے بھرگئیں لیکن امن کے ٹھیکداراسے حق دفاع سے تعبیر کررہے ہیں ۔کہیں ایسا تونہیں کہ اسرائیل نوازاوراسلام دشمن طاقتیں فلسطینیوںکی نسل کشی پر متفق ہوگئی ہیں اورحق دفاع کے بہانے اسرائیل کوقتل عام کی کھلی چھوٹ دیدی گئی ہے اگر ایسا ہے توپھریہ بھی ذہن نشیں کرلینی چاہئے کہ مظلوموںکے خون کی سرخی رنگ لاکررہے گی اوردنیا کواس کی بھاری قیمت چکانی پڑسکتی ہے۔آخریہ کیسا حق دفاع ہے جس کے ذریعہ بے گناہوںکاخون کیاجارہا ہے ،بچوںاورعورتوںکی لاشیں گرائی جارہی ہیں جبکہ حماس جومغربی دنیا کی نگاہ میں دہشت گردتنظیم ہے؛کے حملوں کی شدت کے ساتھ مذمت کی جار ہی ہے اس کے حملوں میں اب تک محض ایک بدو اسرائیلی کی موت ہوئی ہے لیکن امریکہ اوراقوام متحدہ کے سیاسی امورکے سربراہ کی نظرمیں اسی کےحملے لائق مذمت ہے ۔میں قتل وغارت کی کسی طوروکالت نہیں کرسکتا لیکن ایک معاملہ دوہرے معیارہرگزقابل قبول نہیں ہوسکتے ۔
فلسطین میں گزشتہ تیرہ دنوںسے اسرائیلی دہشت گردی کا سلسلہ جاری ہے۔ اسرائیل نے فضائی وزمینی حملہ کرکے غزہ میں قیامت برپاکررکھی ہے۔ اب تک اسرائیلی حملوںمیں شہیدہونے والوںکی تعداد۴۰۰؍کے قریب پہنچ گئی ہے جن میں کثرت کے ساتھ بچے شامل ہیں جبکہ زخمیوںکی تعداد۲؍ہزارسے متجاوز ہے۔
اسرائیل کی جانب سے الشجاعیہ کالونی کو مسلسل نشانہ بنانے کی وجہ سے سڑکوں پر لاشیں بکھری پڑی ہیں جبکہ سیکڑوں زخمی علاج کے منتظر ہیں۔ اتوار کے روز چالیس لاشیں متاثرہ علاقے سے نکالی جا چکی ہیں۔اسرائیلی سرحد کے قریب اور مسلسل بمباری کے باعث علاقے میں ایمبولینس گاڑیاں نہیں پہنچ پا رہیں۔ ایمرجنسی سروس اداروں کا کہنا ہے موجودہ صورتحال میں بہت سے فلسطینیوں کے شہید اور زخمی ہونے کا امکان ہے۔اسرائیلی فوج نے غزہ کے وسطی علاقوں البریج، المغازی اور شمالی کالونی الترکمان، الجدیدہ اور الشجاعیہ کالونیوں کے باشندوں کو علاقہ چھوڑ دینے کے لئے کہا تھا۔ غزہ کی پٹی۳۶۲؍ مربع کلومیٹر پر محیط دنیا کا سب سے زیادہ آبادی والا علاقہ ہے جس میں اٹھارہ لاکھ افراد مسلسل مشکلات میں زندگی گذارنے پر مجبور ہیں۔اقوام متحدہ کے غزہ دفتر کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق ابتک ۶۲؍ ہزار افراد سرحدی علاقہ چھوڑ چکے ہیں اور یہ تعداد۲۰۰۸ء اور۲۰۰۹ء کی جنگ کے دوران ہجرت کرنے والے افراد سے بہت زیادہ ہے، اس وقت جنگ میں چودہ سو فلسطینی شہید ہوئے تھے۔
گزشتہ دنوں وہائٹ ہائوس میں مسلم سفراسے باراک اوبامہ کے خطاب سے بھی دنیاکے امن پسندعوام کے توقعات کوزبردست ڈھچکا لگا۔ صدراوبامہ نے غزہ پر اسرائیلی حملوں کو بالوسطہ طور پر جائز اور دفاعی ضرورت کا حق دے دیا ۔ وہ وائٹ ہاوس میں سالانہ دعوت افطار کے موقع پر خطاب کر رہے تھے۔اوباما نے غزہ پر اسرائیلی بمباری کو اس کا حق قرار دیتے ہوئے کہا امریکہ کا نصب العین اسرائیلیوں اور فلسطینیوں دونوں کے لیے امن اور سلامتی ہے ۔انہوں نے کہا فلسطینیوں کا جاں بحق اور زخمی ہونا ایک المیہ ہے۔اگرچہ اوبامہ نے اسرائیلی حملوںکوناقابل معافی بھی قراردیالیکن اسے روکنے کیلئے کسی حکمت عملی کواپنائے جانے کے تعلق سے خاموشی اختیارکی۔
مجھے سخت حیرت ہے کہ فلسطین میں جاری قتل عام کوامریکی صدرحق دفاع سے تعبیر کررہے ہیں اگرحق دفاع کامفہوم یہی ہے کہ بے گناہ شہریوںکوانسانی لہومیں غرق کردیاجائے توجارحیت اورانتہاپسندی کی تعبیرآپ کی نظرمیں کیاہوگی ؟دفاع کی یہ کیسی لڑائی ہے جس میں دفاع کرنے والے فریق کامحض ایک فرد ماراگیا جبکہ دوسری جانب لاشوںکی صفیں بچھ گئیں ۔
تین اسرائیلی لڑکیوںکااغوا اورپھران کی موت کے بعداسرائیل نے جنونی دہشت گردی کی طرح فلسطین پربموںاورراکٹوںکی یلغارشروع کردی ہے اوروہ انسانیت کی ساری حدوںکوپارکرتے ہوئے اب بے گناہ شہریوںکی جان لینے پر تلاہواہے۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق اسرائیلی حملوںمیں مارے گئے افرادمیں سے ایک تہائی کا تعلق عام شہری سے ہے۔رمضان المبارک میں اسرائیل فلسطینیوںکی نسل کشی کررہاہے لیکن پوری دنیا حیرت انگیز طورپرخاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔ اقوام متحدہ نے اپنی ذمہ داریوںکی ادائیگی سے آنکھیں پھیر لی ہیں اوراسرائیل کی دہشت گردی کولگام دینے کیلئے کسی ٹھوسی کارروائی کی بجائے فقط اپیل اورزبانی جمع خرچ کرنے پراکتفاکررہی ہے۔امریکہ کے ورلڈ ٹریڈ سینٹر پرحملہ کے بعد سے اقوام متحدہ کی پالیسی میں جوتبدیلی آئی ہے اس سے اب یہ سمجھنا کوئی مشکل نہیں رہ گیاہے کہ وہ اب اسرائیل اورامریکہ کادم چھلہ بن کررہ گیاہے۔ عراق وافغانستان کی اینٹ سے اینٹ بجادی گئی ۔پاکستان میں امریکن ڈرون حملے روزانہ بے گناہ افرادکی زندگی چھین رہے ہیں ۔شام اورمصرمیں انسانی لاشوںپر آنسوبہانے والا کوئی نہیں ۔فسلطین ،میانمار،وسط افریقہ جمہوریہ میںجانوروںکی طرح مسلمانوںکوتہہ تیغ کیاجارہاہےلیکن اقوام متحدہ کے ذمہ داران کا کلیجہ اس لئے منہ کونہیں آرہا ہے کہ کیوںکہ یہ سب صہیونی پالیسی کا حصہ ہے ۔
سوشل میڈیا کے توسط سے فلسطین میں اسرائیل درندگی کی جوتصویریں چھن کرآرہی ہے اس سے دیکھ کرپتھر دل بھی پسیج جاتاہے پھرامن عالم کے ٹھیکیداروںکوکیاہوگیاہے کہ وہ اسرائیل کی وحشیانہ بمباری کوروکنے کیلئے ٹھوس اقدام نہیں کررہے ہیں ۔فلسطینیوںپرجاری حملوںکے درمیان پوری دنیاکی حیرت انگیزخاموشی نے مظلوم فلسطینیوں کے علاوہ امن پسندعوام کوسخت مایوس کیا ہے۔چھوٹی چھوٹی باتوںپر حقوق انسانی کی دہائی دے کرمحاذسنبھالنے والی حقوق انسانی کی تنظیموںکوبھی سانپ سونگھ گیاہے۔ یہ سب دیکھ کرایسا لگتاہے کہ اسرائیل کے اس رقص شیطانی میں سبھی کی حمایت حاصل ہے کیوںکہ ظلم کے خلاف آواز بلندنہ کرنا بھی ظلم کرنے کے مترادف ہوتا ہے ۔
قبلہ اوّل کی حرمت کی پاسبانی کیلئے آئے دن اسرائیلی فوجیوںسے لوہالینے والے نہتھے فلسطینیوںپرجب براوقت آیاہے توغیرغیراپنوںکی زبان سے بھی تسلی کے دولفظ نہیں نکل رہے ہیں۔غزہ پر اسرائیل کی وحشیانہ بم باری کے آج تقریباً۱۰؍ روز گئے لیکن ایک ترکی کے وزیراعظم طیب ارگان کے علاوہ عالم عرب کے کسی سربراہ نے کوئی اقدام نہیں کیاہے۔ماناکہ سربراہان عرب ممالک کواسرائیل کی ناراضگی روانہیں لیکن بے گناہ مسلمانوںکاخون وہ کیسے برداشت کرسکتے ہیں ۔فلسطینیوں کے زخم پرمرہم رکھتے ہوئے جنگ بندی کیلئے اسرائیل کومجبورتوکرسکتے ہیں لیکن اب تک ایسا کچھ بھی نہیںہوسکاہے ۔ہاںترکی وزیراعظم رجب طیب ایردوان کی ہمدردی فلسطینیوںکے ساتھ ہے اورانہوںنے سفارتی سطح سے اسرائیلی درندگی کولگام دینے کی کوششوںمیں مصروف ہیں خداکرےان کی محنت رنگ لائے۔
۱۹۴۸ء میں جب فلسطین کی سرزمین غصب کرکے اسرائیل ریاست کی بناڈالی گئی تب ہی سے فلسطینیوںکی نسل کشی کاسلسلہ شروع ہوگیاتھا آج نوبت یہاںتک آگئی ہے کہ فلسطین کے شہریوںکواپنی ہی زمین سے بے دخل کرنے کاسلسلہ زورپکڑلیاہے۔ اسرائیل کی گندگی پالیسی کوامریکہ اوربرطانیہ سمیت دیگرنام نہادامن کے ٹھیکیدارسمجھنے جانے والے ممالک کی حمایت حاصل رہی ہے ناگزیرحالات میں کبھی اسرائیل کی سرگرمیوںکے خلاف ان ممالک کی جانب سے تنقیدیں بھی سامنے آئیں توکبھی اس کا لہجہ اتنا کمزورہوتا تھاکہ اس میں بھی اسرائیل کی پس پشت ہمدردی کی جھلک ہوتی تھی اورکبھی اسرائیل ہی انگوٹھادکھاکراسے مستردکرتارہا۔
فلسطین میں جاری اسرائیل کی وحشیانہ کارروائیوںکی تصویریں دیکھ کرمجھے ہٹلرکی وہ بات یادآتی ہے جب اس نے ایک موقع پر کہاتھاکہ میں چاہتا توسارے یہودیوںکا قتل کردیتا لیکن ان میں سے کچھ کواس لئے چھوڑدے رہاہوںتاکہ دنیایہ سمجھ سکے کہ میں نےانہیں کیوں قتل کیاتھا۔ آج اسرائیل کی سرکشی دیکھ کرہرانسانیت پسندیہ آروز کررہاہوگاکہ کاش ہٹلرایک بھی یہودی کونہ چھوڑاہوتاتودنیا آج جنت ہوتی ۔
امریکہ کے ورلڈ ٹریڈ سینٹرپرحملہ سے لے کرپوری دنیامیں ہونے والے دہشت گردانہ حملوںکاباریکی سے جائزہ لیںتواس کے پیچھے آپ کوصہیونی لابی کارفرمانظرآئے گی یعنی بہ الفاظ دیگرہم کہہ سکتے ہیں کہ دنیا میں جاری دہشت گردانہ کارروائیوںکوانجام دینے والی قوام اسرائیل ہے۔
چوںکہ میڈیاپرپورے طورسے یہودیوںکا کنٹرول ہے ۔دنیاکے بڑے بڑے نیوزسینٹراورمیڈیاپراسی قوم کا تسلط ہے اورپھریہ قوم فطری طورپرکسی کی کمزورنس پکڑکراس کا استحصال کرنے میں ماہرہے ۔بس اسی کے سہارے آج وہ پورے عالم میں رقص ابلیسی کی محفل سجائے پھررہاہےلیکن کوئی بھی طاقت مٹھی بھریہودیوںکولگام لگانے میں کامیاب نہیں ہوپارہی ہے۔ یہودیوںنے خصوصی طورپرعالم عرب کے سربراہان کوبڑی چالاکی کے ساتھ اپنے دام فریب میں پھنسالیاہے ۔سیکورٹی کے نام پر ان کی کمزوریوںپرمطلع ہوگیا ہے ۔اپنی کرسی جانے کے خوف سے عالم عرب اپنے گوفے میں پرسکون بیٹھے پڑے ہیں جبکہ اسرائیل جس طرح چاہتاہے قوم مسلم کومشق ستم بناتا ہےلیکن مجال ہے جوقوم کے نام پرسربراہان عرب اسرائیل کے خلاف مذمتی لفظ بھی زبان سے نکال سکے ۔اگرمیری باتوںپریقین نہ آئے توغزہ کی موجودہ صورت حال کے تناظرمیں مسلم ممالک کی مسلم نوازی کی تصویردیکھ سکتے ہیں۔ آپ کوایک ترکی کے وزیراعظم رجب اردگان کے علاوہ کوئی چہرہ نظرنہیں آئے گا۔قرآن کریم میں واضح طورپر کہاگیاہے کہ یہودی تمہارے دوست نہیں ہوسکتے وہ تمہاراکھلا دشمن ہے اس کے باوجود سربراہان مسلم ممالک اسرائیل سے اپنی دوستی گہری کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔دوستی کا عبرتناک نتیجہ ماضی سے لے کرحال تک دیکھنے کے باوجود کوئی سبق لینے سے ہنوز قاصرہیں۔
آج فلسطین کے عوام کومجاہدین کی یادبڑی شدت کے ساتھ آرہی ہوںگی لیکن ان کے گھوڑوںکے ٹاپوںکی آوازدوردورتک سنائی نہیں پڑرہاہے۔ کبھی امریکہ توکبھی برطانیہ کے خلاف جہادکا اعلان کرکے اسلام کے نظام جہادکوبدنام کرنے والے طالبان ،القاعدہ اورعراق وشام میں مسلمانوںکی لاشیں گرانے والے جہادی تنظیم داعش کے مجاہدوںاوران کے لائولشکرکی رگوںسے خون خشک ہوگئے ہیں ۔عراق اورشام میں مسلمانوںکے خلاف جہادفرض ہے لیکن فلسطین کے نہتھے مسلمانوںکاخون بہانے والے اورقبلہ اول کی حرمت کوپامال کرنے والوںکے خلاف ان کی نظرمیں جہادکیوںنہیں ضروری ہے۔فلسطین میں بے گناہ بچے مارے جارہے ہیں،غزہ کوایک اوپن جیل میں تبدیل کیاجارہا ہے، قبلہ اوّل کوشہیدکرکے وہاں ہیکل سلیمانی کی تعمیرکیلئے سرنگیں کھودی جارہی ہیں لیکن طالبان ،القاعدہ اورداعش کے جہادیوںکا خون گرم نہیں ہورہاہے؟پوری دنیاکامسلمان ان تنظیموںکے ذمہ داران سے یہ سوال پوچھنے کا حق رکھتا ہے کہ آخرآپ کون جہادکررہے ہیں اورکس کے خلاف جہاد کررہے ہیں؟
یہ ناداں گرگئے سجدے میں جب وقت قیام آیا
اقوام متحدہ اورامریکہ سے یہ سوال ضرورکیاجاناچاہئے کہ اگراسرائیل پر اسی طرح فلسطین کی جانب سے وحشیانہ بم باری اورراکٹوںکے حملے کئے جاتے توان کا رویہ اتنا ہی لچیلا ہوتا ؟اورپوری دنیا اسی قدرچین کی نیندسورہی ہوتی ؟اگرنہیں توپھرانسانی خون میں سفیدی کی رمق آنے سے قبل فلسطینیوںکی نسل کشی کاسلسلہ روکنے کیلئے جلدازجلدٹھوس کارروائی کیوں نہیں کی جاتی ؟

***
rahbarmisbahi[@]gmail.com
موبائل : 9470738111
صابر رضا رہبر

The Palestinian Genocide. Article: Sabir Rahbar

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں