مولانا محمد علی جوہر اور ان کے نظریات - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2013-12-10

مولانا محمد علی جوہر اور ان کے نظریات

mohammad-ali-jouhar
مولانا محمد علی جوہر قائدین ملک و ملت کی صف میں کئی لحاظ سے انفرادیت رکھتے ہیں، عزت نفس اور دولت استغنا ان کی زندگی کا لازمی حصہ رہا، وہ فقیری میں شاہانہ خیالات اورپریشانی میں خودداری پر قائم رہے، وہ مخلص، بہادر اور عاشق اسلام لیڈر تھے، وہ اظہار حق میں ذرہ برابر تامل سے کام نہیں لیتے، دوست دشمن کی پرواہ کئے بغیر اپنی بات سامنے رکھتے تھے۔
رام پور کے معزز وممتاز خاندان میں مولانا محمد علی 10دسمبر 1878ء کو پیدا ہوئے۔ 2برس کی عمر میں ہی ان کے والد عبدالعلی خاں کا انتقال ہوگیا، والدہ کی عمر بیوگی کے وقت 27 برس تھی، انہوں نے ابتدائی تعلیم کے بعد 8 سال علی گڑھ میں گزار کر بی اے کی ڈگری حاصل کی، میر محفوظ علی کے مطابق وہ کلاس میں لکچر سنتے، فیلڈ میں کرکٹ کھیلتے اور یونین میں تقریر کرتے تھے، ان کے بڑے بھائی شوکت علی نے روپے کا انتظام کرکے انہیں آکسفورڈ یونیورسٹی میں داخلہ دلوایاد، جہاں سے انہوں نے تاریخ جدید میں بی اے آنرز کی سند حاصل کی، ان کی ذہنی و فکری تربیت میں ان کی والدہ بی اماں کا بڑا رول تھا، مولانا محمد علی کے دل میں ملت اسلامیہ کا بڑا درد تھا، ان کی خدمات کئی لحاظ سے قابل قدر ہیں، ملک کی آزادی کی جدوجہد، تحریک خلافت، اشاعت تعلیم، فروغ اردو، عوامی بیداری بذریعہ صحافت اور اپنی مخلصانہ کوشش و کاوش میں وہ بہت کامیاب رہے۔
برطانوی حکومت نے جب کلکتہ کے بجائے دہلی کو ہندوستان کی راجدھانی بنانے کا فیصلہ کیا تو محمد علی نے "کامریڈ" کا دفتر بھی 14/ستمبر 1912ء کو دہلی میں منتقل کرلیا، اور 12 اکتوبر کو یہیں سے "کامریڈ" کا پہلا شمارہ شائع کیا، انہوں نے مسلمانوں کی آسانی کیلئے "نقیب ہمدرد" نامی اردو پرچہ کا اجرا کیا بعد میں روزنامہ ہمدرد کے نام سے مشہور ہوا، باشندگان ہند کو آزادی وطن کیلئے بیدار اور تیار کرنے کی غرض سے مولانا نے صحافت کو موثر ذریعہ بنایا، اس کے ساتھ ساتھ وہ تحریک خلافت کیلئے مسلسل اسفار کرتے رہ۔
9/جنوری 1920ء کو مولانا ملک کے مختلف علاقوں کا دورہ کرتے ہوئے دہلی پہنچے تو چاندنی چوک پر ان کا شاندار استقبال ہوا، خواجہ حسن نظامی نے استقبالیہ پیش کرتے ہوئے کہاکہ "دہلی کی سرزمین پر کتنے ہی عظمت و جلال والے تاجدار اور شاہزادے اور حکام بلند مقام آئے اور چلے گئے لیکن سلطنت مغلیہ کے خاتمہ کے بعد سے آج تک اس خلوص و عقیدت کے ساتھ شاید ہی کسی شخص کا خیرمقدم کیا گیا ہو"۔

تحریک خلافت نے ملک میں آزادی کی تڑپ پیدا کردی۔ ہر فرد کے دل میں علی برادران کیلئے محبت جاگزیں ہوگئی، اس تحریک نے انگریزی اسکولوں، کالجوں اور سرکار کی نگرانی میں چلائے جانے والے تعلیمی اداروں کو چھوڑ دینا فرض قرار دے دیا، چنانچہ تعلیمی محاذ پر ترک موالات کے لئے مولانا محمد علی نے علی گڑھ کے ایم اے او کالج سے پہل کی۔
بالآخر 29 اکتوبر کو جمعہ کے دن ایم اے او کالج کی مسجد میں بعد نماز جمعہ "جامعہ ملیہ اسلامیہ" کی رسم افتتاح شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن کے ہاتھوں ادا ہوئی۔ حکیم اجمل خاں اولین امیر جامعہ، مولانا محمد علی پہلے شیخ الجامعہ، حاجی موسی خاں سکریٹری اور تصدیق احمد شیروانی جوائنٹ سکریٹری مقرر ہوئے۔ مولانا محمد علی نے 22 نومبر 1920ء کو فاونڈیشن کمیٹی کے جلسے میں یہ تجویز منظور کرالی کہ جب تک نیا نصاب تعلیم تیار ہوکر نہیں آجاتا مجوزہ نصاب ہی کو اصلاح و ترمیم کے ساتھ جاری رکھا جائے اور اس میں دینیات کے مضمون کا اضافہ کردیاجائے۔ اس موقع پر ایک نصاب کمیٹی تشکیل دی گئی۔ جس میں مولانا محمد علی جوہر، ڈاکٹر سر محمد اقبال، مولوی عبدالحق، مولانا ابوالکلام آزاد، ڈاکٹر سیف الدین کچلو، مولانا شبیر احمد عثمانی، مولوی عنایت اﷲ، پرنسپل ایس کے رودرا، پرنسپل گڈوانی، پروفیسر سہوانی، سی ایف اینہ ریوز، جواہر لال نہرو، راجندپرساد اور سید سلیمان شامل تھے۔
اس عمومی نصاب پر غور و خوص کے بعد مولانا محمد علی جوہر کی خصوصی نگاہ دینیات کی طرف متوجہ ہوئی چونکہ محمد علی مسٹر سے مولانا ہوچکے تھے اور جدید و قدیم پران کی نگاہ ماہرانہ تھی، انہوں نے پھر دینیا ت کے نصاب کیلئے خصوصی کمیٹی تشکیل کی، جس میں مولانا آزاد سبحانی، مولانا سلامت اﷲ، مولانا صدر الدین، مولانا عبدالقیوم، مولانا داؤد غزنوی، مولانا عبدالماجد بدایونی، مولانا عبدالقادر، مولانا ابوالکلام آزاد کے ساتھ مولانا محمد علی جوہر خود بھی شامل رہے۔
ایام اسیری میں جھندواڑہ میں قیام کے دوران وہ قرآن کریم کی تلاوت اور باقاعدہ تفسیر کے مطالعہ کی سعادت حاصل کرچکے تھے، اس لئے نصاب تعلیم میں قرآن کریم، دینیات اور تاریخ کو فوقیت دینا چاہتے تھے اور اس ذہن کے ساتھ نصاب تیار کئے جانے پر ان کی توجہ تھی، مولانا محمد علی جوہر کا نظریہ تعلیم تجربات کی روشنی میں ان کے سامنے واضح ہوکر آچکا تھا، وہ اس بات کومحسوس کرتے تھے کہ نصاب تعلیم اور نظام تعلیم کا منفی اثر ہندوستان کے باشندوں پر پڑے گا اور ملت اسلامیہ کو اس معاملہ میں کچھ زیادہ ہی حساس رہنا چاہئے، چنانچہ مصروفیت کے باوجود نصاب تعلیم پر پوری توجہ دے رہے ہیں اور اس کی جزئیات ر ان کی نگاہ بار بار جارہی ہے، اس لحاظ سے ان کی نگاہ میں "جامعہ ملیہ اسلامیہ" کا تصور بہت ارفع اور اعلیٰ تھا، یہی وجہہ ہے کہ اسلامیات اور دینیات کے بلند پایہ عالم دین شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن کے ذریعہ جامعہ کا افتتاح عمل میں آیا اور نصاب کمیٹی عصری علوم کے ماہرین کے ساتھ نامور اور بالغ نظر علماء کی بڑی تعداد کو انہوں نے اس کمیٹی میں شامل رکھا، اس سے ان کے تعلیمی نظریات کااندازہ ہوتا ہے۔
ڈاکٹر یوسف حسین اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ "مولانا محمد علی جوہر بولتے تھے تو فصاحت و بلاغت کا دریا بہادیتے، گھنٹہ دو گھنٹہ چار گھنٹے متواتر تقریر کا سلسلہ جاری رہتا، مولانا محمد علی کو بولتے بولتے گلا پڑ جاتا اور کبھی کبھی آنکھوں سے آنسو رواں ہوجاتے"۔

ان کی تاریخی تقریر کا یہ حصہ جو انہوں نے گول میز کانفرنس لندن میں کی تھی ملاحظہ فرمائیں "میں ایک غلام ملک کو واپس نہیں جاؤں گا بشرطیکہ وہ آزاد ملک ہو پس اگر ہندوستان میں تم ہمیں آزادی نہ دو گے تو یہاں میرے ایک قبر تو تمہیں دینی پڑے گی"۔ 4/جنوری 1931ء کو ساڑھے نو بجے صبح لندن کے ہائڈ پارک ہوٹل میں، جہاں ان کا قیام تھا، جامعہ ملیہ اسلامیہ کا اوین شیخ الجامعہ، ہندوستان کے صف اول کا رہنما اپنے وطن سے دور دیار غیر میں ابدی نیند سوگیا، مفتی اعظم فلسطین سید امین الحسینی کی خواہش کا احترام کیاگیا، جنہوں مولانا کے جسد خاکی کو بیت المقدس کے احاطہ میں دفن کرنے کی تمنا ظاہر کی تھی اور اس طرح مولانا کے جسد خاکی کو پیغمبروں کے مدفن اور قبلہ اول کے احاطہ میں دفن کیا گیا، مولانا کی قبر پر انہیں کا ایک شعر آج بھی لکھا ہوا ہے۔
جیتے جی تو کچھ نہ دکھائی بہار
مر کے جوہر آپ کے جوہر کُھلے

اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے شیخ الجامعہ ڈاکٹر ذاکر حسین نے فرمایا "محمد علی کی زندگی کا بیان دراصل ایک قوم اور ایک ملت کے حال اور مستقبل کی تفسیر کرنا ہے کہ محمد علی اسلامی ملت اور ہندی قوم کے قائد تھے اور نمائندہ بھی"۔
برطانوی ادیب ایم جی ویلز کا محمد علی کے بارے میں یہ مقولہ مشہور ہے کہ "محمد علی نے برک کی زبان، میکالے کا قلم اور نپولین کا دل پایا ہے"۔
مولانا مناظراحسن گیلانی نے ان پر باضابطہ مرثیہ لکھا ہے۔
بقول مفکر اسلام سید ابوالحسن علی ندوی" انہوں نے حق کہنے میں نہ اپنے شیخ طریقت مولانا عبدالباری فرنگی محلی کی پروا کی نہ اپنے سب سے محترم و محبوب شریک کار اور جنگ آزادی کے رفیق کار گاندھی کی، نہ اس وقت کی سب سے بڑی سلطنت (برطانیہ) کے وزیراعظم کی، نہ سب سے زیادہ قابل احترام سرزمین کے فرمانروا اور بانی سلطنت سلطان عبدالعزیز بن سعود کی، انہوں نے ہرجگہ حق بات کہی اور صاف و بے لاگ کہی"۔

مولانا محمد علی جوہر کی غیرت دینی اور حمیت اسلامی مسلمانان ہند کیلئے مشعل راہ ہے، انہوں نے وطن عزیز کیلئے جو قربانی دی وہ ناقابل فراموش اور ملت کی شیرازہ بندی، ان کی تعلیمی ترقی اور جدید و قدیم مواد پر مشتمل نصاب کی تیاری سے ان کے تعلیمی نظریات کا اندازہ ہوتا ہے، انہوں نے جدید اعلیٰ تعلیم کے حصول کے بعد بھی اپنی مذہبی شناخت کو اہتمام کے ساتھ نہ صرف قائم رکھا بلکہ اس کے داعی اور مبلغ ہوگئے، ہمیں ان کے اچھے کارناموں کو یاد بھی رکھنا ہے اور ان اچھائیوں کو اپنی علمی زندگی میں نافذ بھی کرنا چاہئے۔

مولانا محمد علی کی زبان سے نکلے بعض اشعار ان کے موقف کی پوری ترجمانی کرتے ہیں۔
توحید تو یہ ہے کہ خدا حشر میں کہہ دے
یہ بندہ دو عالم سے خفا میرے لئے ہے
کیا ڈر ہے جو ہو ساری خدائی بھی مخالف
کافی ہے اگر ایک خدا میرے لئے ہے

The ideology of Maulana Mohammad Ali Jouhar

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں