05/نومبر کولکاتا ایس۔این۔بی
ملک کی دیگر ریاستوں میں آلو کی بے لگام بڑھتی ہوئی قیمت کے رجحان پر قدغن لگانے کیلئے وزیر اعلی ممتا بنرجی نے اپنے متعلقہ محکمہ کے افسران کو اگرچہ یہ ہدایت دے رکھی ہے کہ وہ آلو کی گھریلو پیداوار کو ریاست کے باہر جانے پر فی الوقت روک لگائیں۔ تاہم وزیر اعلی کی اس کوشش سے آلو کی اسمگلنگ میں کوئی فرق نہیں پڑا ہے۔ بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ ناجائز منافع خوری کے چکر میں آلو مافیا کے گرو ہوں کی پڑوسی ریاستوں میں اسمگلنگ کی سرگرمیاں مزید تیز ہوگئی ہیں تو مبالغہ نہ ہوگا۔ سب سے حیران کن نظارہ تو یہ ہے کہ شہر کے قلب میں واقع پرائیوٹ بسوں کے اڈہ بابو گھاٹ جہاں پولیس کا پہرہ بھی موجود رہتا ہے، مسافر بسوں ممیں آلو کی بوریاں لاد کر بہار، جھاڑکھنڈ اور اڑیسہ میں اسمگل کیا جارہا ہے ۔ آلو مافیا کی دیدہ دلیری کا یہ عالم ہے کہ وہ دن کے اجالے میں یہ دھندہ انجام دے رہے ہیں جبکہ رات کی تاریکی میں ان کی سرگرمی میں دوگنا اضافہ ہوجاتا ہے۔ مسافروں کی سواری کرنے والی یہ بسیں آلو کی بوریاں لاد کر نہ صرف سینگور ، مہیشور پور، برداون کے موسا گرام اور جمال پور کے سرحدی راستوں سے بلکہ درگا پور قومی شاہراہ سے ہوکر بہار، جھارکھند اور اڑیسہ کی ریاستوں میں داخل ہو رہی ہیں اور پولیس انتظامیہ خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔ منافع خور آلو مافیا کا یہ طرز عمل ظاہر ہے اونچی قیمت حاصل کرنے کی نیت سے ہی ہے ، کیونکہ وزیر اعلی ممتا بنرجی نے تیرہ روپئے فی کیلو سے زیادہ دام لینے پر کاروائی کرنے کی ہدایت دے رکھی ہے۔ آلو مہا جنوں کا ایک طبقہ ایسا بھی ہے جو وزیر اعلی کی جانب سے طے کی جانے والی آلو کی قیمت کے مدنظر کو لڈ اسٹوریج سے فی الحال آلو نکالنے کے موڈ میں نہیں ہے۔ حالانکہ روان سال کی آلو پیداوار جو کولڈ اسٹوریج میں موجود ہے ہر حالات میں دسمبر تک خالی کرنی ضروری ہے۔ ایسی صورتحال میں اضلاع میں بھی آلو کی قیمت پر قابو پانا مشکل ہے۔ گزشتہ سنیچر کے روز پچاس کیلو گرام پر مبنی آلو کی فی بوری کی قیمت پانچ سو اسی روپئے تھی جبکہ اتوار کو بڑھ کر یہ قیمت چھ سو پچہتر روپئے ہوگئی۔ دریں اثنا آلو کی تجارت کرنے والے لالو مکھرجی کا کہنا ہے کہ ان کی کاروباری تنظیم پرگتی آلو بیپسائی سمیتی وزیر اعلی ممتا بنرجی سے آلو کی در آمد میں حسب سابق چھوٹ بحال کرنے کی درخواست کا منصوبہ بنار ہی ہے۔ یاد رہے کہ ضلع ہگلی میں ہی آلو کی سب سے زیادہ پیداوار ہوتی ہے جہاں کل 417کولڈ اسٹوریج موجود ہیں جس میں چھ سے سات لاکھ ٹن آلو کے ذخیرے کا سڑجانے کا امکان ہے۔ ان کی یہ بات بھی شکایت ہے کہ آخر حکومت نے آلو کی درآمد پر پابندی لگانے کا فیصلہ ایسے وقت میں کیوں لیا جبکہ وہ سالوں سے ایسا کرتے آرہے ہیں۔ ادھر دوسری جانب ہگلی کے ضلع مجسٹریٹ من میت نندا ور ایس سنیل چودھری کا دعوی ہے کہ وہ خردہ اور تھوک بازار پر کڑی نظر رکھے ہوئے ہیں نیز منافع خوری کو فروغ دینے والی کسی بھی سر گرمی پر کاروائی کرنے کیلئے مستعد ہیں۔ البتہ ضلع انتظامیہ کے دعوے اور صورتحال کا واضح فرق یہ ہے کہ کولکاتا سے پرائیویٹ بسوں میں آلو کی بوریاں لاد کر بہار ، جھاڑکھنڈ اور اڑیسہ میں اسمگلنگ جاری ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ سر دست وزیر اعلی ممتا بنرجی کی ہدایت کا بازار میں کوئی اثر پڑتا نظر نہیں آرہا ہے۔ ادھر دوسری طرف کولڈ اسٹوریج سے آلو نہ نکالنے کا تاجروں کا فیصلہ آلو کے سڑنے کا سبب بن سکتا ہے۔ اس صورتحال سے آئندہ پیداور کی قیمت میں بھی کسی کمی کی امید باقی نہیں رہ جاتی۔Mamata Banerjee bans potato exports from West Bengal
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں