آخری آدمی - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2013-07-07

آخری آدمی

وہ 14/جون 2013 کی ایک سہانی شام تھی جب اتراکھنڈ کے کیدارناتھ میں عقیدت مند ہر طرح کی مصیبت ،پریشانی ،خوف ،دہشت،آفت اور عذاب کے احساس سے عاری و بے خبر شام کے لمحات سے لطف اندوز ہو رہے تھے ۔ تیز دھوپ سامان سفر باندھ چکی تھی اور باران رحمت کے پر کیف، روح افزا اور دلفریب جھونکے بالوں میں کنگھی کر رہے تھے ۔تھوڑی دیر بعد رم جھم بارش ہونے لگی ۔اونچی پہاڑیوں اور شہر میں موجود لوگ موسم کی اس پہلی بارش میں بھیگنے کے لیے گھر وں سے نکل آئے ۔بارش ہوتی رہی اور وقفے وقفے سے اس میں تیزی آتی چلی گئی ۔ چھاجوں بر سنے والی بارش اگر کسی کو کہاجا ئے تو اتراکھنڈ کی اس بارش کو کہا جائے گا جس نے دیکھتے دیکھتے ہی جل تھل بھر دیے اور وہ رحمت سے زحمت بن گئی ۔
گڑگڑاہٹ کے ساتھ بادل پھٹنے لگے جن کے زور سے غیر قانونی طور پر تعمیر شدہ مکانات، ہوٹلیں اور پہاڑوں میں بنے فارم ہاؤس بھر بھرا کر لمحوں میں دریا برد ہونے لگے۔ یہ قیامت خیز منظر دیکھ کر بارش میں بھیگتے لوگوں کی آنکھوں میں خوف و دہشت کے اندھیر ے در آئے ۔ تھوڑی دیر قبل جو چہرے خوش و خرم تھے ، اب ان پر مردنی چھا گئی ۔اس خوف و ہراس کے عالم میں ان کے منہ سے جو پہلی آواز نکلی ،وہ بس یہی تھی :
"بھاگو ! بھا گو ، بچاؤ بچا ؤ ، ہائے ہائے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔"
یہ دل دوز آوازیں کربناک چیخوں میں بدل گئیں ،قیامت کا سا سماں تھا یا حشر کا سا عالم تھا وہ۔ بادل بجلی ،برق و باراں ، بارش کا شراٹا ، بد قسمت بہنے والے انسانوں اورچوپایوں کی فلک شگاف چیخیں، لوگوں میں بد حواسی، جان بچانے کی ہر کسی میں تڑپ ۔۔۔۔کیا کیا نہیں ہواتھا قیامت کبریٰ سے پہلے۔
آباد گھر اجڑے، قافلے بکھرے ،اپنے جدا ہو ئے ۔ تباہی مچی ۔۔۔۔۔۔۔ زمین میں غار بنے ، چٹانیں پھسلیں۔۔۔۔۔۔ان تمام خوفناک مناظر کو دیکھنے والا ایک آدمی تھا جو موسم کے مزاج کی برہمی محسوس کر کے پہاڑ کی سب سے بلند چوٹی پر چڑھ گیا تھا ۔وہ انتظار حسین کے "الیاسف" کی طرح تباہ ہونے والوں سے مختلف نہیں تھا تاہم ابھی اس کی زندگی کی بہت سی سانسیں بچی ہوئی تھیں جن کا سلسلہ کچھ دیر تک باقی تھا۔

وہ ایک چیز دیکھ رہا تھا ۔ انسانوں کے ہاتھوں لائی ہو ئی تباہی کے مناظر اس کے سامنے تھے۔ اس کے آگے تماشے ہو رہے تھے اور ایک عظیم خلقت چیخ رہی تھی۔ گہرے پانی میں ڈبکیاں لے رہی تھی ۔ کچھ لوگ اس مصیبت کے عالم میں ایک دوسرے کا سہارا بن رہے تھے مگر تھوڑی دور چلنے کے بعد ان کے بھی پیر پھسلے اور ٹھاٹھیں مارتا ہوا پانی انھیں بہا لے گیا۔
اچانک اسے خیال آیا ، یہ سب کیوں ہوا ؟ بادل کیسے پھٹے ؟ کیسے جل تھل بھر گئے ؟۔۔۔۔۔ ابھی وہ اگلا سوال سوچ ہی رہا تھا کہ کل کے چند واقعات اس کے ذہن کی اسکرین پر چھا گئے ۔
"ارے ہاں !کل یہاں کیا عیاشی تھی ،لوگ شراب میں کیسے مدہوش پڑے تھے ۔ کیدراناتھ کے چارو ں دھاموں میں، روشنیوں ،آتش بازیوں اور ہاہا کار اور قدرت سے مقابلہ آرائی کے کیسے کیسے کرتب دکھائے جا رہے تھے ۔ نوجوان اپنے ماضی و حال سے بے خبر اپنی جنس سے بے پروا ہ ناچ رہے تھے ۔ لوگ آسمانی باپ کو بھول کر، من کے خدا کو فراموش کر کے کس طرح عالم مدہوشی میں غرق تھے ۔شاید یہ اسی کا نتیجہ ہے ،شاید یہ اسی کی جزا ہے ،شاید یہ تادیبی کارروائی اسی لیے کی گئی ہے ۔۔۔۔۔"
وہ سوچتا رہا اور اس کا ذہن الجھتا ہی رہا ۔
اچانک اس نے دیکھا "شیو"کی سب سے بڑی مورتی ،جسے اپنی "خدائی" پر ناز تھا ،جس کی ہیبت دلوں میں بیٹھی تھی ،دھڑام سے زمین پر آ گئی یہی نہیں بلکہ اس کا آدھا حصہ پانی میں بہہ گیا ۔
"ارے خدا بھی بہہ گیا۔۔۔۔"
اچانک آخری آدمی کے ذہن میں ایک عجیب سا خیال کوندا
"نہیں !نہیں ! ایسا نہیں ہوسکتا ۔بھلا بھگوان کیسے تباہ ہو سکتا ہے۔ کوئی اپنے ساتھ بھگوان کی مورتی لایا ہوگا وہی گری ہوگی۔"
وہ یونہی اپنے دل کو تسلی دیتا رہا مگر اس کا دل کسی طور مطمئن ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا ۔ تشویش ، وساوس ،اندیشے،سوالات اس کے دما غ میں سیلاب بن کر چلتے رہے ، باہر پانی تھا جس کی سطح بلند ہوتی جارہی تھی اور اندر سوالات کا بپھرتا سیلاب تھا جو اس آخری آدمی کی "خودی"کو ڈبو رہا تھا۔
وہ شام کو اونچی چوٹی پر چڑھا تھا اور اب رات کے اندھیر ے بڑھتے چلے آ رہے تھے ۔ان سے بھی خوفناک لوگوں کی چیخیں تھیں ،فضا میں گڑگڑاہٹ کرنے والے راحتی طیاروں کی آوازیں تھیں اور پانی کا شراٹا ان سب پر حاوی تھا ۔ بچا ؤ بچاؤ کی دل خراش چیخیں الگ تھیں جو رہ ہ رہ کر دم توڑ ہی تھیں مگر کوئی بچانے والا نہیں تھا ۔

اچانک " آخری آدمی " نے چند آوازیں سنیں، مڑ کر دیکھا تو سادھوؤں کے لباس میں دو تین خستہ حال لوگ بڑھے آ رہے تھے ۔
"مادھو!تمہارے پاس تو ایک ہی انگوٹھی تھی ،یہ تم نے چار کہاں سے پہن لیں ؟"
ان میں سے ایک نے سوال کیا ۔"ارے یار وہ ایک آدمی بہتا جارہا تھا،اس کے ہاتھ میں یہ انگوٹھیاں تھیں میں نے موقع مناسب جانا اور اس کی انگلیاں کاٹ کر انگوٹھیاں نکال لیں ،ہا ہاہا ہا۔۔۔۔"
اس کا کریہہ قہقہہ فضا کا سینہ چیرتا چلا گیا ، آخری آدمی اسے سن کر کانپ گیا۔
"ہے بھگوان ! یہ انسان کو کیا ہو گیا! ایسی قیامت کے عالم میں بھی ، یہ ۔۔۔ یہ سب !" مارے دہشت کے اس کے الفاظ ٹوٹتے چلے گئے ۔

"پنڈت جی ! مجھے تو مزا ہی آ گیا ،ایک کنیا کو میں نے بچایا پھر اپنی کٹیا میں لے جا کر اس سے خوب من مانی کی پتا نہیں اب بے چاری کا کیا حال ہے۔"
دوسرا سادھو کہہ رہا تھا جسے سن کر سادھوؤں کے بھیس میں ملبوس بھیڑیے ہنس پڑے۔

" آخری آدمی " نے سینہ تھام لیا۔ تیسرے سادھو نے کچھ کہنے کومنہ کھولا تھا کہ اچانک ایک مددگار طیارے کی گڑگڑاہٹ اس کی سفاکیت پر حاوی ہو گئی جو ان کے عین اوپر سے گذر رہا تھا ۔ پانی اب بہت اوپر آچکا تھا اور بچاؤ کے تمام راستے مسدود تھے ۔ آخری آدمی نے بھاگنے کی بہت کوشش کی مگر عذاب سے بچ نہ سکا ۔
ہر سمت پانی تھا ، ہر طرف پانی ، دائیں پانی تھا اور بائیں پانی ، اوپر سے بادل پھٹ رہے تھے نیچے زمین اپنا دہانہ کھولے ہو ئے تھی ۔ اب بس ایک ہی راستہ تھا موت کا! تمام لوگ ختم ہو چکے تھے اور تباہی کا نظارا کر نے والا آخری آدمی بھی تیزی سے موت کی جانب بڑھ رہا تھا۔

***
imranakifkhan[@]gmail.com
موبائل : 9911657591
85 ، ڈیگ گیٹ گلپاڑہ، بھرت پور (راجستھان)۔
عمران عاکف خان

Aakhri Admi. Short-Story: Imran Akif Khan

3 تبصرے:

  1. جناب مکرم نیاز صاحب امید ہے کہ بخیر ہوں گے ۔ آپ کا ہدایت نامہ موصول ہوا اور اس ۔میں مندرج باتیں بہت خوب لگیں میں انشاء اللہ ان پر عمل کر نے کی کوشش کروں گا
    نیاز مند
    عمران عاکف خان

    جواب دیںحذف کریں
  2. نیز افسانہ شائع کرنے کے لیے آپ کا بے حد شکریہ

    جواب دیںحذف کریں
  3. Akhri aadmi ka unwan kuch jacha nahi jabki jahan wo tha waheen chandsaadhu bhi pahunche phir Akhri aadmi?

    جواب دیںحذف کریں