تعلیم اورمسلمان ۔۔۔ سچر کمیٹی رپورٹ کے تناظر میں - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2013-06-17

تعلیم اورمسلمان ۔۔۔ سچر کمیٹی رپورٹ کے تناظر میں

تعلیم اورمسلمان ۔ ۔ ۔ سچر کمیٹی رپورٹ کے تناظر میں
مطالبات سے زیادہ خود احتسابی کی ضرورت ہے

تعلیم کسی بھی قوم کے لیے ترقی کا اہم اوربنیادی ذریعہ ہوتا ہے،جو قومیں علم حاصل کرتی ہیں اوراس کی روشنی سے بھرپورفائدہ اٹھاتی ہیں وہی قومیں سائنس اورٹیکنالوجی کے میدان میں ترقی کر کے دنیاپرحکمرانی کاخواب دیکھتی ہیں اورباقی دنیاکواپنے پیچھے چلنے پرمجبورکرتی ہے،لیکن جوقومیں حصول علم میں کوتاہی برتتی ہیں،اوراس کی روشنی سے فائدہ اٹھانے میں ناکام رہتی ہیں اسے ترقی یافتہ قوموں کی غلامی کاطوق اپنے گردن میں ڈالنے پرمجبورہوناپڑتا ہے ۔ تعلیم اورمسلمان کاچولی دامن کارشتہ رہا ہے،مسلمانوں کے نزدیک تعلیم کی اہمیت اس لیے بھی مسلّم ہے کہ مسلمانوں کے پیغمبرحضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم پروحی کاآغازہی لفظ "اقراء"کے ذریعہ ہواجس کے معنی ہی ہیں "پڑھو"۔ اتناہی نہیں بلکہ قرآن وحدیث میں جگہ جگہ حصول علم کی ترغیب دی گئی ہے،اورعالم وجاہل کے فرق کوبینا اورنابیناکے فرق سے سمجھایا گیا ہے،حدیث میں توروزمرہ کی ضروریات کے بقدرعلم حاصل کرناہرمسلمان مردوعورت پرفرض قراردیا گیا ہے،کہیں حصول علم کی ترغیب دیتے ہوئے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ارشادفرمایاکہ علم حاصل کروماں کے گودسے قبرمیں جانے تک،اورکہیں یہ فرمایاکہ علم حاصل کروچاہے اس کے لیے تمہیں چین کاسفرکرناپڑے،قطع نظراحادیث کے صحیح اورضعیف کے ،اتنی بات توطے ہے کہ بہرحال علم کی حیثیت اوراس کی اہمیت مسلّم ہے،اوراس کی اہمیت سے کوئی بھی باشعورانسان انکارنہیں کر سکتا۔

ایک طرف تو وہ قوم اورامت کہ اللہ نے جس کے پیغمبر کو سب سے پہلی وحی "پڑھنے "کے حکم کی شکل میں بھیجی،قرآن کریم میں جگہ جگہ علم کی اہمیت کوبیان کیا اس نبی کی امت پر ناخواندگی کالیبل لگے،افسوس صدافسوس!
جی ہاں ! 2004ء میں کانگریس جب ایک لمبے عرصہ کے بعد اقتدار میں واپس آئی تواسے یہ خیال ہواکہ جس قوم کے بل بوتے اس نے یہ اقتدارحاصل کیا ہے ،ہندستان میں اس قوم کی تعلیمی،معاشی،اورسماجی صورت حال کیا ہے ؟ذرا اس کاجائزہ لیاجائے،اس نیک مقصدکے لیے منموہن حکومت نے جسٹس راجندر سچر کی سربراہی میں ایک کمیٹی تشکیل دی جس کابنیادی مقصدتھاکہ پورے ملک کاتحقیقی سروے کر کے یہ اعدادوشمارحاصل کیے جائیں کہ ہندستان میں مسلمانوں کی اقتصادی،تعلیمی اورسماجی حیثیت کیا ہے ؟جسٹس راجندرسچرنے بڑی ایمانداری اورجانفشانی سے پورے ہندستان کاجائزہ لیا،انہوں نے اس جائزہ کے دوران مرکزی حکومت،ریاستی حکومت،اسی طرح مرکزاور ریاست کے ماتحت آنے والے تمام محکمے،سرکاری،نیم سرکاری اورپرائیوئٹ تعلیمی اداروں نیزمدارس کاجائزہ لیا اوریہ ان جگہوں پرمسلمانوں کی تعدادکیا ہے اس کے اعدادوشمارحاصل کیے ؟ویسے تویہ جائزہ مسلمانوں کی زندگی کے تما م شعبہ ہائے سے متعلق تھا،لیکن اس وقت مجھے صرف مسلمانوں کی تعلیمی صورت حال پرگفتگوکرنی ہے،کیوں کہ ہرطرح کی ترقی کارازتعلیم میں ہی پنہاں ہے ۔ جسٹس راجندرسچرنے اپنی یہ رپورٹ نومبر2009ء میں حکومت ہندکوپیش کر دی،جس کوتقریباً 7/سال سے زیادہ کاعرصہ ہو چکا ہے ۔

غورکرنے کامقام ہے کہ جسٹس راجندرسچرنے اپنی جورپورٹ پیش کی ہے اس رپورٹ میں بحیثیت مجموعی مسلمان اس ملک میں انتہائی پسماندہ ہیں،نہ تومعاشی طورپرمضبوط ہیں، اورنہ ہی سماجی طورپردیگرقوموں کے مقابلہ میں اچھی پوزیشن میں ہیں،رہامسئلہ تعلیم کاتوتعلیم کے علمبردارہونے کے باوجودوہ اس میدان میں بھی پسماندہ ہیں ۔ مسلمانوں کے تئیں عوام کا ایک عام رجحان یہ ہے کہ وہ بنیادپرست ہیں اورقدامت پرست ہیں،اسی لیے یہ اپنے بچوں کوصرف اورصرف مذہبی تعلیم دیتے ہیں،لیکن سچر رپورٹ نے اس سوچ کی بھی قلعی کھول کر رکھ دی ہے کہ مسلمانوں کے صرف 4/فیصد بچے ہی مدارس میں تعلیم حاصل کرتے ہیں، یہ اعدادوشمارصرف عام لوگوں کے لیے ہی نہیں بلکہ خودمسلمانوں کے لیے کسی لمحۂ فکریہ سے کم نہیں ہے کہ صرف 4/فیصدبچے ہی مدارس میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں جب کہ یہ اعدادوشمارتوکم وبیش 50/فیصد ہونے چاہئیں لیکن مسلمان اس میں بھی پیچھے ہیں، بقیہ 66/ فیصد سرکاری اسکولوں میں جب کہ 30/فیصد پرائیویٹ اسکولوں میں ہیں، جناب سچرکی رپورٹ کے حوالہ سے جب ہم دیکھتے ہیں تویہ اندازہ ہوتا ہے کہ اسکولوں،کالجوں اوریونیورسیٹیوں میں بھی ہماری تعداد انگلیوں پر گنے جانے کے لائق ہے ۔ جہاں ہندستان کی مجموعی شرح خواندگی 2001ء کی مردم شماری کے مطابق 65/ فیصد ہے وہیں مسلمانوں میں یہ شرح 59/ فیصدہی ہے،جب کہ ہندو 65/ فیصد، عیسائی80/ فیصد، سکھ69/ فیصد، بدھ 72/ فیصداور 94/ فیصدکے ساتھ جین مذہب سب سے اوپر ہے ۔ مسلمانوں میں مرد کی شرح خواندگی67/ فیصد اورعورت50/ فیصد ہے، جو کہ اوپرشمارکرائے گئے تمام مذاہب کے ماننے والوں میں سب سے کم ہے ۔ آخرایساکیوں ؟جس مذہب کی بنیادہی تعلیم وتعلم پرہے،جس کے پیشواکی سینکڑوں احادیث اورقرآن کی بے شمارآیات حصول علم کی تلقین سے پرْ ہے،آخراس قوم کے متبعین میں شرح خواندگی کی یہ افسوسناک شرح کیوں ہے ؟کیا اس سے یہ بات سمجھ میں نہیں آتی ہے کہ ہم اپنے مذہب اورمذہبی تعلیمات سے کتنے دورہو چکے ہیں ؟ذرایادکریں وہ وقت جب پوری دنیاپرہمارے علم وتحقیق کاڈنکابجتا تھا،دنیائے سائنس اورطب کی بڑی بڑی ایجادات کا سہرا ہمارے محققین کے سرجاتا ہے،لیکن ہماری کوتاہی اورہماری علم سے دوری نے ان ایجادات کا کریڈٹ ہم سے بڑے شاطرانہ اندازسے چھین کراپنے سرلے لیا اورہم کچھ نہ کر سکے ۔
سچرکمیٹی کی رپورٹ ہمارے لیے سامان عبرت ہے،اسے صرف سیاسی ہتھکنڈہ نہیں بناناچاہیے بلکہ ہمیں غورکرنے کی ضرورت ہے کہ آخراس کاذمہ دارکون ہے ؟کیاصرف حکومت پراس کی ذمہ داری ڈال دیناکافی ہو گایاہمیں یہ بھی دیکھنا ہو گاکہ ہم اپنے لیے اوراپنی قوم کے لیے کتنے کارآمدہیں ؟اگرہمیں اللہ نے اتنی سہولت دی ہے کہ ہم اپنے پڑوس کے پانچ بچوں کی تعلیم کا انتظام کر سکتے ہیں توکیاہم نے ایساکیا؟ذراغورکریں کہ سچرکمیٹی کی رپورٹ کے مطابق مسلمانوں کے 6۔ 14سال کی عمرکے تقریبا25/ فیصدی بچے ایسے ہیں جو یا تو کبھی اسکول گئے ہی نہیں یا گئے توانہوں نے بیچ میں ہی تعلیم کوخیرآبادکہہ دیا،ہے کوئی صاحب استطاعت مسلمان جس نے کبھی اپنے محلہ میں یہ جاننے کی کوشش کی ہوکہ اس کے محلہ میں کتنے ایسے بچے ہیں جوکبھی اسکول نہیں گئے یاجنہوں نے بیچ میں ہی اسکول چھوڑدیا ہو؟شایدہی ہندستان کاکوئی ایساگاؤں ہو جہاں اس طرح کے صاحب استطاعت لوگوں کی کمی ہو؟ممکن ہے کچھ ایسے بھی مخیرحضرات ہوں ؟یاکیاکبھی کسی غیرسرکاری تنظیم جومسلمانوں کے لیے کام کرتی ہے اس نے کوئی انتظام کیا؟اس سوال کاجواب سب جانتے ہیں ۔
حکومت نے جسٹس راجندرسچرکویہ ذمہ داری سونپی تھی کہ وہ ہندستانی مسلمانوں کی تعلیمی،معاشی اورسماجی صورت حال کاجائزہ لیں،انہوں نے نومبر2006ء میں اپنی یہ رپورٹ یایوں کہہ لیں کہ مسلمانوں کی زبوں حالی کاقرطاس ابیض حکومت کے سپردکر دیا،جہاں تک میری معلومات کاتعلق ہے اورخبروں کی دنیاسے باخبر رہنے والاہرشخص بخوبی جانتا ہے کہ اس رپورٹ کے آنے کے بعدمسلمانوں کاہمدردکہلانے والی بڑی بڑی تنظیموں نے بڑے بڑے اجلاس کیے،حکومت سے مطالبہ کیاکہ جسٹس سچرنے رپورٹ کے تناظر میں جو سفارشات پیش کی ہیں اس کوجلدازجلدنافذکیاجائے،اس طرح مطالبے ہوتے رہے اورحکومت نے اپنی ایک مدت پوری کر لی،پھرحکومت اسی رپورٹ کوساتھ لے کر دوبارہ انتخاب کے میدان میں اتری اورمسلمانوں کے سامنے یہ دہائی دی کہ دیکھئیے آپ کی زبوں حالی اوربدحالی کاپلندہ ہمارے سامنے ہے ہماری "مخلصانہ اورایماندارانہ"کوشش ہے کہ ہم اسے نافذکریں گے لیکن اس کے لیے آپ کوہمیں ایک اورموقعہ دینا ہو گا،اگرہمیں آپ نے موقع نہیں دیاتویادرکھیں پوراملک گجرات بن جائے گا،بھلامسلمان کیسے نہ اعتبارکرتا اورانہوں نے ایڑی چوٹی کازورلگا کر دوبارہ اقتداسونے کی تھالی میں سجا کرکانگریس کوپیش کر دیا،اب دوسری مدت بھی ختم ہونے والی ہے،لیکن مسلمانوں کا کتنابھلا ہوایہ سب کو معلوم ہے ؟2014ء کالوک سبھا الیکشن بس آیاہی چاہتا ہے کہ اچانک سچرکمیٹی رپورٹ یعنی مسلمانوں کی بدحالی کاقرطاس ابیض کوردی کی ٹوکری سے پھرسے نکالا گیا اورایک ایسے وقت میں جب کہ حکومت کواورحکومت کے وزیرباتدبیرکوبھی اچھی طرح معلوم ہے کہ اب کچھ نہیں کر سکتے انہوں نے ایک بارپھربدحال مسلمانوں کی قسمت کوجادوئی چھڑی سے سدھارنے کا اعلان داغ دیا،ہوناکیا تھا ایک بارپھرسے میڈیاکے ساتھ ساتھ مسلم تنظیموں کوبھی موقع مل گیا،اورحکومت بھی خوش ہو گئی کہ ہمیشہ کی طرح ایک بارپھرمسلمان ہمارے دام میں پھنس چکا ہے ۔ اوراسی دوران اقلیتی امورکے وزیرباتدبیرجناب کے۔ رحمان خان صاحب نے مسلمانوں کے لیے ایک خوش نما اعلان کیاکہ حکومت ہندستان میں اقلیتوں کے لیے پانچ یونیورسیٹیاں قائم کرے گی،اب ان سے کون پوچھے کہ پہلے سے جوادارہ اقلیتوں کا ہے وزیر صاحب!پہلے اس کاتواقلیتی کرداربحال کر دیں، پھرآپ یہ پانچ یونیورسیٹیاں قائم کریں،ایک سوال کے جواب میں وزیرموصوف نے کہاکہ کیا اگرالیکشن آنے والے ہیں توہم کوئی کام ہی نہ کریں، توان کاجواب یہ بھی ہے کہ اقلیتوں کی حالت زارکاعلم ہوئے تقریباً سات سال کاعرصہ گذرچکا ہے ،ان سات سالوں میں آپ نے اعلانات کے سوا کچھ کیا بھی ہے ؟
جب کہ ان کادعویٰ ہے کہ سچرکمیٹی کی 73/ سفارشات میں سے تقریبا60/ سے زیادہ سفارشات کا نفاذہو چکا ہے، تواب یہ ایک بڑا سوال ہے کہ ان سفارشات کا نفاذ کب اورکیسے ہوا؟جس طرح حکومت اپنے چارسالہ کارکر دگی کی رپورٹ کارڈ جاری کرتی ہے تو وزارت اقلیتی امورکوبھی چاہیے کہ وہ سچرکمیٹی کی رپورٹ کی سفارشات پرعلاحدہ رپورٹ کارڈجاری کریں تاکہ مسلمانوں کوبھی پتہ چلے کہ حکومت نے ان کے لیے کیا کیا کا رہائے نمایاں انجام دیے ہیں اورانہیں ان کافائدہ کیسے ملے گا؟

جہاں تک جناب کے ۔ رحمان خان صاحب کے ذریعہ اقلیتوں کے لیے 5/ یونیورسیٹیوں کے قیام کا اعلان ہے ،تواگرواقعی حکومت اس میں مخلص ہے توصحیح معنوں میں یہ بڑاخوش آئندقدم ہو گا لیکن ماہرین قانون کاماننا ہے کہ دستورمیں اس طرح کی یونیورسیٹیوں کے قیام کی اجازت نہیں ہے اوراگرایسا ہوتا ہے تویہ معاملہ سپریم کورٹ میں جا کراٹک جائے گاجوکہ کانگریس کے لیے سودمند ہی ثابت ہو گاکیوں کہ اس صورت میں ایک بارپھروہ انہی زیر التوا معاملوں کی بنیاد پر اقلیتی و وٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے گی۔
بہرکیف! اگریونیورسیٹیاں قائم ہوتی ہیں اوروہ خاص مسلمانوں کے لیے ہوتی ہیں تواس سے فائدہ ہو گاکیوں کہ اس وقت مسلم گریجویٹ کاتناسب قومی سطح پرصرف6،3فیصدہے اورتکنیکی گریجویٹ کاتناسب توبالکل ہی کم ہے یعنی اعشاریہ 4فیصدہے،اسی طرح منیجمینٹ کے اعلیٰ اداروں میں یہ تناسب صرف اورصرف3،1فیصدہے ۔ تواگرقومی سطح پرپانچ یونیورسٹے یاں قائم ہوتی ہیں تومسلمانوں کواپنی شرح خواندگی بڑھانے میں یقیناکچھ نہ کچھ فائدہ ہو گا۔

جسٹس راجندرسچرکمیٹی کی رپورٹ کومحض ایک رپورٹ سمجھناہماری کوتاہ علمی ہو گی بلکہ اسے سامان عبرت سمجھنا ہو گا،اوراس کے تناظرمیں ہمیں اپنامحاسبہ کرنا ہو گا،میں ان حضرا ت سے معذرت کے ساتھ کہ جوصرف اورصرف اپنی زبوں حالی کاذمہ دارحکومت کوٹھہراتے ہیں، میں اس کے لیے صرف اورصرف اپنی قوم اوراپنی قوم کے رہبرکوذمہ دارسمجھتا ہوں،ہندوستان میں سب سے زیادہ شرح خواندگی جین مذہب میں پائی جاتی ہے،94/ فیصدان کی شرح خواندگی ہے تو کیا یہ حکومت کی دین ہے؟
نہیں ؟ہرگزنہیں !بلکہ یہ ان کی بیداری ہے،اسی طرح کے ہندوستان کے بعض صوبوں میں شرح خواندگی قومی اوسط سے کہیں زیادہ ہے توکیا ان سب کے پیچھے حکومت کی کرم فرمائی ہے ؟اگرہے تواس کی کیاوجہ ہے ؟ اسے جاننے کی کبھی کوشش کی ہے ہمارے رہنماؤں نے ؟
نہیں !صرف اجلاس طلب کر لینے ،میمورنڈم پیش کر دینے اوراخباری بیان بازی سے اس قوم کی حالت سدھرنے والی نہیں ہے،بلکہ اس کے لیے اپنے اندر بیداری لانی ہو گی، بہارکے حضرت مولانا محمد ولی رحمانی نے کیاحکومت کے تعاون سے رحمانی۔ 30 کی بنیاد ڈالی ہے ؟
ذراغورکریں کہ رحمانی۔ 30کے طلبہ آج کس مقام پرہیں؟ آج ضرورت ہے کہ ہرصوبے نہیں بلکہ ہرضلع میں ایک ولی رحمانی پیدا ہو جوقوم کے مستقبل کواونچی تعلیم اور بلند فکر دے سکے،حکومت کے سامنے ہاتھ پھیلانے سے بہترہے کہ ہروہ شخص جواپنے ایک بچہ کی تعلیم کے اخراجات برداشت کرنے کے قابل ہے وہ اپنے پڑوس کے ایک بچہ کا بھی تعلیمی خرچ برداشت کرے،اسی طرح جس شخص کواللہ نے استطاعت دی ہے وہ ہرمحلہ اور گاؤں میں ایسے مکاتب اوراسکول کے قیام کی کوشش کرے کہ جہاں قوم وملت کے مستقبل کوسنواراجاسکے، ضروری نہیں کہ تنہا اس کام کوانجام دے بلکہ اپنی زیادہ سے زیادہ شراکت ادا کر کے قوم کے دیگرمخلص اورکارآمدلوگوں کوبھی ساتھ لے اوراجتماعی طورپریہ کام کرے،اگرہرشخص اپنے پڑوس،محلہ اورگاؤں کی فکرکرلے توانشاء اللہ وہ دن دورنہیں کہ اس ملک کاہرمسلمان تعلیم یافتہ ہو گا،ہرگھرسے علم کی روشنی پھوٹے گی جواپنے ساتھ بہت سارے گھروں کومنورکر دے گی۔ انشاء اللہ!
بس ضرورت ہے عزم وحوصلہ کی اوراخلاص وللہیت کی۔

***
gsqasmi99[@]gmail.com
موبائل : 00966532883253
چیف ایڈیٹر : بصیرت آن لائن ڈاٹ کام ، ریاض ، سعودی عرب
غفران ساجد

Education and Muslims - in context of Sachar committee report. Article: Ghufran Sajid

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں