HC orders CBI probe into Dhaniakhali death
ممتا حکومت کو آج پیر کو اس وقت ایک جھٹکا اور لگا جب کلکتہ ہائی کورٹ نے حکم دیا کہ ہگلی کے دھنیا کھالی میں مغربی بنگال پولیس کی حراست میں ایک ترنمول ورکر کی مبینہ موت کی تفتیش سی بی آئی سے کرائی جائے۔ اس سے 2،3دن پہلے پنچایت انتخابات معاملے میں کلکتہ ہائی کورٹ کا فیصلہ ریاستی حکومت کے خلاف آیا تھا۔ یاد رہے کہ 19 جنوری کو دھنیا کھالی تھانے میں پولیس کی حراست میں رکھے گئے قاضی نصیر الدین کی موت ہوگئی تھی۔ اسے ایک دن پہلے پکڑا گیا تھا۔ آج پیر کو کلکتہ ہائی کورٹ کی بنچ نے جو جسٹس ارون مشرا اور جسٹس جے ایم باگجی پر مشتمل تھی، ریاستی پولیس کے سی آئی ڈی کو حکم دیا کہ وہ 7دنوں کے اندر اندر اس معاملے کی تمام فائلیں سی بی آئی کو سونپ دے۔ عدالت نے یہ فیصلہ مفادعامہ کی ایک عرضی کی سماعت کرتے ہوئے دیا جس میں کہا گیا تھا کہ یہ معاملہ چونکہ پولیس کے خلاف ہے اس لئے اسی کے شعبہ تفتیش یعنی سی آئی ڈی کی جانب سے جانچ منصفانہ اور غیر جانبدارانہ کی توقع نہیں کی جاسکتی۔ مہلوک کی بیوی نے سی بی آئی جانچ کام طالبہ کیا تھا۔ عدالت نے اپنے حکم نامے میں کہاکہ وہ ریاستی پولیس کی تفتیش سے مطمئن نہیں ہے۔ کہا جارہا ہے کہ قاضی نصیر الدین کی موت منصوبہ بند سازش کے تحت کیا جانے والا قتل تھا کیونکہ وہ ترنمول پارٹی چھوڑنے والا تھا۔ بتایا جاتا ہے کہ قاضی کو اس لئے پکڑا گیا تھاکہ اس کے پاس موجود کار کے کاغذات مبینہ طورپر دست نہیں پائے گئے تھے۔ شام کو مقامی افراد جب اس سے ملنے تھانہ گئے تو یہ دیکھ کر ہکا بکا رہ گئے کہ فرش پر اس کی برہنہ لاش پڑی ہوئی ہے۔ یہ دیکھتے ہی لوگوں کے غم و غصے کا ٹھکانہ نہیں رہا اور انہوں نے تھانے کے احاطے میں توڑ پھوڑ مچائی جس کا سلسلہ دراز ہوکر باہر تک جاپہنچا۔ نتیجہ کے طورپر پولیس اور عوام میں جم کر جھڑپ ہوئی۔ لوگوں کا کہنا تھا کہ پولیس نے قاضی کو پیٹ پیٹ کر موت کے گھاٹ اتاردیا ہے جبکہ پولیس اس سے صاف انکار کررہی تھی اور اس کا کہنا تھا کہ قاضی بیمار ہوگیا تھا تو اسے فوراً اسپتال لے جایا گیا جہاں ڈاکٹروں نے اس کی موت کی تصدیق کی۔ عدالت نے اس کے ساتھ ہی مقامی ترنمول لیڈر اسیم پترا کے رول پر بھی سوال اٹھایا جس نے حسب اطلاع قاضی نصیر الدین کو اس کے پولیس حراست میں رہنے کے دوران پولیس اسٹیشن میں کئی مرتبہ فون کیا تھا۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں