بولنے کی آزادی سبھی کو حاصل ہے - کاٹجو - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2013-03-13

بولنے کی آزادی سبھی کو حاصل ہے - کاٹجو

بول کے لب آزاد ہیں تیرے
بول زبان اب تک تیری ہے
فیض احمد فیضؔ

مجھ پر چند سیاسی لیڈروں ، قانون دانوں اور دیگر لوگوں نے اس بناء پر تنقیدیں کیں کہ میں نے صحافت سے چند غیر متعلقہ مسائل پر کھل کر اظہار خیال کیا، جبکہ میں پریس کونسل آف انڈیا (PCI) کا چیرمین ہوں ۔ بناء برین اب وقت ہے کہ میں ان تنقیدوں پر اپنے ردعمل کا اظہار کر دوں ۔ مجھ پر اصل حملہ یہ ہے کہ میں چونکہ PCI کا چیرمین ہوں اور PCI کے روبرو پیش کئے جانے والے معاملوں پر مجھے عدلیاتی نوعیت کے فیصلے کرنے پڑتے ہیں ۔ اس لئے میں کسی شخص یا کسی معاملے کے بارے میں اپنی ذاتی رائے کا اظہار نہیں کر سکتا۔ نہ ہی میں کسی شخص یا کسی معاملے میں اپنے طورپر کوئی فیصلہ دے سکتا ہوں اس لئے فی الفور یہ وضاحت کر دینا میرے لئے ضروری ہے کہ عدلیاتی نوعیت کے فیصلے میں تنہا اور خود اپنے طورپر نہیں کرتا بلکہ عدلیاتی نوعیت کے فیصلے PCI میں اکثریتی و وٹ سے کئے جاتے ہیں ۔ چیرمین کو چھوڑکر PCI کے 28ارکان ہیں ۔ اگر میں اپنے آپ کو الگ رکھوں تب بھی PCI کے ارکان کسی معاملے میں موزوں فیصلہ دے دیتے ہیں ۔ پھر یہ سب کچھ بڑبونگ آخر مچائی کیوں جا رہی ہے ؟ اعتراض اور تنقید کرنے والوں کا کہنا یہ تھا کہ ایک جج کو عوامی مسائل پر کوئی رائے کوئی خیال کا اظہار نہیں کرنا چاہئے ۔ سوائے اس کے کوئی عوامی مسئلہ اس کے اجلاس پر پیش کیا گیا ہو۔ معترضین اور ناقدین کی اس بات کے جواب میں میرا کہنا یہ ہے کہ میں اب جج کے عہدے پر نہیں ہوں بلکہ ایک ریٹائرڈ جج ہوں ۔ پھر یہ کہ یہ نشاندہی بھی ضروری ہے کہ پریس کونسل آف انڈیا PCI کا صدرنشین کا عہدہ جج کا عہدہ نہیں ہوتا۔ PCIکے صدرنشین کے عہدے کے فرائض جج کے عہدے کے فرائض سے بالکل مختلف ہیں ۔ پہلی بات تو یہ کہ ایک جج صرف عدلیاتی عمل کرتا ہے ۔ الایہ کہ ہائی کورٹس دستوری آرٹیکل 235 کی مطابقت میں کسی ذیلی عدالت پرکسی جج کو انتظامی اختیارات عطا کر دیں ۔ پریس کونسل آف انڈیا کے چیرمین کا عہدہ اور اس کے فرائض نہ صرف عدلیاتی نوعیت کے ہیں جو کہ وہ PCI Act کی دفعہ 14 کے تحت پریس کا شکایات پر یا پریس کے خلاف کوئی شکایت پر انجام دیتا ہے بلکہ وہ دفعہ 13 کے تحت صحافت کی آزادی اور صحافت کے اعلیٰ ترین معیارات کا بھی تحفظ کرتا ہے ۔ دوسرے یہ کہ ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کو جو اختیارات حاصل ہیں وہ اختیارات پریس کونسل آف انڈیا کو حاصل نہیں ۔ مثال کے طورپر کوئی حکم جاری کرنے کا اختیار عدلیہ کی توہین پر سزادینے کا اختیار PCI کو حاصل نہیں ۔ انتظامیہ کے عہدیداروں کے احکام کو کالعدم کرنے کا اختیار PCI کو حاصل نہیں ۔ عوامی مفاد کی عرضداشتوں پر کوئی ہدایت دینے کا اختیار PCI کو حاصل نہیں۔ دیگر کئی باتیں ہیں جو کہ ججس اور PCI کے چیرمین کے مابین مختلف ہیں ۔ پھر سوال یہ ہے کہ جج اور PCI چیرمین کے عہدے کو کیوں مماثل بتایاجا رہا ہے ؟ دونوں عہدوں کو کس طرح سے مساوی بتایا جاسکتا ہے ؟ میں نے بارہا کہا ہے کہ میں نہ صرف PCI کا صدرنشین ہوں بلکہ میں ہندوستان کا شہری بھی ہوں ۔ PCI Act پریس کونسل آف انڈیا ایکٹ میں ایسی کوئی دفعہ نہیں کہ صحافت سے غیر متعلق مسائل پر اپنی رائے ، اپنے خیال کا اظہار کرنے کی کوئی ممانعت ہو( جیسا کہ میں نے پہلے ہی بتایا ہے کہ PCI میں اگر کوئی ایسا معاملہ پیش کیا جائے جس پر کہ میں پہلے اپنے خیال یا اپنی رائے کا اظہار کر چکا ہوں تو ایسی صورت میں اس معاملے کی سنوائی اور فیصلہ دینے کے عمل اپنے آپ کو میں الگ اور غیر متعلق کرلوں گا) بنا برین میں صحافت سے غیر متعلق مسائل اور معاملوں پر اپنی بات کہتا رہوں گا اور اپنے خیال اپنی رائے کا اظہار کرتا ہوں گا۔ بالخصوص اس صورت میں جبکہ میرے خیال اور میری رائے میں کوئی معاملہ، کوئی مسئلہ قوم کیلئے نہایت سنگین اہمیت رکھتا ہو۔ مجھے اس کی کوئی پرواہ نہیں کہ میرے خیال میری رائے کے اظہار پر کچھ لوگ کیا کہیں گے ۔ کیونکہ دستوری آرٹیکل19(1)(2) کے تحت مجھے اپنی رائے ، اپنے خیال کے اظہار کی پوری آزادی حاصل ہے ۔ مذکورہ دستوری آرٹیکل ہندوستان کے سبھی شہریوں کو تقریر کی آزادی دیتا ہے ۔ اپنی بات کہنے کی آزادی دیتا ہے ۔ بناء بریں PCI کا چیرمین بھی ان سبھی مسائل اور معاملات پر بول سکتا ہے ۔ مجھ پر لگایا گیا ایک الزام یہ بھی ہے میں حکومت کا ایک ملازم ہوں اور حکومت نے میرا تقریر کیا ہے ۔ اس لئے میں حکومت کا ماتحت اور حکومت کی تابعداری کا پابند ہوں ۔ اس الزام کے تعلق سے میرا جواب یہ ہے کہ : "پریس کونسل آف انڈیا PCI کے چیرمین کا تقرر حکومت نہیں بلکہ PCI ایکٹ کی دفعہ S.5(2) کے تحت ایک سلیکشن کمیٹی کرتی ہے اور یہ کمیٹی راجیہ سبھا کے صدرنشین (نائب صدر جمہوریہ ہندوستان) لوک سبھا کے اسپیکر اور PCI کے ایک نمائندے پر مشتمل ہوتی ہے ۔ PCI کے چیرمین کا تقرر حکومت نہیں کرتی۔ بلکہ اس کا انتخاب جمہوری طورپر PCI کے ارکان کیا کرتے ہیں ۔ PCI کے ارکان نے ہی مجھ کو متفقہ طورپر چیرمین منتخب کیا۔ دوسری بات یہ کہ میں حکومت کا کوئی ملازم نہیں بلکہ ایک آزاد دستوری ا تھاریٹی ہوں ۔ یہ اپنی جگہ صحیح کہ PCI ایکٹ کی دفعہ S.7(1) میں چیرمین کو "آفیسر" کہا گیا ہے لیکن لفظ "آفیسر" کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہوتاکہ وہ حکومت کاملازم ہے ایک لفظ کئی معنی رکھتا ہے ۔ دفعہ S.7(1) میں لفظ "آفیسر" کا مطلب عہدہ کا حامل فرد ہے ۔ کئی پہلوں سے بھی یہ بالکل صاف اور واضح ہے کہ PCI کا چیرمین کوئی سرکاری ملازم نہیں ۔ کیونکہ کوئی بھی سرکاری ملازم کسی نہ کسی کے تحت ہوتا ہے اور اس کی ہدایات کے مطابق فرائض انجام دیتا ہے لیکن PCI کے چیرمین پر کوئی بالاتر عہدیدار نہیں ۔ سرکاری ملازمین کے بارے میں سالانہ راز کی رپورٹ ACR تیار کی جاتی ہے اور کسی سرکاری ملازم کو معطل کیا جاسکتا ہے اور اگر وہ قابل تبادلہ ملازم ہوتو اس کا تبادلہ کر دیا جاتا ہے ۔ لیکن PCI کا چیرمین نہ تو معطل کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی اس کا تبادلہ کیا جاسکتا ہے ۔ سرکاری ملازمین کیلئے آداب کا ایک قاعدہ ایک ضابطہ ہے ۔ PCI کے چیرمین پر اس قاعدے ، ضابطے کا اطلاق نہیں ہوتا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ PCI کے چیرمین کی تنخواہ کی ادائیگی حکومت کرتی ہے ۔ چیرمین کے تقرر کے مکتوب میں یہ صراحت ہے کہ PCIچیرمین کو وہی تنخواہ، وہی سہولتیں اور وہی فائدے ملیں گے جو کہ سپریم کورٹ کے برسر خدمت جج کو ملتے ہیں ۔ ججس کی تنخواہیں بھی حکومت ادا کرتی ہے ۔ کیا ججس سرکاری ملازم ہیں ؟وہ جنہوں نے کہاکہ میں صرف غیر کانگریسی حکومتوں پر تنقید کیا کرتا ہوں ۔ ان کی اس بات کا جواب میں کئی ٹیلی ویژن مباحث میں دے چکا ہوں کہ میں نے کئی بار کانگریس حکومتوں پر تنقید کی ہے ۔ مثال کے طورپر مہاراشٹرا، ہماچل پردیش اور دہلی کی کانگریس حکومت پر میں نے تنقید کی۔ جو لوگ مجھ پر الزام لگاتے ہیں میں ان لوگوں پر حقائق کو مسخ کرنے کا الزام لگاتا ہوں ۔ مجھے اس نوعیت کی وضاحت پیش کرنے کے بارے میں کوئی فکر مندی نہیں رہی لیکن جب کچھ لوگ گمراہ کن تبصرے کرتے رہے تو مجھے یہ وضاحت کرنی پڑی تاکہ لوگوں کے گمراہ کن تبصروں سے عوام متاثر نہ ہو سکیں ۔

(جسٹس مارکنڈے کاٹجو پریس کونسل آف انڈیا کے چیرمین ہیں ۔ )

Even the chairman has the freedom of speech - JusticeKatju
Bol ke lab azaad hain terey

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں