حیدرآباد بم دھماکہ - شک کی سوئی پھر نام نہاد دہشت گردوں کی طرف - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2013-02-24

حیدرآباد بم دھماکہ - شک کی سوئی پھر نام نہاد دہشت گردوں کی طرف

لیجئے صاحب پھر بم دھماکہ ہو گیا۔
دھماکہ کے بعد مرکزی حکومت نے کہا کہ اس کے متعلق پہلے ہی ریاستی سرکاروں کو متنبہ کیا جا چکا تھا۔ لوک سبھا میں بی جے پی کی شعلہ بیان مقرر سشما سوراج بھی حکومت کی خبر لیتے ہوئے وزیر داخلہ سشیل کمار شنڈے پر برس پڑیں کہ آحر پہلے سے معلوم ہونے پر بھی اس پر کنٹرول کیوں نہیں کیا جاسکا؟
دھماکہ پر سشیل کمار نے ایمرجنسی بیان کے بعد 22/فروری کو لوک سبھا میں روایتی بیان دیا اس میں نئی کوئی بات نہیں تھی اس بیان کو حکومت کی طرف سے معلوماتی بیان بھی کہہ سکتے ہیں ۔ اس کے پیچھے شنڈے کی مجبوری بھی ہو سکتی ہے اور دو دن پہلے معافی مانگنے کا اثر بھی۔

اس دھماکہ نے موجودہ اہم خبر کو دبا دیا وہ خبر گجرات سے تھی جہاں مودی کی حکومت اور بی جے پی کے 2014ء کے متوقع وزیراعظم کے امیدوار ہیں ۔ خبر تھی کہ مظلوم اور معصوم عشرت جہاں کے فرضی انکاونٹر کے سلسلے میں سی بی آئی نے گجرات کے آئی پی ایس افسر جی ایل سنگھل کو گرفتار کیا ہے ۔ عشرت جہاں کے انکاونٹر کے سلسلے میں یہ پہلی باضابطہ گرفتاری بتائی جا رہی ہے ۔

ویسے اس سے پہلے کئی اعلیٰ افسران داخل زنداں ہیں جن پر سہراب الدین، کوثر بی اور پرجاپتی کوفرضی انکاونٹر میں ہلاک کرنے کا الزام ہے ۔ یہ گرفتاری تو ہوئی ہے پہلے بھی اب بھی اور شاید آگے بھی ہو، لیکن اس پر مقدموں کی کیا صورت ہے وہ واضح نہیں ہے ۔
بہرحال معاملہ فی الحال حیدرآباد کے تازہ دھماکے کا ہے ۔
سشما سوراج نے لوک سبھا کے اندر سشیل کمار کے بیان کے بعد سوالات اٹھاتے ہوئے کہاکہ دھماکہ کہیں اکبر الدین اور اسد الدین کے مبینہ بھڑکاؤ بھاشن سے تو نہیں جڑا ہوا ہے ؟ یا کیا یہ افضل گرو کی پھانسی پر دہشت گردوں کی انتقامی کار روائی تو نہیں ہے ؟

اس پر حکومت کی طرف سے کوئی واضح جواب نہیں دیا جاسکا وجہ اس کی یہ تھی کہ سشیل کمار تو لوک سبھا کے بعد راجیہ سبھا میں بیان دینے چلے گئے ۔ یہاں سشما سوراج کے بیان یا سوالات سے پہلے اس کا جائزہ لیا جانا ضروری ہے کہ 21/فروری کو سات بجے شام دھماکہ کے بعد بدنام زمانہ الیکٹرانک میڈیا کا کیا رویہ تھا؟
اس کا جائزہ لیتے ہوئے یہی محسوس ہوا کہ سارے ہی نیوز چینل اس دھماکے کو اسی پرانے اور گھسے پٹے انداز سے پیش کر کے عوام، حکومت اور تفتیشی ایجنسی کو گمراہ کر کے ایک خاص فرقہ یعنی مسلمانوں کے خلاف محاذ بنانے میں مصروف کار تھے ۔

اس بات کو بار بار نیوز چینل پر دہرایا گیا کہ شک کی سوئی انڈین مجاہدین یا حرکت الجہاد اسلامی کی طرف گھوم رہی ہے ۔
اس کو افضل گرو کی پھانسی کے خلاف انتقامی کار روائی سے بھی جوڑنے کی ناپاک کوشش کی جا رہی ہے ۔
رہی سہی کسر سشما سوراج کے زہریلے سوالات نے بھی پوری کر دی کہ کیا یہ اکبر الدین اور اسد الدین اویسی کی مبینہ نفرت انگیز تقاریر کا تو اثر نہیں ؟

جس وقت سشما سوراج پارلیمنٹ میں بول رہی تھیں غالباً کوئی مسلمان ممبران پارلیمنٹ موجود نہیں تھا کہ وہ اعتراض کرتا ممکن ہے کہ سشما سوراج نے کئی اور بھی زہریلے سوالات کئے ہوں کیونکہ جب وہ بیان دے رہی تھیں تو کئی بار محسوس ہوا کہ ان کے بیان کو ایڈٹ کیا جا رہا ہے ۔ اگر ہم سشما سوراج کے مذکورہ بیان کو اسی عینک سے دیکھیں جس سے انہوں نے دیکھا اور ایک فرقہ کو ہی اپنی شعلہ بیانی کا نشانہ بنا ڈالا۔
اگر یہ دھماکہ اکبر الدین کی تقریر کا اثر ہو سکتا ہے تو کیا یہ توگڑیا کی تقریروں کا نہیں ہو سکتا ہے ؟
اگر یہ انڈین مجاہدین کے نام نہاد دہشت گردوں کا ہو سکتا ہے تو کیا یہ بھونسلہ ملٹری ٹریننگ سنٹر سے تربیت یافتہ 500 لوگوں کا کیوں نہیں ہو سکتا جو کہ ہیمنت کرکرے کی تفتیش میں سامنے آنے کے بعد سے ہی غائب ہیں اور جس کے بارے میں مہاراشٹرا حکومت اور مرکزی حکومت دونوں ہی سے متعدد بار سوالات کئے گئے لیکن خاموشی اور مکمل خاموشی ہے ۔

آخر دھماکے کے بعد صرف حرکت الجہاد اسلامی اور نام نہاد انڈین مجاہدین ہی کا نام کیوں اچھالا جاتا ہے ؟ سناتن سنستھا، بجرنگ دل اور وشوا ہندو پرشید جیسی ہندو تنظیموں کا نام کیوں نہیں اچھالا جاتا؟
یاسین بھٹکل اور وقار جیسے نام کو ہی کیوں اچھا جاتا ہے پروین توگڑیا اور پرمود متالک کا نام کیوں نہیں گھسیٹا جاتا؟ کیا یہ سشیل کمار کے بیان (جس پر انہوں نے معافی بھی مانگ لی ہے ) کہ بی جے پی اور آر ایس ایس دہشت گردی کے اڈے ہیں پر بھگوا دہشت گردوں کی طرف سے انتقامی کار روائی بھی مانا جانا چاہئے؟

سشما جی کو اکبر الدین اور اسد الدین تو نظر آ گئے لیکن نہیں توگڑیا کی زہر افسانی اور پرمود متالک کی بیہودہ بیان بازی کیوں یاد نہیں رہی کہ اس میں بھی وہ بم دھماکے کا سراغ ڈھونڈنے کی کوشش کرتیں ۔
توگڑیا کا وہ بیان تو ابھی آن ریکارڈ ہے جس میں اس نے کہا تھا کہ:
"جب جب پولیس ہٹی تو ہم نے آسام اور میرٹھ کے ملیانہ میں لاشوں کے انبار لگا دئیے "

لیکن مہاراشٹرا کی حکومت کو اس میں ابھی تک کوئی قابل اعتراض پہلو نہیں نظر آیا اسی لئے صرف ایف آئی آر سے آگے بات نہیں بڑھی ہے ۔ ہمارا شک ہی نہیں یقین ہے کہ اس دھماکہ کا تعلق افضل گرو کی پھانسی سے ہو سکتا ہے لیکن وہ اس لئے کہ افضل گروکی ہمدردی میں انسانی حقوق کی تنظیموں نے جس پامردی کا ثبوت دیا تھا اسے عوام کے ذہنوں سے ہٹانے کیلئے انہیں دوسری طرف الجھانے کیلئے خود آئی بی نے ہی یہ عظیم کارنامہ انجام دیا ہو یا آئی بی کا دوسرا کور گروپ سناتن سنستھا اور اسی جیسی دوسری تنظیموں نے سشیل کمار کو جو کہ ایک دلت ہیں اور وزارت داخلہ جیسے اہم عہدہ پر ہیں اس سے ہٹانے کیلئے یا ان کو اس بیان پر سبق سکھانے کیلئے دھماکہ کیا ہو۔
جس میں انہوں نے فاشسٹ طاقتوں پر راست حملہ کیا تھا جس پر وہ قائم بھی نہ رہ سکے اور معافی مانگ لی۔

حالات ہردن مسلمانوں کیلئے ناقابل برداشت ہوتے جا رہے ہیں ۔ الیکٹرانک میڈیا کے بعد اگر آپ آج کے پرنٹ میڈیا اور نام نہاد مین اسٹریم میڈیا میں نظر ڈالیں انڈین ایکسپریس، ٹائمس آف انڈیا اور نوبھارت ٹائمز کے علاوہ سبھی اخبارات نے صرف اس بم دھماکہ کو ہی اپنے پورے صفحہ پر جگہ دی ہے انڈین ایکسپریس اور ٹائمس گروپ کا ٹائمس آف انڈیا اور نوبھارت ٹائمس نے اس خبر کے ساتھ گجرات کے آئی پی ایس افسر کی گرفتاری کو بھی اہمیت دی ہے ۔

کم و بیش اردو اخبارات کا بھی یہی تاثر ہے صرف ایک اردو کے اخبار نے گجرات کے آئی پی ایس افسرکی گرفتاری کو اہمیت نہ دے کر اندر کے صفحہ پر دیا ہے باقی کے اردو اخبارات نے اپنی روایت کو برقرار رکھا ہے ۔

سامنا نے تو حد ہی کر دی کہ اس نے اپنے پورے صفحہ پر اسی خبر کو اس ہیڈنگ کے ساتھ :
"حیدرآبادپر اسلامی دہشت گردوں کا حملہ 30ہلاک"
جبکہ ابھی تک کی ہلاکت کی تصدیق بیس کی بھی نہیں ہے ۔ مسلمانوں کو اس پر سامنا کے خلاف قانونی کار روائی کرنا چاہئے ۔

مسلم لیڈرشب اگر کہیں ہے تو اسے چاہئے کہ وہ اونچی عدالتوں میں اس کے خلاف سخت کار روائی کرے تاکہ اس طرح کی شر انگیزی پر قابو پایا جاسکے ۔ سامنا کی شر انگیزی یہیں ختم نہیں ہوتی بلکہ اس نے نیچے ضمنی عنوان کے تحت سرخی لگائی کہ:
"افضل اور اویسی کنکشن" اور تصویریں بھی افضل گرواور اویسی کی لگائی ہیں۔

ایسا ہی کچھ سشما سوراج نے بھی پارلیمنٹ میں کہا یعنی کہ اس طرح کے اخبارات ممبران پارلیمنٹ کو بھی گائیڈ کرتے ہیں کہ انہیں پارلیمنٹ میں کس طرح کا بیان دینا ہے ۔

کیا اب بھی ہمارے نام نہاد ممبئی اور مہاراشٹرا کے مسلم قائدین صرف وزیراعلیٰ اور وزیرداخلہ کو میمورنڈم دینا اور کار روائی کا مطالبہ کرنے سے آگے نہیں بڑھیں گے ۔

Hyderabad blasts - needle of suspicion again on socalled terrorists

1 تبصرہ: