مملکت اور نظریے کے خلاف پروپیگنڈہ - سعودی ولیعہد محمد بن سلمان کی طویل گفتگو - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2018-04-05

مملکت اور نظریے کے خلاف پروپیگنڈہ - سعودی ولیعہد محمد بن سلمان کی طویل گفتگو

Saudi-Crown-Prince-Mohammed-bin-Salman
محمد بن سلمان نے اپنے حالیہ انٹرویو میں دی اٹلانٹک کے نمائندے جیفری گولڈ بیرگ سے ایک سوال کے جواب میں چند ممالک کے حکمرانوں اور تنظیموں کو جب سے بدی کا تکون (The Triangle of Evil) کہا ہے تب سے کچھ گروہ بشمول بی بی سی لندن، الجزیرہ ٹی وی چینل اور دیگر مخصوص ذہن اخبارات تلملا رہے ہیں اور سیاق و سباق سے عبارت کو کاٹ کر مملکت سعودی عرب کے خلاف طرح طرح کے پروپیگنڈے کر رہے ہیں۔ جس سے سنی مسلمانوں میں مملکت توحید کے تعلق سے ایک طرح کی بے چینی کا پایا جانا فطری چیز ہے۔ لہذا مناسب سمجھا گیا ہے کہ محمد بن سلمان کے اس انٹرویو کا مکمل اردو میں ترجمہ پیش کر دیا جائے جسے پڑھ کر لوگوں کی بے چینی اور شبہات دور ہو جائیں نیز سلفیت کے دشمنوں کی مکاری، فریب کاری، دشمنی اور دجل و دروغ کا پردہ بھی چاک ہو جائے۔
ایک اہم نقطہ یہ کہ ۔۔ سعودی ولی عہد کے اس یادگار امریکی دورے کے جو اہم مقاصد، اہداف، ایشوز اور بنیادی اقتصادی، سیاسی و عسکری وجوہات تھے ان میں سے کسی بھی نکتے کو دشمنان مملکت نے نہیں چھیڑا بلکہ ایک غیر اہم و جانبدارانہ انٹرویو کے غیر اہم ایشوز کو اپنے مقصد برآری کی خاطر سیاق و سباق سے عبارت کو توڑ مروڑ کر ہی پیش کیا۔
اور محمد بن سلمان کے مطلب اور حقیقی سیاق و سباق کو گڈ مڈ کر دیا گیا تاکہ لوگ اس پس منظر کو نہ سمجھ سکیں جس پس منظر کو سامنے رکھ کر متشدد آئیڈیا لوجی کی مدد کی بات محمد بن سلمان نے کی تھی۔ دراصل محمد بن سلمان نے کمیونزم کے خلاف جس متشدد فکر کی بات کی تھی اور ستر اسی (70-80) کی دہائی میں اس وقت جو انٹی کمیونزم گروہ فعال رہے، ان میں جماعت اسلامی، اخوان المسلمین، حزب التحریر، افغان مجاہدین، یمن کی شاہی فورسیز، طالبان، یونس خالص، ابو رسول سیاف، گلبدین حکمتیار، جلال الدین حقانی، برہان الدین ربانی، احمد شاہ مسعود اور حزب اسلامی شامل تھے۔

واضح رہے کہ محمد بن سلمان نے اس وقت وہابیت کا نام ہی نہیں لیا تھا جب انٹرویونگار نے متشدد فکر کے تعاون کی بات کہی تھی جس میں سعودی عرب کے ساتھ یورپ اور امریکہ بھی شامل تھے۔ حالانکہ اس وقت سعودی عرب اکیلا نہیں تھا بلکہ اس وقت کمیونزم کے خلاف باقاعدہ ایک عالمی بلاک بنا ہوا تھا۔ اور مزید وضاحت طلب کرنے پر بن سلمان نے صاف صاف بتا دیا کہ اس متشدد فکر سے مراد وہابیت نہیں بلکہ اخوان المسلمین وغیرہ ہیں۔ اور پھر جب دی اٹلانٹک کے نمائندے نے خاص کر وہابیت کی تعریف پوچھی تو محمد بن سلمان نے صاف صاف کہہ دیا کہ ہم نہیں جانتے وہابی فکر کیا چیز ہے؟ اور یہاں تک کہہ دیا کہ جسے آپ لوگ وہابی فکر کہتے ہیں، ہمارے یہاں اس کا وجود ہی نہیں ہے۔

اس حالیہ انٹرویو کے دوران محمد بن سلمان نے جس توحید پرستی اور سلفیت کا دفاع کیا ہے، وہابی ازم کے پروپیگنڈے اور مملکت کے تعلق سے شبہات کا جس انداز میں مسکت جواب دیا ہے اور وہ بھی امریکہ جیسے کٹر ملک میں ایک کٹر مسیحی نمائندے کے سامنے وہ اپنے آپ میں حیران کن ہے۔ ایسا جواب ایک بے خوف موحد ہی دے سکتا ہے۔
لیجیے، اصل انگریزی انٹرویو کے حوالے کے ساتھ اردو ترجمہ پیش خدمت ہے۔

بقلم: ڈاکٹر اجمل منظور

گولڈ بیرگ:
بہتر ہوتا اگر آپ بعض ان چیزوں کے بارے میں بتاتے جن کے تعلق سے یہ وعده کیا ہے کہ سعودى عرب میں انہیں کرکے دکهائیں گے، گرچہ وه ابهى اپنے ابتدائى مراحل میں ہیں۔ آپ کا ملک بہت بڑا اور پیچیده مانا جاتا ہے ، وہاں کى ثقافت وتہذیب میں بدلاؤ بہت مشکل ہے۔ کیا آپ پہلے کچھ مذہب اسلام کے بارے میں بتا سکتے ہیں اور یہ کہ یہ دین دنیا بهر میں کیا کردار ادا کرسکتا ہے؟
محمد بن سلمان:
اسلام سلامتى کا دین ہے، اسلام کا صحیح مفہوم یہى ہے، ہمارے رب نے اسلام کے اندر ہمارے کندھوں پر دو ذمہ دارى ڈال رکهى ہے:
پہلى ذمہ دارى: ایمان ، اور ہر وه کام کرنا جو بہتر ہو اور گناہوں سے بچنا، اور نافرمانى کى صورت میں کل قیامت کے دن الله ہمارا حساب لے گا۔
دوسرى ذمہ دارى: مسلمان ہونے کے ناطے ہمارى یہ ذمہ دارى ہے کہ ہم الله سبحانہ وتعالى کے کلمے (دین اسلام) کو پھیلائیں۔چوده صدى تک مسلمان پورے مشرق وسطى، شمال افریقہ اور یورپ وغیره میں الله کے کلمے کو پھیلاتے رہے، جہاں بہتر طریقے سے انہیں دین پھیلانے کا موقعہ نہیں دیا گیا وہاں جنگ کرنے پر مجبور ہوئے اور یہى ہمارى ذمہ دارى ہے۔
یہى وجہ ہے کہ ہم دیکهتے ہیں کہ ایشیا میں بہت سارے ممالک جیسے انڈونیشیا ، ملیشیا اور ہندوستان وغیره ایسےہیں جہاں مسلمانوں نے پورى آزادى سے الله کے کلمے کو پھیلایا ہے، وہاں کے لوگوں نے ان کا استقبال کیا اور کہا کہ تمہیں جو کہنا ہو کہو جسے ایمان لانا ہوگا لائے گا۔ یہاں اسلام تلوار سے نہیں پھیلا بلکہ امن وسلامتى کے ذریعے پھیلا۔

گولڈ بیرگ:
بدى کے تکون سے آپ کى کیا مراد ہے؟
محمد بن سلمان:
اسلام امن وسلامتى کا دین ہے جب کہ ایران، اخوان المسلمین اور دہشت گرد جماعتیں برائى کا تکون ہیں۔ یہ سب اپنے مذموم عزائم کى تکمیل کیلئے دین کا اصل چہره مسخ کر رہے ہیں۔اپنى اپنى سوچ پر مبنى خواہشات وحرص ولالچ کى خاطر طاقت وقوت کى زور سے دنیا بهر میں سلطنت قائم کرکے حکومت کرنا چاہتے ہیں جبکہ ہمیں اس طرح نہ تو الله نے حکم دیا ہے اور نہ نبى محمد صلى اللہ علیہ وسلم نے ایسا کرنے کیلئے کہا ہے۔ الله نے ہمیں اپنے کلمے کو پھیلانے کیلئے کہا ہے ۔ اور اس ذمہ دارى کا پورا کرنا بہت ضرورى ہے۔ آج غیر اسلامى ملکوں میں ہر شخص کیلئے یہ آسان ہوگیا ہے کہ وه جس چیز پر چاہے ایمان لائے اور جیسا چاہے اعتقاد رکهے۔ نیز دینى کتابوں کا خریدنا ہر ملک میں ممکن ہوگیا ہے۔ اور اسى طرح دین کا پیغام پہونچ رہا ہے۔ اب یہ ضرورى نہ رہا کہ ہم اسلام پھیلانے کیلئے جہاد کریں جب تک ہم مسلمانوں کو بہتر طریقے سے دعوت دین کى اجازت ہے۔ لیکن بدى کے یہ تکون مسلمانوں کے جذبات سے کهیل رہے ہیں اور انہیں یہ بتا رہے ہیں کہ مسلمان ہونے کے ناطے اور اپنى عزت وشرافت کى وجہ سے ہمارے لئے یہ ضرورى ہے کہ ہم اسلامى سلطنت قائم کریں اور وه بهى تشدد، طاقت ، ہنسا اور ان محرف آئیڈیالوجى کى روشنى میں جو ان تینوں تکون کے یہاں پائے جاتے ہیں۔

گولڈ بیرگ:
بدى کے تکون (The triangle of evil) سے متعلق مزید کچھ تفصیل بتائیں۔
محمد بن سلمان:
پہلے ہم ایرانى حاکمیت کى بات کریں گے جو ولایت فقیہ کے متشدد نظریئے کے تحت اپنے رافضى نظام کو پھیلانے کیلئے کوشاں ہے اور وه پورى دنیا پر حکمرانى کا خواب دیکھ رہا ہے۔انہوں نے یہ عقیده گڑھ لیا ہے کہ اسى رافضى فکر کے پھیلنے کے بعد ہى غائب امام کا ظہور ہوگا جو ایران سے پورى دنیا پر حکومت کریں گے اور اسلام کو امریکہ تک پھیلائیں گے۔ 1979 میں ایرانى انقلاب کے دن سے لیکر برابر یہ یہى کہتے چلے آرہے ہیں، ان کے رافضى قوانین کا یہ حصہ ہے اور انکا کردار اسے ثابت بهى کررہا ہے۔
تکون کا دوسرا کونا اخوان المسلمین کى جماعت ہے ، یہ ایک تشدد پسند تنظیم ہے، یہ خلافت اسلامیہ کا ڈهونگ رچ کر پورى دنیا میں اپنى متشدد فکر اور دہشت گردى پر مبنى آڈیالوجى پھیلا رہے ہیں۔ جمہورى نظام کا سہارا لیکر حکومتوں تک پہونچتے ہیں پھر اسے تشدد پر مبنى حقیقى استبدادى نظام میں بدل دیتے ہیں جس کا حاکم انکا مرشد ہوتا ہے۔
اس تکون کا تیسرا کونا القاعده اور داعش جیسى دہشت گرد تنظیمیں ہیں جو طاقت اور جبر وزور سے سب کچھ کرنا چاہتے ہیں اور طاقت ہى کے زور پر سارے مسلمانوں بلکہ سارى دنیا کو مجبور کرنا چاہتے ہیں کہ سب انہیں کے متشدد نظرئیے اور حکومت کے ماتحت رہیں۔
قابل ذکر بات یہ ہے کہ القاعده اور داعش کے تمام رہنما اخوان المسلمین کے ممبر ره چکے ہیں جیسے اسامہ بن لادن، ایمن ظواہرى اور داعش کا سربراه۔
بدى کا تکون یہ فکر لوگوں میں پھیلا رہاہے کہ الله اور دین اسلامى ہمیں صرف دین کا پیغام ہى پھیلانے کا حکم نہیں دیتا ہے بلکہ ایک ایسى سلطنت کے قائم کرنے کا بهى حکم دیتا ہے جہاں سے وه اپنى اپنى متشدد فکر اور آئیڈیالوجى کے تحت حکومت کریں گے جو ہمارى اسلامى شریعت اور سمجھ سے بالکلیہ مخالف ہوگى۔ اور یہ بات بهى علم میں رہے کہ انکى یہ آئیڈیالوجى اور فکر اقوام متحده کے مبادیات کے بهى خلاف ہے۔ ہر ملک میں اپنى اپنى ضرورت کے مطابق قوانین بنائے جاتےہیں ۔ مملکت سعودى عرب، مصر، اردن، بحرین، عمان، کویت ، امارات اور یمن وغیره اس آئیڈیالوجى اور فکر کى حمایت کرتے ہیں کہ سارے آزاد ممالک اپنى اپنى مصلحتوں پر توجہ دیں اور اقوام متحده کى مبادیات کى روشنى میں ایک دوسرے سے بہتر تعلقات بنائے رکھیں جب کہ بدى کے یہ تکون ایسا نہیں کرنا چاہتے۔

گولڈ بیرگ:
پھر بهى کیا یہ صحیح نہیں ہے کہ 1979 کے بعد بلکہ اس سے پہلے بهى سعودى عرب کے اندر وه طبقہ جو دین کے معاملے میں سب سے زیاده تحفظ کا شکار ہے اسى نےتیل کى دولت کو اس وہابى آئیڈیالوجى کے پھیلانے میں استعمال کیا ہے جو اسلام میں سب سے زیاده متعصب اور متشدد مانا جاتا ہے، اور ممکن ہے جس کے بارے میں یہ کہنا مناسب ہو کہ یہ فکر اخوان المسلمین کى فکر سے متفق ہے۔
محمد بن سلمان:
سب سے پہلے کیا آپ ہمیں یہ بتا سکتے ہیں کہ وہابیت کى اصطلاح سے کیا مطلب ہے؟ اسکے بارے میں ہم تو کچھ بهى نہیں جانتے۔

گولڈ بیرگ:
آپ کچھ بهى نہیں جانتے اس سے آپ کا کیا مطلب ہے؟
محمد بن سلمان:
وہابیت کیا ہے؟

گولڈ بیرگ:
آپ مملکت سعودى عرب کے ولى عہد ہیں ۔ آپ ضرور وہابیت کے بارے میں جانتے ہوں گے۔
محمد بن سلمان:
در اصل وہابیت اصطلاح کى تعریف کرنا کسى کیلئے ممکن ہى نہیں ہے۔

گولڈ بیرگ:
یہ ایک تحریک ہے جس کى بنیاد ابن عبد الوہاب نے اٹھارہویں صدى میں ڈالى تهى، جو کہ فطرى طور پر تشدد پسندى اصول پر مبنى اور سلفیت کى سخت گیر تفسیر تهى۔
محمد بن سلمان:
جو نام آپ لوگ وہابى ازم کا دیتے ہیں اسکے بارے میں ہم نہیں بتا سکتے ۔ ہمارے یہاں ایسى کوئى چیز نہیں ہے جسے اس طرح کى وہابیت کہا جائے۔ اور نہ ہى ہمیں یقین ہے کہ اس طرح کى وہابیت ہمارے یہاں پائى جاتى ہے۔ بلکہ ہمارے یہاں مملکت سعودى عرب میں اہل سنت مسلمان رہتے ہیں، ہمارے یہاں شیعہ بهى ہیں۔ ہم اس بات پر بهى یقین رکهتے ہیں کہ اہل سنت مسلمانوں میں چار فقہى مدارس پائے جاتے ہیں۔ ہمارے یہاں معتبر شریعت کے ماہر علماء ہیں اور افتاء کى مجلس ہے۔ جى ہاں! مملکت سعودى عرب میں سارى چیزیں واضح ہیں، ہمارے سارے قوانین شریعت اسلامیہ اور قرآن پر مبنى ہیں، ہمارے یہاں چاروں مذاہب – جنبلى، حنفى، شافعى اور مالکى۔۔۔ پائے جاتے ہیں۔ گرچہ ان چاروں کے مابین بعض امور میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ اور یہ ضرورى بهى ہے جس میں لوگوں کیلئے رحمت بهى ہے۔
سوال یہ ہے کہ پہلى سعودى حکومت کى بنیاد کیوں پڑى؟ نبى صلى اللہ علیہ وسلم اور خلفاء اربعہ کے بعد جزیره عرب کے اندر دوباره لوگ آپس میں لڑنے لگے جیسے ہزاروں سال پہلے کرتے تھے۔ لیکن چھ سو سال پہلے یعنى پہلى سعودى حکومت کے قیام سے پہلےمیرے خاندان نے زیرو سے ایک شہر بسایا جسے درعیہ کہا جاتا ہے۔ اسى شہرسے بعد میں پہلى سعودى حکومت نے جنم لیا جو دیکهتے ہى دیکهتے جزیره عرب کے اندر سب سے بڑى اقتصادى طاقت بن گئى ۔اس حکومت نے اس وقت کے بگڑتے حالات کو بدلنے میں کافى مدد کى۔اکثر دوسرے شہر آپس میں تجارت کو لیکر لڑتے جهگڑتے تهے اور اس پر قبضہ کرنے کى کوشش کرتے تهےلیکن میرے قبیلے نے دوسرے دو جهگڑنے والے قبیلوں سے کہا کہ تجارتى راستوں پر حملہ کرنے کے بدلے ہم آپس میں مل کر ان علاقوں کى حفاظت کیوں نہ کرلیں؟ اسى سے تجارت بڑھے گى اور شہر کى ترقى ہوگى۔ اسى طریقے پر عمل کیا گیا۔ اور تین سو سالوں تک اسى پر عمل ہوتا رہا۔ہمیشہ ہم لوگوں کى یہى پلاننگ رہى ہے کہ جزیره عرب کے اندر ہمیں عظیم عقلمندوں کى ضرورت ہے چاہے وه فوجى جنرل ہوں ، قبیلوں کے سربراه ہوں یا علماء دین ہوں جو سب مل کر ایک ساتھ کام کریں۔ انہیں میں سے ایک عظیم شخصیت محمد بن عبد الوہاب کى تهى۔ ہمیشہ ہمارى بنیادى ترجیح لوگوں کو امن دینا پهر تمام مصحلتوں کى حفاظت کرنا رہى ہے انہیں مصلحتوں میں اقصادى مصلحت بهى ہے۔ ہم کبهى بهى (ان بدى کے تکون کى طرح ) توسیعى آئیڈیالوجى مصلحتوں پر عمل پیرا نہیں ہوئے ہیں۔
سعودى عرب کے اندر ہمارے پاس بہت سارے مشترک معاملات ہیں: ہم سب مسلمان ہیں، ہم سب عربى زبان بولتے ہیں، ہمارى ثقافت ایک ہے، ایک ہى سماج کا خیال ہے۔ چنانچہ جب آپ جیسے لوگ وہابى ازم کے بارے میں بات کرتے ہو تو نہیں سمجھ پاتے کہ در اصل کس چیز کے بارے میں بات کر رہے ہیں۔ محمد بن عبد الوہاب آل الشیخ کا خاندان اس وقت بہت معروف ومشہور ہے، اور اسى طرح سعودى عرب کے اندر ہزاروں خاندان پائے جاتے ہیں۔ آپ کو یماری حکومت کے اندر مجلس وزراء میں شیعہ مل جائیں گے، حکومتى محکموں میں آپ کو شیعہ ملیں گے، سعودى عرب میں ایک اہم یونیورسٹى کا صدر ایک شیعہ ہے۔ در اصل ہمیں اس بات پر یقین ہے کہ ہمارے پاس مختلف طرح کے مدارس اور اسلامى طبقات پائے جاتے ہیں۔

گولڈ بیرگ:
لیکن آپ شدت پسندوں کى مالى سرپرستى کے تعلق سے کیا کہیں گے؟
محمد بن سلمان:
اگر ہم گفتگو کریں گے مالى سرپرستى کے تعلق سے اور خاص کر 1979 سے پہلے، تو ہمیں سرد جنگ کے تعلق سے گفتگو کرنا پڑے گى۔ در اصل کمیونزم ہر جگہ پھیل چکى تهى جو امریکہ ، یورپ اور ہم سب کیلئے ایک خطره بن چکى تهى۔ مصر اس وقت تقریبا کمنسٹ نظام کے بالکل قریب پہونچ چکا تها۔ اس وقت ہم نے اس خطرے سے نپٹنے کیلئے ہر اس شخص کے ساتھ کام کیا جس نے ہمارى مدد کى۔ انہیں میں سے یہ اخوان المسلمین بهى تهے جن کى مالى سرپرستى خود مملکت سعودى عرب نے کى اور امریکہ نے بهى کى۔

گولڈ بیرگ:
کیا ایسا کر کے آپ لوگوں نے غلط کیا؟
محمد بن سلمان:
اگر زمانے کے اعتبار سے پیچھے چلے جائیں تو ایسا ہى کریں گے۔ لیکن اب ہمیں کمیونزم سے بھی بڑا خطره لاحق ہے، اب ہمارے لئے ضرورى ہے کہ اخوان المسلمین کى اس جماعت کے ساتھ دوسرا برتاؤ کریں اور ان کے راستے کو بدلیں ، یہ کہا جاتا ہے کہ امریکہ کے ایک صدر نے اس جماعت کو آزادى کے خلاف لڑنے والا کہا ہے۔
ہم نے ان کى تمام حرکات اور پلانوں پر کنٹرول پانے کى ہر ممکن کوشش کى ہے۔ لیکن 1979 کے بعد ہر چیز میں تبدیلى آگئى، اس ایرانى انقلاب نے ایسا نظام قائم کیا جو محض بدى کى آئیڈیا لوجى پر منحصر ہے۔ یہ نظام قوم کیلئے نہیں بنایا گیا ہے، یہ ایک تشدد پسند خاص آئیڈیالوجى کا خادم ہے۔ سنى ممالک میں شدت پسند بالکل یہى تجربہ کرنا چاہتے ہیں۔ چنانچہ ہم نے مسجد حرام پر حملہ برداشت کیا، ہم ایران میں انقلابى حالت کو دیکھ چکے ہیں وه اسى کو مکہ میں نافذ کرنا چاہتے ہیں۔ ہم نے مملکت سعودى عرب اور مصر میں دہشت گردى دیکهى ہے۔ ہم نے بہت پہلے شروع ہى میں اسامہ بن لادن کو گرفتار کرنے کا مطالبہ کیا تها کیونکہ وه مملکہ سے فرار تها۔ دہشت گردى سے لڑ کر ہم نے بڑى مصیبت جهیلى ہے یہاں تک کہ 11/ ستمبر کا حادثہ پیش آیا۔ یہى اصل قصہ ہے۔

گولڈ بیرگ:
میں نے پچھلى صدى کى نوے کى دہائى اور موجوده صدى کے اوائل میں پاکستان اور افغانستان کے اندر بہت وقت گزارا ہے۔وہاں ره کر میں نے یہى جانا کہ وہاں کے دینى مدارس مملکت سعودى عرب سے پیسہ حاصل کرتے ہیں۔ شاید آپ یہى کہنا چاه رہے ہیں کہ آپ کى حکومت اور خاندان کے دائره اختیار سے یہ معاملہ نکل گیاجس سے آپ لوگوں کو ، آپ کے دوست اور حلیف ممالک کو اس سے نقصان پہونچنا شروع ہوا جس کى بنیاد پر دھیرے دھیرے اس آئیڈیالوجى کى مدد کرنا آپ لوگوں نے ترک کردیا ۔
محمد بن سلمان:
جى میں نے یہ بات کہى ہے کہ سرد جنگ کے موقع پر ہم سبهى نے اخوان المسلمین کى مدد کى ہے۔

گولڈ بیرگ:
میں یہ نہیں کہتا کہ امریکہ اس سے برى ہے۔
محمد بن سلمان:
جى ہاں کچھ مصلحتیں تهیں جن میں ہمارے ساتھ اور بہت سارے لوگ تهے جن میں امریکہ بهى شامل ہے۔ ہمارے یہاں ایک بادشاه نے ان تشدد پسندوں کے در آنے کے بعدان کے تدخلات کو ختم کرنے میں اور انہیں صحیح راستے پر لانے میں اپنى جان کى قربانى دے دى، وه ملک فیصل کى شخصیت ہے ، مملکت سعودى عرب کى ایک عظیم ہستى۔
اور جہاں تک بات شدت پسند گروپوں کى مالى سرپرستى کرنے کى ہے تو میں چیلنج کرتا ہوں کہ کوئى بهى آئے سامنے اور ایک بهى دلیل پیش کردے کہ حکومت سعودى عرب نے شدت پسند گروپوں کى مالى سرپرستى کى ہے۔ ہاں سعودى عرب میں کچھ ایسے اشخاص پائے گئے ہیں جنہوں نے دہشت گرد گروپوں کى مالى سرپرستى کى ہے جوکہ سعودى قانون کے خلاف ہے۔ اور انہیں میں سے بہت سارے لوگوں کو فى الحال جیل میں ڈال دیا گیا ہے صرف دہشت گرد گروپوں کى مالى سرپرستى ہى کى وجہ سے نہیں بلکہ ان کى معنوى مدد کى وجہ سے بهى۔ قطر کے ساتھ ہمارے جو اختلافات پیدا ہوئےہیں ان میں سے ایک یہ بهى ہے کہ ہم نہیں چاہتے ہیں کہ سعودیوں سے دولت اکٹھا کرکے شدت پسند گروہوں تک پہونچایا جائے۔

گولڈ بیرگ:
کیا آپ نہیں چاہتے کہ قطر کے ساتھ دوباره تعلقات قائم ہوجائیں؟
محمد بن سلمان:
ضرورى ہے کہ ایسا ہوجائے۔ میں امید کرتا ہوں کہ وه جلد ہى سبق سیکھ لیں گے ، اس مسئلے کا انحصار انہیں پر ہے۔

گولڈ بیرگ:
آپ ایران اور اسکے آئیڈیالوجى کے بارے میں بڑى صراحت سے گفتگو کرتے ہیں بلکہ آپ تو اس کے مرشد اعلى کو ہٹلر سے تشبیہ دیتے ہیں۔ اسے آپ ہٹلر کس معنى میں کہتے ہیں کیونکہ ہٹلر تو ہر اعتبار سے بہت برا شخص تها؟
محمد بن سلمان:
میرى رائے میں ہٹلر کى تشبیہ ایران کے مرشد اعلى سے بہتر اور کسى شخص کى نہیں ہوسکتى۔

گولڈ بیرگ:
یقیناً؟
محمد بن سلمان:
در اصل ہٹلر وه نہ کرسکا جو یہ ایرانى مرشد کر رہا ہے۔ ہٹلر نے یورپ پر قبضہ کرنا چاہا اور یہ برى چیز تهى۔

گولڈ بیرگ:
جى ، بالکل برى چیز تهى۔
محمد بن سلمان:
لیکن ایران کا مرشد چاہتا ہے کہ پورى دنیا پر قبضہ کرلے۔ اسکا اعتقاد ہے کہ وه پورى دنیا کا مالک ہے۔ دونوں شریر ہیں ، یہ مشرق وسطى کا ہٹلر ہے۔ پچھلى صدى کى دوسرى اور تیسرى دہائى میں یہ کوئى نہیں سمجهتا تها کہ ہٹلر دنیا کیلئے خطره ہے سوائے چند لوگوں کے جبکہ ایسا ہوا۔ ہم نہیں چاہتے کہ مشرق وسطى میں پھر اسى تاریخ کو دہرایا جائے جسے یورپ جهیل چکا ہے۔ ہم اسے سیاسى، اقتصادى اور استخباراتى تمام پہلوؤں سے روکنا چاہتے ہیں ۔ ہم جنگ سے بچنا چاہتے ہیں۔

گولڈ بیرگ:
آپ کى رائے میں کیا اصل پریشانى فرقہ واریت ہے؟
محمد بن سلمان:
جیسا کہ میں نے بتایا سعودى عرب میں شیعہ فطرى زندگى گزار رہے ہیں۔ شیعى مذہب سے ہمیں کوئى پریشانى نہیں ہے۔ ہمیں صرف ایرانى نظام ولایت فقیہ کے آئیڈیالوجى سے پریشانی ہے۔ ہمارى پریشانى یہ ہے کہ ہم یہ بالکل نہیں چاہتے کہ ہمارے معاملات میں کوئى دخل اندازى کرے ، اور ہم کسى بهى حال میں انہیں اس کى اجازت نہیں دیں گے۔

گولڈ بیرگ:
اس مسئلے کو لیکر بارک اوبامہ اور ٹرمپ کے تعلق سے مجهے بڑى الجهن ہوتى ہے۔ شاید آپ یہ سمجهتے ہوں کہ ٹرمپ اس مسئلے میں باراک اوبامہ سے زیادہ سمجھ دار ہیں۔
محمد بن سلمان:
اس مسئلے کو دونوں سمجهتے ہیں۔ البتہ میرا خیال ہے کہ صدر بارک اوبامہ نے دوسرا اسلوب اختیار کیا؛ چنانچہ انہوں نے سوچا کہ ایران کو کچھ مہلت دى جائے ہوسکتا ہے وه اپنى اصلاح کرلے، لیکن ایران اپنے متشدد نظریئے پر قائم ہونے کى وجہ سے کچھ بهى نہ بدل سکا۔ ایران کى معیشت کے (60) فیصد حصے پر پاسدان انقلاب کا قبضہ ہے۔ ایٹمى معاہدے سے ایران کو جو معاشى فوائد حاصل ہوئے ہیں وه ایرانى قوم کو کچھ بهى نہ مل سکا۔ انہوں نے اس معاہدے کے بعد (150) ارب امریکى ڈالر حاصل کیا ہے۔ کیا اس خطیر رقم سے انہوں نے ایران میں کوئى تعمیرى کام کیا؟ کیا انہوں نے اس رقم سےکوئى سڑک اور تیز رفتار چلنے والى گاڑیوں کیلئے کسى راستے کو بنایا ؟ مملکت سعودى عرب کى نظر میں اس معاہدے سے ایران میں (0%.1) فیصد بهى تبدیلى نہیں آئى ہے۔
ہم ایران کے جنگجویانہ حرکات کو لگام لگا رہے ہیں۔ ہم یہ کام ایشیا اور افریقہ میں ملیشیا، سوڈان ، عراق ، لبنان اور یمن میں کر چکے ہیں۔ ہم یہ سمجهتے ہیں کہ اس لگام کے بعد اس طرح کے مشکلات ایران کى طرف منتقل ہوجائیں گے۔ ہم نہیں جانتے کہ اس سے ایرانى نظام کا خاتمہ ہوجائے گا اور نہ ہى یہ ہمارا مقصد ہے۔ لیکن اگر ختم ہوجاتا ہے تو یہ بڑى بات ہوگى اور یہ ان کىا درد ہے۔ البتہ فى الحال تو مشرق وسطى ہى میں جنگ کا منظر نامہ چل رہا ہے۔ اب مزید اس خطرے کو ہم برداشت نہیں کرسکتے۔ ہمیں مستقبل میں کئى تکلیف ده قراردادوں کے مقابلے ابهى اور اسى وقت کچھ تکلیف ده قرار دادوں کے اپنانے کى ضرورت ہے۔

گولڈ بیرگ:
انہیں تکلیف ده قراردادوں میں سے کیا آپ یمن کو بهى رکھتےہیں جسے ان عسکرى کارستانیوں میں شمار کیا جا رہا ہے جو انسانى آفتوں کا سب بنا ہے؟ کیونکہ بہت سارے لوگوں نے اس حملے پر اعتراض کیا ہے۔
محمد بن سلمان:
سب سے پہلے ہمیں دلیلوں اور حقیقى وضاحتوں کى طرف آنے کى ضرورت ہے۔ یمن کى تباہى 2015 میں شروع نہیں ہوئى(جس وقت سعودى اتحاد نے حملہ کیا تھا) بلکہ یہ تباہى ایک سال پہلے ہى ہوچکى تهى۔ اور یہ اقوام متحده کى رپورٹ کى روشنى میں کہہ رہا ہوں نہ کہ اپنى رپورٹوں کى بنیاد پر۔ یمن کے اندر ایک قانونى حکومت کے خلاف بغاوت کى گئى۔ اور دوسرى جانب القاعده نے بهى اسے اپنى مصلحت اور اپنے خاص افکار کیلئے استعمال کیا۔ پہلے ہم نے شام اور عراق میں تشدد پسندوں سے نپٹنے کى کوشش کى پھر انہوں نے یمن میں پناه لینا شروع کردیا۔ عراق اور شام کے مقابلے یہاں یمن میں ان سے نپٹنا زیاده دشوار ہوگیا۔ کیونکہ ساتھ ہى ہمارا مقصد وہاں کے قانونى حکومت کى مدد، ملکى استحکام کو قائم رکهنا اور یمنى قوم کا تعاون بهى ہے۔ یمن کى سب سے زیاده مدد کرنے والا سعودى عرب ہى ہے۔ اور ان مالى امداد کے ساتھ سب سے زیاده کهلواڑ حوثى کرتے ہیں جو یمن کے تقریبا دس فیصد حصوں پر ہی قابض ہیں۔

گولڈ بیرگ:
کیا آپ عورتوں کے مساوات کے قائل ہیں؟
محمد بن سلمان:
میں مملکت سعودى عرب کے ساتھ ہوں، اور مملکت سعودى عرب کى نصف آبادى عورتوں پر مشتمل ہے۔ پھر میں عورتوں کے مساوات کا کیونکر قائل نہیں ہوں گا

گولڈ بیرگ:
لیکن مساوات کیلئے وہاں کى سوسائٹى میں آپ کیا کر رہے ہیں؟
محمد بن سلمان:
ہمارے دین میں مرد اور عورتوں میں کوئى فرق نہیں ہے۔ کچھ واجبات مردوں پر ہیں اور کچھ واجبات عورتوں پر ہیں۔ لیکن یہاں مساوات کے تعلق سے ہمارے یہاں مختلف شکلیں ہیں۔ مثلا سعودى عرب میں مالى معاوضہ عورتوں کو وہى ملتا ہے جو مردوں کو ملتا ہے۔

گولڈ بیرگ:
لیکن آپ کے یہاں عورتوں پر سرپرستى کے تعلق سے کیا قوانین ہیں؟ کیا آپ انہیں بالکل ختم کرنا چاہتے ہیں؟ میں سمجهتا ہوں آپ کے عورتوں کے تعلق سے کار ڈرائیونگ کى اجازت نے سارے لوگوں کو ششدر کر دیا ہے۔
محمد بن سلمان:
1979 سے پہلے ہمارے یہاں سماجى پہلوؤں میں کچھ زیاده ہى سہولتیں تهیں۔ اس وقت مملکت سعودى عرب میں اس طرح کى سرپرستى کے کوئى قوانین نہیں تهے۔ میں زیاده پہلے نبى صلى اللہ علیہ وسلم کے دور کى بات نہیں کر رہا ہوں بلکہ گزشتہ صدى کى چھٹى دہائى کى بات کر رہا ہوں جب عورتوں پر ضرورى نہیں تهاکہ وه مرد سرپرستوں کے ساتھ سفر کریں بلکہ محفوظ جماعت کے ساتھ سفر کرلیتى تهیں۔ لیکن اب صورت حال بدل چکى ہے۔ ہم اس مسئلے کا حل تلاش رہےہیں لیکن ایسى شکل میں کسى خاندان کو پریشانى کا سامنا نہ کرنا پڑے اور نہ ہمارى اسلامى تہذیب وثقافت کو کوئى نقصان پہونچے۔

گولڈ بیرگ:
کیا آپ ان قوانین کو کالعدم کردیں گے؟
محمد بن سلمان:
ہمارے یہاں بہت سارے خاندان ابهى بهى دینى معاملات میں بڑى محافظت کرتے ہیں گرچہ بہت سے خاندان ایسے بهى ہیں جو بدل رہے ہیں۔ چنانچہ کچھ تو ایسےہیں جو ابهى بهى سرپرستى کى حمایت کرتے ہیں اور کچھ عورتیں ایسى بهى ہیں جو مردوں کى سرپرستى کے خلاف ہیں۔ اب اگر میں ہاں کہتا ہوں تو ان خاندانوں کیلئے مشکلات پیدا ہوسکتے ہیں جو عورتوں کو زیاده آزادى دینے کے قائل نہیں ہیں۔ در اصل سعودى اپنى شناخت ختم نہیں کرنا چاہتے۔ یہ صحیح ہے کہ ہم عالمى ثقافت وتہذیب کا حصہ بننا چاہتےہیں اور اپنى ثقافت کو عالمى ثقافت کے ساتھ ملاکر رکهنا چاہتے ہیں اس حیثیت سے کہ ہمارى ثقافت میں کوئى فرق نہ پڑے۔

گولڈ بیرگ:
میرے پاس ایک سوال ہے جسکا تعلق اقدار سے ہے ۔ آپ کا تعلق ایسے ملک سے ہے جو ہمارے ملک سے بالکل مختلف ہے۔ آپ کے ملک میں بادشاہى نظام ہے جہاں لوگوں کو ووٹ کا حق نہیں ہےاور وہاں ایسى جسمانى سزائیں اور موت کى سزائیں دى جاتى ہیں جسے ہمارے یہاں اکثر امریکى ناپسند کرتے ہیں۔
محمد بن سلمان:
جى ، اقدار میں ہم ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہیں۔ بلکہ میں یہ بهى سمجهتا ہوں کہ خود امریکہ میں بهى کچھ صوبے ایسے ہیں جو دوسرے صوبوں سے اقدار میں مختلف ہیں۔ جو اقدار کیلى فورنیا میں ہیں وه ٹکساس میں نہیں ہیں۔ پھر آپ ہم کیسے امید کر سکتے ہیں کہ آپ کے اقدار کے ساتھ ہم سو فیصد متفق ہوجائیں جبکہ آپ لوگ خود ان اقدار میں متفق نہیں ہو۔ ہاں اقدار کے کچھ بنیادى مبادیات ہوتے ہیں جن میں سارے انسان مشترک ہوتے ہیں لیکن ساتھ ہى ملکى اور صوبائى پیمانے پر بہت سے اختلافات بهى ہوتے ہیں۔

گولڈ بیرگ:
لیکن مطلق بادشاہى نظام کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟
محمد بن سلمان:
یہ مطلق بادشاہى نظام کیا کسى ملک کیلئے خطره ہے؟ آپ مطلق بادشاہى نظام (Absolute Monarchy) کا لفظ اس طرح استعمال کر رہے ہیں ایسا لگتا ہے یہ کوئى خطرے کى گھنٹى ہے۔ اگر یہى مطلق بادشاہى نظام نہ ہوتا تو آپ کے پاس آج امریکہ نہ ہوتا۔ کیونکہ فرانس کے اسى مطلق بادشاہى نظام نے امریکہ کے وجود میں مدد کى تهى۔ اور یہ مطلق بادشاہى نظام امریکہ کا کبهى دشمن نہیں رہا بلکہ ایک لمبے زمانے سے اسکا حلیف رہا ہے۔

گولڈ بیرگ:
واقعى آپ نے جواب بڑى عقلمندى سے دى ہے۔ لیکن سوال ہمارا مختلف ہے۔
محمد بن سلمان:
اچهى بات ہے۔البتہ ہر ملک اور نظام کیلئے ضرورى ہے کہ وه ایسے قانون لائے جو وہاں قابل عمل ہو۔ مملکت سعودى عرب در اصل ہزاروں مطلق بادشاہى نظاموں کے ایک جال سے عبارت ہے ۔ ہمارے یہاں قبائلى مطلق بادشاہى نظام ہےجہاں قبیلوں کے شیوخ اور سربراه ہوتے ہیں۔ ہمارے یہاں شہرى مطلق بادشاہى نظام ہے جہاں کچھ سربراه مطلق حاکم ہوتے ہیں پھر ان کے بعد ان کى اولاد حکومت کرتى ہے۔ مملکت کے اندر مطلق بادشاہى نظام کے اس ڈھانچے کو چھیڑنے سے بہت سارے مشکلات پیدا ہوسکتے ہیں۔ یقیناً سعودى عرب کى بناوٹ اور ترکیب اس سے کہیں زیاده پیچیده ہے جتنا آپ سوچ سکتے ہیں۔ اسى لئے حقیقت میں ہمارے یہاں بادشاه کو وه مطلق اختیار واقتدار حاصل نہیں جو آپ سمجھ رہے ہیں۔ بلکہ اس کى طاقت اور اختیار ات قانون کى بنیاد پر ہوتے ہیں۔ اسى لئے اگر کوئى شاہى فرمان جارى کرنا ہوتو یہ نہیں کہہ سکتے کہ میں بادشاه سلمان ہوں اور اس چیز کا فیصلہ کر رہا ہوں۔ آپ جب شاہى فرامین کو پڑھیں گے توپہلے بہت سارے قوانین دیکهیں گے جو بادشاه کو کسى بهى فرمان یا قرارداد کے پاس کرنے کو جواز فراہم کرتے ہوں گے۔ اسى مناسبت سے یہ بهى بتاتا چلوں کہ برطانیہ میں ملکہ کو کسى بهى قانون کو بدلنے کیلئے مطلق طاقت اور اختیار حاصل ہے لیکن وه ایسا نہیں کرتى ہیں ۔ اسى لئے کہتا ہوں کہ مسئلہ بڑا پیچیده ہے۔

گولڈ بیرگ:کیا ایسا ممکن ہے کہ مملکہ میں ایسا نظام لاگو ہو جس کے تحت لوگ اپنے اپنے نمائندوں کو ووٹ دے سکیں؟ اور کیا اسى عمل کو تبدیلى نہیں کہیں گے؟
محمد بن سلمان:
میرے لئے جو کرنا ممکن ہے وه قانون کى طاقت کو مضبوط بنانا ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ اپنى طاقت بهر اظہار رائے کى آزادى کو بڑھاوا دیں لیکن ساتھ ہى ہم یہ بهى نہیں چاہتے کہ لوگوں کو اس کے ذریعے تشدد کا موقع دیں۔ ہمارے لئے ممکن ہے کہ قانون اور ضابطے کے تحت عورتوں کے حقوق اور معیشت کو بہتر سے بہتر بنائیں۔ ہمارے سامنے کچھ چیلنجز ہیں لیکن ہمیں اپنى ذمہ دارى ادا کرنى ہے۔

گولڈ بیرگ:
آئیے مشرق وسطى کے بارے میں کچھ مزید وسیع پیمانے پر گفتگو کرتے ہیں۔کیا آپ چاہتے ہیں کہ یہودى قوم کو یہ حق ہونا چاہئیے کہ وه بهى کم سے کم اپنے باپ دادا کے وطن پر اپنے لئے ایک قومى حکومت قائم کریں؟
محمد بن سلمان:
میرا خیال ہے کہ ہر قوم کو کسى بهى جگہ اسے اپنے امن پسند ملک میں زندگى گزارنے کا حق ہونا چاہئیے۔ میرا خیال ہے کہ فلسطینى اور اسرائیلى ہر ایک کو اپنے اپنے مخصوص سرزمین پر رہنے کا حق حاصل ہے۔ لیکن ضرورى ہے کہ ہمارے پاس ایک ایسا منصف ، عدل پسند سلامتى کا معاہده ہو جس کى روشنى میں ہر ایک کو استقرار اور استقامت کے ساتھ رہنے اور تمام قوموں کے مابین طبعى تعلقات بحال کرنے کى ضمانت ہو۔

گولڈ بیرگ:کیا آپ کو دینى اعتبار سے اسرائیل کے وجود پر اعتراض ہے؟
محمد بن سلمان:
میں تاکید کے ساتھ کہتا ہوں کہ ہمیں القدس میں مسجد اقصى کے انجام کے تعلق سے اور فلسطینى قوم کے حقوق کے تعلق سے دینى خدشات لاحق ہیں۔ ہمارے لئے سب سے بڑا مسئلہ یہى ہے۔ اسکے علاوه دوسرے لوگوں کے وجود پر ہمیں کوئى اعتراض نہیں ہے اگر وه منصف سلامتى کے معاہدے کے تحت رہتے ہوں۔

گولڈ بیرگ:
مملکت سعودى عرب میں چوں کہ لوگ روایت پسند ہیں اور وہاں سے سامى دشمنى کثرت سے پائى جاتى ہے ۔ تو کیا آپ کو اپنے ملک میں انٹى سامى مشکلات کا سامنا ہے؟
محمد بن سلمان:
ہمارے ملک میں یہودیوں کے ساتھ کوئى پریشانى نہیں ہے۔ ہمارے نبى محمد صلى اللہ علیہ وسلم نے ایک یہودى عورت سے شادى کى تهى۔ یہودى آپ کے پڑوسى تهے۔ اس وقت بهى سعودى میں یورپ اور امریکہ سے بہت سارے یہودى کام کیلئے آتے ہیں۔ ہمارے نزدیک مسلمانوں، عیسائیوں اور یہودیوں کے مابین کوئى پریشانى نہیں ہے۔ ہمارے یہاں مشکلات ہیں لیکن ان کا تعلق انہیں مشکلات سے ہے جوعام طور سے ہر جگہ پائےجاتے ہیں۔

گولڈ بیرگ:
کیا آپ کے خیال میں ایران کى وجہ سے آپ لوگ اسرائیل سے قریب ہورہے ہیں؟ اور کیا ایران کو چھوڑ کر آپ لوگوں کے اسرائیل کے ساتھ مشترکہ مصلحتیں ہوسکتى ہیں؟
محمد بن سلمان:
اسرائیل اپنے حجم کے اعتبار سے ایک بڑے اقتصاد کا مالک ہے اور ساتھ ہى اس کى معیشت ترقى پر ہے۔ ایران کے مقابلے میں اگر دیکها جائے تو اسرائیل اور خلیجى ملکوں کے مابین بہت سارى مشترکہ مصلحتیں ہوسکتى ہیں۔
(یعنى ایران کے خلاف اسرائیل اور خلیجى ملکوں میں سے ہر کوئى اپنے اپنے ایجنڈوں پر کام کرے تو دیکهنے میں ایران کے خلاف ان سب کى مصلحتیں مشترک ہوسکتى ہیں ۔ اس سے کوئى ضرورى نہیں کہ خلیجى ممالک اسرائیل کے ساتھ مل کر ایران کے خلاف کچھ کریں۔اور عملا ایسا کچھ ہے بهى نہیں سوائے قطر کےکہ جسے خلیجى ممالک نے بائیکاٹ کیا ہوا ہے)

گولڈ بیرگ:
مجهے آپ کى جوانى کو لیکر الجهن ہے ۔ کیا یہ ذمہ دارى ایک نوجوان کےلئے ایک پیچیده امر نہیں ہے؟
محمد بن سلمان:
میرا یقین ہے کہ انسان اپنى عمر کے آخرى مرحلے تک سیکهتے رہتے ہیں۔ اگر کوئى یہ دعوى کردے کہ وه سب کچھ جانتا ہے تو وه کچھ بهى نہیں جانتا ہے۔ ہم جس چیز کى کوشش کر رہے ہیں وه یہ ہے کہ تیزى سے سیکهیں تیزى سے سمجهیں اور ہم عقلمند اشخاص کے بیچ میں رہیں۔ اور میں نہیں سمجهتا کہ میرى جوانى کوئى مشکل پیدا کرے گى۔ میرا خیال ہے کہ بہتر سے بہتر ایجادات نوجوانوں ہى کے ہاتھ ہوئى ہیں۔ ایپل کمپنى اس کى بہتر مثال ہوسکتى ہے جسے (Steve Jobs) نے قائم کیا جس وقت کہ وه تقریبا بیس سال کا تها۔ سوشل میڈیا میں فیس بک کى مثال ہمارے سامنے ہےجسے ایک نوجوان نے قائم کیا ہے۔ لہذا میں سمجهتا ہوں کہ ہمارى نوجون نسل بہت کچھ کر سکتى ہے۔

گولڈ بیرگ:
اسٹیو جوبز جن چیزوں کا مالک تها انہیں میں سے ایک آزادى تهى۔ وه ایسے ملک میں رہتا تها جہاں کچھ بهى آزادى سے کر سکتا تها ۔ اور میں نہیں سمجهتا کہ سعودى عرب میں حقوق انسانى اور آزادى کے نقطہ نظر سے کوئی کچھ بهى کر سکتا ہو۔
محمد بن سلمان:
سعودى عرب میں آپ جو چاہیں کر سکتے ہیں اور تجارت کے میدان میں جس چیز میں بهى ترقى کرنا چاہیں کر سکتے ہیں۔ ہاں اظہار رائے کى آزادى کا معیار ہمارے یہاں مختلف ہے۔ ہمارے یہاں سعودى عرب میں تین لائنیں ایسى ہیں جن سے آپ آگے نہیں جاسکتے ۔ چنانچہ کسى بهى شخص کو کچھ بهى لکهنے یا بولنے کى اجازت ہے ان تین لائنوں کو تجاوز کئے بغیر۔ اور یہ حکومت نہیں بلکہ سعودى قوم کى مصلحت میں ہے۔
پہلى لائن اسلام ہے۔چنانچہ دین اسلام کے وقار کو مجروح کرنا یا اسکے حدود سے آگے بڑھنا کسى کیلئے جائز نہیں ہے۔ اور یہ سعودى قوم کى مصلحت میں ہے۔
دوسرى لائن : بطور وضاحت کے میں کہہ سکتا ہوں کہ امریکہ میں ممکن ہے کسى شخص ، کمپنى یا وزیر پر تنقید کرنا جبکہ سعودى میں گرچہ اس طرح ممکن ہے لیکن سعودى ثقافت وتہذیب لوگوں کو یہ اجازت نہیں دیتى کہ کسى کى شخصیت کو مجروح کریں، بلکہ ان کا ایمان ہے کہ شخصى امور سے دورى بنا کے رہیں۔ یہ سعودى ثقافت وتہذیب کا حصہ ہے۔
تیسرى لائن: قومى سلامتى ہے۔ ہم ایسے علاقے میں رہتے ہیں جس کے چاروں طرف نہ تو میکسیک ہے نہ کناڈا ہے نہ بحر اٹلانٹک ہے اور نہ ہى بحر الکاہل ہے۔ ہمارے پاس داعش ہے ، القاعده ہے، حماس ہے، حز ب الله اور ایرانى نظام ہے۔ یہاں تک کہ بحرى قزاقى بهى ہے ۔ جى ہاں ہمارے یہاں بحرى قزاق ہیں جو کشتیوں کو اچک لیتے ہیں۔ ایسى صورت میں ہمارے لئے قومى سلامتى کو خطرے میں ڈالنا اچھى بات نہیں ہوگى۔ ہم نہیں چاہتے کہ عراق میں جو کچھ ہورہا ہے سعودى میں بھى وہى سب ہو۔ ہم اس کے برخلاف چاہتے ہیں۔ ہمارى قوم کو آزادى اسکے معیار اور پسند کے اعتبار سے بہتر طریقے سے فراہم ہے۔ مثال کے طور پر ہم نے نہ تو ٹویٹر پر پابندى لگائى ہے اور سوشل میڈیا تک رسائى حاصل کرنے کیلئے نہ تو فیس بک ، اسنیپ چیٹ وغیره پر پابندى لگائى ہے۔ سارى چیزیں سعودیوں کیلئے فراہم ہیں۔ عالمى پیمانے پر دیکها جائے تو ہمارے یہاں سب سے زیاده سوشل میڈیا استعمال کیا جاتا ہے۔ایران میں ایسى سہولتوں پر پابندى ہے اسى طرح اور کئى ممالک میں یہى صورت حال ہے۔ سعودى باشنده دنیا کے کسى بهى کونے میں کسى سے بهى سوشل میڈیا سے جڑ سکتا ہے۔

گولڈ بیرگ:
میں نہیں سمجهتا کہ ٹویٹر تہذیب وتمدن کیلئے کوئى بہت اچهى چیز ہے ۔ لیکن پهر بهى اسے ہم بعد کى گفتگو کیلئے چهوڑتے ہیں ۔ آپ کا بہت بہت شکریہ

Saudi Crown Prince Mohammed bin Salman's wide-ranging conversation with Jeffrey Goldberg.
Source:
Saudi Crown Prince: Iran's Supreme Leader 'Makes Hitler Look Good'

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں