سقوط حیدرآباد کی خون ریز کہانی - پنڈت سندرلال کی زبانی -4 - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2014-03-03

سقوط حیدرآباد کی خون ریز کہانی - پنڈت سندرلال کی زبانی -4


Fall-of-Hyderabad-Pt-Sunderlal-Report

ہزاروں مسلم ملازمین سرکار کی معزولی کانگریسیوں کا شرمناک رول
ریاستی کانگریس:
(6) بدقسمتی سے ہنگاموں کے دوران چند کانگریسیوں کے رویے نے مسلم آبادیوں میں بے اعتمادی پیدا کردی۔ ہم یہاں صرف چند واقعات بیان کررہے ہیں جو ہم نے سنا ہے کہ چند کانگریسیوں نے اور چند ایسے افراد نے جو خود کو کانگریسی قراردیتے ہیں ہنگاموں کے دوران کس طرح کا رویہ اپنایا تھا۔ مختلف مقامات پر ہمارے دورہ کے موقع پر ہمیں بتایا گیا کہ کانگریسیوں نے قانون کو اپنے ہاتھ میں لیتے ہوئے دہشت زدہ مسلمانوں سے مختلف طریقوں سے رقومات اینٹھنا شروع کیا تھا۔ ہم نے کئی مقامات پر ایسے واقعات کی شکایت بھی سنی۔ جو مسلمان اپنے گھر بار نہیں چھوڑے یا پھر ایسے جو دوبارہ اپنے گھروں کو واپس ہوئے وہ کانگریسی ربط پیدا کرتے ہیں اور ان کی مکمل حفاظت کا وعدہ کرتے ہوئے کانگریسی ان سے بھاری رقومات وصول کرتے ہیں۔ ایک مقام پر ڈسٹرکٹ سپرنٹنڈنٹ آف پولیس نے شکایت کی کہ یہ کانگریسی لوگ اس طرح کے طرز کے سبب انتظامیہ کے لئے بڑی مشکلات پیدا کررہے ہیں۔ ایک مقام پر ایک ٹاون میں ایک مالدار کچی تاجر نے جس کی دکان لوٹ لی گئی اور نصف جلادی گئی ہم سے یہ شکایت کی کہ چند کانگریسیوں کو چیک کی شکل میں 15ہزار روپئے اور نقدی کی شکل میں 10ہزار روپئے دینے کے بعد اسے اپنی عمارت کا قبضہ حاصل ہوا۔ ہمیں یہ بھی بتایا گیا کہ کئی مقامات پر کانگریسیوں نے قابل زراعت اراضی کا جو مسلمانوں نے چھوڑی تھی ہراج کردیا۔ اس ہراج کی یہ شرط تھی کہ آدھی فصل کانگریسیوں کے حوالے کی جائے۔ اسٹیٹ کانگریس کی اس صورتحال پر کانگریس ہائی کمان کو غور کرنے کی ضرورت ہے۔ قومی کانگریس کا اچھا نام پیدا کرنے ہم امید رکھتے ہیں کہ حیدرآباد ریاستی کانگریس اپنی ان کمیوں و نقائص کو دور کرتے ہوئے اس طرح کے رویے کو دوبارہ ہونے سے روک دے گی۔
خدمات:
(7) تعلیم یافتہ مسلمانوں کے ذہنوں میں شکوک و شبہات کو ایک اور طریقہ سے تقویت حاصل ہوئی کہ پولیس ایکشن سے پہلے جو سرکاری خدمت سے وابستہ تھے انہیں معمولی شکایات کے ذریعہ روزگار سے محروم ہونا پڑا۔ ہمارے پاس اس طرح متاثرہونے والے افراد کی ایک طویل فہرست ہے۔ کیسے ان کو ملازمتوں سے نکال دیا گیا ان کے عہدے گھٹادئیے گئے۔ انہیں معطل کیا گیا یا پھر مختلف محکموں میں انہیں سزا کا مستحق قراردیاگیا۔ ہم یہ قطعی طورپر اس بات پر بھروسہ کرنے تیار ہیں کہ ان افراد میں سے چند کی خدمات کو نظم و نسق کے بہتر مفاد میں جاری رکھنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی تھی لیکن زیادہ تر افراد کو جن کا کوئی قصور ہی نہیں تھا بنا کسی مناسب وجوہات کے انہیں کیوں متاثر کیاگیا؟ کچھ واقعات شک و شبہ اور جھوٹے الزامات کے ہوسکتے ہیں۔ ہمارے پاس اس بات کے ناقابل تردید تبوت ہیں کہ ان میں سے بیشتر افراد معصوم ہیں اور ہمیں یہ یقین بھی ہے کہ یہ افراد نئی حکومت کیلئے قابل اعتبار اور بھروسہ مند ثابت ہوسکتے ہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ خدمات میں اس طرح کے ردوبدل کی وجہہ سے مسلم خاندانوں کی ایک بہت بڑی تعداد قابل لحاظ حد تک معاشی مصائب میں مبتلا ہوگئی۔ ہم یہ محسوس کرتے ہیں کہ تمام سرکاری ملازمین تاوقتیکہ ان کے خلاف قطعی جرم کا ثبوت واضح نہ ہو، انہیں جلد سے جلد دوبارہ خدمات میں واپس لیا جانا چاہئے۔ یہ حقیقت ہے کہ اس طرح کے بدتر تجربے کے سبب حیدرآبادی مسلمانوں میں یہ تاثر پیدا ہوگیا کہ انہیں فرقہ پرستی کا شکار بنایا گیا ہے۔ یہ مسلمان فطری طورپر جیو اور جینے دو پر کاربند ہیں۔ ہمارا یہ ایقان ہے کہ اگر انہیں بے اعتمادی اور مایوسی کے اس ماحول سے باہر نکالا جائے تو وہ پوری طرح خوش اور مطمئن ہوں گے۔
سفارشات:
(8) ابھی تک جو ہمارے تاثرات پیش کئے گئے ہیں ان کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم حسب ذیل سفارشات پیش کرنا چاہتے ہیں۔ ہماری دانست میں حیدرآباد میں فرقہ وارانہ امن اور ہم آہنگی کو نانے یہ مددگار ہوں گے۔ ہمارا یہ مطلب نہیں کہ ہم جو سفارشات و اقدامات کو بیان کررہے ہیں اس پر موجودہ نظم ونسق نے توجہ نہیں دی ہے بلکہ ہم ان مسائل کی ایک فہرست پیش کررہے ہیں جس کے بارے میں ہم مطمئن ہیں کہ وہ غور طلب ہوں گے۔ ہماری نظر میں جو زیادہ موزوں سفارشات ہیں ان کو ترجیحی بنیاد پر یہاں پیش کیا جارہا ہے۔
(i) سب سے ہم اور عاجلانہ ضرورت اس بات کی ہے کہ تمام متاثرین کو تمام ضروری راحت حاصل ہونی چاہئے۔
(a) ان تمام مکانات و اراضیات سے جہاں سے مسلمانوں کو بے دخل کردیاگیاہے اور وہ تمام جائیداد جنہیں ان کے حقیقی مالکان کو واپس نہیں دلایا گیا ہے انہیں دوبارہ مسلمانوں کو واپس دلایاجائے۔ ضروری ہوتو جو جولگ اس وقت قابض ہیں انہیں وہاں سے نکال دیا جائے۔
(b) جو مکانات تباہ ہوگئے ہیں ان کی مرمت کی جائے اور انہیں رہائش کے قابل بنایاجائے۔
(c) اغوا کی گئی عورتوں اور بچوں کو جنہیں تاحال واپس نہیں لایا گیا ہے انہیں ان دونوں مقامات یعنی اندرون اور بیرون ریاست(جیسے شولا پور اور ناگپور) سے واپس لایاجائے اور ان کے حقیقی سرپرستوں کے حوالے کیا جائے۔ اگر ان کے کوئی سرپرست موجود نہ ہوں تو حکومت ان کے گزر بسر کے علاوہ انہیں زندگی گذارنے کیلئے روزگار اور درکار تربیت فراہم کرے۔
(d) جو اپنے روزگار سے محروم ہوچکے ہیں یا جو اپنے گھر کے واحد کمائی پوت ہیں یا وہ دوسری طریقہ سے بے یار و مددگار بنادئیے گئے ہیں ان کو کام دیاجائے۔ ان کیلئے ہینڈی کرافٹ یا کاٹیج انڈسٹریز قائم کی جائے۔ ان کے لئے سرمایہ فراہم کیا جائے تاکہ وہ تجارت وغیرہ کرسکیں اور چند مستحق کیسیس میں حکومت ان کے گزر بسر کا سامان فراہم کرے۔
(e) کاشت کرنے والے ضرورت مندوں کو درکار سبسیڈی یا ضروری مدددی جانی چاہئے تاکہ وہ اپنے پیشے کو دوبارہ شروع کرسکیں۔
(ii) مساجد کو دوبارہ بحال کیاجائے اور جو اس کے نگران کار ہیں انہیں واپس کردیاجائے۔ جہاں جہاں مساجد میں مورتیاں بٹھادی گئی ہیں انہیں وہاں سے ہٹادیاجائے۔
(iii) اس مدت کے دوران جو تبدیلی مذہب کیا گیا ہے اس کو قانوناً کالعدم قراردیاجائے۔
(iv) اوپر جو سفارشات بیان کی گئی ہیں اس کی عمل آوری کیلئے ہم مودبانہ طورپر یہ صلاح دیتے ہیں کہ دونوں طبقات ہندووں اور مسلمانوں پر مشتمل فوری طورپر ایسی مشترکہ کمیٹیاں بنائی جائیں جس میں سرکاری و غیر سرکاری دونوں عہدیدار شامل ہوں۔
(v) ہماری دوسری صلاح یہ ہے کہ ایچ ای ایچ دی نظام (حضور نظام) اپنی متاثر ہوئی عوام کی راحت و بازآبادکاری کیلئے اپنی جیب خاص سے رقم خرچ کریں۔ پنڈت سندرلال کے جنہیں نظام نے مدعو کیاتھا، ملاقات کے دوران حضور نظام کو شخصی طورپر یہ صلاح بھی دی۔
(vi) ہمیں اس بات کی قطعی اطلاعات ہیں کہ جن لوگوں نے یہ ظلم و ستم کیا حتی کہ بلوائیوں کی قیادت بھی کی ان کی ایک بڑی تعداد مختلف اضلاع میں روپوش ہے۔ ہم یہ جانتے ہیں کہ شرپسندوں اور تفرقہ پرداز ان افراد کو حراست میں لینے ملٹری کے گورنر کو ہم نے پہلے ہی توجہ دلائی ہے۔ ہم یہاں اس بات پر زور دینا ضروری سمجھتے ہیں کہ اس کام میں تیزی لائی جائے اور ایسے موثر اقدامات جہاں جہاں ضروری ہوں کئے جائیں۔
(vii) بنا کوئی پس و پیش کرتے ہوئے ہم شاید ہمیں دئیے گئے کام سے ہٹ کر مستقبل کے انتظامیہ میں تبدیلی کیلئے متوجہ کررہے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم نے جن شعبوں سے متعلق ہمیں جو ذمہ داری دی گئی ہے سے متعلق اہم اقدامات کا جوکھم لینا چاہتے ہیں۔ ہم نے پہلے ہی اس بات پر توجہ مبذول کرائی ہے جو مسلمانوں کے ذہنوں میں حقیقی شدید خوف کا سبب بنی ہے۔ یعنی حیدرآباد میں ایک ذمہ دار حکومت ہندو اکثریت کی مرضی و منشاء پر مبنی ہے۔ یہ شبہات موجودہ صورتحال میں جہاں دونوں طبقات کے تلخ تعلقات اور اس کے علاوہ کانگریسیوں کے طرز کی وجہہ سے دھماکہ خیزی سے کم نہیں۔ ہمیں یہ ریمارک کرتے ہوئے پس و پیش ہورہا ہے کہ ریاستی کانگریس موجودہ ہنگاموں کے دوران اطمینان بخش مظاہرہ کرنے میں ناکام ثابت ہوئی۔ اس لئے حکومت کے طرز میں کسی بنیادی تبدیلیوں کو صحیح عکس میں نہیں دیکھا جارہا ہے۔ ہم بصد احترام یہ مشورہ دے رہے ہیں کہ کم ازکم چند سالوں تک حکومت کی جانب سے تبدیلیوں کو ملتوی رکھا جائے۔ ریاست کے اعلیٰ سطح پر انتظامی ڈھانچہ میں کم ازکم دو مزید مسلمانوں کو شامل کیا جائے تاکہ وہ اپنے ہم مذہب افراد میں اپنی موثر صلاحیتوں کے ذریعہ اعتماد پیدا کرسکیں۔
(viii) ہم اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ سرکاری خدمات ملازمین کو بحال کرنے کی ضرورت ہے جو قابل بھروسہ ہیں۔ ہم اس بات پر بھی زور دیتے ہیں کہ خدمات میں تبدیلی کیلئے احتیاط کوملحوظ رکھا جائے۔ اس سے یہ تاثر پیدا نہ ہوکہ حکام مخالف مسلم یا مخالف حیدرآبادی تعصب رکھتے ہیں۔
(ix) آخر میں ہم اس بات کی صلاح دیتے ہیں کہ جو گڑبڑ کرنے والے ہیں ان کو سخت سزائیں دی جائیں اور جو انصاف کے طلب گار ہیں ان کے ساتھ رحمدلی سے پیش آئیں۔ ہم یہ جانتے ہیں کہ ملٹری گورنر نے مشتبہ رضاکاروں کو رہا کرنے اور جو قانون شکن ثابت ہوئے ہیں ان سے نمٹنے کے علاوہ بے قصوروں کو آزاد کرنے کے اقدامات کئے ہیں۔ ہم یہاں اس بات کی سفارش کرتے ہیں کہ جنہوں نے برسرعام اپنی غلطیوں کا اعتراف کیا ہے اور جو اپنے کئے پر نادم ہیں ان تمام کو سوائے استثنائی معاملات کے ممکنہ حدتک ان کے ساتھ رحم کا معاملہ کیاجائے۔ جہاں قانون نے سخت ترین سزاؤں کی گنجائش رکھی ہے ان معاملات میں مقدمات دائرکرنا حق بجانب ہے۔ ایسے معاملات جہاں مقدمات دائر نہیں کئے گئے ہیں وہاں انسانی بنیاد پر عفو و درگزر سے کام لیا جائے۔ یہ بات دلوں کو جوڑنے اور شبہات کو ختم کرنے میں معاون ہوگی۔ یہ بات دلوں کو جوڑنے اور شبہات کو ختم کرنے میں معاون ہوگی۔ ہم اچھے کام کی توقع کرتے ہیں اور اس کی شروعات سے دونوں طبقات میں مستقل امن اور ہم آہنگی پیدا ہو۔ اختتام سے قبل ہم ممونیت کے ساتھ ان تمام کی قابل قدر خدمات کا اعتراف کرتے ہیں جنہوں نے ہمارے ساتھ تعاون کیا ہے۔ حیدرآباد کے ملٹری اڈمنسٹریشن، اضلاع میں جہاں جہاں ہم نے دورہ کیا ہے وہاں سرکاری عہدیداران، عوامی کارکن، سربرآوردہ شہریان اور آخر میں ہمارے دو سکریٹریز مسرز فرخ سیر اور پی پی امبولکر کے ہم ممنون ہیں"۔
سفر کی تفصیل:۔
I۔ مولانا عبداﷲ مصری۔ آلہ آباد۔3
فرخ سیر۔ کلکتہ۔4
فرید مرزا۔ حیدرآباد
امبولکر۔ پی اے ٹوسندرلال۔
II۔ پنڈت سندرلال ، قاضی عبدالغفار، مولانا عبدالباسط صاحب اور مسٹر یونس سلیم کا پروگرام۔
6دسمبر 1948ء
روانگی بذریعہ کار۔صبح 9بجے۔
ایک کار اور ایک جیپ کی ضرورت ہے۔
آمد ظہیر آباد۔60میل۔ 2بجے دن۔
ظہیر آباد پر ان کیلئے دوپہر کے کھانے کا انتظام کیا جانا ہے۔
روانگی ظہیر آباد۔ایک بجے دن۔
آمد۔ ہمنا آباد۔30میلہ۔ 2بجے دن۔
روانگی۔ ہمنا آباد۔سہ پہر 3بجے۔
آمد۔ راجیشر(8میل)۔3:15بجے۔
روانگی۔ راجیشر۔3:45بجے۔
آمد۔ کلیانی۔(12میل)۔4:15بجے۔
کلیانی میں رات کا قیام۔
ان کیلئے قیام و طعام کا انتظام کیا جانا۔
7 دسمبر 1948ء
روانگی کلیانی ۔ 10بجے دن۔
آمد۔عمرگاہ۔(22میل)۔ 11بجے دن۔
روانگی عمری گہ۔12بجے دن۔
آمد۔نلدرگ۔ ایک بجے دن۔
ان کیلئے دوپہر کے کھانے کا انتظام کیا جانا۔
روانگی نلدرگ۔ 2:30 بجے دن۔
آمد۔ تلجا پور(16میل)سہ پہر 3بجے۔
آمدعثمان آباد۔(15میل) ۔4:30بجے شام
رات کا قیام اور ان کیلئے قیام و طعام کا انتظام کیا جانا۔
8دسمبر 1948ء
روانگی۔ عثمان آباد۔ ایک بجے دن۔
آمد۔تڈوالا(15میل)۔1:30بجے دن۔
آمدتاراینڈ دھوگی۔ 2بجے دن۔
آمد۔لاتور(20میل)2:25بجے دن۔
رات میں قیام۔ ان کیلئے قیام و طعام کا انتظام کیا جانا۔
روانگی۔ لاتور۔10بجے دن۔
آمد چکور۔10بجے دن۔
روانگی چکور۔11:30بجے دن۔
آمد۔ اودگیر(15میل)12بجے دن۔
دوپہر کے کھانے کا انتظام کیا جانا۔
روانگی۔ اودگیر۔ایک بجے دن۔
آمد۔ دتونی۔(16میل)1:30بجے دن۔
کمال نگر اور اودگیر کے درمیان جو موضع ہے وہاں روانگی۔
روانگی۔ دتونی۔3:30بجے سہ پہر۔
آمد۔قندھار۔(60میل)۔6بجے شام۔
قندھار میں شب بسری۔ ان کیلئے تمام انتظامات کیا جانا۔
10دسمبر1948ء
روانگی۔ قندھار۔8بجے صبح۔
آمد۔ناندیڑ(25میل)9بجے دن۔
ناندیڑ میں دوپہر کے کھانے کا انتظام کیا جانا۔
روانگی۔ ناندیڑ۔(2:30بجے دن)
آمد۔دیگلور(50میل)4:30بجے شام۔
روانگی۔ دیگلور۔5:00بجے شام۔
آمد۔نظام ساگر۔(40میل)۔ شام 6:30بجے۔
قیام و طعام کا انتظام کیا جانا۔
11دسمبر 1948ء
روانگی۔ نظام ساگر۔9:00بجے صبح۔
آمد۔ حیدرآباد۔ ایک بجے دن۔


The Violent tale of Fall of Hyderabad by Pundit Sunderlal Report. part-4

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں