بٹلہ ہاؤس کے حوالے سے - ناول آتش رفتہ کا سراغ کا ایک باب - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2013-07-26

بٹلہ ہاؤس کے حوالے سے - ناول آتش رفتہ کا سراغ کا ایک باب

batla house encounter
بٹلہ ہاؤس پر اپنے ناول آتش رفتہ کا سراغ سے ایک باب آپ کی خدمت میں حاضر ہے۔
--- ذوقی

واقعات تیزی سے نئی کروٹ لے رہے تھے۔۔۔
میں۔۔۔ ارشد پاشا۔۔۔ میں اندر ہی اندر ایک ایسی آگ سے گزر رہا تھا، جس کا بیان مشکل ہے۔۔۔ مگر اس انکاؤنٹر کے بعد جو بیانات اور نئی نئی باتیں سامنے آ رہی تھیں، اُس نے مجھے مشہور ناول نگار سروانٹس کے مشہور زمانہ کردار ڈان کوئٹکزوٹ کی یاد دلا دی تھی۔۔۔
یہاں سر کس کے جوکر جمع تھے۔۔۔
اور پولیس کے ہر دوسرے بیان میں "سوچھید" آسانی سے تلاش کیے جاسکتے تھے۔۔۔ میری خاموش تنہائیاں مسلسل ان واقعات کے تجزیہ سے گزر رہی تھیں۔ اس وقت جہاں پورا ملک اس انکاؤنٹر کو لے کر طرح طرح کی باتیں کر رہا تھا، وہاں شاید یہ اصلیت ابھی بھی کم لوگوں کو معلوم تھی کہ اس انکاؤنٹر سے کچھ روز قبل رات کو بٹلہ ہاؤس کی پلیا چوکی میں کون سا واقعہ پیش آیا تھا۔۔۔ اسامہ کے علاوہ پولیس تینوں بچوں کو اپنا شکار بنا چکی تھی۔۔۔ علوی پولیس کی حراست میں تھا۔ منیر اور راشد انکاؤنٹر میں مارے جا چکے تھے۔۔۔ اور پولیس انکاؤنٹر کو سچ ثابت کرنے کے لیے پرانے گڑے مردے اکھاڑنے کی کوشش کر رہی تھی۔۔۔
ادھر اس علاقے میں مسلمانوں کی سیاست بھی گرما گئی تھی۔۔۔ مسلمان کانگریس سے خاصہ ناراض تھے۔۔۔ علاقے کے نوجوان لڑکوں نے گھروں سے باہر نکلنا بند کر دیا تھا۔۔۔
ٹی وی چینلس شہید انسپکٹر ورما کے کارناموں پر آدھے آدھے گھنٹے کی فلمیں دکھا رہے تھے۔۔۔
رباب گہرے سناٹے میں تھی۔۔۔
اور شاید ایسا ہی ایک گہرا سناٹا میرے اندر بھی اتر آیا تھا۔۔۔
**
حالات بگڑ چکے تھے۔ سیاست گرما گئی تھی۔ مختلف پارٹیوں کے بیانات کا سلسلہ جاری تھا۔۔۔ ایک بڑا گروپ اس پورے انکاؤنٹر کو فرضی انکاؤنٹر ٹھہرا رہا تھا۔۔۔ حکومت کے کچھ لوگ بھی اس پورے معاملے کو فرضی انکاؤنٹرزمان رہے تھے۔ اس درمیان اس پوری سیاست کو لے کر پولیس کی ایک چھوٹی سی پریس کانفرنس ہوئی تھی۔۔۔ اس کانفرنس میں ہندی اور انگریزی اخباروں کے بڑے صحافی بھی موجود تھے۔۔۔ اس کانفرنس میں زور شور سے" انکاؤنٹر سے متعلق بہت سی نئی باتیں اٹھانے کی کوشش کی گئی۔۔۔ مثال کے لیے۔۔۔
اس انکاؤنٹر کی تفصیل جو تفصیل سامنے آئی تھی اُس کے مطابق، پولیس کو مفرور آتنک وادی عبد الرحیم کی ڈائری ملی تھی۔ اس ڈائری میں اردو میں لکھے گئے کچھ ناموں کی فہرست تھی۔ عبد الرحیم کے بارے میں کہا جا رہا تھا کہ یہ آدمی دلی بم دھماکے کا بھی مجرم ہوسکتا ہے اور پولیس کو اس کی تلاش تھی۔ راشد اور منیر، عبد الرحیم کے دوستوں میں تھے۔ راشد اپنے فلیٹ کی چوتھی منزل پر اپنے ماں باپ کے ساتھ رہتا تھا۔۔۔ جس وقت انکاؤنٹر ہوا اس وقت اس کا دوست منیر بھی وہیں تھا۔۔۔ پہلے تین لوگ راشد کو حراست میں لینے کے لیے اُس کے گھر پہنچے۔ ایک پولیس کا سپاہی سیڑھیوں پر رہ گیا۔ دشینت اور ورما دونوں گرفتاری کے لیے اندرجانا چاہتے تھے۔ بیل بجتے ہی دروازہ منیر نے کھولا تھا۔۔۔ اس وقت دونوں پولیس کے سپاہی سادی وردی میں تھے۔ پولیس کا شک ہوتے ہی منیر کے پیچھے کھڑے راشد نے گولیاں چلانا شروع کیں۔۔۔ بدلے میں انسپکٹر ورما کی پسٹل سے گولیاں چلیں۔۔۔"
"راشد کے ماں باپ کہاں تھے؟"
"راشد کے ماں باپ اُس وقت اندر کمرے میں تھے۔۔۔"
"ہنگامے اور گولیوں کی آواز سن کر بھی ان لوگوں نے باہر آنا ضروری نہیں سمجھا۔۔۔؟"
"جب تک وہ لوگ اندر کمرے سے باہر نکل آتے، پولیس انکاؤنٹر کا کام پورا ہوچکا تھا۔۔۔"
"ورما کو گولی کس نے ماری۔۔۔"
"گولی راشد نے چلائی تھی۔۔۔ ایک گولی اس کے کندھے پر لگی تھی۔۔۔"
کندھے پر گولی لگی تو پیٹھ پر گولی کس نے ماری؟
"بہت ممکن ہے۔۔۔ راشد کی طرف سے چلنے والی گولیوں سے گھبرا کر ورما نے راشد کی طرف اپنی پیٹھ کر لی ہو۔"
"دشینت کو گولی کیوں نہیں لگی؟ اگر دونوں ایک ساتھ کمرے میں داخل ہوئے اور بقول پولیس، راشد نے ان پولیس والوں کو دیکھتے ہی گولیاں چلانی شروع کردی تھیں۔۔۔؟"
"اس بارے میں اتنا ہی کہا جاسکتا ہے کہ دشینت کو اپنا بچاؤ کرنا آتا تھا اور ورما کو نہیں۔۔۔"
"راشد کی پستول میں کتنی گولیاں تھیں؟
پولیس کی انفارمیشن کے مطابق اُس وقت کمرے میں منیر اور راشد کے علاوہ دو لوگ اور تھے۔۔۔ تو باقی دو لوگ کہاں بھاگ گئے؟"
"یقیناًوہ زینے سے بھاگے ہوں گے۔۔۔"
لیکن زینہ تو ایک ہے۔۔۔ اور باہر پولیس کی کئی گاڑیوں کے ساتھ نیوز چینلس کی پوری فوج بھی کھڑی تھی۔۔۔"
مسکراہٹ۔۔۔ "یہ آتنک وادی ایسے ہی نہیں آتنک وادی بنے۔۔۔ یہ پولیس کو چکمہ دینا بھی جانتے ہیں۔۔۔"
"اگر باقی دو اگر وادی زینے سے نہیں گئے تو کس راستے سے بھاگے ہوں گے۔"
"یقیناًاُنہوں نے بھاگنے کے لیے چھت کا سہارا لیا ہوگا۔۔۔"
"چھت یعنی پانچویں منزل؟"
"ممکن ہے۔۔۔؟"
"تو کیا پانچویں منزل سے کود کر فرار ہوگئے؟"
"یہ آتنک وادی کسی اسپائڈر مین سے کم نہیں ہوتے۔"
"انکاؤنٹر سے ایک دن۔۔۔ پہلے جن تیرہ لوگوں کو حراست میں لے کر میڈیا کے سامنے پیش کیا گیا تھا، اُن سب نے کرتا پائجامہ کیوں پہنا تھا؟ کیا اُن میں کسی کے پاس ٹی شرٹ نہیں تھی۔۔۔"
"یہ لوگ ٹی شرٹ نہیں پہنتے۔"
"لیکن ہندوستان کا عام مسلمان تو بش شرٹ پہنتا ہے۔۔۔"
"خاموشی۔۔۔ نیکسٹ۔۔۔"
"کیا آتنک وادیوں کے لباس یعنی کرتے پائجامے ٹوپی عرب ملکوں سے امپورٹ ہو کر آتے ہیں۔۔۔؟"
" نیکسٹ۔۔۔"
کیا عبد الرحیم یا کوئی بھی آتنک وادی اردو کے علاوہ کوئی دوسری زبان نہیں جانتا۔۔۔؟"
"نیکسٹ۔۔۔"
پریس کانفرنس میں کمشنر بمشکل مسکرانے کی کوشش کر رہے تھے۔
"ورما نے پیچھے سے گولی کھائی تھی۔۔۔ پیچھے سے گولی کھانے والے کو آپ شہید کیسے کہہ سکتے ہیں۔۔۔؟"
ڈان کو ٹکزوٹ کھل کر سامنے آ گیا تھا۔۔۔
وہ شاید ہنس رہا تھا۔ قہقہہ بکھیر رہا تھا۔۔۔
لیکن یہاں اس پریس کانفرنس میں قہقہے نہیں تھے۔ پولیس کمشنر سکسینہ اپنے ہی بیانات میں الجھ گئے تھے۔۔۔ نیوز رپورٹرس سوال پوچھ رہے تھے۔۔۔ اور کئی بار Next کہتے ہوئے اُن کے چہرے پر منڈراتے پسینے کو صاف طور پر دیکھا جاسکتا تھا۔۔۔ اور یقینی طور سکسینہ انکاؤنٹر سے جڑی بہت سی باتوں کا جواب نہیں دے پائے۔
**
حالات اور نازک ہوگئے تھے۔۔۔
انکاؤنٹر کا معاملہ اب آہستہ آہستہ فرضی انکاؤنٹر کی طرف نیا موڑ لینے لگا تھا۔۔۔
پولیس کو اب دوسرے پریس کانفرنس کی ضرورت محسوس ہوئی تھی۔
اور یہاں بھی ڈان کوئکزوٹ موجود تھا۔۔۔
جوائنٹ کمشنر آف پولیس مسٹر کجری وال پریس کانفرنس کر رہے تھے۔
ان کی آنکھیں گہری سوچ میں ڈوبی تھیں۔ ٹھہر ٹھہر کر انہوں نے اس پورے انکاؤنٹر کے بارے میں بتانا شروع کیا۔۔۔
"جیسا کہ آپ جانتے ہیں۔ اس انکاؤنٹر میں دو ملزم راشد اور منیر مارے گئے۔ اور دو آتنک وادی فرار ہوگئے۔۔۔ ایک پہلے سے ہماری حراست میں ہے۔ شک کی بنا پر تیرہ اور لوگوں کو گرفتار کیا گیا ہے۔۔۔ اس انکاؤنٹر میں ہمارے کرمٹھ پولیس انسپکٹر ورما کو شہادت ملی ہے۔ گجرات بم دھماکوں میں ملوث عبد الرحیم پر شروع سے ہماری نظر تھی۔۔۔ اس کے گھر کی تلاشی لینے پروہاں سے اردو میں لکھی ایک ڈائری ملی تھی۔ اس ڈائری میں اردو بھاشا میں ان آتنک وادیوں کے نام ملنے کے بعد ہم نے اپنی تفتیش کو آگے بڑھایا۔
عبد الرحیم پکڑا گیا۔۔۔ اس نے راشد کا نام لیا۔ اس کی ڈائری میں بھی راشد، منیر اور علوی کے نام درج تھے۔ ان تمام دھماکوں کے پیچھے لشکر طیبہ، انڈین مجاہدین اور سیمی کا نام سامنے آچکا ہے۔ راشد ان کے بیچ کی ایک مضبوط کڑی تھا۔ ان کا ایک ساتھی علوی ہماری حراست میں ہے۔ اس سے ملک میں ہونے والے بم دھماکوں کو لے کر مختلف سراغ ملنے کی امید ہے۔ ابھی ہمیں ان کے کچھ اور ساتھیوں کی بھی تلاش ہے۔ راشد کا لیپ ٹاپ اور موبائل بھی ہمارے قبضے میں ہے۔ ان سے بھی ہمیں کافی کچھ ملا ہے۔"
کجری وال کے بیان کے ساتھ ہی سوالوں کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوگیا تھا۔
"کیا پولیس کو پہلے سے جانکاری تھی کہ آتنک وادی بٹلہ ہاؤس میں چھپے ہوئے ہیں؟"
"ورما کو آگے سے مارا گیا یا پیچھے سے؟"
"پولیس کے مطابق اگر انہیں آگے سے مارا گیا تو خون کا نشان پیچھے کیوں ہے؟"
"ورما کی موت کہاں ہوئی؟ گولی لگنے کے بعد صرف دو لوگوں کے سہارے چار منزل طے کرتے ہوئے نیچے تک کیسے آگئے؟ اس کا مطلب وہاں اتنی گولیاں نہیں لگیں کہ وہ شہید ہوسکتے تھے؟
"کیا کار سے اسپتال تک جاتے ہوئے ان کے ساتھ کچھ اور بھی ہوا تھا؟"
"ان کے جسم سے نکلی گولیاں کس بور کے پستول کی تھی؟"
"کیا مقتول کے پاس سے ہتھیار اور بم بنانے کے سامان بھی ملے؟"
"کیا پولیس بٹلہ ہاؤس میں تفتیش کے ارادے سے گئی تھی یا انکاؤنٹر کے ارادے سے ؟"
"کیا ورما کو دہشت گردوں کی گولی لگی یا پولیس کی؟"
"فلیٹ میں انکاؤنٹر کے وقت کتنے لوگ موجود تھے؟"
"دو آتنک وادی جو بھاگ گئے، کیا سچ مچ وہ چوتھی منزل سے کود کر بھاگے؟"
"کیا مقتول کو سرینڈر کے لیے مجبور نہیں کیا جاسکتا تھا؟"
"کیا انہیں گولی مارنا ضروری تھا؟"
انسپکٹر ورما انکاؤنٹر کے ارادے سے گئے تھے تو انہوں نے بیلٹ پروف جیکٹ کیوں نہیں پہنی تھی۔۔۔؟
کجری وال کے پاس ان باتوں کا صرف ایک ہی جواب تھا۔۔۔
"جیسے جیسے ہمیں ان کے بارے میں معلومات حاصل ہوگی، ہم آپ کو انفارم کرتے رہیں گے۔۔۔"
مسکراتے ہوئے وہ اٹھ کھڑے ہوئے تھے۔۔۔
کیمرے کے فلیش چمک رہے تھے۔۔۔
اور یہ سب کچھ ایسا تھا جیسے ہر کوئی ان معاملوں سے اپنا دامن بچانے کی کوشش کر رہا ہو۔۔۔
اور اس وقت کجری وال بھی یہی کر رہے تھے۔۔۔
(3)
میں۔۔۔ ارشد پاشا۔۔۔ میں خود بھی نہیں جانتا حقیقت کیا ہے؟ یہ حقیقت کبھی سامنے بھی آئے گی یا نہیں۔ میں خود اس معاملے سے دور جانا چاہتا ہوں۔ اس سیاست سے جس نے ہزار قربانیوں کے باوجود میرے ملک کو میرا ملک نہیں رہنے دیا ہے۔ کمرے میں منحوس چمگادڑیں اکٹھی ہوگئی ہیں۔۔۔
میں رباب کے کمرے تک گیا ہوں۔۔۔ پھر واپس لوٹ آیا ہوں۔ تنہائی میں ایک ساتھ کتنے ہی چہرے میری آنکھوں کے سامنے روشن ہوگئے ہیں۔ ان میں ایک چہرہ بی امّاں کا ہے۔ ایک چہرہ ابّا حضور "تغلق پاشا کا۔۔۔ مجھے سب یاد آ رہا ہے۔ شہر کی فضا مکدر ہوگئی تھی۔ ہم کمرے میں بند تھے۔۔۔ کاشی کے گلی کوچوں میں فرقہ واریت کے بادل منڈرا رہے تھے۔۔۔ ابّا حضور تغلق پاشا ٹہلتے ہوئے پاکستان کو گالیاں دے رہے تھے۔
"ابھی تو کچھ بھی نہیں ہے میاں۔۔۔ بس آگے آگے دیکھتے جاؤ۔۔۔ تقسیم کا بھوت ہر بار تمہارا جینا مشکل کرے گا۔ تمہارے راستے تنگ کرے گا۔۔۔"
بی اماں نے ناراضگی دکھاتے ہوئے کہا۔۔۔ "نوج" صبح سے کوّے بھی کائیں کائیں کر رہے تھے۔ مجھے سب پتہ تھا کچھ نہ کچھ ضرور ہونے والا ہے۔ ارے یہ راشدہ کہاں مر گئی۔۔۔ انور کہاں گیا۔۔۔"
ابّا حضور ٹہلتے ہوئے مڑے۔ غصے میں چلائے۔۔۔ "اب یہ گھر کے سارے لوگوں کو اسی کمرے میں جمع کرو گی کیا۔ راشدہ اور انور اپنے کمرے میں ہوں گے۔ چلّانا بند کرو۔ ممکن ہو تو تلاوت شروع کرو۔ اللہ اس بُرے موسم سے ہم سب کو محفوظ رکھے۔۔۔ "
لیکن بی اماں کا چلّانا بند نہیں ہوا۔۔۔ وہ ابھی بھی صبح صبح منڈرانے والے کوؤں کو "کوس" رہی تھیں۔۔۔
"نوج" صبح ہی صبح اپنی منحوس آواز سے نحوست پھیلا گئے۔ برا ہو ان مسلمانوں کا۔۔۔ "
ابّا حضور زور سے چیخے۔۔۔ "برا ہی تو ہو رہا ہے۔ پاکستان میں بھی برے بن رہے ہیں اور یہاں بھی۔ وہاں بھی مارے جا رہے ہیں اور یہاں بھی۔ آنے والے وقت میں بھی ہم کچھ کریں یا نہ کریں، لیکن مسلمانوں کو پاکستان کی قیمت تو چکانی ہی پڑے گی ۔۔۔
میں جیسے کسی ڈراؤنے خواب سے باہر نکل آیا تھا۔ ٹھیک یہی وقت تھا جب میرے موبائل کی گھنٹی بجی تھی، دوسری طرف اسامہ تھا۔۔۔ برف جیسی سرد آواز۔۔۔ "مجھے نہیں رہنا ہے یہاں۔۔۔ "
"لیکن کیوں؟"
"میرا دم گھٹتا ہے۔۔۔ اپنے ہی سوالوں کا جواب نہیں دے پاتا۔"
"بہتر ہے خود سے سوال ہی نہ کرو کہ جواب دینے کی ضرورت ہی پیش آئے۔"
"سوال نہیں کروں ؟ یہ کیسے ممکن ہے؟ جو کچھ ہو رہا ہے میں اس کا ایک حصہ ہوں۔ آئی ریپٹ۔۔۔ ہم سب اس کا حصہ ہیں۔ میری نیند اڑ گئی ہے۔ دماغ میں طوفان آیا ہوا ہے۔ ہر وقت دماغ جلتا رہتا ہے۔ کیسے نہیں سوچوں۔۔۔ کیسے خود سے سوال نہیں کروں۔ کیا اس ملک میں رہنے کا قرض ادا کرنا ہوگا اور قرض یہ ہے کہ ہم پر الزام لگا کر ہمیں شوٹ آؤٹ کر دیا جائے۔ مجھے سب خبریں مل گئی ہیں۔ علوی جیل میں ہے۔ منیر اور راشد مارے جاچکے ہیں اور یہاں میں چھپتا پھر رہا ہوں۔ لیکن ہم سب کا گناہ کیا ہے؟ ہم تو جرم، اسلحے اور اس دنیا کے بارے میں بھی نہیں جانتے تھے۔۔۔ ہم نہیں جانتے تھے کہ ماسٹر مائنڈ کیا ہوتا ہے۔ ہم نہیں جانتے تھے کہ جیش، سیمی، انڈین مجاہدین اور لشکر طیبہ کیا ہے؟ ایسا کیوں ہو رہا ہے۔ اگر ایسا ہی ہے تو ایک آسان راستہ ہے حکومت کے پاس۔۔۔ یا تو کسی مسلمان بچہ کو پیدا ہی نہ کیا جائے۔ اگر غلطی سے کوئی ایک بچہ کسی مسلمان گھر میں پیدا ہوجائے تو اُسے اسی وقت مار ڈالا جائے۔۔۔ "
اسامہ چیخ رہا تھا ۔۔۔ "مجھے نہیں رہنا ہے یہاں۔ میں آ رہا ہوں ڈیڈی۔"
میں زور سے چلایا۔۔۔ "پاگل مت بنو۔ فضا خراب ہے۔ ابھی کچھ اور دن تھا پڑ انکل کے یہاں ہی رہو۔"
"میں نہیں رہوں گا۔ مجھے گلٹ ہورہا ہے۔ ہم میں سے کسی نے کچھ نہیں کیا۔ اُس رات ہم چار تھے۔۔۔ اگر قصور وار وہ تینوں ہیں تو میں بھی قصور وار ہوں۔۔۔ پھر میرے لیے آپ یا تھاپڑ انکل کس بات کی جنگ لڑ رہے ہیں۔"
میری آواز لرزتی ہوئی تھی۔۔۔ "ہم جنگ نہیں لڑ رہے بیٹا۔ ہم ایک برے موسم میں صرف خود کو بچانے کی کوشش کر رہے ہیں۔"
دوسری طرف اُسامہ چیخ رہا تھا۔۔۔ "بچانے کی کوشش کیوں کر رہے ہیں۔۔۔ یہ کوشش تب کی جاتی ہے نا جب کچھ ہوتا ہے؟ کوئی جرم ہوتا ہے یا کوئی گناہ یا مسلمان ہونا ہی جرم ہے؟ اور اس کی سزا پہلے سے ہی طے ہے۔۔۔ " اسامہ رو رہا تھا۔۔۔ میں اس ماحول میں اب اور نہیں جی سکتا۔ مجھے اپنے کمزور اور بزدل ہونے پر شرم محسوس ہو رہی ہے۔ ایک گہری نفرت میرے اندر جمع ہو رہی ہے۔ جی چاہتا ہے۔۔۔ بولتے بولتے وہ ٹھہر گیا تھا۔
""لیکن اب میں نے فیصلہ کر لیا ہے۔۔۔ میں تھاپڑ انکل اور آنٹی کو اور زیادہ پریشان نہیں کرسکتا۔ اب یہاں نہیں رہوں گا۔ میں آ رہا ہوں۔ اگر پولیس مجھے بھی آتنک وادی مانتے ہوئے میرا انکاؤنٹر کرنا چاہتی ہے تو مجھے کوئی افسوس یا ڈر نہیں ہے۔ کیوں کہ اب میں نے جان لیا ہے کہ اس ملک میں سب سے بڑا گناہ یا جرم مسلمان ہونا ہے اور اس کے لیے آپ کو کسی بھی سزا کے لیے تیار رہنا چاہیے۔۔۔"
اُسامہ نے فون کاٹ دیا تھا۔۔۔
میرے ہاتھوں میں موبائل کانپ رہا تھا۔ سامنے رباب کھڑی تھی۔ اُس کی آنکھیں خوف سے پھیلی ہوئی تھیں۔
"کس کا فون تھا؟"
"اُسامہ کا۔۔۔ وہ آ رہا ہے۔"
رباب کی آنکھیں خوف سے سکڑ گئی تھیں۔۔۔ "اُسے بتایا نہیں کہ ابھی حالات اچھے نہیں ہیں۔
""میں اسے سب بتا چکا۔۔۔ لیکن وہ اب وہاں رکنے کو تیار نہیں ہے۔۔۔ "
"کیا ہوگا میرے بیٹے کا؟"
میں کمرے میں ٹہل رہا تھا۔۔۔ رباب کی سسکیاں گونج رہی تھیں۔
"وہ مار دیں گے اُسے۔۔۔ میرے بیٹے کو بھی مار دیں گے۔ اُسے روکو، سمجھاؤ اُسے ۔ مت آنے دو اُسے۔ میں بات کرتی ہوں اس سے۔"
"وہ تمہاری بات نہیں سنے گا۔۔۔ " ٹہلتے ہوئے میں ٹھہر گیا۔۔۔ رباب کی طرف دیکھا۔۔۔
"وہ اب کسی کی نہیں سنے گا۔۔۔ وہ اب بڑا ہوگیا ہے۔ ان حالات میں وہ اپنے فیصلے اب خود کرے گا۔"
مجھے اپنی آواز ڈوبتی ہوئی محسوس ہو رہی تھی۔

***
Zauqui2005[@]gmail.com
موبائل : 09310532452 , 09958583881
مشرف عالم ذوقی

A chapter from novel 'Aatish rafta ka suraagh'. Author: Musharraf Alam Zauqi

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں