ممتاز مذہبی رہنما مولانا کلیم صدیقی کا قصور کیا ہے؟ - کالم از معصوم مرادآبادی - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2021-09-26

ممتاز مذہبی رہنما مولانا کلیم صدیقی کا قصور کیا ہے؟ - کالم از معصوم مرادآبادی

مشہور و معروف داعی اور مبلغ مولانا کلیم صدیقی کی گرفتاری سے مسلمانوں میں غم و غصہ کی لہر ہے۔ انھیں بدھ کی رات اترپردیش اے ٹی ایس کے انسداد دہشت گردی دستہ نے اس وقت گرفتار کیا ، جب وہ میرٹھ میں ایک پروگرام کے بعد اپنے گھر واپس آ رہے تھے۔
مولانا کلیم صدیقی پر غیرقانونی تبدیلئ مذہب میں ملوث ہونے اور اس کے لیے غیر ممالک سے خطیر رقومات وصول کرنے کا الزام ہے۔ سبھی جانتے ہیں کہ مولانا کلیم صدیقی ایک سنجیدہ اسلامی اسکالر ہیں۔ ان کا بنیادی کام بین المذاہب مذاہب مکالمہ قایم کرنا اور اسلام کے بارے میں برادران وطن کے ذہنوں میں سرایت کرگئی غلط فہمیوں کو دور کرنا ہے۔ ان کے اسی مشن سے متاثر ہوکر کئی لوگوں نے اسلام بھی قبول کیا ہے، لیکن جن الزامات کے تحت ان کی گرفتاری عمل میں آئی ہے، وہ اس اعتبار سے سنگین ہیں کہ ان کی تمام سرگرمیوں کو غیرقانونی قرار دے کر انھیں تبدیلی مذہب کے ایک خطرناک سنڈیکیٹ کا سربراہ قرار دیا جا رہا ہے۔حالانکہ انھوں نے اسلام کی تبلیغ کے لیے جو کچھ بھی کیا ہے، اس کی اجازت ہرشہری کو ملک کا آئین دیتا ہے۔


آپ کو یاد ہوگا کہ گزشتہ جون میں ان ہی الزامات کے تحت دہلی سے محمد عمر گوتم اور مفتی جہانگیر قاسمی کی گرفتاری عمل میں آئی تھی۔ یہ دونوں بھی انہی خطوط پر اسلام کے تعارف اور تبلیغ کا کام کر رہے تھے۔ ان سے ہوئی پوچھ تاچھ کے بعد ملک کے مختلف حصوں سے چھ مزید لوگوں کو حراست میں لیا گیا تھا۔
یہ سبھی لوگ ابھی جیل میں ہیں اور انھیں غیرقانونی تبدیلی مذہب کے ایک خطرناک سنڈیکیٹ کا حصہ بتایا جا رہا ہے۔جس وقت دہلی میں محمد عمرگوتم اور مفتی جہانگیر قاسمی کو گرفتار کیا گیا تھا ، اسی وقت اس بات کا اندیشہ ظاہر کیا گیا تھا کہ پولیس مولانا کلیم صدیقی پر بھی ہاتھ ڈال سکتی ہے، لیکن ان کی شخصیت اور عالمی شناخت کی بنیاد پر لوگوں کو یقین تھا کہ شاید پولیس ان کے خلاف کارروائی کی ہمت نہ کرے، مگر یہ خیال غلط ثابت ہوا اور انھیں گرفتار کرکے پہلے عدالتی حراست میں بھیجا گیا اور اس کے اگلے دن پولیس ان کا دس دن کا طویل ریمانڈ لینے میں کامیاب ہو گئی۔


قابل ذکر بات یہ ہے کہ گزشتہ 7 ستمبر کو مولانا کلیم صدیقی نے ممبئی کے ایک پانچ ستارہ ہوٹل میں آرایس ایس سربراہ موہن بھاگوت کے ایک پروگرام میں شرکت کی تھی۔ اس پروگرام کو بھاگوت کی "مسلم دانشوروں سے ملاقات" کا عنوان دیا گیا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ اس ملاقات کے لیے خود موہن بھاگوت کے بھائی مولانا کلیم صدیقی کو مدعو کرنے ان کے گھر گئے تھے۔ حالانکہ کئی حلقوں میں مولانا پر تنقید بھی ہوئی تھی ، لیکن کہا جاتا ہے کہ وہ اپنے دعوتی مشن کے تحت وہاں گئے تھے۔
بعض لوگوں کا یہ بھی خیال تھا کہ مولانا کلیم صدیقی نے موہن بھاگوت سے ملاقات حفظ ماتقدم کے طور پر کی تھی۔ لیکن یہ خیال غلط ثابت ہوا ، کیونکہ پولیس نے ان کے خلاف جو ابتدائی فرد جرم میڈیا کے روبرو پیش کی ہے ، اس میں ان پر تبدیلی مذہب کے ایک خطرناک ریکیٹ میں شامل ہونے کا الزام عائد کیا گیا ہے جس میں کروڑوں کی غیرملکی فنڈنگ ہوئی ہے۔


اے ڈی جی پرشانت کمار کا دعویٰ ہے کہ مولانا کلیم صدیقی کی تنظیم گلوبل پیس سینٹر اور جامعہ امام ولی اللہ لوگوں کو ڈرا دھمکا کر مذہب تبدیل کراتے تھے۔ پرشانت کمار کا یہ بھی کہنا ہے کہ تبدیلی مذہب کے لیے ان کے مختلف بینک کھاتوں میں تین کروڑ روپے کی غیر ملکی فنڈنگ ہوئی ہے۔ جن میں ڈیڑھ کروڑ روپے تو صرف بحرین سے ان کے اکاؤنٹ میں بھیجے گئے ہیں۔ اے ٹی ایس نے جب ان کے بارے میں چھان بین کی تو پتہ چلا کہ وہ اپنے آبائی وطن مظفرنگر کے موضع پھلت میں جامعہ ولی اللہ کے نام سے ایک ٹرسٹ چلاتے ہیں، جوکہ ملک بھر میں سماجی ہم آہنگی اور دیگر فلاحی کاموں کی آڑ میں تبدیلی مذہب کا ایک سنڈیکیٹ ہے۔
انھوں نے یہ بھی بتایا کہ مولانا کلیم صدیقی ٹرسٹ چلانے کے علاوہ ملک کے مختلف مدرسوں کے لیے فنڈنگ بھی کرتے ہیں۔ ان مدرسوں میں وہ پیام انسانیت کے پروگراموں کے تحت دوزخ کا خوف اور روپوں کا لالچ دے کر مذہب تبدیل کراتے تھے۔


حالانکہ ابھی تک ایسا کوئی شخص سامنے نہیں آیا ہے جس نے یہ کہا ہو کہ مولانا کلیم صدیقی نے اس کا مذہب تبدیل کرنے کے لیے دباؤ ڈالا ہو یا پھر اسے کوئی لالچ دیا ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر کوئی شخص کسی پر دباؤ ڈال کر یا اسے لالچ دے کر مذہب تبدیل کرنے پر مجبور کرتا ہے تو یہ ایک غیرقانونی سرگرمی ہے، جس کے لیے قرار واقعی سزا ملنی چاہئے۔ لیکن اگر کوئی اپنی مرضی سے اپنا مذہب تبدیل کرتا ہے اور کوئی شخص اس میں تعاون کرتا ہے تو اس پرکوئی قانونی گرفت نہیں ہونی چاہئے، کیونکہ ہندوستان کا آئین اس ملک میں بسنے والے ہر شہری کو اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ وہ جو چاہے مذہب اختیار کرے۔ مذہب کے معاملے میں حکومت کو مداخلت کرنے کا کوئی اختیار نہیں ہے۔


سبھی جانتے ہیں کہ ہندوستان کا دستور اپنے شہریوں کو اس بات کی پوری اجازت دیتا ہے کہ وہ جس مذہب کو چاہے اختیار کرے اور اس کی ترویج اور اشاعت میں حصہ لے۔ اسی دستوری آزادی کا فائدہ اٹھا کر ہمارے ملک میں عیسائی مشنریاں انتہائی غریب اور پسماندہ بستیوں میں فلاحی کام کرتی ہیں اور لوگوں کو عیسائیت کی طرف راغب کرتی ہیں۔ لیکن جب سے ملک میں بی جے پی مکمل اکثریت کے ساتھ اقتدار میں آئی ہے ، اس نے بہت سے ایسے کام کئے ہیں جو غیر دستوری اور غیر جمہوری ہیں۔
ان ہی میں ایک کام اس ملک میں بسنے والی اقلیتوں کا راستہ روکنا ہے۔ حکومت وقت چاہتی ہے کہ اس ملک میں ایک مذہب ، ایک زبان اور ایک کلچر کی حکمرانی ہو۔ یعنی صرف اکثریت کے مذہب ہی کو فروغ حاصل ہو اور اس کے ماننے والوں کو ہر قسم کا تحفظ فراہم کیا جائے۔ جبکہ اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کو اس بات کی قطعی اجازت نہ ہو کہ وہ اپنے مذہب کی تبلیغ کریں۔
یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں سے متعلق ہر شے کو 'جہاد' کا نام دے کر ملیا میٹ کرنے کی کوششیں عروج پر ہیں۔ نہ صرف یہ کہ مسلمانوں کا عرصہ حیات تنگ کیا جا رہا ہے بلکہ انھیں مختلف عنوانات کے تحت دار و گیر کے مراحل سے بھی گزارا جا رہا ہے۔ اس جبر کا ایک ہی مقصد ہے کہ مسلمان صرف اپنی جان و مال اور عزت و آبرو کے تحفظ پر ہی راضی ہو جائیں اور ایک شہری کے طورپر اپنے تمام بنیادی دستوری حقوق سے دستبرداری کا اعلان کر دیں۔
تبدیلی مذہب کے نام پر علمائے کرام کی گرفتاریاں اور ان کے ساتھ بدترین مجرموں جیسا سلوک یہ ثابت کرتا ہے کہ اب ملک میں آئین و قانون کا راج ختم ہوا چاہتا ہے۔


مولانا کلیم صدیقی کے خلاف غیر ملکی فنڈنگ کے ذریعہ مذہب تبدیل کرانے کے ثبوت کے طور یہ کہا جا رہا ہے کہ ان کے اکاؤنٹ میں تین کروڑ کی رقم بیرونی ممالک سے آئی ہے۔ یہاں سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ جو رقم کسی کے بینک اکاؤنٹ میں جمع ہوتی ہے وہ اس کا پورا حساب کتاب رکھتا ہے اور اس سے انکم ٹیکس محکمہ بھی واقف ہوتا ہے۔ اگر تین کروڑ کی خطیر رقم ان کے اکاؤنٹ میں مشتبہ لوگوں نے جمع کی تھی تو اس کی چھان بین کیوں نہیں کی گئی؟
یہ بات سبھی جانتے ہیں کہ غیرقانونی سرگرمیوں میں ملوث لوگ کبھی بھی بینک کے ذریعہ لین دین نہیں کرتے اور وہ حوالہ ریکٹ کا سہارا لیتے ہیں۔ اس ملک میں کتنے ہی مذہبی اور غیرمذہبی ادارے ایسے ہیں جو غیر ملکوں سے چندے حاصل کرتے ہیں اور وہ وزارت داخلہ سے خصوصی اجازت حاصل کرکے ایسا کرتے ہیں۔ اگر ایسے ہی کسی ذریعہ سے مولانا کلیم صدیقی کے اکاؤنٹ میں کوئی رقم جمع ہوئی ہے تو وہ غیرقانونی کیسے ہوگئی؟
اگر وہ واقعی غیر ملکی فنڈنگ حاصل کر رہے تھے تو اس کی تحقیقات ای ڈی یا پھر انکم ٹیکس محکمے کو کرنی چاہئے ، لیکن انھیں اترپردیش اے ٹی ایس کے انسداد دہشت گردی دستہ نے ریمانڈ پر لیا ہے۔
اگر یہ فرض بھی کر لیا جائے کہ وہ لوگوں کا مذہب تبدیل کرا رہے تھے تو تبدیلی مذہب کا معاملہ دہشت گردی کیسے ہو گیا؟
یہ دراصل ہر مسلمان کو دہشت گرد اور ملک دشمن ثابت کرنے کی فرقہ وارانہ ذہنیت کا نتیجہ ہے جس میں پوری مشینری ملوث ہے۔


***
بشکریہ: معصوم مرادآبادی فیس بک ٹائم لائن
masoom.moradabadi[@]gmail.com
موبائل : 09810780563
معصوم مرادآبادی

What is the fault of Prominent Muslim Cleric Maulana Kaleem Siddiqui? - Column: Masoom Moradabadi.
UP ATS Arrest Prominent Muslim Cleric Maulana Kaleem Siddiqui On Charges Of Running Religious Conversion Syndicate

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں