مہابھارت کی اشاعت کے لئے سابق ریاست حیدرآباد کی امداد - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2020-07-25

مہابھارت کی اشاعت کے لئے سابق ریاست حیدرآباد کی امداد

publication-of-mahabharat-hyderabad-state-donation

آصف جاہی خاندان کے آخری حکمران نواب میر عثمان علی خاں کے دور کی علمی و ادبی سرپرستی اور مذہبی رواداری مشہور ہے۔ علوم و فنون کی قدردانی میں اس دور کی حکومت اور حکمراں نے بڑی فیاضی کا مظاہرہ کیا۔
اس کے بارے میں یہ غلط فہمی دل و دماغ سے نکال دی جانی چاہئے کہ ان خصوصیات کا تذکرہ روایتی تعریف و تحسین کے انداز میں کیا جاتا ہے، یا ان باتوں کے اظہار میں مروت یا کوئی جذباتی وابستگی غالب رہتی ہے۔ اس دور کی یہ رواداری ، فراخ دلی اور وسیع النظری، تاریخ کے صفحات کی انمٹ تحریروں میں تبدیل ہو چکی ہے۔

اسٹیٹ آرکائیوز کے ناقابل تردید اور شک و شبہ کی کسی بھی گنجائش سے بالاتر ریکارڈ سے ان حقائق کا ثبوت ملتا ہے۔ صرف یہی ظاہر نہیں ہوتا کہ علوم و فنون کی سرپرستی اور قدردانی میں کوئی امتیاز نہیں برتا جاتا تھا بلکہ اس سلسلہ میں اندازِ فکر صحت مند اور طرز عمل نہایت مہذبانہ اور لب و لہجہ شائستہ ہوا کرتا تھا۔ ریاست ہی کے نہیں بیرون ریاست کے افراد اور ادارہ جات کی امداد میں جن میں تحقیقی ادارے بھی شامل تھے اور جامعات بھی شامل تھیں جس طرح آصف سابع نے فیاضی دکھائی اس کی تفصیلات بیان کرنے کے لئے کتنے ہی مضامین لکھے جا سکتے ہیں۔ زیر نظر مضمون میں صرف سابق ریاست بمبئی کے شہر پونا کے ایک تحقیقی ادارہ اور ہندوستان کے اکثریتی فرقہ کی دو سب سے بڑی اور مقبول ترین کتابوں رامائن اور مہابھارت میں سے ایک کتاب "مہا بھارت" کے لئے امداد کی کارروائی کا احاطہ کیا گیا ہے۔

پونا بھنڈارکر اورینٹل ریسرچ انسٹی ٹیوٹ سنسکرت زبان و ادب اور قدیم ہندوستانی ثقافت کے تحقیقی کاموں کے لئے مختص رہا ہے۔ اس انسٹی ٹیوٹ نے مہابھارت کی اشاعت اور انسٹی ٹیوٹ میں طلبہ کے قیام کے لئے ایک گیسٹ ہاؤس کی تعمیر کے لیے مالی امداد جاری کرنے کی درخواست کی تھی، جس پر آصف سابع نے مہابھارت کی اشاعت کے لئے سالانہ ایک ہزار روپیہ دس سال کی مدت کے لئے اور گیسٹ ہاؤس کی تعمیر کے لئے پچیس ہزار روپے کی امداد کے لئے فرمان صادر کیا۔ گیسٹ ہاؤس کی تعمیر نامکمل رہنے پر تعمیر کو مکمل کرنے اور اس کے فرنیچر کے لئے مزید مالی امداد کی درخواست کی گئی۔ جسے آصف سابع نے منظوری دے دی۔
مہابھارت کی امداد کے دس سال کی مدت ختم ہونے پر اس کے لئے بھی مزید امداد جاری رکھنے کے لئے درخواست روانہ کی گئی۔ آصف سابع نے اس درخواست پر بھی مزید ایک سال کے لئے امداد کی منظوری عطا کی۔ آندھرا پردیش اسٹیٹ آرکائیوز کے ذخائر میں محفوظ ریکارڈ سے استفادہ کرتے ہوئے اس کارروائی کی تفصیلات ذیل میں درج کی جا رہی ہیں۔

پونا کے بھنڈارکر اورینٹیل ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کی جانب سے اس کے سکریٹری نے حکومت ریاست حیدرآباد سے سالانہ امداد کے حصول کے لئے ایک درخواست روانہ کی تھی۔ اس درخواست پر ابھی کاروائی جاری تھی کہ اسی سلسلہ میں انسٹی ٹیوٹ کی جانب سے ایک اور درخواست بھیجی گئی کہ وسط اگست 1922ء میں وائسرائے اور کاؤنٹس آف ولنگڈن اس ادارہ کے ملاحظہ کے لئے آنے والے ہیں اور اس موقع پر دیگر امور کے علاوہ جدید سرپرستوں کا انتخاب اور عطیات کا اعلان کیا جائے گا اس لئے اس انسٹی ٹیوٹ کے مختلف کاموں کے لئے ریاست حیدرآباد کی جانب سے سالانہ امداد منظور کی جائے۔

ان درخواستوں پر ناظم تعلیمات نے اس رائے کا اظہار کیا کہ اگر آصف سابع مناسب خیال فرمائیں تو ریاست حیدرآباد کی جانب سے اسی طرح کوئی مناسب امداد منظور کی جا سکتی ہے، جس طرح ریاست میسور کی جانب سے کی گئی ہے۔
ریاست میسور کی جانب سے پانچ سو روپیہ سالانہ کی امدا د منظور کی گئی ہے۔ سر رشتہ تعلیمات کے موازنہ میں گنجائش نہیں ہے۔ اگر آصف سابع امداد عطا کرنا مناسب خیال فرمائیں تو امداد زائد از موازنہ منظور فرمائی جائے۔ ناظم تعلیمات نے معتمد تعلیمات کی رائے سے اتفاق کیا۔
صدرالمہام فینانس (سر اکبر حیدری) نے رائے دی کہ دنیا کی ایک معرکۃ الآراء تصنیف "مہابھارت" جو ہندوستانی نقطہ نظر سے ہر آئینہ ایک قومی کتاب ہے، اس کی اشاعت کی سرپرستی کی تحریک پر نہایت ہمدردانہ طور پر غور کرنا مناسب ہوگا۔ انہوں نے لکھا کہ حال ہی میں ارباب انسٹی ٹیوٹ نے ان سے مل کر حسب ذیل امور کی شدید ضرورت ظاہر کی تھی:
(1) انسٹی ٹیوٹ میں حصول تعلیم کے لئے جو طلبا آتے ہیں ان کے لئے ایک گیسٹ ہاؤس کی تعمیر۔
(2) مہابھارت کی اشاعت
(3) انسٹی ٹیوٹ میں ایرانی وسٹمک کی تعلیم کے لئے سہولتیں بہم پہنچانا۔

پہلے دو امور کی تائید کرتے ہوئے سر اکبر حیدری نے لکھا کہ گیسٹ ہاؤس کی تعمیر کے لئے پچیس ہزار روپیہ کی یکمشت امداد اس شرط پر دی جائے کہ یہ عمارت آصف سابع کے نام سے موسوم کی جائے اور معرکۃ الآراء قومی کتاب مہابھارت کی اشاعت کے لئے دس سال تک سالانہ دو ہزار پانچ سو روپیہ کی امداد کی جائے۔

جب یہ کاروائی باب حکومت کے اجلاس منعقدہ 8/اگست 1932ء میں پیش ہوئی تو بہ اختلاف رائے صدر المہام مال یہ قرار داد منظور ہوئی:
بھنڈار کر انسٹی ٹیوٹ میں ایک گیسٹ ہاؤس کی تعمیر کے لئے جو بندگان اعلی حضرت کے اسم ہمایونی سے موسوم ہوگا پچیس ہزار روپے کلدار سرکار عالی کی جانب سے دئے جائیں اور مہابھارت کی اشاعت کے لیے ایک ہزار روپیہ کلدار سالانہ دس سال تک دئے جائیں۔ صدر المہام مال (لفٹننٹ کرنل ٹرنچ) کو اس سے اس وجہ سے اختلاف ہے کہ آج کل کے اقتصادی حالات اور مالی مشکلات کے مد نظر سرکار عالی کو یہ عطیہ نہیں دینا چاہئے۔"

صدر المہام مہاراجہ کشن پرشاد نے انسٹی ٹیوٹ کے سکریٹری کی درخواست کا خلاصہ، درخواست پر ناظم تعلیمات، معتمد تعلیمات اور صدر الملام فینانس کی سفارشات اور کونسل کی قرار داد، ایک عرضداشت مورخہ 24/ربیع الثانی 1351ھ م 27/اگست 1932ء میں درج کرتے ہوئے آصف سابع کے ملاحظہ کے لئے اور احکام کے لئے پیش کی۔

آصف سابع نے کونسل کی رائے سے اتفاق کیا اور گیسٹ ہاؤس کی تعمیر اور مہا بھارت کی اشاعت کے لئے امداد منظور کی۔ اس سلسلہ میں آصف سابع کا جو فرمان مورخہ4 /جمادی الاول 1351ھ م 6/سپٹمبر 1932ء صادر ہوا تھا اس کا متن ذیل میں درج کیا جاتا ہے۔

"کونسل کی رائے مناسب ہے، حسبہ مذکور انسٹی ٹیوٹ میں ایک گیسٹ ہاؤز تعمیر کرنے کے لئے جو میرے نام سے موسوم ہوگا (یعنی نظام گیسٹ ہاؤز) پچیس ہزار روپیہ کلدار یکمشت دئے جائیں اور مہابھارت کی اشاعت کے لئے دس سال تک ایک ہزار روپیہ کلدار سالانہ امداد دی جائے۔"

آصف سابع کے فرمان کی تعمیل کی گئی جس پر بھنڈارکر اورینٹل ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے اعزازی سکریٹری نے ایک مراسلہ کے ذریعہ اطلاع دی کہ آصف سابع کی جانب سے جو فیاضانہ امداد دی گئی ہے اس کے لئے ادارہ کی ریگولیٹنگ کونسل بارگاہ خسروی میں شکر و نیاز عرض کرتی ہے۔ نیز ریگولیٹنگ کونسل نے بالاتفاق طے کیا ہے کہ اس فیاضانہ عطیہ کے مدنظر ہز اگزالٹیڈ ہائی نس میر عثمان علی خاں بہادر کو بھنڈار کر ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کا سرپرست منتخب کیا جائے۔ اس درخواست پر کونسل نے اپنے اجلاس میں یہ رائے ظاہر کی کہ انسٹی ٹیوٹ کی استدعا لائق پذیرائی ہے۔

کونسل کی سفارش منظور کرتے ہوئے آصف سابع نے انسٹی ٹیوٹ کی سرپرستی قبول کی اور فرمان مورخہ 5/ربیع الاول 1352ھ م 29/جون 1933ء کے ذریعہ یہ حکم صادر ہوا۔
"کونسل کی رائے کے مطابق مذکورہ استدعا منظور کی جائے۔"

سرپرستی قبول کیے جانے کی اطلاع ملنے پر انسٹی ٹیوٹ کے آنریری سکریٹری نے اپنے ایک مراسلہ کے ذریعہ شکریہ ادا کرتے ہوئے لکھا کہ نظام گیسٹ ہاؤس جو سرکار عالی کی فیاضانہ امداد سے تیار ہو رہا ہے اس کی تعمیر قریب الختم ہے۔ وائسرائے ہند عنقریب پونا آنے والے ہیں انہیں اس موقع پر بھنڈارکر ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کا معائنہ کرنے کے لئے مدعو کیا گیا ہے۔ اور وائسرائے نے دعوت قبول کرلی ہے۔ چوں کہ وائسرائے نئے تعمیر ہونے والے نظام گیسٹ ہاؤس کا بھی معائنہ کریں گے۔ اس لئے اس موقع پر بہ حیثیت معطی گیسٹ ہاؤس سرپرست ادارہ آصف سابع کی جانب سے وائسرائے کی آمد کا موزوں الفاظ میں خیر مقدم کیا جائے تو نہایت مناسب ہوگا۔

اس کے علاوہ گیسٹ ہاؤس کی تعمیر کے لئے مزید امدا د منظور کرنے کی بھی درخواست کی گئی۔ اس بارے میں سکریٹری نے لکھا کہ نظام گیسٹ ہاؤس کی تعمیر کے لئے سابق میں تخمینہ تیار کیا گیا تھا اس سے تین ہزار روپیہ کا زائد خرچ اس وجہ سے ہوا ہے کہ یورپی ممالک کے مہمانوں کے قیام میں سہولت کی غرض سے بعض زائد انتظامات کو ضروری خیال کیا گیا نیز اصل تخمینہ میں فرنیچر کے لئے گنجائش نہیں رکھی گئی تھی جس کے لئے مزید تین ہزار روپیہ درکار ہیں۔ اس طرح نظام گیسٹ ہاؤس کے لئے جملہ چھ ہزار روپیہ کی امداد عنایت کی جائے۔
صدر اعظم مہاراجہ سر کشن پرشاد نے اس کاروائی کی تفصیلات اور انسٹی ٹیوٹ کے سکریٹری کی درخواست کا خلاصہ ایک عرضداشت مورخہ 22/جولائی 1933ء کے ذریعہ آصف سابع کی خدمت میں پیش کیا مگر آصف سابع نے اس مرتبہ مزید امداد دینے اور پیام روانہ کرنے کی استدعا منظور نہیں کی۔ عرضداشت پیش ہونے کے دوسرے ہی روز معتمد پیشی نے معتمد باب حکومت کو ایک مراسلہ کے ذریعہ آصف سابع کے حسب ذیل احکام کی اطلاع دی۔
"دونوں امورات سے ہم کو تعلق نہیں ہے۔ جو کچھ ہم کو کرنا تھا وہ کر چکے۔ خاموشی مناسب ہے۔"

گیسٹ ہاؤس کی تعمیر کے لئے مزید امداد کی منظوری نہ ملنے پر اور حکومت ریاست حیدرآباد کی خاموشی اختیار کر لینے پر بھی بھنڈارکر انسٹی ٹیوٹ کے ارباب اقتدار خاموش نہیں بیٹھے۔
چند ماہ بعد انسٹی ٹیوٹ کے آنریری سکریٹری نے ایک درخواست مورخہ 14/فروری 1934ء روانہ کی جس میں استدعا کی گئی کہ نظام گیسٹ ہاؤس کی بقیہ تعمیر کے لئے ڈھائی ہزار اور اس کے فرنیچر کے لئے پانچ ہزار یعنی ساڑھے سات ہزار روپے عطا کئے جائیں۔ اگر یہ امداد منظور نہ کی گئی تو عمارت نامکمل رہ جائے گی۔ انسٹی ٹیوٹ خود اس سلسلہ میں کچھ کرنے کے قابل نہیں ہے کیونکہ وہ اس وقت پینتیس ہزار روپے کا مقروض ہے۔
اس درخواست پر معتمد تعلیمات نے رائے دی کہ اب کوئی رقمی امداد نہیں دی جا سکتی۔ محکمہ فینانس نے لکھا کہ اسے تکمیل عمارت کی بابت ڈھائی ہزار روپے منظور کئے جانے سے اختلاف نہیں ہے مگر باب حکومت نے مزید ساڑھے سات ہزار روپے کی یکمشت امداد دینے کی سفارش کی۔ صدر اعظم نے اس کارروائی کو ایک عرضداشت مورخہ11/سپٹمبر 1934ء کے ذریعہ آصف سابع کے ملاحظہ کے لئے پیش کیا۔ اس بار آصف سابع نے مزید امداد کی منظوری دے دی۔ اس سلسلہ میں آصف سابع کا حسب ذیل فرمان مورخہ 23/سپٹمبر 1934ء صادر ہوا تھا۔

"کونسل کی رائے کے مطابق مذکور انسٹی ٹیوٹ کو مزید ساڑھے سات ہزار روپیہ کلدار یکمشت دیے جائیں لیکن انسٹی ٹیوٹ کے سکریٹری کو اطلاع دی جائے کہ اس کے بعد کوئی مزید امداد نہ دی جائے گی۔"

جیسا کہ اوپر بیان کیا جا چکا ہے کہ مہابھارت کی اشاعت کے لئے دس سال تک ایک ہزار روپے کلدار سالانہ امداد کی منظوری بذریعہ فرمان مورخہ 4/جمادی الاول 1351ھ عمل میں آئی تھی۔ بہ تعمیل فرمان اسی وقت احکام کی اجرائی بھی عمل میں آئی تھی جب یہ دس سالہ مدت ختم ہونے کو تھی تو انسٹی ٹیوٹ کے سکریٹری نے اس کام کی رپورٹ پیش کرتے ہوئے استدعا کی کہ منظورہ امداد کی مدت قریب الختم ہے۔ لہذٰا ادارہ کی ترقی کے مدنظر منظورہ سالانہ امداد میں مزید دس سال کی توسیع منظور فرمائی جائے۔
اس درخواست پر محکمہ فینانس نے رائے دی کہ موجودہ حالات کے مدنظر فینانس کے لئے اس رقم کا زائد از موزانہ نہ فراہم کرنا دشوار ہے۔ اس لئے مناسب ہوگا کہ جو رقم بھی باب حکومت سے منظور کی جائے اس کی ادائی محکمہ تعلیمات یا عثمانیہ یونیورسٹی کے بجٹ سے ہو۔
مجلس اعلیٰ جامعہ عثمانیہ اور صدر المہام تعلیمات نے پانچ سو روپیہ سالانہ کلدار کی امداد دینے سے اتفاق کیا، لیکن کونسل نے سفارش کی کہ جامعہ عثمانیہ کی بچت سے پانچ سو روپیہ کلدار کی امداد سر دست ایک سال کے لئے عطا کی جائے۔ جب صدر اعظم نے تمام کارروائی کی تفصیلات ایک عرضداشت مورخہ 27/جون 1942ء کے ذریعہ آصف سابع کے ملاحظہ اور احکام کے لئے پیش کیں تو انہوں نے مزید امداد کی بھی منظوری دے دی۔ اس بارے میں حسب ذیل فرمان مورخہ 25/رجب 1361ھ م 19/اگست 1942ء جاری ہوا تھا۔
"کونسل کی رائے کے مطابق مذکور انسٹی ٹیوٹ کو مہابھارت کی اشاعت کی غرض سے گنجائش محولہ سے مزید ایک سال تک پانچ سو روپیہ کلدار سالانہ امداد دی جائے اس کے بعد یہ جاری نہیں رہ سکتی۔"

مہابھارت کی اشاعت کے لئے ساڑھے دس ہزار روپے کلدار کی رقم گیارہ سال کی مدت یعنی 1932ء تا 1942ء کے دوران جاری کی گئی تھی۔ یہ رقم اگر آج ادا کی جائے تو آج کی قدرِ زر value of Money کے پیش نظر یقیناً حقیر کہلائے گی لیکن اس دور کے ہزار روپیہ آج کے پچاس ہزار روپیہ تا ایک لاکھ سے کم نہ تھے۔ اس طرح صرف ایک کتاب کی اشاعت کے لئے آج کی قدر زر کے حساب سے لاکھوں روپیہ کی امداد آج کے جمہوری دور کی علم دوستی اور علم و ادب کی سرپرستی کے پیمانوں سے بھی غیر معمولی اور فیاضانہ تسلیم کی جائے گی اور اس فیاضی کی مثال ملک کے کسی دوسرے حصہ میں مشکل ہی سے ملے گی۔

گیسٹ ہاؤز کی تعمیر کے لئے پچیس ہزار روپیہ 1932ء میں اور مزید ساڑھے سات ہزار روپیہ 1934ء میں ادا کئے گئے تھے۔ یہ دوسری عالم گیر جنگ سے پہلے کا دور ہے۔ جہاں تک گیسٹ ہاؤس کی تعمیر کے لئے ساڑھے بتیس ہزار روپیہ کی امداد کا تعلق ہے اس کی اہمیت اور قدر و قیمت کا اندازہ لگانے کے لئے صرف اتنا اشارہ کافی ہوگا کہ حالیہ تین چار دہوں کی مدت میں زمین اور جائیداد کی قدروقیمت میں 100 گنا بلکہ اس سے بھی زیادہ اضافہ کی مثالیں ہمارے سامنے موجود ہیں۔

***
ماخوذ از کتاب: نقوش تاباں (عہدِ آصف سابع)
مصنف: ڈاکٹر سید داؤد اشرف (اشاعت: دسمبر 1994)

Hyderabad Deccan State's donation for the publication of Mahabharat.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں