کرونا سے بھی زیادہ خطرناک - ایک اور وائرس - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2020-05-07

کرونا سے بھی زیادہ خطرناک - ایک اور وائرس

a-virus-more-dangerous-than-corona

جب سے کرونا اور اس سے پہلے NRC کے وائرس پھیلے، ہر شخص کی زبان پر یہی ہے کہ یہ اللہ کا عذاب ہے جو ہمارے کرتوتوں کی وجہ سے آیا ہے۔
آیئے ایک ایسے ہی کرتوت کا جائزہ لیتے ہیں۔ لاک ڈاؤن کے دوران ہونے والی کئی شادیوں کی خبریں آئیں۔ سبھی اس خوش فہمی میں تھے کہ یقیناً یہ شادیاں مکمل سنّت کے مطابق ہوئی ہوں گی، یعنی نہ کوئی منگنی نہ بارات،نہ کوئی ویڈیو گرافی اور نہ بیوٹی پارلر، ہر قسم کے اسراف و تبذیر سے پاک ہوں گی۔ لیکن آپ کو یہ جان کر دکھ ہوگا کہ ان بدترین حالات میں بھی وہ فتنہ ختم نہ ہو سکا جو اللہ کے عذاب کو اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہوئے ختم ہو جانا چاہئے تھا۔
دس شادیوں میں سے ایک یا دو تو ماشااللہ واقعی سنت کے مطابق ہوئیں لیکن 90 فیصد شادیوں میں یہ ہوا کہ لڑکی والوں کا جو پیسہ بارات کے کھانے، جہیز کی خریدی اور منگنی یا دوسری رسمیں نہ ہونے سے بچ گیا وہ پورا کا پورا لڑکے والوں نے نقد کیش یا کسی اور شکل میں وصول کر لیا۔ کرائم وہی رہا صرف طریقۂ واردات بدل گیا۔ لڑکے والوں کی طرف سے لوٹ مار میں کوئی کمی نہیں ہوئی بلکہ دوگنی ہو گئی۔ بے شرمی اور بے غیرتی کی یہ دلیل دی گئی کہ آپ نے بچّی کی شادی کے لئے کچھ نہ کچھ تو بچایا ہی ہوگا، ہمیں کچھ نہیں چاہیئے، بس اپنی بیٹی کو دے دیجئے۔ اس کو ہم کمینگی یا کم ظرفی نہیں کہہ سکتے کیونکہ ایسے گِرے ہوئے الفاظ کا استعمال کسی معیاری اخبار یا جریدہ کے شایانِ شان نہیں، ہاں آپ جو چاہے کہہ لیں۔

لیکن جرم کے قصور وار صرف لڑکے والے نہیں ہیں۔ لڑکی والے، لڑکے والوں سے زیادہ ذمہ دار ہیں۔ رشوت کبھی لینے والوں سے زیادہ نہیں پھیلتی، دینے والوں سے زیادہ پھیلتی ہے۔ جو مجبور یا ضرورتمند ہوتا ہے وہ کتوں کے آگے زیادہ بڑی ہڈی ڈال دیتا ہے۔ لڑکی والے بالخصوص لڑکی کی ماں، خالہ، دادی اور نانی وغیرہ اصل فتنہ ہیں۔ انہیں اپنے بیٹے کامستقبل بنانے سے زیادہ دلچسپی ایک داماد کو خریدنے اور بیٹی کا گھر بھرنے سے ہوتی ہے، چاہے اس کے لئے لڑکی کا باپ قرضوں میں ڈوب جائے، چاہے بھائی کنگال ہو جائے۔ اسی لئے اگر لڑکے والے کوئی جہیز یا نقد رقم لینا نہ بھی چاہیں تو لڑکی والے اصرار کرتے ہیں اور کہتے ہیں یہ تو لڑکی کا حق ہے، اس کا نصیب ہے، لڑکی خالی ہاتھ جائے گی تو لوگ کیاکہیں گے وغیرہ۔

لاک ڈاؤن میں کاروبار بند ہونے کی وجہ سے یوں بھی سب کی معیشت تباہ ہو چکی ہے، لیکن اس سے بھی برا وقت آنے والا ہے۔ خلیجی ممالک کی خبر ہے کہ لاک ڈاؤن کے بعد ہزاروں نوکریاں ختم ہونے والی ہیں۔ اِدھر ملک میں فاشسٹ، مسلمانوں کو نوکریوں سے نکلوانے کی مہم چلا رہے ہیں، تیسرے یہ کہ NRC, NPR کا فتنہ ختم نہیں ہوا، لاک ڈاؤن کے بعد پھر سر ابھارے گا کیونکہ حکومت مکمل ناکام ہو چکی ہے، اور عوام کی توجہ ہٹانے کے لئے اس کے پاس سوائے مسلمانوں کے خلاف نفرت بھڑکانے کے اور کچھ نہیں ہے۔ اس لئے اِس وقت ایک ایک روپیہ سنبھال کر رکھنے کی ضرورت ہے۔

ہم نے کرونا لاک ڈاؤن ریلیف پہنچانے کے سلسلے میں جتنے علاقوں کا دورہ کیا، ایسے ایسے افسوسناک واقعات دیکھے کہ سر شرم سے جھک گیا۔ مسلمانوں کی غربت و افلاس تو پورے عروج پر ہے ہی، گھروں میں جوان لڑکیاں بیٹھی ہیں جو شادی کی عمر سے تجاوز کر رہی ہیں لیکن ماں باپ ان کی شادی کی استطاعت نہیں رکھتے۔ Middle class اور poor class ساری شادیوں میں پیسہ برباد کر کے تباہ حال ہیں۔ ایسے وقت میں اگر مسلمان مرد، حقیقی مرد بن جاتے تو ایک بدترین مصیبت مسلمانوں کے سر سے ٹل سکتی تھی، لیکن جس طرح سامان کی ذخیرہ اندوزی Hoarding کرنے والے یا شراب بیچنے والے لاک ڈاؤن کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہیں اور قیمتیں بڑھا کر خوب کماتے ہیں، بالکل اسی طرح لاک ڈاؤن کا فائدہ اٹھا کر لڑکے والوں نے بھی اپنے ریٹ اچانک بڑھائے ہیں۔ سیدھے سیدھے یہ کہہ رہے ہیں کہ شادی ملتوی کیجئے، یا پھر ایسے اشارے دیتے ہیں کہ نقد رقم بڑھایئے۔

دہلی فسادات ہوں کہ دہشت گردی کے کئی دیگر واقعات، جتنے غنڈے ہیں سارے کے سارے آزاد گھوم رہے ہیں، کیوں؟ کیونکہ ان کے پاس Power ہے۔ اور یہ انسانی نفسیات ہے کہ جب پاور ہاتھ میں ہوتا ہے تو انسان کمزوروں کا استحصال Exploitation کرتا ہے۔ لیکن دوسروں پرانگلی اٹھانے سے پہلے ذرا ہم خود اپنے دامن میں جھانکیں:
  • کیا ہم RSS/BJP کے غنڈوں سے کم ہیں؟ 
  • کیا ہم "لڑکے والے" ہونے کا پاور استعمال کر کے لڑکیوں پر ظلم نہیں کر رہے ہیں؟ 
  • منگنی کا کھانا، جہیز، بارات کا کھانا اور جوڑے کی رقم وصول کرنے کا Power جو ہمارے باپ دادا سے وراثت میں ملا ہے جس کو سماج اور رسم و رواج کا مکمل Endorsement ملا ہوا ہے، کیا ہم یہ بھرپور استعمال نہیں کر رہے ہیں؟ 
  • اگرچہ کہ یہ ایک بھیک اور سوشیل بلیک میل ہے لیکن ہم تسلیم نہیں کرتے کہ ہم بھیک اور جہیز کی رشوت کھاتے ہیں۔ اسے حلال سمجھ کر کھاتے ہیں، اور کھانے والوں کو مبارکباد پیش کرتے ہیں۔ ایک طرف کہتے ہیں کہ ہمیں کچھ نہیں چاہئے لیکن دوسری طرف "خوشی سے دینے اور لینے" کے نام پر سب کچھ وصول کرتے ہیں۔ کیا یہ جھوٹ اور منافقت نہیں ہے؟
اس لوٹ میں لڑکوں کی مائیں، دادیاں اور نانیاں ساری شامل ہوتی ہیں، اگر ان کی توقعات سے ذرا سا بھی کم ملے تو آنے والی بہوؤں کی زندگی اجیرن کر ڈالتی ہیں۔ یہ ہے ہمارے "مرد" ہونے کے Power کا استعمال۔ اب ہم کس منہ سے مودی، یوگی یا امیت شاہ پر Power کو غلط استعمال کرنے کا الزام دے سکتے ہیں؟

ایسے وقت میں علما اور مشائخین کی بہت بڑی ذمہ داریاں ہیں۔ ہم ان سے انتہائی مودّبانہ درخواست کرتے ہیں کہ جس طرح آپ نے کرونا وائرس کو ختم کرنے کے لئے فتوے دیئے، مصافحہ، ملنے ملانے اور ہر قسم کی سوشیل Gathering پر شرعی طور پر روک لگانے کے جواز پیش کئے۔ حتی کہ نمازِ باجماعت، جمعہ، تراویح، شبِ قدر اور دعوت افطار کو تک سختی سے روک دیا اور مسجدوں پر تالا ڈلوا دیا۔ قرآن و حدیث اور سنت سے دلائل پیش کئے۔ آپ نے غلط کچھ نہیں کیا۔ جو بھی کیا وہ نہ صرف حکومت کی مدد کے لئے تھا بلکہ عوام کی صحت اور بھلائی کے لئے ہی تھا۔ اس لئے آپ کی تحقیق اور بیان وقت کی اہم ترین ضرورت تھی، بلکہ اسلام کی عصرِ حاضر میں صحیح ترجمانی تھی، ماشااللہ۔
لیکن یہ بھی غور فرمائیں اگر کرونا سے لوگ مر رہے ہیں، اس لئے اس کے تدارک کے لیے یہ فتوے جاری کرنا ضروری تھا، تو یہ بھی دیکھئے کہ ایک اور وائرس ایسا ہے جو کرونا سے بھی کہیں زیادہ خطرناک ہے۔ Covid-19 سے مرنے والوں کا تناسب صرف 3٪ ہے، کرونا کے Fatatlity rate یعنی مرنے والوں کے تناسب کو سامنے رکھئے اور اس وائرس کی وجہ سے مرنے والوں یا متاثر ہونے والوں کے تناسب کو سامنے رکھیے، آپ دنگ رہ جائیں گے۔
جس کرونا کی وجہ سے تقریباً دو مہینے کا عرصہ مکمل لاک ڈاؤن کرنا پڑا، پورے ہندوستان میں آج کی تاریخ تک مرنے والوں کی تعداد 1200 ہے، اور ساری دنیا میں مرنے والوں کی تعداد 2.5 لاکھ ہے۔ جب کہ جس وائرس کی بات ہم کر رہے ہیں اس کی وجہ سے ہر سال 2 لاکھ لڑکیاں ماؤں کے پیٹوں میں ہی ماردی جاتی ہیں۔
National Crime Records Bureau (NCRB) کی رپورٹ جو گوگل پر موجود ہے، اس کے مطابق ہر روز مرنے والی یا مار دی جانے والی لڑکیوں کی تعداد 21 ہے، یعنی ہر سال 7665 لڑکیاں اپنی جان گنواتی ہیں اور ہر روز 150 لڑکیاں اسی وائرس کے نتیجے میں جو Domestic violence ہوتا ہے اس میں زخمی ہو جاتی ہیں۔ یعنی سالانہ 54,750 عورتیں زخمی ہوتی ہیں۔
ابورشن یعنی اسقاط حمل اسلام میں بھی حرام ہے اور انڈین قانون کے تحت بھی جرم ہے، لیکن اپنے شہر کے کسی بھی Maternity Home کے کسی ملازم کے ہاتھ میں ایک دو ہزار روپئے رکھ کر پوچھئے، وہ اندر کے راز بتادے گا کہ ہر روز کتنے حمل گرا دیئے جاتے ہیں۔ اس وائرس کی وجہ سے ہر روز فحاشی Prostitution پر مجبور ہونے والی لڑکیوں کی تعداد ہزاروں میں ہے۔ اس وائرس کا نام ہے "شادیاں"۔

علما بھی، مشائخین بھی اور ہم بھی کرونا وائرس کو روکنے کی ہر طرح تلقین اور تبلیغ کر رہے ہیں، لیکن سوال یہ ہے کہ اس شادیوں کے وائرس کے خلاف ہم کیا کررہے ہیں؟ ہمارے علما کیا کر رہے ہیں؟ جس طرح علما اور مشائخین نے کرونا کو ختم کرنے کے لئے ہر طرح کی Social and Religious distancing یعنی کسی بھی قسم کے سماجی یا مذہبی اجتماع کے خلاف جواز پیش کیا ہے، شادیوں سے پیدا ہونے والی بربادیوں کے وائرس کو ختم کرنے کے لئے آپ ایسی شادیوں سے مکمل Distancing یعنی مکمل بائیکاٹ کا فتویٰ کیوں نہیں دے سکتے؟
جبکہ قرآن و حدیث میں ایسی غیرشرعی اور خلاف سنّت تقریبات و رسومات پر مبنی شادیوں کے حرام ہونے اور ان کا بائیکاٹ کرنے کے پورے پورے احکامات موجود ہیں، اگر اس میں آپ کو کوئی شک ہو تو ہمیں واٹس اپ کیجئے ہم پورے دلائل فراہم کر سکتے ہیں۔ کرونا وائرس نے کم از کم ایک سبق تو سکھایا ہے کہ کسی بھی مہلک وبا سے بچنے کا پہلا Effective طریقہ یہی ہے کہ جہاں جہاں یہ وائرس پیدا ہو سکتا ہے ان سے دور بہت دور رہو۔ برسہا برس سے جہیز اور بارات کے خلاف تقریریں اور وعظ بہت ہو چکے، مضامین اور کتابیں بہت لکھ چکے، اب ایسے مریضوں سے مکمل دوری اختیار کر لینے کا وقت آ چکا ہے۔

یہ ہو سکتا ہے کہ خود آپ علما اور مشائخین کی گھروں کی شادیاں اسی وائرس سے متاثر ہوئی ہوں، یہ ہوسکتا ہے کہ آپ ایسی غیرشرعی رسومات والی شادیوں میں شرکت کرتے آرہے ہوں، لیکن کم از کم قرآن و حدیث میں ایسی شادیوں میں شرکت کے تعلق سے جو واضح احکامات موجود ہیں ان کو بیان کرنا تو آپ پر فرض ہے، محض اپنے اوپر حرف آجانے کے خوف سے یا بڑے لوگوں کے ناراض ہوجانے کے خوف سے بائیکاٹ کے احکامات کو کھول کھول کر بیان نہ کرنا کتمانِ حق Hiding the truth ہے۔

ان شادیوں کے وائرس کی وجہ سے ہونے والی اخلاقی اموات Moral deaths بلکہ اخلاقی خودکشیوں Moral suicides کا اندازہ لگایئے۔ اس کے سامنے کرونا کی کوئی حیثیت ہی نہیں۔
حل ایک ہی ہے اور وہ یہی کہ جس طرح Covid-19 کے مریضوں سے ملنا تو درکنار، اگر وہ مرجائیں تو ان کی میّت کا بھی آپ بائیکاٹ کر رہے ہیں، قبرستانوں میں ایسی میّت کی تدفین کی بھی اجازت نہیں دے رہے ہیں، بالکل اسی طرح جو لوگ معاشرے کو برباد کرنے والی، ان شادیوں کے وائرس کا شکار ہیں، ان لوگوں کا بھی بائیکاٹ لازمی ہے۔ ورنہ کل یہ معاشرہ اخلاقی اور مالی طور پر تباہ ہونے والا ہے۔ اگر آج کوئی گھر فروخت کرکے یا بھیک یا قرض مانگ کر آپ کو اپنی بیٹی یا بہن کی شادی کی دعوت دے رہا ہے اور آپ پورے شوق سے جا رہے ہیں تو یاد رکھیئے کل آپ کو بھی اپنا گھر فروخت کرنا پڑے گا یا اپنے بیٹے کو کنگال کرکے داماد کو خریدنے کے لئے مجبور ہونا پڑے گا۔
جو لوگ نبی ﷺ کی نکاح کی سنّت کے بائیکاٹ پر ضد اور ہٹ دھرمی پر اڑے ہوئے ہیں، اور آپ کو دعوت نامہ دینا چاہتے ہیں، یہ لوگ سنّت کے دشمن ہیں، ان کا رقعہ قبول کرنا تو درکنار ان سے مصافحہ کرنا، ان کی رسومات میں شرکت کرنا، مبارکباد دینا، ان لوگوں کا کھانا چکھنا حتی کہ اگر یہ مر بھی جائیں تو ان کی میّت میں جانا ایک خوددار، سمجھدار اور شریعت کے پاسدار مسلمان کے لئے باعثِ شرم ہے۔

اللہ کے نبی ﷺ نے فرمایا تھا کہ سب سے بہترین نکاح وہ ہے جو سب سے آسان اور کم خرچ ہو۔ اس کا مطلب یہ بھی نکلتا ہے کہ سب سے بدترین نکاح وہ ہے جس میں فضول خرچ ہو، وہ رسمیں ایجاد کی گئی ہوں جو نہ ہمارے نبی ﷺ کی کسی شادی میں، نہ ان کی صاحبزادیوں کی شادیوں میں اور نہ کسی صحابیؓ کی شادیوں میں تھیں۔
ایسی شادیوں میں شرکت کرنے والے اصل وائرس کو پھیلانے والے لوگ ہیں۔ ایسے شرکت کرنے والوں سے بھی دور رہنا ایسا ہی ضروری ہے جیسے کرونا کے مریض کے قریبی رشتہ داروں سے بھی دور رہنا ضروری ہے۔ انہی لوگوں کی وجہ سے آج امت پر یہ عذاب آیا ہے، اور اسی کا نتیجہ ہے کہ آج BJP/RSS کے غنڈہ عناصر پوری قوم کو ہر طرح سے ذلیل کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔

***
ڈاکٹر علیم خان فلکی
صدر سوشیو ریفارمس سوسائٹی، حیدرآباد
aleemfalki[@]yahoo.com
موبائل : 09642571721
ڈاکٹر علیم خان فلکی

Another Virus, Even more dangerous than Corona. Article by: Dr. Aleem Khan Falaki

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں