کون جیتا ہے تیری زلف کے سر ہونے تک
مودی سرکار سے دھوکہ کھاتے ہوئے تین سال گزر چکے ہیں۔ مودی نے اپنے وعدے میں یہ بھی کہا تھ اکہ کسانوں کو ان کی لاگت پر پچاس فیصد کی واپسی ملے گی ۔ انہوں نے کہاتھا کہ لال بہادرشاستری نے جے جوان جے کسان کا نعرہ دیا تھا لیکن اس نعرے کو آج تک عملی جامہ نہیں پہنایا گیا اور اقتدار میں آنے کے بعد ان کی سرکار لال بہادر شاستری کے خواب کو شرمندہ تعبیر ضرور کرے گی۔مودی کے اقتدار میں آنے کے بعد شاستری جی کے خواب تو شرمندہ تعبیر ہوتے نظر نہیں آرہے ہیں لیکن ایک حیرت انگیز چیز جو اس سرکار میں نظر آرہی ہے وہ یہ کہ جوانوں کی سرحد پر اور کسانوں کی کھیتوںمیں موت ہورہی ہے لیکن ان کی خبر لینے کے بجائے سرکار اس کو سیاسی رنگ دینے پر تلی ہوئی ہے اور کسی بھی طرح اس مسئلہ کے حل کے لئے وہ قطعی سنجیدہ نظر نہیں آرہی ہے ۔ فصلوں کی واجب قیمت نہ ملنے کے سبب کسان ناراض ہیں،مودی سرکار کے منصوبوں کے سبب کسانوں کی خود کشی کی تعداد میں جس قدر تیزی سے اضافہ ہوا ہے وہ دنیا میں کھیتی کی قیادت کرنے والے ملک ہندوستان کے لئے انتہائی شرم کی بات ہے اور اگر اس کو اپوزیشن نے متحد ہوکر روکنے اور سرکار کو بے نقاب کرنے کی کوشش نہیں کی تو حالات مزید تباہ کن ہوسکتے ہیں ۔ مجھے یہ کہنے اور لکھنے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں ہے کہ جو لوگ اے سی کے بند کمروں میں بیٹھ کر کسانوں کے لئے منصوبے بنارہے ہیں اور ان کے منصوبوں کے سبب کسان خود کشی کرنے کے لئے مجبور ہیں اگر انہوں نے خود کو زمین سے جوڑ کر کسانوں کے لئے بہتر فیصلے نہیں کئے تو وہ دن دور نہیں کہ ان کو اپنی بھی روزی اور روٹی کے لالے پڑ جائیں گے اور اے سی کمرے بھی نصیب نہیں ہوں گے ۔ کسان بے صبری سے انتظار کررہے ہیں کہ فارمر کمیشن کی سفارشات نافذ ہوں تاکہ اس کا ان کو واجب فائدہ مل سکے ۔ برسوں سے سوامی ناتھن کمیشن کی سفارشات کسانوں کے حق میں نافذ کرنے کا مطالبہ ہورہا ہے لیکن مودی سرکار اس پر غور کرنے کے لئے سنجیدہ تو دور کی بات جس طرح کا مذاق ان کے وزراء اور سرکاء میں بیٹھے لوگ کسانوں کا اڑا رہے ہیں وہ اس بات کی دلیل ہے کہ ان کی نیت اور نیتی دونوں کسانوں کے لئے بہتر نہیں ہیں اور یہ لوگ بھارت کو بارود کے اس ڈھیر کی طرف دھکیل رہے ہیں جو بھارت کی روح کو ختم کردے اور اپنے بعد آنے والی سرکاروں کے لئے وہ ایسی مشکلات کھڑا کررہیں کہ وہ صدیوںمیں اسے درست نہ کرپائے ۔ بابائے قوم مہاتما گاندھی نے کہا تھا کہ بھارت کا دل گاؤں میں بستا ہے ۔ گاؤں میں ہی خدمت اور جدو جہد کی مثال کسان بستے ہیں ۔ یہ کسان ان لوگوں کی روزی اور روٹی کا ذریعہ ہیں جو شہروں میں بستے ہیں۔ گاندھی جی نے گاؤں کی ترقی کو بھارت کی ترقی سے جوڑتے ہوئے کہا تھا کہ بھارت کی ترقی کے لئے گاؤں کی ترقی نہایت ضروری ہے ، لیکن بد قسمتی کی بات ہے کہ بھارت دیہاتوں کا ملک ہونے کے باوجود اور بھارت کی روح دیہات اور کسانوں میں بسنے کے باوجود آج کسان اپنے بیٹے کو اچھے اسکول اور کالجز میں پڑھانے سے قاصر ہے ۔ سرکاری اسکولوں کی قابل رحم حالت ہونے اور تعلیم سے لے کر صحت اور پینے کا پانی تک ہر چیز کے پرائیویٹائزیشن ہونے سے کسانوں کی حالت انتہائی ناگفتہ بہ ہوگئی ہے۔ آپ ذرا تصور کریں کہ ایک کوئنٹل اوسط درجہ کا چاول فروخت کرنے کے بعد بھی کسان دہلی سے لکھنو جانے والے سورن شتابدی ٹرین کا سفر نہیں کرسکتا ہے جب کہ ایک کوئنٹل چاول میں کم و بیش400لوگ آرام سے کھانا کھاکر اپنا پیٹ بھر سکتے ہیں۔ ایک طرف ریل کا کرایہ اور دوسری طرف بوائی ، کٹائی ، بیٹھوائی، نرائی، کھاد بیج اور اس کے بعد پھر کٹائی پھر اس کو سکھانے اور کٹوانے کے بعد دھان کو چاول بنانے میں کسان کو کتنی محنت کرنی پڑتی ہے اور اس کی چیزوں کی قیمت کتنی سستی ہے ، اس کا اندازہ خود آپ لگا کر کچھ وقت کے لئے ضرور سنجیدگی سے غور کرئے گا۔ شاید آپ کسی نتیجہ پر پہنچیں گے اور آپن بھی کچھ وقت کے لئے کسان اور اس کے بچوں کے بارے میں سوچیں گے ۔
ایک رپورٹ کے مطابق کسانوں کی خود کشی کے زیادہ تر وقعات گرین ریولوشن بیلٹ یا بی جے پی اقتدار والی ریاستوں میں سامنے آرہے ہیں ، جس میں مہاراشٹرا، آندھرا پردیش ، مدھیہ پردیش اور پنجاب شامل ہیں، تاہم اچھی بات یہ ہے کہ پنجاب کی موجودہ سرکار نے کسانوں کے لئے بہتر فیصلہ لینے کی سمت میں کچھ قدم آگے بڑھائے ہیں۔ اس بات کو ہم سب بخوبی جانتے ہیں کہ گرین ریولوشن کا آئیڈیا کسانوں کی حالت بہتر کرنے کے لئے ہی عمل میں آیا تھا۔ ایک رپورٹ کے مطابق بھارت ایک ایک ایسا ملک ہے جس کی 70فیصد آبادی بالواسطہ یا بلا واسطہ زراعت پر منحصر ہے ۔ لیکن اگر2014کے اعداد و شمار کو دیکھیں تو پتہ چلتا ہے کہ5650کسانوں نے خود کشی کی ہے، جس سے سرکار کے منصوبوں کا اندازہ بخوبی لگایاجاسکتا ہے ، اس لئے ضروری ہے کہ سرکار کو پوری قوت کے ساتھ بے نقاب کیاجائے اور اس پر اپوزیشن ایک بار پھر سر جوڑ کر بیٹھے ۔
(مضمون نگار کٹیہار لوک سبھا سے رکن پارلیمنٹ اور آل انڈیا قومی تنظیم کے قومی صدر ہیں۔)
Farmers' problems need to be raised on national level. Article: Tariq Anwar
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں