جرمنی میں 6 ماہ کے دوران مساجد اور اسلامی مراکز پر 23 حملے - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2015-08-18

جرمنی میں 6 ماہ کے دوران مساجد اور اسلامی مراکز پر 23 حملے

برلن
رائٹر
جرمنی میں سال رواں کی پہلی ششماہی کے دوران سیاسی وجوہات کی بنا پر مسلمانوں کی مساجد اور دیگر اسلامی مراکز پر مجموعی طور پر23حملے کئے گئے یہ بات وفاقی جرمن پارلیمنٹ کے ارکان کو ایک سوال کے جواب میں بتائی گئی ۔ ملکی دارالحکومت برلن سے موصولہ رپورٹس میں جرمن جریدہ دی ویلٹ کی ہفتہ کی اشاعت کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ جرمنی میں مسلمانوں کی عبادت گاہوں اور دیگر سماجی اور ثقافتی مراکز پر اس سال یکم جنوری سے لے کر30جون تک کے عرصہ میں کئے گئے حملوں سے متعلق یہ تفصیلات وفاقی حکومت کی طرف سے بتائی گئیں ۔ اس بارے میں بنڈس ناگ کہلانے والے ایوان زیریں میں وقفہ سوالات کے دوران ایک سوال بائیں بازو کی سیاسی جماعت دی لنکے کے پارلیمانی حزب کی طرف سے پوچھا گیاتھا ۔ جرمن پارلیمنٹ میں وفاقی حکومت کی طرف سے پیش کردہ اعدا د و شمار کے مطابق اس سال کے پہلے6ماہ کے دوران ہی مبینہ طور پر جرمنی کی اسلامائزیشن کے خلاف مختلف شہروں میں64ایسے احتجاجی مظاہروں اور ریالیوں کا اہتمام بھی کیا گیا جن کے یاتو منتظم دائیں بازو کے انتہا پسند عناصر تھے یا پھر جو ایسے عناصر کے اثر و رسوخ کی وجہ سے ممکن ہوئے تھے۔ جرمنی میں مسلمانوں کی رابطہ کونسل ، ملکی پولیس کی وفاقی ٹریڈ یونین اور بائیں بازو کی جماعت دی لنکے کی داخلہ سیاسی امور کی پارلیمنٹی ترجمان خاتون اولا سلیپکے نے مطالبہ کیا ہے کہ ملک میں سیاسی وجوہات کی بنا پر مسلمانوں کے خلاف ایسے جرائم کو آئندہ اسلام دشمنی پر مبنی واقعات کے طور رپ رجسٹرڈ کیا جائے ۔ جرمن پولیس کی ٹریڈ یونین جی ڈی پی کے وفاقی سطح پر نائب سربراہ ورگ راڈیک کے بقول مسلمانوں کے خلاف ایسے جرائم یا پر تشدد واقعات کو سیاسی پس منظر میں دیکھنے کی بجائے اسلام دشمنی کے تناظر میں دیکھنے سے یہ تبدیلی آئے گی کہ ملک میں اس تعلق سے صورتحال کا درست اندازہ لگانے میں آسانی ہوگی۔ ورگ راڈیک نے دی ویلٹ کو بتایا کہ اس طرح یہ بھی پرکھا جاسکے گا کہ آیا ملک میں ایسے مجرمانہ اور قابل سزا مسلم مخالف واقعات میں اضافہ ہورہا ہے ۔ دی لنکے کی داخلہ سیاسی امور کی پارلیمنٹی ترجمان اولا یلپکے نے بھی اس بارے میں کہا ہے کہ جب تک اسلام دشمنی پر مبنی واقعات سے متعلق اعداد و شمار کو سیاسی وجوہات کی بنا پر پیش آنے والے مجرمانہ نوعیت واقعات سے الگ کرکے ریکارڈ نہیں کیاجاتا ، تب تک جرمن معاشرہ میں اسلام دشمنی پر مبنی جرائم کا شماریاتی حوالہ سے درست اندازہ لگانا ممکن نہیں ہوگا ۔ اس موضوع پر جرمن پارلیمنٹ میں جو اعداد و شمار پیش کئے گئے ، ان کی ذمہ دار وہ وزرائے داخلہ کانفرنس ہے جو وفاقی وزیر داخلہ کے علاوہ ملک کے تمام16صوبائی وزرائے داخلہ پر مشتمل ہوتی ہے ۔ یہ کانفرنس اب تک جو اعداد و شمار جمع کرتی ہے ان میں صرف مساجد یا اسلامی تنصیبات و مراکز پر حملوں اور ان اسلام دشمن مظاہروں اور ریالیوں کا ریکارڈ رکھاجاتا ہے جو دائیں بازو کے شدت پسندوں یا ان کے اثرورسوخ کی وجہ سے ممکن ہوئے ہوں۔

--

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں