نہ کھلتے راز سربستہ نہ یوں رسوائیاں ہوتیں - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2014-09-01

نہ کھلتے راز سربستہ نہ یوں رسوائیاں ہوتیں

bjp-and-love-jihad-propaganda
بی جے پی نے ہمیشہ ہی مذہبی جذبات کا کھلواڑ کر کے اقتدار کا مزہ چکھا ہے ، وہ ہر موقع سے الیکشن سے پہلے مسلمانوں کے خلاف ہندوبردران وطن کو صف بستہ کرنے کی پالیسی اختیار کرتی ہے ، دونوں کو برسرِ پیکار کر کے خود اقتدار کے مزے لوٹتی ہے ، اب جب کہ بی جے پی برسر اقتدار ہے اور اس وقت خصوصا اترپردیش میں بے شمارچھوٹے بڑے پیمانہ پر آئے دن فرقہ وارانہ فسادات روز کا معمول بن چکے ہیں ، اب کچھ ریاستوں کے اسمبلی انتخابات اور کچھ ضمنی انتخابات قریب تر آتے جارہے ہیں ، مودی جس نعرہ کے ساتھ بر سر اقتدار آئے تھے ، وہ نعرہ ترقی کا نعرہ تھا، اس غبارہ کی ہوا اترتی نظر آرہی ہے ، مودی نے 100 روزہ ترقیاتی پروگرام بھی تشکیل دیا تھا، مودی حکومت کے سودن پر گذر چکے ؛ لیکن یا تو اب تک عوام نے کوئی نئی تبدیلی نہیں دیکھی، ریل کے کرایوں میں اضافہ وغیرہ چند ایک مہنگائی والے اقدام تو عوام نے دیکھے ہیں ، لیکن جس ترقی اور معاشی استحکام، اچھے دن آنے والے ہیں کی بات تھی ، اب تک تو کچھ ایسا ہوتا نظر نہیں آرہا، بلکہ اب تو مودی جی کے نام پر جو بی جے پی بر سر اقتدار آئی تھی، اب مودی جی کا جادو بھی کمتر ہوتا جارہا ہے ، بہار اور کرناٹک کے ضمنی انتخابات نے برسر اقتدار حکومت کے تعلق سے عوام کے رجحانات کا پتہ دینا شروع کردیا ہے ، اگر بی جے پی اپنے پرانی روش اور ڈگر پر گامزن رہتی ہے اور عوام سے کئے گئے ترقی کے وعدے محض کاغذی وعدے یا زبانی جمع خرچ ثابت ہوتے ہیں ، ملک کی عوام اس ملک کی تقدیر کو کسی اور پارٹی کے حق میں دینے میں دیر نہیں کرے گی، ایک طرف برسر اقتدار حکومت نے کوئی ترقیاتی ٹھوس قدم تو نہیں اٹھایا ؛ البتہ یہ ضرور ہو اہے کہ چھوٹے بڑے پیمانہ پر فسادات کو ہوا دینے میں شرپسند عناصر بی جے پی کے برسر اقتدار آتے ہی جری ہوگئے ہیں ، آر یس یس کے سرابرہ مومن بھاگوت کے بیانات ہوں یا پروین توگڑیاں زہر آلود تیر ونشتر یہ سارے کے سارے بر سر اقتدار حکومت کے زور پر چلائے جارہے ، متنازعہ اور بین مذہبی اختلافا ت کو ہوا دینے والے امور کا ایک تانتا بندھا ہوا ہے جو کسی صورت میں نہیں تھمتا، ابھی ابھی ’’لوجہاد‘‘ کا نعرہ پورے زور وشور سے بلند کیا گیا ، ہندوستان کی گنگاجمنی تہذیب ، انواع واقسام کے مذاہب اور ذات پات کے لوگوں کے بیچ خلیج پیدا کرنے کے لئے مختلف تدبیروں اور پر مکر وفریب نعروں کا سہارا لے کر ہندوستان کے بقاءِ باہم اور اتحاد اور مذہبی رواداری کو ختم کرنے کی کوشش کی گئی ، چنانچہ ہندوستان کی امن وامان کی فضا کو مکدر کرنے کے لئے یہ کارڈ کھیلا گیا کہ ’’لوجہاد ‘‘ کا نعرہ دیا گیا ، یعنی یہ باور کرانے کی کوشش کی گئی مسلمانوں کی جانب سے ہندو لڑکیوں کو دام محبت میں گرفتار کر کے ان سے شادی رچا کر ان کو بجبر تبدیلی مذہب پر مجبور کیا جارہے ، یہ نعرہ اس سے چند سال قبل کرناٹک اور کیرالا وغیرہ میں لگایا گیا، ہندوستان جیسے ملک میں جہاں مخلوط تعلیم کا ماحول ہے ، اسکولوں اور یونیورسیٹوں میں لڑکے اور لڑکیوں سے باہم اختلاط کی وجہ سے بین مذہب شادیاں ایک عام رواج بن گیا ہے ، لیکن اس بین مذہب شادیوں کے جواز وعدم جواز سے ہٹ کر یہ کہنا کہ اور مسلمانوں کو یہ الزام دینا کہ باضابطہ تنظیمی طور پر اس طرح کیا جارہے اور بجبر واکراہ غیر مسلم لڑکیوں کو دام محبت میں گرفتار کر کے ان کا تبدیلی مذہب کیا جارہے ، اس کے لئے خصوصا میرٹھ کے کی ایک ہندو لڑکی جو معاشی بدحالی کی وجہ سے ایک مدرسہ میں بحیثیت ٹیچر تدریس کی خدمات انجام دے رہی تھی، ا س کے ایک استاذ کے برضا ورغبت معاشقہ کے واقعہ جبر واکراہ اور تبدیلیْ مذہب کے مذموم کوشش باور کراکے ماحول کو مسموم کرنے کی کوشش کی گئی ، جس کی قلعی کھل گئی اور حقیقت واشگاف ہوگئی اور لڑکی کا بے جا الزام اور خصوصامدارس کو بدنام کرنے کی سازش کا پردہ فاش ہوگیا، ویسے مذہب اسلام میں کسی کو بھی بجبر واکراہ اسلام میں داخل کرانے کی اجازت ہی نہیں ، جب تک کوئی شخص برضا ورغبت دائرہ اسلام میں داخل نہیں ہوتا ؛ وہ مسلمان ہی گردانا نہیں جاتاتو تبدیلی مذہب کے جبر واکراہ کا کیا معنی، اس کے علاوہ اسلام تو غیر عورتوں کو تو چھوڑئیے مسلم محارم کے علاوہ اجنبی عورتوں پر نگاہ ڈالنے تک کی ممانعت کرتا ہے ، تو وہ کیوں کر عشق ومعاشقہ کے غلط کاریوں کی اجازت دے سکتا ہے ، یہ سب ایک سوچی سمجھی شازش کے تحت کیا جارہا ہے کہ کسی بھی طرح ماحول کو مسموم اور زہر آلود کر کے اپنی سیاسی دکان چمکائی جائے اوراقتدار کے مزے لوٹے جائیں، اس تعلق سے جو پروپیگنڈے اور ’’لوجہاد ‘‘ کے نام سے مختلف کہانیاں گڑھی گئی اور یوٹیوب وغیرہ پر برقع پوش خواتین کو پیش کیا گیا جو کہ ہندو تھیں اور انہیں مذہب اسلام میں بجبر واکراہ داخل گیا، اس غلط ذہن سازی اور منافرانہ ماحول کو فروغ دینے کے لئے نہ صرف الکٹرانک میڈیا ٹی وی انٹر نیٹ وغیرہ کا سہارا لیا گیا کہ؛ بلکہ پرنٹ میڈیا کے ذریعہ بھی اس غلط پروپیگنڈہ کو ہوا دینے کی کوشش کی گئی، ، پمفلٹ ، پوسٹروں اور کتابچوں کی شکل میں بھی اس مذموم کوشش کو فروغ دینے کی کوشش کی گئی، لیکن جب یہ پروپیگنڈہ منظر عام پر آیا اور شرپسند عناصر کی جانب سے اس طرح کی غلط ذہنیت کو فروغ دینے کی کوشش کی گئی تو اردو اخبارات ورسائل میں ایک فہرست ان شدت پسند عناصر کی شائع کی گئی جو ہر دم ہندوا توا کا راگ الاپتے ہیں اور ہندوستان کی پرامن فضاء کو مکدر کرنے کی کوشش کرتے ہیں ، انہوں نے اپنی لڑکیوں کو مسلمانوں سے بیاہیاہوا ہے ، اس طرح مختلف سرکردہ شدت پسند تنظیموں کے سربراہوں کی لڑکیوں کی مسلمانوں کے ساتھ برضا ورغبت شادی رچانے کی بات سن کر تو یوں لگتاہے، چلے تھے مسلمانوں کو بدنام کرنے خود ہی کی قلعی کھل گئی اور خود ہی بھرے بازار سوا ہوگئے ، جب ان کو مسلمان لڑکوں سے اس قدر نفرت ہے تو انہوں نے اپنی لڑکیوں کا نکاح مسلمانوں کے ساتھ کیوں رچایا، ہندو تنظیموں کے سربراہ اور اپنے آپ کو ہندو مذہب کے تعلق حد سے زیادہ عقیدت اور لگاؤ کا دعوی کرنے والے پہلے ’’لوجہاد‘‘ کا نعرہ لگانے سے پہلے اپنے گھر کی خبر لیں کہ تمہاری لڑکیوں کو بیاہ تم نے برضا ورغبت مسلمانوں سے کیوں کروادیا، جب تمہیں یہ احساس نہیں ہوچلا تھا کہ اس سے مسلمانوں کی آبادی میں اضافہ ہوگا ، اعداد وشمار کی زیادتی کی وجہ سے مسلمان برسر اقتدار آجائیں گے جو غلط پروپیگنڈہ جو تم اس وقت کر رہے ہو۔
چنانچہ وشو ہند پریشد کے لیڈر اشوک سنگھل نے اپنی بیٹی کی شادی مختار عباس نقوی سے کروائی ہوئی ہے ، مرلی منوہر جوشی نے اپنی بیٹی کی شادی شاہنواز حسین سے کی ہوئی ہے ، مودی کی بھتیجی کی شادی بھی ایک مسلم نوجوان سے ہوئی ہے ، لال کرشن اڈوانی کی بیٹی پرتیبھا اڈوانی نے دوسری شادی مسلم سے کی ہے ، سبرانیم سوامی نے اپنی بیٹی سہانی سوامی کی شادی ایک مسلم نوجوان حیدر ندیم سے کی ہے ، شیوسینا کے سربراہ بال ٹھاکرے نے اپنی پوتی نیہا ٹھاکرے کی شادی مسلم نوجوان سے کی ہے ، پروین توگڑیا جو مسلمانوں کے خلاف زہر اگلنے میں ہراول دستے میں رہتے ہیں انہوں نے اپنی بہن کی شادی ایک مسلم نوجوان سے کی ہوئی ہے اور ان کے تعلقات اپنی بہن کے ساتھ برابر اور بدستور قائم اور استوار ہیں ۔ یہ ’’لوجہاد ‘‘ کا نعرہ لگانے سے قبل اپنے گریبان جھانک لیتے تو اس طرح کے غلط پروپیگنڈہ کا سہارا لینے سے گریز کرتے۔
اس کے علاوہ بات ایک طرف کی نہیں ہے ، جس طرح ہندو لڑکیاں مسلمان لڑکوں کے دام محبت میں گرفتار ہو کر نکاح کر رہی ہیں تو اس کو ’’لوجہاد‘‘ کا نام دیا جارہاہے ، آئے دن ایسے بے شمار واقعات پیش آتے ہیں کہ مسلم لڑکیاں ہندو لڑکوں کے محبت میں پھنس ان سے شادی رچاتی ہیں تو اس کو کیا نام دیا جانا چاہئے ، ایسے بھی بے شمار مثالیں ہیں کہ مسلم لڑکیوں نے تبدیلی مذہب کے بعد غیر مسلموں سے شادیاں کیں، یہ محبت وعشق ومعاشہ کے قصے واقعات اس وجہ سے رونما نہیں ہوتے ، یہ تو مغربی تہذیب اور بے حیاء وبے شرم اور بے پردہ اور مخلوط معاشرہ اور مخلوط ماحول اور تعلیم کا نتیجہ ہے ، جس میں اجنبی لڑکی لڑکے کی قربت کو جدت پسندی سمجھا جاتا ہے،جویہ غلط نتائج پر منتج ہوتے ہیں۔
اسلام کی تعلیمات اس سلسلے میں واضح اور دو ٹوک ہیں کہ غیر عورت سے دور کا رہا اجنبی اور نا محرم عورت سے گفتگو یا اس پر نظر ڈالنے کی بھی اجازت نہیں ، اس قدر پاکیزہ اور پاکباز مذہب کو جس کے پیروں کاروں کو صرف بد نظری کرنے پر چالیس دن کی عبادت کی لذت سے محرومی کی بات کہی گئی ہے کیوں کر اپنے پیروں کاروں کو عشق ومعاشقہ جیسے گھناؤنی اور ناجائز راستے کی تعلیم دے سکتا ہے، اور اجنبی عورت کی سے دوستی کی تعلیم دے سکتاہے ، اسلام ایک کامل ومکمل مذہب ہے ، جس ہرگوشہ حیات سے متعلق اس کے پاس مکمل تعلیمات موجود ہیں،یہاں ہر دینی اور دنیاوی کام کے شرعی اصول وضوابط ہیں، نکاح اور مناکحت کے اور پیغام رسانی کے بھی کچھ طور طریقے ہیں ،یہ نہیں دیگر مذاہب کی طرح محض دین کے فروغ کے لئے ناجائز اور غیرشرعی حربے تک استعمال کردیئے جائیں ،عشق ومعاشقہ کے جال بچھا کر داخلِ مذہب کیا جائے ، اس کی اسلام ہر گز اجازت نہیں دیتا، کسی بھی جائز کام کے لئے ناجائز حبوں کے استعمال کی ہر گز اجازت یہاں نہیں۔
در اصل ہمیںیہ بتا نا مقصود ہے کہ میڈیا اور اردو اخبارات کے ذریعے ہندومذہب شدت پسندوں اور ہندو اور مسلم اتحاد میں رخنہ ڈالنے والے ان خود ساختہ مذہبی ٹھیکے داروں کو اس سے پہلے کے وہ’’لوجہاد‘‘ کانعرہ بلند کرکے ملک کی فضا کومسموم کرنے کی مذموم کوشش کرتے ، خود اپنے گریبان میں جھانک لینا چاہئے اور انہیں پہلے اپنے گھر کی خبر لینا چاہئے، ہندو برادران وطن کو اپنی لڑکیوں کی مسلمان نوجوانوں سے شادیوں کے سلسلے میں جواب دینا چاہئے ، پھر کہیں جا کر یہ پروپیگنڈے اور مذمو م حرکتیں کرتے تو بھی وہ کسی درجہ میں ہندو برادران وطن میں مقبول ہوتے ؛ لیکن انہوں یہ ایشو اٹھا کر ہی گویا اپنی قبر کھودنے شروع کردی ہے ، یہ شعر ان پر صادق ہے ، ’’خود آپ اپنے دام میں صیاد آگیا‘‘جال بچھایا تھا کہ ہندو مسلم کے درمیان منافرت کو ہوا دے کر ووٹ بنک کومضبوط کیا جائے ؛ لیکن تدبیریں الٹی پڑگئی ، خود اب اپنے گھر کے واقعات کے ذریعے پہلے بردران وطن کے سامنے جوابدہ ہوں، پھر یہ مذہبی منافرت کا کارڈ کھلیں۔
یہ شعر بھی ان پر خوب صادق آتا ہے کہ
نہ تم صدمے ہمیں دیتے ، نہ یوں فریاد ہم کرتے
نہ کھلتے راز سربستہ نہ یوں رسوائیاں ہوتیں

***
مفتی رفیع الدین حنیف قاسمی ، وادی مصطفی شاہین نگر ، حیدرآباد۔
rafihaneef90[@]gmail.com
رفیع الدین حنیف قاسمی

bjp and love jihad propaganda. Article: Rafi Haneef

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں