دراصل، اس اتوار "مہاجرنامہ" کی کامیابی کا جشن رانا صاحب کے چاہنے والوں کی گزارش پر منایا گیا۔ ان کے بہی خواہ چاہتے تھے کہ ایک دن مہاجر نامہ کی کامیابی کے نام کیا جائے اور اپنے چاہنے والوں کی بات کوئی شخص کیسے ٹال سکتا تھا لہذا رانا صاحب اجازت دیتے ہوئے اس کے لیے اتوار کا دن طے کیا۔ بس، پھر کیا تھا دیکھتے ہی دیکھتے ایک سادہ سا اتوار جشن میں تبدیل ہوگیا اور ادب کی تاریخ میں سنہرے اوراق پر درج ہوگیا "ایک اتوار مہاجر نامہ کے نام"-
ہندی اور اردو ادب کی زینت مشہور شاعر منور راناؔ نے لکھنؤمیں اپنے گھر سے سوشل میڈیا پر ایک شعر پوسٹ کر کے"ایک اتوار مہاجر نامہ کے نام" کا آغاز کیا۔ انہوں نے لکھا؛
مہاجرو! یہی تاریخ ہے مکانوں کی
بنانے والا ہمیشہ برامدوں میں رہا
اس کے بعد جو کچھ ہوا، وہ کسی معجزہ سے کم نہیں تھا پورے دن سوشل میڈیا پر منور راناؔ ہی چھائے رہے۔ ٹوئٹر پر محض 14 گھنٹوں میں 41 ہزار603 لوگ مہاجر نامہ کے ٹوئٹس سے جڑ گئے، ایک لاکھ 45 ہزار 532 لوگوں نے ٹوئٹ کے ذریعے اس جشن میں شرکت کی۔ دن بھر فیس بک پیج MuhajirNama اور ٹوئٹر پر ہیش ٹیگ [#MunawwarRana] کے ذریعے منور راناؔ کی شاعری کا بول بالا رہا فیس بک پر سارا دن ہزاروں کیمنٹس اور لائکس کی بھر مار رہی۔ اس دوران لوگوں نے مہاجر نامہ میں شامل اشعار ایک دوسرے کے ساتھ شیئر کے اور دن کو یاد گار بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔
رانا صاحب نے خود تسلیم کیا کہ" اس دور میں ایک دوسرے سے جڑنے کے لیے ٹکنالوجی واقعی ایک انقلابی ذریعہ ہے اور آپ تمام لوگوں کی محبت نے ہمیں اس سے جڑنے کے لیے مجبور کیا"
ایک اندازہ کے مطابق سوشل میڈیا کی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہوگا، جب ایک گنگا جمنی تہذیب کا شاعر اپنے اشعار کے ذریعے سارا دن اپنے چاہنے والوں کے ذہن ودماغ میں مسکراتا رہا ہو۔ جن جن فالوورس کو مہاجر نامہ کا دو دو شعر، جہاں جہاں سے یاد آتا رہا وہ ساتھیوں کے ساتھ بانٹتا رہا اور یہ سلسلہ ایسا چلا کہ ایک کرشمہ بن گیا۔
یہ مہم آرگنائز کرنے والے منورراناؔ کے ویب اینڈ سوشل میڈیا آفشیل ریپرزینٹیٹو ضیاء السلام (سافٹ ویئر اینجینئر، ممبئی) اور ان کی آئی . ٹی ایکسپرٹ ٹیم کی ان 24 گھنٹوں کی کوشش ایک یاد گار بن گئی۔ رانا صاحب نے ضیاء السلام اور ان کی ٹیم کو اس کامیابی کے لیے مبارکباد دی۔
بس اتنی ہی نہیں، دیوانگی کی انتہا یہاں تک پہنچ گئی کہ رانا صاحب کے ایک دیوانے قادر منصوری نے تو فیس بک پر کمینٹ میں ایک ایک کرکے مہاجر نامہ کے سبھی 500 اشعار پوسٹ کردیے۔ بہر حال دیوانگی… دیوانگی ہوتی ہے۔ کسی کی دیوانگی کو کم یا زیادہ کے پیمانے میں نہیں ناپا جا سکتا۔ ویسے اس پتھر ہوتے ہوئے دور میں کوئی مسکراکر کسی کا نام بھی لے لے تو بہت غنیمت ہے۔
خیر، قادر منصوری کے علاوہ تحسیر احمد،عطیہ زیدی، رعنا صفوی، عابد زیدی ، گورو شرما، آنند پانڈے، وجیندر شرما، بولاناتھ گپتا، شبینہ فراحی، عمرانہ ، مکتا راٹھور، مستجاب خان، سیف الاسلام کے ساتھ ساتھ اور بھی تمام شیدائی تھے جودم بدم اس مہم میں ہم قدم رہے۔
ویسے تو بے حساب محبتوں کا بدلہ محض شکریہ کہہ کر ادا نہیں کیا جا سکتا لہذا منورراناؔ نے اپنی شاعری کے لاکھوں شیدائیوں کی نذر ایک شعر کیا۔ انہوں نے کہا کہ
ہم چاہتے ہیں، رکھے زمانہ ہمیں بھی یاد
غالب کے شعر، تلسی کی چوپائی کی طرح
دراصل مہاجر نامہ کی شروعات اپریل 2008 میں منور راناؔ کے پاکستان دورہ سے ہی ہوگئی تھی۔ جب رانا صاحب مشاعرہ پڑھنے فیروز پور گئے ہوئے تھے اور "ریٹریٹ سیریمنی" دیکھنے کے لیے ان کا حسینی والا سیما چوکی جانا ہوا۔ وہیں ہندوستان- پاکستان کی سرحد پر کھینچی آڑی ترچھی لکیروں سے مہاجروں کا درد رس رس کر باہر آیا۔ درد، ذہن و دل کی باریک رگوں سے ہوکر خیالوں میں ڈھلا اور پھر خیال حرف بن بن کر رفتہ رفتہ مہاجر نامہ میں ڈھل گئے۔ اسی طرف سے جس شعر نے آنکھیں کھولیں، اسے بھی پڑھتے چلیں :
بچھڑنا اس کی خواہش تھی، نہ میری آرزو لیکن
ذرا سی ضد نے اس آنگن کا بٹوارا کرایا ہے
اسی سفر میں کراچی مشاعرہ کے دوران سندھ صوبے کے ساجد رضوی نے دو دن بعد ہونے والے سندھ مشاعرہ میں منورراناؔ سے شرکت کرنے کی التجا کی۔ گھٹنوں کی پریشانی کے سبب رانا صاحب نے انکار کردیا۔ وہ ضد پر اڑ گئے اور کہہ بیٹھے کہ یہاں جو نذرانہ آپ کو مل رہا ہے ہم آپ کو اس سے دو گنا دیں گے۔ بس یہی بات منور راناؔ کو ناگوار گزری اور اسی ناگواری نے اس وقت مشاعرہ میں بیٹھے ہی بیٹھے کچھ شعر لکھوالیے۔ اپنی باری آنے پر انہوں نے درد میں ڈوبے وہی تازہ اشعار رضوی صاحب کی نذر بھی کیے اور یہی سے مہاجر نامہ میں پہلا قدم بڑھایا۔ اسی کتاب کے کچھ اشعار پر نظر ڈالتے چلیں۔
مہاجر ہیں، مگر ہم ایک دنیا چھوڑ آئے ہیں،
تمہارے پاس جتنا ہے، ہم اتنا چھوڑ آئے ہیں
نئی نسلیں سنیں گی تو یقیں ان کو نہ آئے گا،
کہ ہم کیسی زمینیں اور زمانہ چھوڑ آئے ہیں
کئی آنکھیں ابھی تک یہ شکایت کرتی رہتی ہیں،
کہ ہم بہتے ہوئے کاجل کا دریا چھوڑ آئے ہیں
یہ خوغرضی کا جذبہ آج تک ہم کو رلاتا ہے،
کہ ہم بیٹے تو لے آئے، بھتیجا چھوڑ آئے ہیں
عقیدت سے کلائی پر جو ایک بچی نے باندھی تھی،
وہ راکھی چھوڑ آئے ہیں، وہ رشتہ چھوڑ آئے ہیں
نہ جانے کتنے چہروں کو دھواں کر کے چلے آئے،
نہ جانے کتنی آنکھوں کو چھلکتا چھوڑ آئے ہیں ۔۔۔
A Sunday dedicated to "Muhajir Nama" - Munawwar Rana on social media
جب تک دنیا میں مہاجر رہینگے مہاجر نامہ اور اسکے خالق منور رانا یاد رکھے جاینگے.
جواب دیںحذف کریںلاجواب لکھا ہے ۔ جب بھی پڑھوں ۔ دل ڈوب جاتا ہے
جواب دیںحذف کریں