ہندوستان کی بات کریں تو موروثیت کی جڑیں اب ہمارے نظامِ سیاست میں اتنی گہرائی تک اتر چکی ہیں کہ ان کو اکھاڑ پھینکنا بے حد مشکل ثابت ہوگا۔ لیکن جس وسیع پیمانے پر یہ موروثی سیاست کا کھیل ہمارے محترم قائدین کھیل رہے ہیں وہ حیران کن ہے۔ دوسری طرف ہماری بے حسی اس حد تک پہنچ چکی ہے کہ ہمارے سامنے ایک عزت مآب رکن پارلیمان یا وزیر بے تدبیر اپنی کرسی ذاتی جائداد کے مانندبیٹے بیٹی یا بیوی کو منتقل کردیتا ہے اور ہم بس دیکھتے رہتے ہیں ۔ ہماری پیشانی پرکوئی بل تک نہیں آتا ۔ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم والی کیفیت ہوتی ہے۔بلکہ عوام کی اکثریت ان سیاسی شہزادوں اور شہزادیوں کو مبارکباد دینے جوق در جوق پہنچ جاتی ہے ۔ ان لوگوں کو جنھیں ملک کے اہم ترین سیاسی عہدے حاصل کرنے میں نہ ہینگ لگی نا پھٹکری۔
موروثی سیاست بظاہر جتنی بے ضرر دکھائی دیتی ہے اتنی ہے نہیں ، اس کا زہر پچھلے 60/50 سالوں سے ہمارے سماجی نظام میں سرایت کرتا جارہا ہے ۔ موروثی سیاست کی لعنتوں میں سب سے شدیدیہ ہے کہ ذہین ،باصلاحیت ، محنتی اور مخلص نوجوان ، جوا پنے ملک ومعاشرے لیے کچھ کر گزرنے کا عزم رکھتے ہیں انھیں اپنے خوابوں کی تعبیر ڈھونڈنا جوے شیر لانے کے مترادف ہوگا۔یہ نوجوان مواقع سے اور ملک ان سے محروم ہوتا جاے گا۔آج ہر سطح پر ہماراِ نظام سیاست لیڈروں کے بیٹوں ،بیٹیوں سے بھرا پڑا ہے ، بیویوں،دامادوں اور بہووں کو بھی اس فوج ظفر موج میں شامل سمجھیے ۔
دوسرا تشویش ناک پہلو یہ ہوگا کہ لا متناہی مدت تک چند مخصوص با اثر خانوادوں کو سیاسی برتری حاصل رہے گی۔ اور ان کی مطلق العنانی روز بروز بڑھتی چلی جائے گی۔ ملک کے جملہ معاملات کی باگ ڈور چند ہی ہاتھوں میں محدود ہوکر رہ جائے گی اور ان موروثی عناصر کا غلبہ تشویسناک حد تک بڑھتا چلا جائے گا ۔آج عملاً یہی کچھ ہورہا ہے اور شاید آیندہ بھی یہی ہوتارہے گا۔ آزادی کی عظیم لڑائی نے ہمیں صرف انگریز کی غلامی سے آزاد نہیں کرایا بلکہ ان 554 ریاستوں Princely States کی شخصی حاکمیت سے بھی نجات دی جو کئی سوسالوں سے ہم ہندوستانیوں پر مسلط تھی۔ میرا سوال یہ ہے کہ کیا یہ صورت حال ،اُس جاگیردارانہ نظام سے مختلف ہے جو آزادی سے پہلے ہندوستان کے شہر شہر ، گاؤں گاؤں میں پائی جاتی تھی ؟ میرا خیال ہے کہ کچھ بھی مختلف نہیں ہے۔بوتل نئی ہے مگرشراب وہی پرانی
مجھے ڈرہے کہ ہندوستانی جمہوریت میں موروثی سیاست کا یہ سنگین مذاق ہمیں اسی جاگیردارانہ تاریک دور کی طرف اندھا دھند لیے جارہا ہے اور ہماری جمہوریت کو ایک بازیچہٗ اطفال بنانے پر تلا ہوا ہے ۔ اگر آپ اپنی آنکھیں بند کرکے ان تمام "بچہ لوگ سیاست دانوں" کے نام یاد کرنے کی کوشش کریں جو آج کل ہندوستانی سیاست کی زینت بنے ہوئے ہیں۔ تو مجھے یقین ہے کہ آپ گنتی بھول جائیں گے اورپھر ایک عجیب سی بے بسی کا احساس آپ پر طاری ہوجائے گا۔۔ موروثی سیاست اگر اپنی یہ روش جاری رکھتی ہے اور قرائن یہ کہتے ہیں کہ نہ صرف جاری رکھے گی بلکہ اس میں مزید اضافہ ہی دیکھاجائے گا، توپیٹرک فرنچ کے الفاظ میں وہ دن دور نہیں جب ہماری لوک سبھا " ونش سبھا" بن جائے گی ۔ہندوستانی جمہوریت کے لیے یہ کوئی اچھا شگون نہیں ہے
جرمن مصنف گنٹرگراس Gunter Grass کا کہنا ہے کہ ایک اچھے شہر ی کو چاہیے کہ وہ کم از کم اتنا تو کرے کہ اپنی زبان کو کھولے اور اپنی رائے کا آزادانہ اظہار کرے ۔
نہیں یہ بات کہ آواز بے اثر ہی گئی
فریضہ اہل سخن کا ادا تو کر ہی گئی
کیاآپ کو نہیں لگتا کہ ہمیں گنٹرگراس کے مشورے پر عمل کرنے میں اب مزید تاخیر نہیں کرنی چاہیے؟
***
Asma Anjum Khan is Professor in English Literature.
Asma Anjum Khan is Professor in English Literature.
Hereditary politics & the show of Democracy. Article: Asma Anjum Khan
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں