محرم الحرام ۔۔ سن ہجری کا آغاز - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2013-11-07

محرم الحرام ۔۔ سن ہجری کا آغاز

muharram first slamic month
ماہ محرم سن ہجری کا پہلا مہینہ ہے جس کی بنیاد تو آنحضرت ﷺ کے واقعۂ ہجرت پر ہے لیکن اس اسلامی سن کا تقرر اور آغاز ِ استعمال 17ھ میں حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے عہد حکومت میں ہوا۔
بیان کیا جاتا ہے کہ حضرت ابو موسی ٰ اشعری رضی اللہ عنہ یمن کے گورنر تھے ان کے پاس حضرت عمررضی اللہ عنہ کے فرمان آتے تھے جن پر تاریخ درج نہ ہوتی تھی۔ 17ھ ہجری حضرت ابو موسی ٰرضی اللہ عنہ کے توجہ دلانے پر حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے صحابہ کو اپنے ہاں جمع فرمایا اور ان کے سامنے یہ مسئلہ رکھا، تبادلۂ افکار کے بعد قرار پایا کہ اپنے سن تاریخ کی بنیاد واقعہ ہجرت کو بنایا جائے اور اس کی ابتداء ماہ محرم سے کی جائے کیونکہ 13 نبوت کے ذوالحجہ کے بالکل آخر میں مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کا منصوبہ طے کر لیا گیا تھا اور اس کے بعد جو چاند طلوع ہوا وہ محرم کا تھا۔
(فتح الباری، باب التاریخ ومن أین أرخو التاریخ؟ ج334/7، حدیث: 3934، طبع دارالسلام)

مسلمانوں کا یہ اسلامی سن بھی اپنے معنی و مفہوم کے لحاظ سے ایک خاص امتیازی حیثیت کا حامل ہے۔ مذاہب عالم میں اس وقت جس قدر سنین مروج ہیں وہ عام طور پر یا تو کسی مشہور انسان کے یوم ولادت کو یاد دلاتے ہیں یا کسی قومی واقعۂ مسرت و شادمانی سے وابستہ ہیں کہ جس سے نسل انسانی کو بظاہر کوئی فائدہ نہیں، مثلاً مسیحی سن کی بنیاد حضرت عیسیٰؑ علیہ السلام کا یوم ولادت ہے۔ یہودی سن فلسطین پر حضرت سلیمان علیہ السلام کی تخت نشینی کے ایک پر شوکت واقعے سے وابستہ ہے۔ بکرمی سن راجہ بکرما جیت کی پیدائش کی یادگار ہے، رومی سن سکندر فاتح اعظم کی پیدائش کو واضح کرتا ہے، لیکن اسلامی سن ہجری عہد نبوت کے ا یسے واقعے سے وابستہ ہے جس میں یہ سبق پنہاں ہے کہ اگر مسلمان اعلائے کلمۃ الحق کے نتیجے میں تمام اطراف سے مصائب و آلام میں گھر جائے، بستی کے تمام لوگ اس کے دشمن اور درپئے آزار ہو جائیں، قریبی رشتہ دار اور خویش و اقارب بھی اس کو ختم کرنے کا عزم کر لیں، اس کے دوست احباب بیئ اسی طرح تکالیف میں مبتلا کر دئے جائیں، شہر کے تمام سربرآوردہ لوگ اس کو قتل کرنے کا منصوبہ باندھ لیں، اس پر عرصۂ حیات ہر طرح سے تنگ کر دیا جائے اور اس کی آواز کو جبراً روکنے کی کوشش کی جائے تو اس وقت وہ مسلمان کیا کرے ؟
اس کا حل اسلام نے یہ تجویز نہیں کیا کہ کفر و باطل کے ساتھ مصالحت کر لی جائے، تبلیغ حق میں مداہنت اور رواداری سے کام لیا جائے اور اپنے عقائد و نظریات میں لچک پیدا کر کے ان میں گھل مل جائے تاکہ مخالفت کا زور ٹوٹ جائے۔ بلکہ اس کا حل اسلام نے یہ تجویز کیا ہے کہ ایسی بستی اور شہر پر حجت تمام کر کے وہاں سے ہجرت اختیار کر لی جائے۔

چنانچہ اسی واقعۂ ہجرت پر سن ہجری کی بنیاد رکھی گئی ہے جو نہ تو کسی انسانی برتری اور تَفَوُّق کو یاد دلاتا ہے اور نہ شوکت و عظمت کے کسی واقعے کو، بلکہ یہ واقعۂ ہجرت مظلومی اور بے کسی کی ایک یادگار ہے کہ جو ثبات قدم، صبر واستقامت اور راضی برضائے الہٰی ہونے کی ایک زبردست مثال اپنے اندر پنہاں رکھتا ہے۔ یہ واقعۂ ہجرت بتلاتا ہے کہ ایک مظلوم و بے کس انسان کس طرح اپنے مشن میں کامیاب ہوسکتا ہے اور مصائب و آلام سے نکل کر کس طرح کامرانی و شادمانی کا زریں تاج اپنے سر پر رکھ سکتا ہے اور پستی و گمنامی سے نکل کر رفعت و شہرت اور عزت و عظمت کے بام عروج پر پہنچ سکتا ہے۔ علاوہ ازیں یہ مہینہ حرمت والا ہے اور اس ماہ میں نفل روزے اللہ تعالیٰ کو بہت پسند ہیں جیسا کہ حدیث نبوی ﷺ میں ہے۔
((أَفْضَلُ الصِّيَامِ بَعْدَ رَمَضَانَ شَهْرُ اللَّهِ الْمُحَرَّمُ))
"رمضان کے بعد، سب سے افضل روزے، اللہ کے مہےنم، محرم کے ہیں۔"
(صحیح مسلم، الصیام، باب فضل صوم المحرم، ح: 1163)

یہ بھی خیال رہے کہ اس مہینا کی حرمت کا سیدنا حضرت حسینؓ کے واقعۂ شہادت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ مہینہ اس لیے قابل احترام ہے کہ اس میں حضرت حسینؓ کی شہادت کا سانحۂ دلگداز پیش آیا تھا یہ خیال بالکل غلط ہے۔ یہ سانحۂ شہادت تو حضور اکرم ﷺ کی وفات سے پچاس سال بعد پیش آیا اور دین کی تکمیل آنحضرت ﷺ کی زندگی میں ہی کر دی گئی تھی۔
[ٱلْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِى وَرَضِيتُ لَكُمُ ٱلْإِسْلَٰمَ دِينًا ۚ]
(المائدۃ3/5)

اس لیے یہ تصور اس آیت قرآنی کے سراسر خلاف ہے، پھر خود اسی مہینے میں اس سے بڑھ کر ایک اور سانحۂ شہادت اور واقعۂ عظیم پیش آیا تھا یعنی یکم محرم کو عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی شہادت کا واقعہ۔ اگر بعد میں ہونے والی ان شہادتوں کی شرعاً کوئی حیثیت ہوتی تو حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی شہادت اس لائق تھی کہ اہل اسلام اس کا اعتبار کرتے۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت ایسی تھی کہ اس کی یادگار منائی جاتی اور پھر ان شہادتوں کی بنا پر اگر اسلام میں ماتم و شیون کی اجازت ہوتی تو یقیناً تاریخ اسلام کی یہ دونوں شہادتیں ایسی تھیں کہ اہل اسلام ان پر جتنی بھی سینہ کوبی اور ماتم و گریہ زاری کرتے، کم ہوتا۔ لیکن ایک تو اسلام میں اس ماتم و گریہ زاری کی اجازت نہیں، دوسرے یہ تمام واقعات تکمیل دین کے بعد پیش آئے ہیں اس لے ان کی یاد میں مجالس عزا اور محافل ماتم قائم کرنا دین میں اضافہ ہے جس کے ہم قطعاً مجاز نہیں۔

***
کتاب "رسومات محرم الحرام اور سانحہ کربلا" سے ماخوذ
مصنف : حافظ صلاح الدین یوسف

Muharram - the first Islamic month

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں