(عمدۃ الفقہ3/123)
روزہ صرف امت محمدیہ پر ہی فرض نہیں ہوا بلکہ اسلام سے پہلے بھی دوسری امتوں پر فرض تھا جیسا کہ قرآن کریم میں ہے :
"اے ایمان والو! تم پر روزہ فرض کیا گیا ہے جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیا گیا تھا تاکہ تم متقی بن جاؤ"۔
(البقرۃ:183)
اس آیت میں دو باتیں بیان کی گئی ہیں ایک تو یہ کہ روزہ کوئی نئی عبادت نہیں ہے، بلکہ گذشتہ امتوں پر بھی یہ عبادت فرض تھی، دوسری بات یہ کہ روزہ کا مقصد محض بھوکا پیاسا رہنا نہیں ہے، بلکہ تقوی حاصل کرنا ہے، یہ آیت روزے کی فرضیت اور اہمیت کے سلسلے میں بنیادی اہمیت کی حامل ہے، اس میں روزے کے اصل مقصد کو بھی واضح کیا گیا ہے اور روزہ داروں کی اس طرح دلجوئی بھی کی گئی ہے کہ روزہ اگرچہ مشقت کی چیزہے مگر یہ مشقت تم سے پہلے بھی لوگ اٹھاتے رہے ہیں۔
علامہ آلوسی نے روح المعانی میں لکھا ہے کہ طبعی بات ہے کہ اگر کسی مشقت میں بہت سے لوگ مبتلا ہوں تو وہ ہلکی معلوم ہونے لگتی ہے، اس آیت میں کسی مخصوص قوم یا امت کا نام نہیں لیا گیا بلکہ "الذین من قبلکم" فرما کر یہ واضح کیا گیا کہ اس میں حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفی صلی اﷲ علیہ وسلم تک تمام انبیاء کی امتیں شامل ہیں۔
علامہ سید سلمان ندویؒ نے سیرۃ النبی جلد پنجم میں لکھا ہے :
"قرآن پاک نے ان آیتوں میں تصریح کی ہے کہ روزہ اسلام کے ساتھ مخصوص نہیں، بلکہ اسلام سے پہلے بھی وہ کل مذاہب کے مجموعہ احکام کا جزر رہا ہے، جاہل عرب کا پیغمبر امی صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم جوبہ قول مخالفین عالم کی تاریخ سے ناواقف تھا وہ مدعی ہے کہ دنیا کے تمام مذاہب میں روزہ فرض عبادت رہا ہے، اگر یہ دعوی تمام تر حجت پر مبنی ہے تو اس کے علم کے مافوق ذرائع میں کیا شک رہ جاتا ہے، اس دعوی کی تصدیق میں یورپ کے محقق ترین ماخذ کا اہم حوالہ دیتے ہیں، انسائیکلو پیڈیا برٹانیکا کا مضمون نگار روزہ (Fasting) کے عنوان پرلکھتا ہے کہ روزہ کے اصول اور طریقے گوآب و ہوا، قومیت، تہذیب اور گرد و پیش کے حالات سے اختلاف سے بہت کچھ مختلف ہیں لیکن بہ مشکل کسی ایسے مذہب کا ہم نام لے سکتے ہیں جس کے مذہبی نظام میں روزہ مطلقاً تسلیم نہ کیا گیا ہو۔
(سیرۃ النبی 5؍149)
اس آیت کا دوسرا جز روزہ کے مقصد پر روشنی ڈالتا ہے یعنی روزہ تم پر اس لئے فرض کیا گیا ہے تاکہ تم متقی بن جاؤ، گویا روزہ محض کھانا پیناچھوڑنے کا نام نہیں ہے یہ تو اس کی علامتی شکل ہے، مقصد تو یہ ہے کہ خدا کی رضا اور اس کی خوشنودی کیلئے سب کچھ قربان کردینے کا جذبہ بندے کے دل میں پیا ہوجائے، روزہ کی حقیقی روح یہی ہے، کھانے پینے اور خواہشات نفس سے رکنے کو روزہ اس لئے قراردیاگیا کہ دنیا کی تمام لذتیں معدے اور نفسانی جذبات کے ارد گرد گھومتی ہیں، روزے سے ان دونوں پر کنٹرول کرنے کی عملی تربیت حاصل ہوتی ہے، یہ حقیقت ہے کہ تنہا یہ عبادت ایسی ہے جس کا کسی دوسرے کو علم نہیں ہوتا، صرف خدا کا خوف ہی روزہ دار کو ان دونوں خواہشوں پر قابو پانے کی طاقت عطا کرتا ہے۔
امام غزالیؒ نے روزے کے مقصد پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھا ہے کہ :
"علمائے آخرت روزے کا مقصد یہ سمجھتے ہیں کہ روزہ دار میں اﷲ تعالیٰ کی صفت صمدیت (بھوک اور پیاس کا نہ ہونا) کا ظہور ہو، اور شہوت نہ ہونے میں اس کی مشابہت فرشتوں سے ہو، لیکن کیونکہ انسان نہ تو محض چو پایا ہے کہ اچھے برے کی تمیز نہ کرسکے،بلکہ وہ اپنے نور عقل سے شہوتوں کا قلع قمع کرنے پر قادر ہے اور نہ فرشتہ ہے کہ اس پر شہوتوں کا غلبہ نہ ہو، انسان ہونے کی حیثیت سے اس پر شہوتیں غالب ہیں اور اسے یہ حکم دیا گیا ہے کہ وہ عمر بھران شہوتوں کے خلاف مجاہدہ کرتا رہے، چنانچہ اگر شہوت کے مقابلے میں ناکام رہتا ہے تو اسفل السافلین میں چلا جاتا ہے اور جانوروں کے زمرے میں اس کا شمار ہوتا ہے، اور اگر اشہوات کے مقابلہ میں فتح یاب رہتا ہے تو اعلاعلیین میں جگہ ملتی ہے اور فرشتوں کے زمرے میں شمار کیا جاتا ہے۔
(احیاء العلوم : 1/410)
علامہ ابن القیمؒ نے روزے کے مقاصد کی وضاحت کرتے ہوئے لکھاہے :
"روزے سے مقصود یہ ہے کہ نفس انسانی خواہشات اور عادات کے شکنجے سے آزاد ہوجائے، اس کی شہوانی قوتوں میں اعتدال اور توازن پیدا ہو، اور اس کے ذریعے سے وہ سعادت ابدی کے گوہر مقصود تک رسائی حاصل کرسکے اور حیات ابدی کے حصول کیلئے اپنے نفس کا تزکیہ کرکے بھوک اور پیاس پر قابو پانے سے اس کی ہوس کی تیزی اور شہوت کی شدت میں تخفیف پیدا ہو، اور اسے یہ بات یاد آئے کہ کتنے ہی اﷲ کے نادار بندے ایسے ہیں جو ایک وقت کی روٹی کے بھی محتاج ہیں، اصل روزہ یہ ہے کہ وہ شیطان کی آمدکے تمام راستے بند کردے اور اعضاء و جوارح کو ان چیزوں کی طرف مائل ہونے سے روک دے جن میں دنیا و آخرت دونوں کا نقصان ہے اس لحاظ سے روزہ اہل تقوی کی لگام، مجاہدین کی ڈھال اور مقربین کی ریاضت ہے، روزہ جوارح ظاہری اور قوائے باطنی کی حفاظت میں بڑی تآثیر رکھا ہے۔
(زادالمعاد : 1/152)
Importance of fasting in our lives. Article: Maulana Nadeem alwajidi
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں