سہ ماہی -اسباق- پونے کا ڈاکٹر محسن جلگانوی نمبر - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2013-06-28

سہ ماہی -اسباق- پونے کا ڈاکٹر محسن جلگانوی نمبر

تبصرہ :رسالہ سہ ماہی" اسباق " پونے، ڈاکٹر محسن جلگانوی نمبر جنوری تا مارچ 2013ء
مدیر: نذیر فتح پوری
مبصر: ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی

موجودہ دور میں اُردو زبان و ادب کے فروغ اور ادب کے بدلتے رجحانات سے قارئین کو واقف کرانے میں اُردو رسائل اہم رول ادا کر رہے ہیں۔اُردو زبان و ادب سے وابستہ تنظیموں اور اداروں ،اُردو داں طبقے ،کالج اور یونیورسٹی اساتذہ اور کتب خانوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اُردو کی خدمت کر رہے ان رسائل کی سرپرستی کریں اور ان کی خریداری کو عام کرنے میں تعاون کریں۔ اُردو رسائل کے مدیران کے حوصلے اور عزم کی داد دینی پڑے گی کہ ان نامساعد حالات میں بھی چراغ اُردو کی لو جلائے ہوئے ہیں۔ اور اُردو ادب کے چمن کی آبیاری کر رہے ہیں۔ ان دنوں اُردو رسائل کی بڑھتی مقبولیت کی ایک اہم وجہہ یہ ہے کہ یہ رسائل ہر دو چار ماہ میں اپنے عہد کے یا ماضی کے کسی مشہور شاعر یا ادیب کے حیات اور کارناموں پر مبنی خاص نمبر نکالتے ہیں۔ یہ خاص نمبر تحقیقی اہمیت کے حامل بھی ہوتے ہیں کہ ان میں ایک شخصیت پر ایک ہی گوشے میں مختلف نقادوں اور ماہرین ادب کی آرا پر مبنی مضامین مل جاتے ہیں۔ اور کسی فنکار کو سمجھنے کا موقع مل جاتا ہے۔
ہندوستان میں جو ادبی رسائل ان دنوں مقبول ہیں ان میں ایک رسالہ سہ ماہی" اسباق " ہے۔ جو نذیر فتح پوری کی ماہرانہ ادارت میں پونہ سے نکلتا ہے۔ اور اس رسالے کا ماہ جنوری تا مارچ 2013ء خاص نمبر جدید لب ولہجہ کے شاعر ڈاکٹر محسن جلگانوی کے نام کیا گیاہے۔ ڈاکٹر محسن جلگانوی ان دنوں روزنامہ اعتماد حیدرآباد کے ادبی صفحہ" اوراق ادب" کے مدیر ہیں۔ اور اپنی مہارت سے انہوں نے ایک اخبار کے ادبی صفحہ کو اردو کا معیاری ادبی میگزین بنادیا ہے۔ اور ایک ہی صفحہ کو شاعری،فکشن،تنقید اور دیگر اصناف سخن کا گلدستہ بنادیا ہے۔ "اوراق ادب" کی مقبولیت کا یہ عالم ہے کہ لوگ دوشنبہ کو شائع ہونے والے اس ادبی صفحہ کا ہفتہ بھر انتظار کرتے ہیں۔ ۔ ڈاکٹر محسن جلگانوی کی شاعری کو بھر پور خراج پیش کرتے ہوئے برصغیر کے نامور نقاد پروفیسر مغنی تبسم نے کہا کہ" محسنؔ جلگانوی اس قبیلے کے شاعر ہیں جن کا سلسلہ ناصرؔ کاظمی کے واسطے سے میرؔ تک پہونچتا ہے۔ اور جن کا کام ہی آتش کدہء درد کو روشن کرنا ہے۔ کبھی کبھی یہ آگ اپنے وجود کو جلا کر خاکستر کردیتی ہے۔ لیکن فن اسی آگ میں تپ کر کندن بن جاتا ہے۔" یہی وجہہ ہے کہ نذیر فتح پوری نے فن کی آگ میں تپ کر کندن بن جانے والے شاعرڈاکٹر محسن جلگانوی کو اپنے رسالہ" اسباق سہ ماہی" سے خراج پیش کرنے کا فیصلہ کیا ۔ چنانچہ انہوں نے اس خاص نمبر میں ڈاکٹر محسن جلگانوی کے گوشے کو ان کی فکر و فن پر لکھے گئے ماہرین ادب کے مضامین سے سجایا ہے۔گوشے کا آغاز " محسن نامہ " سے ہوتا ہے جس میں ڈاکٹر محسن جلگانوی کے حیات اور کارناموں کا احاطہ کیا ہے۔ جس سے پتہ چلتاہے کہ ڈاکٹر محسن جلگانوی کا اصلی نام غلام غوث خان اور قلمی نام محسن ؔ جلگانوی ہے۔ والد کا نام مولانا عبدالواحد نقشبندی ،تعلیم ایم اے ایم فل پی ایچ ڈی،ملازمت آفس سپرنٹنڈنٹ ساؤتھ سنٹرل ریلوے ہے۔ ڈاکٹر محسنؔ جلگانوی نے شاعری کا آغاز 1960ء کے آس پاس کیا۔ان کے چار شعری مجموعے شائع ہوئے ۔ جو " الفاف"1979۔تھوڑا سا آسماں زمیں پر 1994ء۔آنکھ سچ بولتی ہے2001ء۔اور " شاخ صندل2010ء۔ہیں۔ اسی طرح ان کی دو نثری کتابیں" سکندر آباد کی ادبی دستاویز 1989ء تالیف۔" پس مرگ" حضرت سلطان نقشبندی کے مجموعہ کلام کی ترتیب و تدوین 1986ء مرتبہ ۔تجزیاتی مطالعے اور مصاحبے 2012ء نثری تصنیف۔ اور جنس درون جاں ۔شعری مجموعہ زیر طباعت ہیں۔ ڈاکٹر محسنؔ جلگانوی کو ان کی تصانیف اور ادبی خدمات پر مہاراشٹرا اردو ساہتیہ اکیڈیمی ایوارڈ ۔ بہار ساہتیہ سنسد ایوارڈ۔ غالب کلچرل اکیڈیمی ایوارڈ،اردو رائٹرز فورم ایوارڈ مہاراشٹرا۔انجمن ادب اور ساؤتھ سنٹرل ریلوے ادب ایوارڈ۔ نشان امتیاز ایوارڈ محبوب نگر ۔ سہ ماہی اسباق پونے کا ادبی ایوارڈ۔آندھرا پردیش،راجستھان،بہاراور مغربی بنگال اردو اکیڈیمیوں کے ایوارڈ ملے ہیں۔ اس کے علاوہ محسن ؔ نامہ سے یہ بھی واضح ہوتاہے کہ ڈاکٹر محسنؔ جلگانوی نے ریاض،جدہ اور مدینہ منورہ کے علاوہ ہندوستان کی مختلف ریاستوں میں شعری اور ادبی محفلوں میں بھی شرکت کی ہے۔ اس سے ان کی مقبولیت کا اندازہ ہوتا ہے۔ سہ ماہی اسباق کے اس "ڈاکٹر محسنؔ جلگانوی نمبر" میں جن مشاہیر کے مضامین شامل کئے گئے ہیں ان میں نذیر فتح پوری ،ڈاکٹر مناظر عاشق ہرگانوی،ڈاکٹر محبوب راہی ،عبدالاحد ساز، ڈاکٹر عقیل ہاشمی،ڈاکٹر قطب سرشار،ایم ایف پرویز،روؤ ف خلش شامل ہیں۔ ایم ایف پرویز نے اپنے مضمون" اسکول کے زمانے کی کچھ یادیں" میں ڈاکٹر محسنؔ جلگانوی کے شعری سفر کے آغاز کی یادیں بیان کیں کہ جلگاؤں کے اینگلو اردو ہائی اسکول سے تین میم ایم ایف پرویز،مشتاق قاضی اور محسن ؔ جلگانوی مشہور ہوئے۔ انہوں نے اسکول کے زمانے میں قلمی رسالہ"گلدستہ " نکالا تھا جس میں وہ اپنی تخلیقات شامل کرتے تھے۔ جلگاؤں سے تیس کلو میٹر جام نیر سائیکل پر جا کر آل انڈیا مشاعرے میں شرکت کی۔ اور محسنؔ نے ترنم سے اپنی غزل اس وقت کے نامور شعرا کے سامنے پیش کی۔محسنؔ جلگانوی کے ابتدائی دور کے اشعار سے ہی درد و الم کا اظہار ملتا ہے۔ محسنؔ کہتے ہیں

رات کو فٹ پاتھ کے سینے پہ سوجائے گا
صبح کو اخبار کا بستر اُٹھا لے جائے گا

لیکے پھرتی ہے ہر ضرورت پیٹ کی
ان دنوں ہجرت کوئی کرتا نہیں

میں منہدم مکان کے ملبے کی چیخ ہوں
محسنؔ مرے وجود کا پیکر سنبھالنا

ان اشعار کی پیشکشی کے ساتھ ایف ایم پرویز نے لکھا کہ ۔ " کئی سالوں کے بعد محسنؔ مجھ سے ملنے پونا آئے۔ تب مجھے پہلی بار اس بات کا علم ہوا کہ آں حضرت بھی کسی غم جاناں کے شکار ہوئے تھے۔ اور غم دوراں کے علاوہ غم جاناں نے ہی ان کی شاعری میں گہرائی اور شدت پیدا کی۔ اولین دور میں وہ اسی پرانی ڈھب پر غزلیں کہتے رہے لیکن حیدرآباد پہنچ کر انہوں نے جدیدیت کی طرف رُخ موڑ لیا"۔
مدیر اسباق نذیر فتح پوری نے اسباق کے گوشہ" ڈاکٹر محسنؔ جلگانوی نمبر" کے اپنے افتتاحی مضمون میں محسنؔ جلگانوی کے وطن جلگاؤں سے اپنے تعلق کو واضح کیا اور اس سرزمین سے ابھرنے والے اہم شعرا اور ادیبوں کا تعارف کرایا۔ اور لکھا کہ جب میں محسنؔ صاحب سے متعارف ہوا تو وہ جلگاؤں چھوڑ کر سکندرآباد منتقل ہوگئے ۔ نذیر فتح پوری نے محسنؔ صاحب کے علمی سفر کے بارے میں لکھا کہ" محسن جلگانوی نے ملازمت سے سبکدوشی کے بعد ادبی محفلوں کی صدارتوں کو ہتھیانے سے گریز کیا اور احباب کے ساتھ منافقانہ رویہ اختیار نہ کرتے ہوئے ایم فل اور پی ایچ ڈی کے مقالے سپرد قلم کرکے اپنی ڈاکٹریٹ کے خواب کو شرمندہ تعبیر کرلیا۔ ڈاکٹر مناظر عاشق ہرگانوی نے اپنے مضمون " محسنؔ جلگانوی کی غزلیں منفرد شناخت کا آئینہ " میں ڈاکٹر محسنؔ جلگانوی کی غزل گوئی کے مختلف ابعاد کا ذکر کیا ہے اور مختلف اشعار کے انتخاب سے ان کے کلام میں پائی جانے والی خصوصیات کثیر المعانی ،تہہ داری ،اشاریت ،رمزیت، پیکریت برجستگی ،احساس کی تازگی اور تجربات کے تنوع کو پیش کیا۔

ہوا کے ڈر سے دئیے کو بجھائے رکھتا ہے
وہ اپنے کرب کا چہرہ چھپائے رکھتا ہے

رات سورج کی تمازت کو نہیں مانتی
کم نگاہی مری قامت کو نہیں مانتی

ڈاکٹر محبوب راہی ؔ نے مضمون" ڈاکٹر محسنؔ جلگانوی کی بساط تخلیق" میں محسنؔ صاحب کی تمام تخلیقات کا اجمالی جائزہ پیش کیا۔ اور اردو شعرو ادب میں ان کے مقام کا تعین کیا ہے۔اختر حسن کے حوالے سے انہوں نے لکھاکہ’ محسن جلگانوی کو نئی نسل ،نئی فکر،نئی آواز اور نئے لب و لہجے کا شاعر تسلیم کرتے ہوئے ان کی جدیدیت میں نشاط زیست کے پیچیدہ اور پر اسرار مرحلوں سے آشنانئی اورانکی شاعری کے داخلی آہنگ اور علامتی اسلوب کو نئے عہد کے نقاب پوش حقائق کا اظہار کہہ سکتے ہیں۔شعری مجموعہ " آنکھ سچ بولتی ہے " کے حوالے سے عبدالاحد سازؔ نے مضمون" محسن جلگانوی کا آنکھوں بولا سچ" لکھا ہے۔ جس میں انہوں نے محسنؔ صاحب کی نظموں کا فکری و فنی اعتبار سے جائزہ پیش کیا ہے۔عبدالاحد ساز لکھتے ہیں" محسنؔ جلگانوی کی موضوعاتی نظموں میں ترقی پسندانہ لہجہ اور بیانیہ نمایاں طور پر محسوس ہوتا ہے۔ ان کے یہاں کسی نظریے یا ازم کا پرچار نہیں۔۔ ان نظموں میں کہیں کہیں سردار جعفری کا بیانیہ اور کہیں ساحرؔ کی منطقی زاویہ آفرینی کا اثر محسوس کیا جاسکتا ہے۔ ڈاکٹر عقیل ہاشمی نے بھی اپنا مضمون محسنؔ صاحب کے شعری مجموعے" آنکھ سچ بولتی ہے " کے فنی محاسن سے متعلق لکھا ہے۔ وہ ڈاکٹر محسنؔ جلگانوی کے شعری رویے کے بارے میں لکھتے ہیں کہ"آنکھ سچ بولتی ہے کا بالاستعیاب مطالعہ اس بات کی گواہی دے گا کہ ڈاکٹر محسنؔ جلگانوی بیسویں صدی کی ساتویں دہائی میں ابھرنے والے ان شاعروں میں سے ہیں جنہوں نے اپنی شاعری کو حالات کے سمندر میں موج بلا سے ڈٹ کر مقابلہ کرنے کے قابل بنایا۔ انہوں نے جدلیاتی نظام میں صداقتوں کا ساتھ دیا۔خارجی عوامل پر نظر رکھی۔ فرد و ذات کی آفاقی حیثیت کو سمجھنے کی کوشش کی۔۔ انہوں نے غزل کے توسط سے بہت کچھ کہا لیکن محظ غزل ہی پراکتفا نہیں کیا ان کے ہاں پابند اور معریٰ نظموں کے علاوہ ہندی کویتائیں بھی ایک کیفیت اور حسن کی تخلیق کرتی ہیں۔تلگو اور اردو ادب کی کڑیاں ملانے میں مصروف اردو کے نامور شاعر اور ادیب ڈاکٹر قطب سرشار نے اپنے مضمون میں محسنؔ صاحب کی شاعری کی خصوصیات کو ان کے کلام کے انتخاب کے ساتھ پیش کیا۔ انہوں نے ڈاکٹر محسنؔ جلگانوی کی شاعری کو نئی صدی کاآدمی نامہ قرار دیتے ہوئے لکھا کہ" یہ شاعری اس داخلی کرب کی نمائندہ ہے جو خارجی خباثتوں کی پیداوار ہے۔ ۔اس میں ایک ایسا چھناکا ہے جو اعتماد اور امیدوں کے ٹوٹ جانے سے پیدا ہوتا ہے۔

حیدرآباد کے ایک صاحب طرز شاعر رؤف خلش نے مضمون" محسنؔ جلگانوی کی نظموں کا صوتیاتی آہنگ اور موضوعاتی تنوع۔ ایک مطالعہ " لکھا ہے۔ جس میں ڈاکٹر محسنؔ جلگانوی کے دوسرے شعری مجموعے" تھوڑا سا آسماں زمیں پر" کے حوالے سے ان کے شعری آہنگ کو مثالوں کا ساتھ پیش کیا ہے۔ اور ان کے فن کاتجزیہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ " ڈاکٹر محسنؔ جلگانوی کا شعری رویہ بالکلیہ محسوساتی رویہ ہے۔ جس کو وہ کبھی بصری پیکروں کے ذریعے کبھی لمسی پیکروں کے ذریعے ظاہر کرتا ہے۔ تشریح کی خاطر وہ کبھی بیان یا وضاحت کی سطح پر نہیں اترتا۔ اس نے اپنا ایک مخصوص استعاراتی نظام ترتیب دیا ہے۔ جس میں الفاظ اور ترکیبیں کبھی استعارہ بالکنایہ ،کبھی استعارہ تمثیلیہ کے طور پر بار بار اس کی نظموں میں در آتے ہیں۔ ۔۔ محسنؔ جلگانوی کا اسلوب اپنے دیگر ہم عصر شاعروں کے مقابلے میں قدرے جداگانہ ہے ۔یہ بلا شبہ اس کے فن کی اپنی اثر پذیری کی بات ہے جو اہل ذوق کے لئے تسکینیت کا سامان فراہم کرتی ہے۔

سہ ماہی اسباق پونہ کے اس ڈاکٹر محسنؔ جلگانوی خاص نمبر میں مدیر رسالہ نذیر فتح پوری نے ڈاکٹر محسنؔ جلگانوی کے فن کے بارے میں مشاہیر کی آراء کو بھی شامل کیا جن میں اختر حسن،ڈاکٹر مغنی تبسم،شاذ تمکنت،ڈاکٹر عالم خوندمیری،ظفر مراد آبادی،ڈاکٹر سیفی پریمی اور ابو سعادت جلیلی لاہور پاکستان کی آراء شامل ہے۔ اس سے اندازہ ہوتاہے کہ ڈاکٹر محسنؔ جلگانوی کے فکر و فن پر قدیم و جدید دور کے ماہرین ادب نے اپنی رائے پیش کی ہے۔ جب کسی فن کار کے بارے میں تعریفی اور توصیفی دعوے کئے جاتے ہیں تو قاری ان دعوؤں کا اثبات بھی چاہتا ہے۔ اور اس کااچھا طریقہ یہ ہے کہ فن کار کی تخلیقات کو قاری کے سامنے پیش کردیا جائے تاکہ وہ خود فیصلہ کر لے کے فن کار کے بارے میں پیش کی گئی آرا کس قدر صحیح ہے اور ایک منصف کی طرح نذیر فتح پوری نے اپنے رسالے کے اس خاص نمبر میں ڈاکٹر محسنؔ جلگانوی کے کلام سے ابتدا میں اپنی توشیحی نظم جس کے ہر شعر کا آغاز تخلیق کار کے نام کے الفاظ سے ہوتا ہے کو شامل کیا۔ اس کے بعد محسنؔ جلگانوی کی کہی گئی حمد،نعت اور غزلوں کا انتخاب پیش کیا ہے۔ محسنؔ کا یہ شعر بھی ان کے فن کا عکاس ہے کہ

وہ سلیقہ سے مری فصل ہنر کاٹتا ہے
بخش دیتا ہے مرے ہاتھ تو سر کاٹتا ہے

اردو والوں میں آج کل تعارف کے دوران یہ جملہ سنا جانے لگا ہے کہ یہ میرے پیر بھائی ہیں۔ اس جملے کے حوالے سے میں کہہ دوں کہ ڈاکٹر محسنؔ جلگانوی بھی میرے پیر بھائی ہیں۔ کیوں کہ انہوں نے اور میں نے یونیورسٹی آف حیدرآباد سے پروفیسر محمد انور الدین صاحب کے زیر نگرانی اردو میں پی ایچ ڈی کیا ہے۔ اور ایک ہی کانوکیشن تقریب میں ساتھ ساتھ پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی ہے۔بہر حال میں نے اپنے پیر بھائی جناب ڈاکٹر محسنؔ جلگانوی صاحب کے فکر وفن کو اجاگر کرتے سہ ماہی رسالہ اسباق کے اس خاص نمبر کا تعارف و تبصرہ پیش کیا ہے۔ اس خاص نمبر میں محسنؔ صاحب کی صحافتی خدمات پر بھی مضمون شامل ہوتا تو سونے پہ سہاگہ ہوتا۔ امید کہ رسالے کے مدیر آئیندہ کسی اشاعت میں اس کمی کو پورا کردیں گے۔ یہ رسالہ محسنؔ صاحب جیسے محسن اردو پر تحقیقی کام کرنے والوں کے لئے ضرور ایک حوالے کی کتاب ہے۔ اور محسنؔ صاحب کے چاہنے والوں کے لئے ایک جوہر نایاب۔ اسباق کے اس شمارے میں گوشہ پرکاش فکری کے علاوہ تحقیقی و تنقیدی مضامین، شعری انتخاب ،کتابوں پر تبصرے ،مکتوبات اور عالمی خبر نامہ بھی شامل ہیں جو مدیر اسباق کی فکر و جستجو کو ظاہر کرتے ہیں۔ رسالے کا اداریہ اردو کو دوسری سرکاری زبان بنانے سے متعلق مدیر کے بے لاگ حقائق کو اجاگر کرتاہے۔

قارئین اسباق کے اس خصوصی نمبر کے علاوہ رسالے کی مستقل خریداری کے لئے مدیر اسباق سے درج ذیل پتے پر رابطہ کرسکتے ہیں۔

پتہ:سائرہ منزل 230/B/102 ومان درشن سنجے پارک لوہگاؤں روڈ پونے - 411032 مہاراشٹرا
فون:0091-9822516338
ای میل:nazir_fatehpuri2000[@]yahoo.com

***
ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی
صدر شعبہ اردو گرراج گورنمنٹ کالج نظام آباد
موبائل : 00919247191548
ڈاکٹر اسلم فاروقی

Asbaq (pune) special issue on Mohsin jalganvi. Review by: Dr.Aslam Farooqi (Nizamabad)

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں