دوردرشن کا اردو چینل یا اردو کا مقتل - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2015-02-18

دوردرشن کا اردو چینل یا اردو کا مقتل

doordarshan-urdu
دوردرشن اردو چینل [DD-Urdu] کا آغاز اردو والوں کا دیرینہ خواب تھا، مگر ایک مدت گزر جانے کے بعد بھی یہ خواب ادھورا ہی ہے ، کیونکہ یہاں اردو کے فروغ کا کام کم اور اس کی بربادی کا انتظام زیادہ ہوا ۔
اس چینل کے ساتھ ساتھ یہاں اردو زبان بھی اس ستم ظریفی کا شکار رہی ، جس کا شکوہ آزادی کے بعد سے اردو والے کرتے رہے ہیں ۔ اس چینل کے جتنے بھی انچارج اب تک ہوئے ہیں، ان میں سے سوائے ایک (فیاض شہریار) کے کوئی بھی اردو زبان و رسم الخط سے واقف نہ تھا ۔ اس کے موجودہ انچارج وجے بھگوان ردو کی ابجد بھی نہیں جانتے ۔ اس ملک میں کبھی ایسا نہیں دیکھا گیا کہ کسی انگلش چینل کا انچارج ایسے شخص کو بنایا گیا ہو جو انگلش نہ جانتا ہو۔ بنگلہ، تامل ، تیلگو کے کسی چینل کا انچارج کسی ایسے شخص کو بنا دیا جائے ، جو اس زبان سے آگاہ نہ ہو۔ مگر اردو پر یہ ستم ہوتا رہا ہے کہ اردو اکیڈمیوں کے سکریٹری تک اردو نہیں جانتے ۔
حد تو تب ہو گئی جب اس چینل کے ایڈوائزر کے طور پر انور جمال کا تقرر کیا گیا جو اردو کا ایک لفظ بھی نہیں لکھ پڑھ سکتے ۔ انہیں اس لئے ایڈوائزر بنایا گیا کیونکہ وہ تب کے دوردرشن ڈائریکٹر جنرل تریپواری شرن کے دوست تھے ۔
اس ستم رسیدہ چینل کے لئے آج تک ایک بھی مستقل ملازم نہیں رکھا گیا۔ جو چند افراد اس کے لئے کام کرتے ہیں انہیں گیارہ گیارہ مہینے کے کنٹریکٹ پر رکھا گیا ہے۔ ڈی ڈی اردو کے آغاز کو ایک مدت گزر چکی ہے مگر آج تک اچھے پروگرام دینا تو درکنار وہ زبان بھی درست کرنے میں ناکام رہا ہے ۔
اس نے پہلے تو اکویزیشن کے تحت کچھ پروگرام خریدے، جو کسی اور زبان کے لئے بنائے گئے تھے ، مگر اردو کہہ کر اردو چینل پر چلے اور پھر کمیشن کا معاملہ شروع ہوا جس کی عمل آوری میں ہی پانچ سال لگ گئے۔ اب یہ ٹیلی کاسٹ ہونے لگے ہیں، مگر دیکھ کر دکھ ہوتا ہے کہ کس طرح ان میں زبان و بیان کی غلطیاں موجود ہیں اور جس چینل کو اردو کے فروغ کے لئے شروع کیا گیا تھا ، وہ اب اردو زبان کے لئے مذبح خانے کا کام کررہا ہے ۔
اس سرکاری چینل میں زبان کو جس طرح سے قتل کیا جا رہا ہے ، اسے دیکھتے ہوئے تو لگتا ہے کہ اسے اردو کو قتل کرنے کے لئے ہی لانچ کیا گیا تھا ۔ ایک ایک قسط کے لئے حکومت کی طرف سے لاکھوں روپے دیے گئے ہیں ، مگر بیشتر پروگرام غیر معیاری ہیں اور ان کا سب سے خراب پہلو ہے زبان اور تلفظ۔ یہاں شاید ہی کوئی فکشن آپ کو ایسا مل جائے جس میں "خ"، "ق" اور "غ" کا تلفظ درست کیاجاتا ہو ۔ "خدا" کو "کھدا" ، "خیر" کو "کھیر"، غلط" کو گلط" کہاجانا عام بات ہے۔
سوال یہ ہے کہ یہ اردو کی خدمت ہے ہے یا اس کا بیڑہ غرق کیا جا رہا ہے؟

اصل بات یہ ہے کہ زبان وبیان کی غلطیوں سے بھرے ہوئے ان پروگراموں کو رشوت لے کر پاس کیا گیا ہے ۔ عزیزن بائی، جستجو ، ستاروں کی سیر، سفر نامہ ، ہندوستان کی تلاش ۔۔۔ ان چند پروگراموں کے نام ہیں جو ڈی ڈی اردو پر ٹیلی کاسٹ ہو رہے ہیں اور غیر معیاری ہونے کے ساتھ ساتھ زبان و بیان کی غلطیوں سے بھی بھرے ہوئے ہیں۔
غزل اور اردو شاعری پر مشتمل پروگراموں میں بے بحر شعر پڑھنا عام بات ہے، مگر چینل کے ذمہ داروں نے انہیں ٹیلی کاسٹ کے لئے او کے کیا ہے ۔ ڈی ڈی اردو کے لئے لکھنے والے ایک رائٹر کا کہنا ہے کہ انہوں نے ایک اچھا پروگرام تحریر کیا تھا ، مگر جب پیش کیا گیا تو دیکھ کر حیرت ہوئی کہ اینکر اردو زبان نہیں بول سکتا تھا اور جو غزلیں گائی گئیں، ان میں بھی بے شمار غلطیاں موجود تھیں۔

پروگراموں کے پیشکش کے وقت دور درشن نے کئی راہ نما اصول بنائے تھے۔ جن کا اگر خیال رکھا گیا ہوتا تو اس قدر زبان و بیان کی غلطیاں نہ ہوتیں اور ایسے خراب پروگرام نہ بنتے۔ یہاں لوگوں نے پیشکشی کے وقت بڑی بڑی فلمی ہستیوں کو بطور سفارش آگے کیا اور انوپم کھیر ، اوم پوری ، سشمیتا مکرجی ، نیلما عظیم جیسے جانے پہچانے چہرے آگے آئے۔ نیز اردو کے بڑے بڑے اسکالروں کو بھی سامنے لایا گیا تاکہ یقین دہانی کرائی جا سکے کہ اچھے پروگرام اور معیاری زبان دی جائے گی۔ مگر پروگرام پاس ہونے کے بعد ان باتوں کو بھلا دیا گیا اور پیسے بچانے کے چکر میں فلمسازوں نے تمام ضابطوں کو طاق پر رکھ دیا گیا۔
پروفیسر نصیر احمد خان ، پروفیسر اسلم پرویز اور معصوم مرادآبادی جیسے اردو کے پروفیسر اور محقق کو پریزنٹیشن میں بٹھایا گیا تھا مگر پروگرام بننے کے بعد پریویو کے وقت انہیں بلایا نہیں گیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ زبان کا بہتر معیار قائم نہ رہ سکا۔ ان پروگراموں کی شوٹنگ کے وقت عام طور پر کوئی اردو داں ساتھ نہیں ہوتا تھا جو زبان کے معیار کا خیال رکھ سکے ۔

ڈی ڈی اردو کاآغاز اردو زبان کی ترقی کے لئے کیا گیا تھا ، مگر اب تک جو حالات اس چینل کے ساتھ پیش آتے رہے ہیں، انہیں دیکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ یہاں اردو کی ترقی محض ایک بہانہ تھی اور اس کے پیچھے سابق یو۔پی۔اے سرکار کا مقصد اردو والوں کو بیوقوف بنانا تھا۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ اس چینل کے لئے آج تک کوئی ملازم نہیں رکھا گیا ، یعنی کسی اردو والے کو یہاں ملازمت نہیں دی گئی۔ چینل کے تمام کام انہیں لوگوں سے لئے گئے، جو پہلے سے یہاں موجود تھے ۔ ان میں بیشتر وہ ہیں، جو اردو زبان سے بالکل ہی واقفیت نہیں رکھتے ۔
بعض لوگوں کو خصوصی طور پر یہاں لایا گیا، مگر قارئین کو یہ جان کر تعجب ہوگا کہ وہ بھی ایسے افراد تھے ، جن کا اردو سے کوئی لینا دینا نہیں تھا ۔ جب سابق ڈائریکٹر جنرل کے دوست انور جمال کو ایڈوائزر مقرر کیا گیا ، تو اس کے لئے نہ تو کوئی اشتہار نکالا گیا اور نہ ہی کوئی انٹر ویو کیا گیا۔ 70 سالہ عزیز قریشی کو بغیر کسی ضابطے کے یہاں کے پروگراموں کا انچارج بنا دیا گیا، جب کہ ان کا فلم یا ٹی وی کے بجائے تھیڑ سے تعلق رہا ہے ۔ سابق ڈائریکٹر جنرل خود اردو سے محبت کرنے والے انسان ہیں اور ان کی نیت پر ہم شک نہیں کر سکتے ، مگر اسی کے ساتھ یہ بھی سچ ہے کہ انہوں نے اقربا پروری کے ناتے ایسے لوگوں کو چینل کی ذمہ داری سونپی ، جو اس کے حقدار نہیں تھے اور ان کے اعتماد کا فائدہ اٹھا کر کئی بدعنوانیاں کی گئیں۔

دور درشن نے اچھے پروگرام کے لئے گائیڈ لائن تیار کی تھی اور اسی کے تحت پریزنٹیشن ہوا تھا مگر خود اس کے ملازمین نے ہی اس گائیڈ لائن کی دھجیاں اڑائیں اور رشوت لے کر ایسے کام کئے جو صراحتاً اس کی خلاف ورزی تھے۔ مثلاً بعض پروگراموں کے ہدایت کار اور مصنف کے نام رشوت لے کر بدل دیے گئے ۔ حالانکہ گائیڈ لائن کے مطابق ایسا نہیں کیا جا سکتا ہے ۔ اس کے لئے ان کی این او سی لازمی ہے ۔ یہ گائیڈ لائن ہی نہیں، بلکہ نئے کاپی رائٹ ایکٹ کی بھی خلاف ورزی ہے ، مگر دوردرشن میں رشوت سے ہر کام ہو جاتا ہے ۔
ایسے ہی ایک پروگرام" غبار خاطر" میں اردو جاننے والے ٹام الٹر کو مولانا آزاد کا کردار نبھانا تھا، مگر اخراجات بچانے کی خاطر پروڈیوسر نے کسی غیر معروف ادارکار کو لے کر بنا لیا، جو گائیڈ لائن کی صراحتاً خلاف ورزی تھی اور اس پر دور درشن کو کوئی اعتراض نہ تھا۔ حالانکہ خود ٹام آلٹر اور اس پروگرام کے ہدایت کار ڈاکٹر ایم۔ سعید عالم(علیگ) نے اس کے خلاف شکایت درج کرا رکھی ہے۔
آرٹی آئی سے جو معلومات فراہم ہوئی ہیں ، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس میں انور جمال سمیت کئی لوگوں کا ہاتھ تھا اور بڑے پیمانے پر دھاندلی کی گئی ہے۔ تازہ اطلاع کے مطابق اب دھاندلی کا یہ معاملہ عدالت تک پہنچنے والا ہے ۔

دوردرشن نے ایک ایک قسط کے لئے پرائیویٹ پروڈیوسرز کو دو لاکھ سے تین لاکھ تک ادا کیے ہیں، فکشن کے محض 13 قسطوں کے لئے 39/39 لاکھ روپے کی ادائیگی ایک ایک پروڈیوسر کو ہوئی ہے۔ مگر ان میں سے بیشتر نے فی قسط مشکل سے پچاس ہزار ہی خرچ کئے ہیں اور باقی رقم بچا لی ہے۔ اس پر ڈی ڈی کو کوئی اعتراض نہیں ہے کیونکہ سمجھاجاتا ہے کہ یہاں کے ذمہ دار افسران کی خود ان پروڈیوسرز کے ساتھ ملی بھگت ہے۔
دوردرشن کی پہچان اقربا پروری ، رشوت ستانی اور بدعنوانی سے عبارت ہے ، اور یہ شناخت آج بھی قائم ہے۔ یہی سبب ہے کہ معیاری پروگرام کم ہی بنتے ہیں۔ جیسے"ہندوستان کی تلاش" ایک انتہائی غیر معیاری ڈرامہ ہے، جو صرف اس لئے دکھایا جا رہا ہے کہ یہ سابق مرکزی وزیر سلمان خورشید کے پلے پر مشتمل ہے ۔ یہ کسی اعتبار سے ٹی وی چینل پر پیش کئے جانے کے لائق نہیں، مگر پھر بھی دکھایا جا رہا ہے ، کیونکہ اس میں خود سلمان خورشید بھی اینکر کے طور پر نظر آتے ہیں۔ اس کو بنانے کے لئے لاکھوں روپے ڈی ڈی اردو نے دیے تھے اور بغیر کچھ خرچ کئے یہ پروگرام تیار ہو گیا ۔ اس قسم کے گھٹیا پروگراموں کی یہاں کمی نہیں ۔ حالانکہ رنگِ غزل ، داستان اردو، آخر کب تک؟ جیسے کچھ اچھے پروگرام بھی بنے ہیں مگر اس قسم کے پروگرام کم ہیں۔

اس وقت ڈی ڈی اردو پر جو پروگرام دکھائے جارہے ہیں، ان میں نہ صرف تاریخ سے کھلواڑ کیا گیا ہے ، بلکہ بعض ایسے پروگرام بھی پیش کئے جا رہے ہیں جن میں مجاہدین آزادی کی توہین بھی کی گئی ہے ۔
"عزیزن بائی" وہ پروگرام ہے جس کے اشتہار پر ڈی ڈی پیسے خرچ کر رہا ہے۔ یہ 1857ء کی ایک عظیم مجاہدۂ آزادی اور مغنیہ 'عزیزن' کی زندگی پر ایک ڈرامہ ہے، جسے انگریزوں سے سخت نفرت تھی اور اس نے اپنے کوٹھے کو آزادی کے متوالوں کے نام وقف کر رکھا تھا ۔ وہ رقص و موسیقی کے ساتھ ساتھ اردو زبان پر بھی دسترس رکھتی تھی اور امیر خسرو سے لے کر میر تقی میر تک کا کلام گاتی تھی ۔ اس نے کانپور میں انگریزوں سے لوہا لیا تھا اور انجام کار اسے موت کی سزا ملی تھی۔
"عزیزن بائی" میں اس کردار کو ادا کرنے والی لڑکی انتہائی خراب زبان بولتی ہے اور غلط تلفظ ادا کرتی ہے ۔ اس عہد میں کوٹھوں کی تہذیب کو بہت اعلٰی سمجھا جاتا تھا، جہاں بڑے بڑے نواب زادے اور شہزادے تہذیب کا سبق سیکھنے جایا کرتے تھے۔ مگر اس سیریل میں اس عظیم فنکارہ کو ایسے معمولی اندا ز میں پیش کیا گیا ہے، گویا وہ کسی جھونپڑ پٹی کی پروردہ ہو اور اس کا تعلق کسی نچلے خاندان سے ہو۔

ایک دوسرے مجاہد آزادی شمس الدین (جو عزیزن کا عاشق بھی تھا) کو کسی چھچھورے عاشق کی طرح پیش کیا گیا ہے ۔ اس پر ستم یہ کہ سیریل 1857ء کے بجائے 2014ء کے دور کو دکھاتا ہے ۔ آج کی دہلی کی کچی کالونیوں کی دیواریں نظر آتی ہیں ، جن میں وہ لالٹین لٹکی نظر آتی ہے ، جس کا استعمال آج بھی ہمارے ملک کے گاؤں میں ہوتا ہے ۔ اتنے گھٹیا قسم کے سیریل کو کس طرح منظوری ملی ہوگی ، اس کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

اردو کے فروغ کے لئے کام کرنے والی دہلی کی ایک تنظیم اس بات پر غور کر رہی ہے کہ دوردرشن اردو کے ادارے میں جو بد عنوانیاں ہوئی ہیں ان کو عدالت تک لے جائے اور عنقریب وہ اس کے لئے ایک پی آئی ایل داخل کرے گی۔

اردو کے واحد سرکاری چینل 'ڈی ڈی اردو' کے بارے میں خود اس کے ڈائرکٹر جنرل نے دعویٰ کیا ہے کہ یہ ملک میں اردو کا نمبر ایک چینل ہے ، مگر اسی کے ساتھ یہ بھی سچ ہے کہ دھاندلیوں، بدعنوانیوں، لسانی غلطیوں اور گھٹیا پروگراموں کے معاملے میں بھی یہ نمبر ایک چینل ہے ۔
اس ادارہ میں موجود لوگ ہی اس کا بیڑا غرق کرنے کے درپے ہیں ۔ سابقہ یو پی اے حکومت میں کئی دھاندلیاں ہوئی ہیں اور ڈی ڈی اردو اس کی ایک زندہ مثال ہے ، مگر نئی حکومت اسی وعدے کے ساتھ آئی ہے کہ وہ ان خرابیوں کو درست کرے گی ۔ آج اردو والوں کو بھی امید ہے کہ اس چینل مین چل رہی خرابیوں کو درست کیا جائے گا اور ذمہ دار افسران کے خلاف کاروائی کی جائے گی ۔
کیا موجودہ وزیر اطلاعات و نشریات پرکاش جاوڈیکر اس کارخیر کے لئے تھوڑا سا وقت نکالیں گے؟!

متعلقہ موضوع:

The rigging and irregularities of Doordarshan Urdu channel. Article: M.F.Saleem

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں