ابن الوقت - ڈپٹی نذیر احمد - قسط:23 - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2018-05-03

ابن الوقت - ڈپٹی نذیر احمد - قسط:23


خلاصہ فصل - 21
ابن الوقت کی پھوپھی زاد بہن کے شوہر حجتہ الاسلام کی آمد

1857ء کے غدر سے پہلے حجتہ الاسلام حج کو گئے ہوئے تھے۔غدر کی اڑتی سی خبریں انھوں نے عرب میں سنیں۔دلّی کو فتح ہوئے کوئی بیس بائیس دن ہوں گے کہ یہ واپس بمبئی پہنچے۔جہاں غدر کے تفصیلی حالات معلوم ہوئے۔رخصت میں اتنی گنجائش تھی کہ چاہتے تو دلّی ہو کر فراغت سے مہینے سوا مہینے رہ کر اپنے کام پر جاتے۔مگر معلوم ہوا کہ ابھی جا بجا گڑ بڑ ہے اور خاص کر دلّی کے مسلمانوں پر ظلم ہو رہا ہے تو طے ہوا کہ سمندر سمندر مدراس ہوتے ہوئے کلکتہ جائیں اور وہاں سے اپنے ضلع میں جا داخل ہوں۔
ابن الوقت کے جو حالات میں تبدیلی ہوئی،حجتہ الاسلام کی غیرحاضری میں ہوئی۔ دونوں میں خط و کتابت بھی ختم ہی تھی۔ابن الوقت نے بڑے تپاک کے ساتھ حج سے بخیر و خوبی واپس آنے کی مبارکباد کا خط لکھا ۔ادھر سے انعام خیر خواہی اور نوکری کی مبارکباد آئی۔مگر تبدیل وضع کے بارے میں حجتہ الاسلام نے خاموشی اختیار کی۔ابن الوقت کی پھوپھی نے کئی بار اپنے داماد حجتہ الاسلام کو لکھا بھیجا کہ لوگوں کے طعنوں نے زندگی دشوار کردی ہے۔اب محلے میں رہنے کا ٹھکانا نہیں۔تم جس طرح ہو سکے تھوڑے دن کے لئے آؤ اور ہم لوگوں کے لئے کہیں ٹھکانا کرو۔مگر حجتہ الاسلام حیلے بہانے سے ٹالتا رہا۔
جب یہ بات مشہور ہوئی کہ ابن الوقت کی تبدیل وضع سے صاحب کلکٹر بھی ناراض ہیں سب کے سب گھبرا کر ابن الوقت کی پھوپھی کے پاس دوڑے آئے۔ کیونکہ گھر میں سب سے بڑی بوڑھی وہی تھیں۔دراصل ابن الوقت کی خیر خواہی سے تھوڑے بہت سے فائدے ان کو بھی پہنچے تھے۔کیونکہ غدر کے بعد کا وقت مسلمانوں پر بڑی سختی کا گذر گیا۔ایسے میں ابن الوقت کا نام بھی کوئی جھوٹوں لے لیتا تو اس کو اتنا فائدہ ہوتا کہ کوئی مخبر(Informer)اس کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھ سکتا۔لوگوں کو ابن الوقت سے بڑی ہمت تھی۔
اب ان میں سے کسی کو اس بات کی پروا نہ تھی کہ انگریزوں کے ساتھ کھاتا پیتا ہے یا انگریزوں کے ساتھ جا ملا ہے۔سارے شکوے شکایت بھول کر سب کو اسی کی پڑی تھی کہ کسی طرح ابن الوقت کو اس بلا سے نجات ملے۔اس کی پھوپھی تو بین کر کر کے روتی تھیں۔سب نے عملیات،دعاؤں،ختم خواجگان یا آیاتِ کریمہ کی بھر مار کردی۔دیگر حربے صاحب کلکٹر پر چلنے شروع ہوئے۔
اس مرتبہ ابن الوقت کی پھوپھی نے داماد کو نہیں بلکہ بیٹی کو لکھو ادیا کہ دلّی کا سب سے بڑا انگریز ناحق تمھارے بھائی ابن الوقت کے پیچھے پڑا ہے۔تمھارے میاں کو لکھتے لکھتے تھک گئی۔آنے کی حامی نہیں بھرتے۔خدا کے لئے تم انھیں سمجھا کر لاؤ۔کھانا وہاں کھاؤ تو پانی یہاں آکر پیو۔وقت نکل جائے گا اور بات رہ جائے گی۔خدا ابن الوقت کو جیتا رکھے۔ اور نیک ہدایت دے۔اپنے سو کام چھوڑو اور بہت جلد آؤ۔جب ابن الوقت نے بارہ دری بیچنے کی فوری ضرورت کو ظاہر کیا توحجتہ الاسلام نے سمجھا کہ اب دیر کرنا ٹھیک نہیں۔ابن الوقت کو لکھا کہ اپنی کوٹھی میں میرے ٹھیرنے کا انتظام کرو۔
اسی اثنأ میں جاں نثار، نوبل صاحب کو بمبئی پہنچا کر آگیا۔یہاں آکر سنا کہ اتنے دن میں کیا سے کیا ہوگیا۔چھوٹتے ہی ابن الوقت سے کہا کہ اگر صاحب کو ذرا معلوم ہوتا تو جہاز پر سوار ہونے کا نام نہ لیتے۔ابن الوقت نے جواب دیا کہ میں اس طرح علالت میں صاحب کو کس طرح تکلیف دیتا۔ اگرچہ یہ سراسر کلکٹر صاحب کی زیادتی ہے مگر جو حقیقت سے واقف نہیں مجھی کو قصور وار ٹھیرائیں گے۔
پھر جاں نثار بنگلے کے چھوٹنے،کلکٹر سے بگاڑ پڑنے اور نام بہ نام صاحب لوگوں کے دور ہونے کی تفصیل سن کر کہنے لگا کہ جناب میں تو شروع سے ان لوگوں کے تیور بدلتے دیکھتا رہا ہوں۔نوبل صاحب کی وجہ سے سب لوگ خاموش رہے تھے۔میری بھی ساری عمر انگریزوں ہی میں گذری ہے۔ہمارے نوبل صاحب تو اپنی ذات سے فرشتہ آدمی ہیں۔لیکن بس دو چار ہی اس طرح کے نیک مزاج ہونگے۔ورنہ جناب بھلا کہیں یہ لوگ ہندوستانی کو پتیاتے ہیں(یعنی اعتبار نہیں کرتے)دراصل ولایت سے شریف انگریز بہت کم آئے ہیں۔بلکہ کوئی موچی، کوئی درزی،کوئی حجام انگریز آئے ہیں۔
صاحب کلکٹر کانوں کے کچے ہیں(یعنی ہر بات کا اعتبارکرلیتے ہیں)ہوسکتا ہے کہ ہم ہندوستانیوں میں سے کسی نے موقع پاکر کانوں میں پھونک دیا ہو۔اس کے لئے ٹوہ لگانا پڑے گا۔جاں نثار نے کہا کہ آپ نے کسی کو بیچ میں ڈالا ہوتا۔
ابن الوقت نے بپھر کر جواب دیا کہ کیا میں جاکر کسی کی خوشامد کرو ں کہ صاحب کلکٹر سے میری خطا معاف کرادو۔یہ مجھ سے نہیں ہوگا۔زیادتی صاحب کلکٹر کی ہے اس لئے ان کو معذرت کرنی چاہئیے۔جاں نثار نے کہا کہ اس سے تو بہتر ہوتا کہ آپ رخصت لے کر بیٹھ جاتے۔ ابن الوقت کا جواب تھا کہ ایسے وقت اگر رخصت لیتا تو لوگ سمجھتے دال میں کچھ کالا ہے۔دشمنوں کو موقع ملتا۔کلکٹر کو موقع ملتا اور وہ رخصٹ کو منظور نہ ہونے دیتے۔اس کے بعد بھائی حجت الاسلام کے بارے میں پوچھا کہ وہ کب آرہے ہیں اور ان کے لئے کیا انتظام کیا جائے؟بنگلے میں بالکل گنجائش نہیں۔
جاں نثار کہنے لگا کہ حجتہ الاسلام مولوی آدمی ہیں ان کو ایک کمرہ بھی ہوا تو بس ہے۔ایک کمرے کا خالی کردینا ایسا کیا مشکل ہے؟
ابن الوقت نے کہا کہ وہ نہیں سمجھتا کہ ایک کمرہ بھی انھیں دے سکے گا۔اس کے بعد اس نے بہانہ بازیاں شروع کیں کہ اس بنگلے میں آٹھ کمرے ہیں۔مگر اصل میں چھ تھے۔دو کمروں میں پارٹیشن کرکے دو کمرے بنائے گئے۔جو تنگ ہو گئے۔لکھنے پڑھنے کے لئے لمبے کمرے کو لائبریری بنا کر اسی میں ریڈنگ روم بھی کرلیا۔ایک کمرے میں پیانو ہے۔اگرچہ بے موقع ہے مگر کیا کیا جائے؟اسباب و سامان ہیں کہ برامدے میں اورکچھ ملازمین کے مکانات میں پڑے ہیں۔
حجتہ الاسلام نے مجھ سے پوچھا بھی نہیں اور لکھ دیا کہ ہم تمھارے پاس ٹھیریں گے۔جس وقت سے خط آیا ہے میں حیراں ہوں۔کیا کروں کیا نہ کروں۔
اس پر جاں نثار نے تسلی دی کہ آپ کیوں فکر کرتے ہیں۔حجتہ الاسلام کو آنے دیجئے اور انہی کی رائے پر رکھئے۔یوں تو نوبل صاحب کا بنگلہ خالی ہے مگر یہاں سے دور ہے۔


Urdu Classic "Ibn-ul-Waqt" by Deputy Nazeer Ahmed - Summary episode-23

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں