جواب میں معزز مہمان صالح بن عبدالعزیز آل شیخ نے بھی اُسی تعلق اور اپنائیت کا اظہار کیا۔ آپ نے بتایا کہ محترم امیر جماعت نے اپنے جس موقف کااظہار کیا ہے ہم اُس سے پہلے سے واقف ہیں، اور یہ بھی جانتے ہیں کہ یہ تمام تحریکات اسلامی کا موقف ہے۔ پھر آلِ شیخ نے سعودی حکومت کے موقف کی وضاحت کی۔ آپ نے بتایا کہ محمد مرسی کے اقتدار سنبھالنے کے بعد مصر میں حالات بد سے بدتر ہوتے جارہے تھے۔ پڑوسی مملکتوں سے بڑی مقدار میں اسلحہ آرہا تھا۔ خانہ جنگی کی کیفیت ہوگئی تھی۔ مصر ٹوٹنے کے قریب تھا۔ اس لئے فوج کو مداخلت کرنی پڑی۔ اور مصر میں امن واستحکام کی بحالی کی خاطرہی سعودی حکومت نے مصر کی فوجی حکومت کی مدد کی۔ معزز مہمان نے یہ بھی بتایا کہ مملکت سعودی عرب امت مسلمہ کے مفاد کے خلاف کبھی کوئی کام نہیں کرتی، کوئی بھی فیصلہ کرتے وقت امت کے مفاد کو سامنے رکھتی ہے۔ آل شیخ نے مزید کہا"مصر کے سلسلے میں بھی سعودی حکومت کے فیصلے کی معقولیت کچھ عرصے بعد سب کے سامنے آجائے گی۔" بنگلہ دیش کے بارے میں آپ نے بتایا کہ وہاں کی حکومت کے اقدامات کے خلاف احتجاجی پیغامات بھیجے گئے تھے۔
17؍فروری کی اِس غیر معمولی نشست میں امیر جماعت نے مصر وبنگلہ دیش کی صورت حال کے حوالے سے وہی احساسات پیش کئے جو کسی بھی ذمہ دار اسلامی جماعت کے ہونے چاہئیں۔ اِسی طرح صالح بن عبدالعزیز آل شیخ نے بھی وہی کچھ فرمایا جو سعودی حکومت کے ذمہ دار وزیر کی حیثیت سے انہیں فرمانا چاہئے تھا۔ لیکن معزز مہمان کے ارشادات کو اگر عمومی نظر سے دیکھاجائے تو کچھ بنیادی سوالات کے جوابات تشنہ محسوس ہوتے ہیں۔ صدر مرسی کے دور کے اندرونی حالات کا جو نقشہ سعودی مہمان نے پیش کیا ، ظاہر ہے کہ اپنی سرکاری معلومات کی بنا پر ہی کیا ہوگا۔ لیکن دنیا کے تمام حساس اور غیر جانبدار انسان یہ دیکھ رہے تھے کہ مصر میں انتخابات کے اعلان کے اوّل روز ہی سے اخوان المسلمون اور ان کی الحریہ والعدالہ کی راہ میں قدم قدم پر رکاوٹیں کھڑی کی جاتی رہیں، انہیں انتخابات میں حصہ لینے اور بعد میں کامیاب ہونے سے روکنے کے لئے مختلف ہتھکنڈے استعمال ہوئے۔ پھر جب ان رکاوٹوں کے باوجود محمدمرسی نے منتخب ہوکر اقتدار سنبھالا تو اوّل ساعت سے ان کے خلاف سازشیں شروع ہوگئیں جن میں اندرون ملک کے اسلام مخالف حلقے، اسرائیل اور امریکی ایجنسیاں شریک تھیں۔ مرسی کو ایک دن بھی چین سے نہیں بیٹھنے دیاگیا۔ سعودی مہمان نے اپنی گفتگو میں یہ بھی فرمایاتھا کہ وہ امریکہ جو کبھی کسی اسلامی حکومت کی حمایت نہیںکرتا، وہ مرسی حکومت کی حمایت کررہا تھا۔ ظاہر ہے کہ یہاں بھی سعودی وزیرکی معلومات ہی معتبر ہوںگی لیکن دیکھا یہ جارہا تھا کہ امریکہ ابتدا ہی سے فوجی ظالموں کے ساتھ تھا اور صدر مرسی کے خلاف کارروائی فوج نے امریکہ کی حمایت کے بغیر ہرگز نہ کی ہوگی۔ عبدالفتاح السیسی کو اسرائیل اور امریکہ کی پوری پشت پناہی حاصل تھی۔ امریکہ چونکہ دنیا بھر میں فوجی حکومتوں کے خلاف اور جمہوریت پسندوں کے حق میں ہونے کا پروپیگنڈا کرتا ہے اس لئے مصر میں بھی اس نے صورت حال پرمحض چند رسمی بیانات جاری کئے تھے۔ صورت حال سے سب سے زیادہ خوش اسرائیل تھا، آج بھی ہے کیونکہ مرسی کی برطرفی سے سب سے زیادہ فائدہ اسرائیل ہی کو پہنچا ہے اس کے لیڈریہ بات علانیہ کہتے ہیں۔
ایک بنیادی سوال یہ ہے کہ اقتدار پر قبضہ کرنے کے بعد فوجی حکومت اپنے ہی اُن عوام کے ساتھ جو اس ظلم کے خلاف پُرامن احتجاج کررہے تھے، جس درندگی کے ساتھ پیش آئی، جس طرح خواتین ،بوڑھوں، بچوں نو عمرلڑکیوں پرمظالم ڈھائے، ان کے کیمپوںپر حملے کرکےان کاقتل عام کیا۔ اس کا جواز آخر کیا ہے؟ سفا کی اور حیوانیت کا عالم یہ تھا کہ ابھی باپ کے سامنے نوجوان بیٹی کو مارا، دوسرے دن باپ کو بھی ہلاک کردیا۔ اخوان کے ایک رہنماکے نوجوان بیٹے کو ہلاک کیا، چار دن بعد اس رہنماکو بھی گرفتار کرکے جیل میں ڈال دیا۔ سرکاری ظلم اور شیطنیت کے یہ مناظر متمدن دنیا کی تاریخ سے پہلے ہی دیکھے گئے ہوں گے۔ یہ ایسے خونیں مناظر ہیں کہ جن کے تصور ہی سے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں اور ظالموں کے لئے بے اختیاربددُعا نکلتی ہے۔ پھر اخوان المسلمون، اُن کی سیاسی جماعت اور اس کے رہنماؤں، کارکنوں اور حامیوں کے ساتھ فوجی حکمرانوں نے جو کچھ کیا، آج کی جمہوری دنیا کی تاریخ کا سیاہ ترین باب ہے۔ اخوان کے دفاتر کے ساتھ اخوانیوں کے مکانات اوراثاثے تباہ کردیئے گئے۔ فوجی حکمراں آج بڑے فخر کے ساتھ اعلان کرتے ہیں کہ "ہم نے مصر میں "پولیٹکل اسلام" کو کچل کر رکھ دیا۔ ظاہر ہے کہ امریکہ اور اسرائیل بھی یہی چاہتے تھے۔ اگر سعودی مہمان کی یہ بات تسلیم کرلی جائے کہ "آنے والا وقت بتائے گا کہ سعودی موقف درست تھا "تو یہ بھی دیکھا جائے گاکہ وہ کس قیمت پر ہوا۔ اور جو کچھ ہوا اس کی تلافی کیسے ہوسکے گی۔ کیا ہزاروں معصوموں کی جانیں واپس آجائیںگی۔ دنیا کا کوئی بھی دیانتدار مبصر اس حقیقت سے انکار نہیں کرسکتا کہ اخوان المسلمون اور ان کی منتخب حکومت کو یہ سزا صرف اس لئے دی گئی کہ وہ مروجہ جمہوری طریقوں ہی سے اسلامی نظام حکمرانی کی بات کرتے تھے اور عرب کے دولت مند حکمرانوں نے ظالموں کی تائید وحمایت میں اپنے خزانوں کے منھ کھول دیئے تھے۔
دُعا ہماری بھی یہی ہے کہ سعودی وزیر محترم کی یہ پیش گوئی درست ثابت ہو کہ "آنے والا وقت سعودی موقف کو صحیح ثابت کردے گا۔" تاہم اس سلسلے کے بنیادی سوالات بہرحال قائم رہیں گے۔
محترم امیر جماعت مولانا جلال الدین صاحب عمری کے خطاب کی طرح، جو دراصل تحریک اسلامی کے موقف کااظہارتھا، یہاں بھی یہ سطور مملکت سعودی عرب کی خیر خواہی میں اور خادم الحرمین شریفین کے مقام ومرتبہ کو ملحوظ رکھتے ہوئے سپرد قلم کی گئی ہیں، ہمارااحساس ہے کہ مسلم امہ کے سواد اعظم کے احساسات بھی یہی ہیں۔ اگر ہمارے معزز مہمان صالح بن عبدالعزیز آل شیخ یہ احساسات اپنی حکومت تک پہنچاسکیں تو ہمارے لئے یہ باعث ممنونیت ہوگا—
Saudi stance on Egypt's islamic movement. Article: Parwaz Rahmani
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں