ایک جنازہ - جمہوریت اور انصاف کا - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2013-05-19

ایک جنازہ - جمہوریت اور انصاف کا

مڑیاؤں ضلع جونپور میں کئی گلیاں پار کرنے کے بعد ایک مکان سامنے آتا ہے ، مکان کیا ہے بس اسے سر پر چھت ڈالنے اور اپنی غریبی چھپانے کا آسرا سمجھنا چاہیے۔ دو بھائی اور ان کے دو بیٹے اور بیٹیاں یہاں مقیم تھے ۔ بڑے بھائی ضمیر احرار پارٹی سے وابستہ تھے تو چھوٹے بھائی ظہیر جماعت اسلامی سے اور دونوں کے بیٹے ان پارٹیوں سے بس اس حد تک جڑے تھے کہ ان کے والد ناراض نہ ہوں ۔
دونوں بیٹے لڑکیوں کا ایک مدرسہ چلاتے تھے۔ بڑا بیٹا مدرسہ کے انتظامی امور کو سنبھالتا تھا تو چھوٹا بیٹا چونکہ پڑھائی میں قابل اور ہونہار تھا لہذا وہ مدرسہ میں استاذ تھا۔ اس نے اسلامی تعلیم بھی حاصل کی تھی، کم عمری کے باوجود ڈاڑھی اس کے چہرے پر خوبصورت لگتی تھی۔ دونوں نوجوانوں میں اپنی قوم اور معاشرہ کی خدمت کا جذبہ بےمثال تھا۔
یہ چھوٹا سا خاندان خوش و خرم زندگی بتا رہا تھا۔ چچا بھتیجے کے درمیان اکثر و بیشتر ہلکا پھلکا بحث و مباحثہ چلتا رہتا تھا۔ خاص طور پر اس لیے کہ اس نوجوان استاذ کو اپنے والد کی احرار پارٹی سے جتنی الجھن تھی اتنی ہی چچا کی جماعت کے نظریات سے بھی تھی۔

پھر اس مختصر سے خاندان کو نجانے کس کی نظر لگ گئی کہ 2003 میں اچانک بڑے بھائی کا پنجاب میں انتقال ہو گیا۔ ایک بیٹا بغیر باپ کے رہ گیا تو ایک بھائی بغیر بھائی کے۔ دونوں بکھرے افراد نے ایک دوسرے کو دلاسا دیا۔ بھتیجے کو باپ کی شفقت ملی تو بھائی کو بھائی کی ذمہ داریاں۔
جیسے تیسے گزر رہی زندگی کا بدقسمتی غالباً مسلسل تعاقب کر رہی تھی۔ 2004 سے بےقصور مسلم نوجوانوں کی گرفتاری اور فرضی مڈبھیڑ میں ختم کرنے کا ہندوستانی سیکوریٹی ایجنسیوں کا سلسلہ چل نکلا تھا۔ یہاں وہاں 18 تا 22 سال کے نوعمر نوجوان لڑکے مارے جانے لگے۔ بیوقوفی بھری شرارت کرنے والے معصوم نوجوانوں کو متعصب میڈیا "ماسٹر مائینڈ" بنا کر اپنی ٹی۔آر۔پی پڑھانے میں لگ گیا۔
روزانہ چلنے والی پسنجر ٹرینوں میں کرتا پائجامہ میں ملبوس ڈاڑھی والے نوجوان مذاق کا نشانہ بننے لگے۔ یہ کاروائی کانگریس کی مرکزی سیکولر حکومت اور اترپردیش میں مایاوتی کی بہوجن سماج سرکار کے دوران شروع ہوئی۔ لیکن یہ کہنا بھی درست نہ ہوگا کہ 2007 سے پہلے کی ملائم سنگھ حکومت اس قسم کی کاروائیوں سے مبرا تھی۔ یہ سلسلہ تو اسی وقت سے جاری ہو چکا تھا لہذا 2012 میں دوبارہ سماج وادی حکومت کے آنے پر بھی یہ سلسلہ رکا نہیں۔

ملائم سنگھ کے لیے گرفتار شدہ مسلم نوجوانوں کی رہائی کا معاملہ ایک انتخابی حربے کے سوا اور کچھ نہیں تھا۔ جسے وہ حکومت میں آنے کے بعد فراموش کر گئے۔ لیکن ملائم سنگھ کی وعدہ فراموشی کے ساتھ ساتھ ان کی بےایمانی بھی اس وقت منظر عام پر آئی جب آر۔ڈی۔نمیش کمیٹی کی رپورٹ پر اکھیلیش حکومت نے نہ صرف چپ کا روزہ رکھ لیا بلکہ آر۔ٹی۔آئی کے جوابات میں بڑی بےشرمی سے یہ تک کہہ دیا کہ وہ اس کمیٹی کی تحقیقات سے لاعلم ہیں (حوالے کے لیے ملاحظہ فرمائیں پرویز صدیقی کی آر۔ٹی۔آئی)

گذشتہ 6 برسوں سے مڑیاؤں کا وہ کچا مکان خالد مجاہد کا انتظار کر رہا تھا۔
نمیش کمیشن رپورٹ نے چچا ظہیر عالم کی ڈوبتی امیدوں کو بڑا سہارا دیا تھا۔ اور یہ امید اس وقت یقین میں بدلنے لگی جب اترپردیش حکومت نے باقاعدہ مقدمہ کی واپسی کا اعلان کر ڈالا۔ بس ایک چھوٹا سا شک اس بات پر تھا کہ اکھیلیش یادو نمیش کمیشن رپورٹ کی سفارشات کا نام لیے بغیر رہائی کی سفارش کس بل بوتے پر کر سکتے ہیں؟
مگر چونکہ حکومت تو مائی باپ کہلاتی ہے لہذا کسی نے سوچا بھی نہیں تھا کہ بارہ بنکی کی عدالت میں وزیر اعلیٰ اترپردیش کوئی سرکاری حلف نامہ داخل کرنے کے بجائے ، نمیش کمیشن کا کوئی حوالہ دئے بغیر اپنی ریاست میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی دکھانے کے شوق میں خالد مجاہد اور طارق قاسمی کی رہائی کی مانگ کر بیٹھیں گے۔
مگر ظاہر ہے کہ عدالت کوئی سماج وادی پارٹی کا علاقائی دفتر تو ہے نہیں کہ جہاں پارٹی کے سربراہ اعلیٰ کی ہر مرضی چل سکے۔
عدالت نے حکومت کی عرضی رد کر ڈالی اور یوں بوڑھے اور کمزور چچا کی جوان امیدیں زمین بوس ہو گئیں۔

انسانی حقوق تنظیموں کا مسلسل اصرار تھا کہ نمیش کمیشن رپورٹ کے نتائج کو عام کیا جائے اور اس کی سفارشات کے مطابق بےگناہوں کی رہائی عمل میں لانے کے ساتھ ساتھ خطاکار عہدیداروں کے خلاف قانونی کاروائی کرنے کا دباؤ بڑھتا گیا۔ تمام ثبوت موجود تھے جس کے سہارے 40 پولیس اہلکاروں کے ساتھ حکومتی انتظامیہ کے کئی اعلیٰ عہدیدار بھی گرفتاری کی لپیٹ میں آنے والے تھے۔
سہراب الدین اور عشرت جہاں فرضی تصادم نے گجرات کے پولیس والوں کو قانون کے غلط استعمال کا سبق سکھا دیا تھا لہذا اترپردیش پولیس اہلکار اپنی بھلائی اسی میں سمجھ رہے تھے کہ نمیش کمیشن کی رپورٹ کو عوام کے سامنے نہ لایا جائے۔ اس رپورٹ سے وہ اس قدر خوفزدہ تھے اور سمجھ رہے تھے کہ اگر ریاستی حکومت عوام کے دباؤ میں آ جائے تو پھر انہیں لینے کے دینے پڑ جائیں گے۔

چچا ظہیر عالم نے شاید بہت آگے کا نہیں سوچا تھا۔
جب ہم نے ان سے پچھلی بار دلی میں ملاقات کی تھی تو ان کا حوصلہ ان کے کمزور جسم اور بڑھتی عمر سے کہیں زیادہ بلند تھا۔ وہ لڑ رہے تھے اپنے بھتیجے کے لیے ۔۔۔ اترپردیش کی طاقتور پولیس سے ، سماج وادی پارٹی کی بےشرم حکومت سے ، ملائم سنگھ یادو کے جھوٹے وعدوں سے ۔۔۔
چچا ظہیر عالم تو اس عالم ضعیفی میں بھی ایک ایسے نظام سے لڑ رہے تھے جس میں ایک مسلمان چیف سیکریٹری کے عہدے پر فائز ہے ، 60 سے زیادہ مسلمان اراکین اسمبلی ہیں ، ایک درجن کے قریب مسلمان وزیر ہیں۔
مگر ۔۔۔
بالآخر یہ بات واضح ہو گئی کہ اعظم خان جیسے معروف و مقبول وزراء اور جاوید عثمانی جیسے تجربہ کار سرکاری عہدیداروں کی اس نظام کے آگے کیا اوقات ہے!

جی ہاں! آج خالد مجاہد اپنے گاؤں پہنچ رہا ہے!!
لیکن زندہ نہیں بلکہ کندھوں پر سوار جنازے کی شکل میں! یہ جنازہ صرف خالد مجاہد کا نہیں ہے بلکہ ۔۔۔
یہ جمہوریت کا جنازہ ہے ۔۔
یہ ملائم سنگھ یادو کی حکومت اور ان کے ناتجربہ کار فرزند اکھیلیش یادو کی مکروہ سیاست کا جنازہ ہے
خدا اس مرتی ہوئی جمہوریت اور انصاف کی روح کو امن و سکون عطا فرمائے ، آمین!!

(مضمون نگار عمیر انس جواہر لعل یونیورسٹی ، دہلی کے بین الاقوامی مطالعہ مرکز میں ریسرچ اسکالر ہیں۔)
ہندی سے ترجمہ : سید حیدرآبادی

भगवान लोकतंत्र और न्याय की आत्मा को शांति दे!!!

God bless the soul of democracy and justice! Article: Omair Anas

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں